اگر بینک کے لاکر سے ہی سامان چوری ہو جائے تو کیا کریں؟

سیما علی

لائبریرین

اگر بینک کے لاکر سے ہی سامان چوری ہو جائے تو کیا کریں؟​

  • ثنا آصف اور تنویر
  • 14 ستمبر 2021
بینک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
جب بھی بینک اور خاص طور پر اس کے لاکرز کا ذکر آتا ہے تو عمومی طور پر تحفظ کا احساس اور چیزوں کے محفوظ ہونے کا خیال آتا ہے۔ تحفظ کے اسی احساس کے تحت اکثر افراد اپنی زندگی کی جمع پونجی نہ صرف بینکوں میں جمع کراتے ہیں بلکہ زیورات اور قیمتی اشیا حتیٰ کہ اہم دستاویزات کو بھی بینک کے لاکر میں رکھتے ہیں۔
لیکن حال ہی میں پاکستانی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے کچھ واقعات نے لوگوں کے اعتماد کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں لاکرز کتنے محفوظ ہیں۔
اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا پاکستان کی معروف ٹی وی اینکر ماریہ میمن نے گذشہ برس وفات پانے والی اپنی والدہ کے نام پر موجود لاکر سے زیورات کے چوری ہونے کا دعویٰ کیا۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ماریہ میمن نے بتایا کہ بینک کے ریکارڈ میں موجود تفصیلات کے مطابق اُن کی والدہ نے یہ لاکر سنہ 2017 میں آپریٹ کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’جوائنٹ لاکر ہولڈر کی صورت میں پہلا شک یہ کیا جاتا ہے کہ شاید دوسرے شخص یا پارٹی نے چیزیں نکال نہ لی ہوں یا گھر میں معاملات خراب ہوں لیکن الزام بینک پر عائد کیا جا رہا ہو۔ لیکن بینک کے ریکارڈ میں بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ میرے والد نے لاکر استعمال نہیں کیا اور میری والدہ نے ہی آخری بار اس لاکر کو سنہ 2017 کے آخر میں آپریٹ کیا تھا۔‘
ماریہ میمن کے مطابق بینک نے انھی ایک تحریری جواب بھیجا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے اور کسی دھوکہ دہی کا ثبوت نہیں ملا۔
11 ستمبر کو ماریہ میمن نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا: ’یہ میرے خاندان کے ساتھ کچھ دن پہلے ہوا۔ برائے مہربانی اپنے لاکرز پر سخت چیک رکھیں۔ میری مرحوم والدہ کا سونا بینک سے چوری ہو گیا۔‘
’میری والدہ کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اپنے مرنے سے پہلے میری بہن کو بینک کے لاکر میں موجود سونے کے بارے میں بتایا اور اسے ہدایات دیں کہ اس سونے کا کیا کرنا ہے۔ میری والدہ کے انتقال کے کچھ ہفتوں بعد میرے والد لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں موجود اس بینک کی برانچ میں جوائنٹ لاکر آپریٹ کرنے گئے۔ بینک کے کسٹمر سروس کے نمائندے اور مینجر نے میرے والد کو لاکر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘
’میرے والد کو حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ لانے کا کہا گیا۔ غم میں مبتلا اور جذباتی طور پر تناؤ کا شکار میرے والد نے بینک کا یقین کر لیا۔‘
بینک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’میری بہن بیرون ملک تھی لہذا ہم نے یہ معاملہ بعد کے لیے چھوڑ دیا لیکن سنہ 2021 میں صرف اب سے صرف دو ہفتے پہلے ہمیں بتایا گیا کہ آپ اب لاکر آپریٹ کر سکتے ہیں۔‘
’میرے والد فوراً لاکر آپریٹ کرنے کے لیے گئے اور سوچیں پھر کیا ہوا۔ اس میں جیولری کا صرف ایک خالی ڈبہ تھا۔ ہماری والدہ کا سونا چوری کر لیا گیا تھا جس کی جذباتی قیمت ہمارے لیے بہت زیادہ تھی۔‘
