اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں ۔ آفتاب اقبال شمیم

فرخ منظور

لائبریرین
غزل بشکریہ ظفر خاں صاحب، یاور ماجد صاحب۔

اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں

کیفیت ِ بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں
بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں

جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں

آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامہ دنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں

میں کون ہوں! ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں

(آفتاب اقبال شمیم)
 

زیف سید

محفلین
جنابِ عالی، بہت شکریہ کہ آپ نے یہ اعلیٰ غزل عنایت کی۔ خاک سار نے پچھلے سال آفتاب صاحب کا انٹرویو کیا تھا، جس میں انہوں نے یہ غزل بھی سنائی تھی۔ درجِ ذیل ربط میں 22:40 پر یہ غزل سنی جا سکتی ہے:

http://bit.ly/aftab_iqbal_shameem
 

فرخ منظور

لائبریرین
جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں

(آفتاب اقبال شمیم)
 
Top