اک کاوش برائے اصلاح

راشد ماہیؔ

محفلین
یاں راز دفن ہیں تمام اے دل
کبھی پی نینوں کے جام اے دل

آیا دیوانوں میں نام اے دل
اب ہونے دے بدنام اے دل

ان آنکھوں سے آغاز ہوا
چھوڑاب فکرِ انجام اے دل

جس ذات سے اپنی وقعت ہے
اسی ذات میں ہو گمنام اے دل

کوئی دل میں بیٹھا ہو تو
کریں کیوں سرِ طور کلام اے دل

جب وہ پلٹے گا آجائے
قبل از شامِ جاں شام اے دل

پھر پڑ گیا ہوگا کام اے دل
اسنے بھیجا ہے سلام اے دل

یہ نفاقی ناطے زہر لگیں
ہوعداوت بھی سرِ عام اے دل

کیا ہوگا چاند ستاروں کا
وہ جو آئے ہیں لبِ بام اے دل

گاہک ہے نظرِ کرم انکی
یوں ہی بک جا بے دام اے دل

جب اس کو اپنا مان لیا
کیا شکوے گلے ابہام اے دل

کھوئے یوں ماہی،ماہی میں
نہ رہے ہستی نہ ہی نام اے دل
 

الف عین

لائبریرین
یہ بحر ہندی لگ رہی ہے، لیکن اس قسم کی بحور سے بچنے کا مشورہ دیتا ہوں مین سب کو۔ میں بھی تقطیع کرتا رہ جاوں گا اور معنی پر غور نہیں کر پاوں گا ۔ اس گزل میں حروف کو بے تحاشا گرایا گیا ہے جو جائز تو ہے لیکن پسندیدہ نہیں۔
 

راشد ماہیؔ

محفلین
بحر زمزمہ ہے
فعلن فعلن فعلن فعلن
جیسے
یاں را =فعلن
ز دفن =فعِلن
ہیں تما=فعِلن
م اے دل=فعلن

کبھی پی=فعِلن
نینوں=فعلن
کے جا=فعلن
م اے دل=فعلن
 
کب۔ پی ۔ کبھی کی ی کے اسقاط کے ساتھ
شکریہ استادِ محترم۔ اس غزل میں بہت سے حروف کو گرایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں اس لیے پوچھا کہ ھ کو تو ویسے ہی نظر انداز کردیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ی کو گرانے سے ھی دونوں کو ہی گرا دیا گیا، گوکہ یہ مستعمل ہے لیکن تھوڑی مشکل میں ڈالتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ڈاکٹر ریاض مجید کی ایک کتاب (نام شاید ڈوبتے آدمی کا ہاتھ تھا) کے اکثر مصرعے بحر سے خارج لگتے تھے لیکن جب ان پر خوب غو رکرتا تو سمجھ آتا جاتاتھا۔ میں نے اس حوالے سے اپنے ایک استادِ محترم سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہاں "استادی" دکھانے کے لیے خود سے ایسا کیا ہے۔ :)
 
Top