’بینک نے ہماری درخواست پر ردعمل دیا ہے اور جیسے کہ امید تھی کہ ان کی پہلی کوشش خود کو بچانا ہے۔ بینک والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمیں گذشتہ برس لاکر تک رسائی دی جانی چاہیے تھی تاہم انھوں نے کسی دھوکہ دہی کی تردید کی ہے۔ اب ہم بینک کے خلاف کیس کا آغاز کر رہے ہیں۔‘
ماریہ کے مطابق ’امی کا سونا ملنے کے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن یہ میرا فرض ہے کہ میں دوسروں کو اس بارے میں خبردار کروں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کیا آپ واقعی بینک کو یہ ثابت کر سکیں گے کہ آپ کے لاکر میں قیمتی سامان موجود تھا۔ براہ مہربانی اپنے لاکر کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ جائیں اسے چیک کریں۔‘
ماریہ کی اس پوسٹ کے جواب میں بہت سے لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات بیان کیے جنھیں مختلف نجی بینکوں سے ایسی ہی شکایات تھیں۔
ایک صارف نے ماریہ کی پوسٹ کے جواب میں دعویٰ کیا ’میرے والد کا سنہ 1998 میں انتقال ہو گیا۔ میری والدہ کو بتایا گیا کہ انھیں حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ چاہیے۔ کئی مہینوں بعد جب میری والدہ کو سرٹیفیکیٹ ملا اور انھوں نے لاکر کھولا تو وہ خالی تھا۔ میرا خیال ہے ہم میں سے کئی لوگوں کو ایسے لوٹا گیا لیکن آپ نے اس بارے میں بات کی۔‘
ایک اور صارف نے دعویٰ کیا: ’میرے والد کا سنہ 2010 میں انتقال ہوا، سنہ 2011 میں وراثت کا سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد جب ہم نے لاکر کھولا تو جیولری، پرائز بانڈ، وہاں سے غائب تھے۔‘
میرے والد کو حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ لانے کا کہا گیا۔ غم میں مبتلا اور جذباتی طور پر تناؤ کا شکار میرے والد نے بینک کا یقین کر لیا‘
ایک اور صارف نے بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنائی کہ ’سنہ 2015 یا 2016 میں ان کی والدہ کے لاکر سے جیولری غائب ہو گئی۔ ہم نے اپنی کھوئی چیزوں کا تعاقب کیا لیکن بینک نے نہ ہماری درخواست کو تسلیم کیا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری لی۔ جب کہ اس چوری سے پہلے بینک میں جو لوگ موجود تھے وہ بھی ادھر نہیں تھے، جب ہمیں خالی لاکر ملا، ان کی ٹرانسفر کہیں اور کر دی گئی تھی۔ میرے خیال میں لاکر میں سونے کی 12 چوڑیاں، ایک چوڑا سیٹ، ایک چھوٹا ہار، کچھ انگوٹھیاں اور جھمکے تھے، جو کبھی برآمد نہیں ہو سکے کیونکہ لاکر کی انشورنس نہیں تھی اور ہمیں لاکر کی انشورنس کا پتہ بھی نہیں تھا۔‘
یک اور صارف نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ’میں نے دسمبر 2020 میں کووڈ کی وجہ سے اپنے والدین کو کھو دیا اور اس کے فوراً بعد ہم نے حق وراثت کا عمل شروع کر دیا۔ میری والدہ کے ایک ہی بینک کی مختلف برانچز میں دو لاکر تھے۔ جب میرا بھائی ایک بینک میں گیا تو مینجر نے کہا کہ آپ کے والدین کے نام سے کوئی لاکر نہیں کیونکہ کمپیوٹر ریکارڈ میں کچھ سامنے نہیں آ رہا تھا جبکہ ہمارے پاس دونوں لاکرز کی چابیاں تھیں، اور اس کے علاوہ ماضی میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جا کر لاکر آپریٹ بھی کر چکی تھی۔‘
’انھوں نے میرے بھائی کو واپس بھیج دیا اور اگلے روز میں اپنے بھائی کے ساتھ گئی اور بینک والوں سے پوچھا کہ اگر میرے والدین کے نام پر کوئی لاکر نہیں تو میرے پاس یہ چابی کہاس سے آئی۔ تو بے شرم مینجر نے کہا کہ ’یہ تو آپ اپنے ماں باپ سے پوچھیں۔‘ ان کی آواز میں مرنے والوں کے لیے کوئی عزت نہیں تھی۔ میں نے بینک مینجر کو مجبور کیا کہ وہ رجسٹر میں چیک کریں کہ لاکر کس کے نام ہے۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی رجسٹر کھولا اور وہاں میرے والدین کے نام درج تھے۔ وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوا۔‘
جانی

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
پاکستانی بینکوں میں لاکرز کی حفاظت کا کیا طریقہ کار ہے؟
پاکستانی بینکوں میں لاکرز کھولنے کے لیے بینکاری اور مالیاتی شعبے کے ریگولیٹر نے بینکوں کو مختلف ہدایات اور رہنما اصول جاری کر رکھے ہیں جن کے تحت بینکوں میں لاکرز کھولے جا سکتے ہیں۔ بینکوں میں کھولے جانے والے لاکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی مرکزی بینک نے کچھ قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں جس کے تحت لاکرز اور ان میں رکھی ہوئی قیمتی چیزوں کی حفاطت کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایک مقامی بینک میں کچھ عرصہ قبل کام کرنے والے راشد مسعود عالم نے بتایا کہ ایک بینک کی ہر برانچ میں لاکرز کی سہولت میبسر نہیں ہوتی۔ ہر بینک کی مخصوص برانچوں میں یہ لاکرز ہوتے ہیں جنھیں مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں آپریٹ کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے بی بی سی اُردو کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اپنی ان برانچوں میں جہاں پر لاکرز کی سہولت میبسر ہے وہاں اُن کی حفاظت کو صحیح طریقے سے یقینی بنایا جائے تاکہ ان میں موجود قیمتی چیزوں کو تحفظ دیا جا سکے۔
ان ہدایات میں لاکرز روم سے لے کر وہاں آمدروفت اور لاکرز میں چیزیں رکھنے سے لے کر سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی تک کے سارے اُمور شامل ہیں۔
راشد مسعود نے بتایا کہ بینک میں لاکر کھولنے کے بعد اس کی دو چابیاں ہوتی ہیں۔ ایک چابی بینک کے پاس موجود ہوتی اور دوسری اس شخص کے نام پر جس کے نام پر لاکر ہوتا ہے۔ جب گاہک کوئی قیمتی چیز رکھوانے کے لیے لاکر روم میں جاتا ہے تو بینک کے عملے کا رکن اپنی چابی سے لاکر کھول کر چلا جاتا ہے اور اس کے بعد کلائنٹ اپنی چابی لگا کر اسے کھول کر اپنے قیمتی چیز رکھ دیتا ہے۔ دوبارہ لاکر کھولنے کے لیے جب وہ آتا ہے تو باقاعدہ ایک پوری تصدیق کے طریقہ کار سے گزرنے کے بعد اسے لاکر تک رسائی دی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بینک کے پاس موجود چابی اور کلائنٹ کی چابی کے بیک وقت لگانے سے لاکر کھلتا ہے۔ انھوں نے اس امکان کو مسترد کیا کہ بینک کے پاس کسی صارف کی ڈپلیکیٹ چابی بھی ہو سکتی ہے۔
لاکرز سے چوری کیسے ہو جاتی ہے؟
سٹیٹ بینک کی جانب سے لاکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جاری کی گئی ہدایات اور بینکوں کی جانب سے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے باوجود بینک لاکرز کیسے ٹوٹ جاتے ہیں یا ان میں موجود قیمتی چیزوں کی چوری کیسے کر لی جاتی ہے اس کے بارے میں راشد مسعود کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب بینک کا عملہ اور سکیورٹی سٹاف اس میں ملوث ہو۔‘
ان کے مطابق بینکوں میں لاکرز ٹوٹنے اور ان میں رکھی قیمتی اشیا کی چوری کے واقعات اکثر ہفتے اور اتوار کو رونما ہوتے ہیں کیونکہ جمعہ کی رات سے لے کر سوموار کی صبح تک دو دن میں یہ کام کیا جاتا ہے کیونکہ لاکرز کو کاٹنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے تاہم یہ بھی اس وقت ممکن ہے جب بینک عملہ اور سکیورٹی سٹاف اس میں ملوث ہو۔
راشد مسعود نے بتایا کہ یہ صحیح بات ہے کہ بینکوں کے عملے کی مدد سے یہ کارروائی کی جاتی ہے وگرنہ لاکرز توڑنا ممکن نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایک بینک کی ان برانچوں کو مرکزی نگرانی کے نظام سے منسلک نہیں کیا جا سکتا تو انھوں نے کہا فی الحال ایسا ممکن نہیں کیونکہ لاتعداد بینکوں میں لاکرز موجود ہیں اور ان کی نگرانی ایک مرکزی نظام سے نہیں ہو سکتی۔
بینک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
لاکرز سے چوری کی صورت میں بینک کی جانب سے تلافی کیسے کی جاتی ہے؟
لاکرز توڑ کر اس میں موجود قیمتی چیزوں کی چوری کی صورت میں بینک صارف کے نقصان کی تلافی کیسے کرتا ہے اس بارے میں سٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لاکر میں جو کچھ رکھا جاتا ہے وہ کلائنٹ کی جانب سے ظاہر نہیں کیا جاتا کہ وہ اس میں میں کیا رکھ رہا ہے۔ تاہم لاکر ایک کی ایک خاص حد تک انشورنس کوریج ہوتی ہے اور اس میں چوری کی صورت میں کلائنٹ کو اس کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
راشد مسعود نے بتایا کہ انشورنش کی رقم بڑے اور چھوٹے لاکرز کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ ان کے مطابق بڑے لاکر پر تقریباً دس لاکھ روپے تک انشورنس ہوتی ہے اور چھوٹے پر اس کی حد پانچ لاکھ روپے کی رقم تک ہوتی ہے۔
قانون کے شعبے سے وابستہ اور مالیاتی و تجارتی کیسوں کے ماہر عمیر نثار ایڈوکیٹ نے بتایا کہ لاکر کھولنے پر دو قسم کی انشورنس ہوتی ہے۔ ایک لازمی اور دوسری اختیاری۔
انھوں نے کہا کہ لاکر کھلتے ہوئے لازمی انشورنس کا اطلاق تو فوراً ہو جاتا ہے تاہم اگر صارف سمجھتا ہے کہ اس کی جانب سے لاکر میں رکھی جانے والی چیزوں کی مالیت بہت زیادہ ہے تو وہ اختیاری انشورنس بھی لے سکتا ہے جس کے لیے اسے پریمیئم ادا کرنا پڑے گا۔
عمیر نے بتایا کہ بینکوں میں کھولے جانے والے لاکرز کی بیشتر لازمی انشورنس ہی ہوتی ہے اور بہت ہی کم لوگ اختیاری انشورنس کرواتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی قیمتی چیزوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
’لاکر میں سونا، فارن کرنسی اور دوسرے قیمتی جواہرات رکھے جاتے ہیں اور اختیاری انشورنس کی صورت میں انھیں یہ سب ظاہر کرنا پڑے گا اور اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے لوگ ان چیزوں کو اکثر اوقات ڈیکلیئر نہیں کرتے۔‘
تلافی نہ ہونے کی صورت میں کیا قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟
سٹیٹ بینک کے ترجمان نے اس سلسلے میں کہا کہ لاکرز سے چوری ایک پولیس کیس ہے۔
لاکر ٹوٹنے یا اس میں چوری کی صورت میں ایک خاص انشورنس کی رقم کی ادائیگی تو کلائنٹ اور بینک کا آپس کا معاملہ ہے کہ جو لاکر کھولنے کے لیے معاہدے کے تحت طے پایا جاتا ہے۔ اگر بینک کلائنٹ کو انشورنس نہیں دیتا تو اس صورت میں وہ سٹیٹ بینک کے شعبہ تحفظ صارف سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بینکاری شعبے کے محتسب سے بھی اس سلسلے میں رجوع کیا جا سکتا ہے۔
عمیر نثار نے اس سلسلے میں کہا کہ جب بھی کوئی ایسی واردات ہوتی ہے تو بینک لازمی انشورنس کے تحت اپنے کلائنٹ کو رقم کی ادائیگی کا پابند ہے تاہم اگر کلائنٹ سمجھتا ہے کہ لاکر سے چوری کی گئی چیزوں کی مالیت بہت زیادہ ہے اور اسے زیادہ انشورنس کی رقم ملنی چاہیے تو وہ بینکنگ کورٹ میں کیس داخل کر سکتا ہے تاہم سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش آتی ہے کہ کلائنٹ کیسے ثابت کرے گا کہ جتنی مالیت کا وہ دعویٰ کر رہا ہے وہ واقعی لاکر میں موجود تھی۔
انھوں نے کہا کیونکہ اکثر افراد لاکر کھلواتے وقت اس میں رکھی جانے والی چیزوں کو ڈکلیئر نہیں کرتے اور اختیاری انشورنس نہیں لیتے، اس لیے ان کے لیے بڑی مالیت کا دعویٰ جمع کرانا اور اس کی بنیاد پر چوری کی گئی چیزوں کی مالیت کے برابر رقم حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کے یہ دعوے اکثر مسترد ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نکتہ ور

محفلین
یعنی اگر وارث بینک جایئں تو اس وقت ان کو ٹرخا دیتے ہیں اور لاکر خالی کرنے کے بعد رسائی دیتے ہیں۔
سیما علی آپ کے علم میں ایسا کوئی واقعہ ہو؟
عنوان میں اگر بینک دو دفعہ لکھا گیا ہے۔
اور جاسم محمد کو ٹیگ بھی غلط جگہ پر کیا گیا ہے۔
بی بی سی پر اردو کا معیار بہت گر گیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
یعنی اگر وارث بینک جایئں تو اس وقت ان کو ٹرخا دیتے ہیں اور لاکر خالی کرنے کے بعد رسائی دیتے ہیں۔
سیما علی آپ کے علم میں ایسا کوئی واقعہ ہو؟
عنوان میں اگر بینک دو دفعہ لکھا گیا ہے۔
اور جاسم محمد کو ٹیگ بھی غلط جگہ پر کیا گیا ہے۔
بی بی سی پر اردو کا معیار بہت گر گیا ہے۔
ہمارے کیرئر کے دوران کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے ۔۔۔البتہ جب ہماری پو سٹنگ کلفٹن برانچ میں پوسٹنگ کے دوران ہم لاکرز انچارج بھی رہے۔۔تو ایک واقعہ ایسا ہے جس میں شوہر اور بیوی جوائنٹ سگنیڑی تھے آپس میں کچھ اختلافات ہوگئے تو بینک کے علم میں نہ تھا اور بینک ذمہ دار بھی نہیں ذاتی اختلاف کا کب تک بینک کو مطلع نہ کیا جائے ۔۔۔تو بیوی نے لاکر خالی کر دیا ۔۔۔شوہر نے آکر شور مچایا درخواست بھی دی پر فیصلہ بینک کے حق میں ہوا کیونکہ جب تک آپ بینک کو لکھ کر نہیں دیں کے آپ سیکینڈ سگنیٹری کو نکال رہیے ہیں اور قانونی کاروائی پوری نہ کریں بینک Either/Survivor والے لاکرز میں سکینڈ سگنیٹری کو لاکر آپریٹ کرنے دے گا ۔۔۔۔۔اکثر لواحقین خود یہ حرکت کرتے ہیں کیونکہ بینک علم میں اکثر نہیں ہوتا کہ ایک سگینڑی کا انتقال ہوگیا ہے ۔۔۔۔ایک چابی بینک کے پاس ہوتی ہے اور دوسری چابی کسٹمرز کے پاس ایک چابی صرف اُس صورت میں ہوسکتا ہے جب لاکر خراب ہو ۔۔۔۔آپ نے درست کہا بی بی سی کا معیار بہت گر گیا ۔۔۔دوسری صورت میں
لاکرز پالیسی کے تحت بریک اُوپن کرائے ہین لاکرز۔۔۔
Breaking Open of Locker:
Break-open of locker may happen either at the request of the hirer/s or by the bank for default in payment of prescribed charges for or for any other reason.
Break Open charges shall be recoverable from the hirer/s.
Bank shall engage the suppliers of the locker unit to break open the lockers.
When the break-open of locker is done at the request of the hirer, the same shall take place in the presence of the hirer or his nominee, as the case may be.
When the break-open of locker is done at the instance of the bank, the customer shall be provided notices in advance as per the internal procedures and then it will be broken open by the representative of the manufacturers /suppliers in the presence of two respectable non-staff independent witnesses, in addition to the officers of the branch.
 

اگر بینک کے لاکر سے ہی سامان چوری ہو جائے تو کیا کریں؟​

  • ثنا آصف اور تنویر
  • 14 ستمبر 2021
بینک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
جب بھی بینک اور خاص طور پر اس کے لاکرز کا ذکر آتا ہے تو عمومی طور پر تحفظ کا احساس اور چیزوں کے محفوظ ہونے کا خیال آتا ہے۔ تحفظ کے اسی احساس کے تحت اکثر افراد اپنی زندگی کی جمع پونجی نہ صرف بینکوں میں جمع کراتے ہیں بلکہ زیورات اور قیمتی اشیا حتیٰ کہ اہم دستاویزات کو بھی بینک کے لاکر میں رکھتے ہیں۔
لیکن حال ہی میں پاکستانی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے کچھ واقعات نے لوگوں کے اعتماد کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں لاکرز کتنے محفوظ ہیں۔
اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا پاکستان کی معروف ٹی وی اینکر ماریہ میمن نے گذشہ برس وفات پانے والی اپنی والدہ کے نام پر موجود لاکر سے زیورات کے چوری ہونے کا دعویٰ کیا۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ماریہ میمن نے بتایا کہ بینک کے ریکارڈ میں موجود تفصیلات کے مطابق اُن کی والدہ نے یہ لاکر سنہ 2017 میں آپریٹ کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’جوائنٹ لاکر ہولڈر کی صورت میں پہلا شک یہ کیا جاتا ہے کہ شاید دوسرے شخص یا پارٹی نے چیزیں نکال نہ لی ہوں یا گھر میں معاملات خراب ہوں لیکن الزام بینک پر عائد کیا جا رہا ہو۔ لیکن بینک کے ریکارڈ میں بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ میرے والد نے لاکر استعمال نہیں کیا اور میری والدہ نے ہی آخری بار اس لاکر کو سنہ 2017 کے آخر میں آپریٹ کیا تھا۔‘
ماریہ میمن کے مطابق بینک نے انھی ایک تحریری جواب بھیجا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے اور کسی دھوکہ دہی کا ثبوت نہیں ملا۔
11 ستمبر کو ماریہ میمن نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا: ’یہ میرے خاندان کے ساتھ کچھ دن پہلے ہوا۔ برائے مہربانی اپنے لاکرز پر سخت چیک رکھیں۔ میری مرحوم والدہ کا سونا بینک سے چوری ہو گیا۔‘
’میری والدہ کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اپنے مرنے سے پہلے میری بہن کو بینک کے لاکر میں موجود سونے کے بارے میں بتایا اور اسے ہدایات دیں کہ اس سونے کا کیا کرنا ہے۔ میری والدہ کے انتقال کے کچھ ہفتوں بعد میرے والد لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں موجود اس بینک کی برانچ میں جوائنٹ لاکر آپریٹ کرنے گئے۔ بینک کے کسٹمر سروس کے نمائندے اور مینجر نے میرے والد کو لاکر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘
’میرے والد کو حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ لانے کا کہا گیا۔ غم میں مبتلا اور جذباتی طور پر تناؤ کا شکار میرے والد نے بینک کا یقین کر لیا۔‘
بینک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’میری بہن بیرون ملک تھی لہذا ہم نے یہ معاملہ بعد کے لیے چھوڑ دیا لیکن سنہ 2021 میں صرف اب سے صرف دو ہفتے پہلے ہمیں بتایا گیا کہ آپ اب لاکر آپریٹ کر سکتے ہیں۔‘
’میرے والد فوراً لاکر آپریٹ کرنے کے لیے گئے اور سوچیں پھر کیا ہوا۔ اس میں جیولری کا صرف ایک خالی ڈبہ تھا۔ ہماری والدہ کا سونا چوری کر لیا گیا تھا جس کی جذباتی قیمت ہمارے لیے بہت زیادہ تھی۔‘
’بینک نے ہماری درخواست پر ردعمل دیا ہے اور جیسے کہ امید تھی کہ ان کی پہلی کوشش خود کو بچانا ہے۔ بینک والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمیں گذشتہ برس لاکر تک رسائی دی جانی چاہیے تھی تاہم انھوں نے کسی دھوکہ دہی کی تردید کی ہے۔ اب ہم بینک کے خلاف کیس کا آغاز کر رہے ہیں۔‘
ماریہ کے مطابق ’امی کا سونا ملنے کے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن یہ میرا فرض ہے کہ میں دوسروں کو اس بارے میں خبردار کروں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کیا آپ واقعی بینک کو یہ ثابت کر سکیں گے کہ آپ کے لاکر میں قیمتی سامان موجود تھا۔ براہ مہربانی اپنے لاکر کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ جائیں اسے چیک کریں۔‘
ماریہ کی اس پوسٹ کے جواب میں بہت سے لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات بیان کیے جنھیں مختلف نجی بینکوں سے ایسی ہی شکایات تھیں۔
ایک صارف نے ماریہ کی پوسٹ کے جواب میں دعویٰ کیا ’میرے والد کا سنہ 1998 میں انتقال ہو گیا۔ میری والدہ کو بتایا گیا کہ انھیں حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ چاہیے۔ کئی مہینوں بعد جب میری والدہ کو سرٹیفیکیٹ ملا اور انھوں نے لاکر کھولا تو وہ خالی تھا۔ میرا خیال ہے ہم میں سے کئی لوگوں کو ایسے لوٹا گیا لیکن آپ نے اس بارے میں بات کی۔‘
ایک اور صارف نے دعویٰ کیا: ’میرے والد کا سنہ 2010 میں انتقال ہوا، سنہ 2011 میں وراثت کا سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد جب ہم نے لاکر کھولا تو جیولری، پرائز بانڈ، وہاں سے غائب تھے۔‘
میرے والد کو حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ لانے کا کہا گیا۔ غم میں مبتلا اور جذباتی طور پر تناؤ کا شکار میرے والد نے بینک کا یقین کر لیا‘
ایک اور صارف نے بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنائی کہ ’سنہ 2015 یا 2016 میں ان کی والدہ کے لاکر سے جیولری غائب ہو گئی۔ ہم نے اپنی کھوئی چیزوں کا تعاقب کیا لیکن بینک نے نہ ہماری درخواست کو تسلیم کیا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری لی۔ جب کہ اس چوری سے پہلے بینک میں جو لوگ موجود تھے وہ بھی ادھر نہیں تھے، جب ہمیں خالی لاکر ملا، ان کی ٹرانسفر کہیں اور کر دی گئی تھی۔ میرے خیال میں لاکر میں سونے کی 12 چوڑیاں، ایک چوڑا سیٹ، ایک چھوٹا ہار، کچھ انگوٹھیاں اور جھمکے تھے، جو کبھی برآمد نہیں ہو سکے کیونکہ لاکر کی انشورنس نہیں تھی اور ہمیں لاکر کی انشورنس کا پتہ بھی نہیں تھا۔‘
یک اور صارف نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ’میں نے دسمبر 2020 میں کووڈ کی وجہ سے اپنے والدین کو کھو دیا اور اس کے فوراً بعد ہم نے حق وراثت کا عمل شروع کر دیا۔ میری والدہ کے ایک ہی بینک کی مختلف برانچز میں دو لاکر تھے۔ جب میرا بھائی ایک بینک میں گیا تو مینجر نے کہا کہ آپ کے والدین کے نام سے کوئی لاکر نہیں کیونکہ کمپیوٹر ریکارڈ میں کچھ سامنے نہیں آ رہا تھا جبکہ ہمارے پاس دونوں لاکرز کی چابیاں تھیں، اور اس کے علاوہ ماضی میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جا کر لاکر آپریٹ بھی کر چکی تھی۔‘
’انھوں نے میرے بھائی کو واپس بھیج دیا اور اگلے روز میں اپنے بھائی کے ساتھ گئی اور بینک والوں سے پوچھا کہ اگر میرے والدین کے نام پر کوئی لاکر نہیں تو میرے پاس یہ چابی کہاس سے آئی۔ تو بے شرم مینجر نے کہا کہ ’یہ تو آپ اپنے ماں باپ سے پوچھیں۔‘ ان کی آواز میں مرنے والوں کے لیے کوئی عزت نہیں تھی۔ میں نے بینک مینجر کو مجبور کیا کہ وہ رجسٹر میں چیک کریں کہ لاکر کس کے نام ہے۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی رجسٹر کھولا اور وہاں میرے والدین کے نام درج تھے۔ وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوا۔‘
جانی

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
پاکستانی بینکوں میں لاکرز کی حفاظت کا کیا طریقہ کار ہے؟
پاکستانی بینکوں میں لاکرز کھولنے کے لیے بینکاری اور مالیاتی شعبے کے ریگولیٹر نے بینکوں کو مختلف ہدایات اور رہنما اصول جاری کر رکھے ہیں جن کے تحت بینکوں میں لاکرز کھولے جا سکتے ہیں۔ بینکوں میں کھولے جانے والے لاکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی مرکزی بینک نے کچھ قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں جس کے تحت لاکرز اور ان میں رکھی ہوئی قیمتی چیزوں کی حفاطت کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایک مقامی بینک میں کچھ عرصہ قبل کام کرنے والے راشد مسعود عالم نے بتایا کہ ایک بینک کی ہر برانچ میں لاکرز کی سہولت میبسر نہیں ہوتی۔ ہر بینک کی مخصوص برانچوں میں یہ لاکرز ہوتے ہیں جنھیں مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں آپریٹ کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے بی بی سی اُردو کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اپنی ان برانچوں میں جہاں پر لاکرز کی سہولت میبسر ہے وہاں اُن کی حفاظت کو صحیح طریقے سے یقینی بنایا جائے تاکہ ان میں موجود قیمتی چیزوں کو تحفظ دیا جا سکے۔
ان ہدایات میں لاکرز روم سے لے کر وہاں آمدروفت اور لاکرز میں چیزیں رکھنے سے لے کر سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی تک کے سارے اُمور شامل ہیں۔
راشد مسعود نے بتایا کہ بینک میں لاکر کھولنے کے بعد اس کی دو چابیاں ہوتی ہیں۔ ایک چابی بینک کے پاس موجود ہوتی اور دوسری اس شخص کے نام پر جس کے نام پر لاکر ہوتا ہے۔ جب گاہک کوئی قیمتی چیز رکھوانے کے لیے لاکر روم میں جاتا ہے تو بینک کے عملے کا رکن اپنی چابی سے لاکر کھول کر چلا جاتا ہے اور اس کے بعد کلائنٹ اپنی چابی لگا کر اسے کھول کر اپنے قیمتی چیز رکھ دیتا ہے۔ دوبارہ لاکر کھولنے کے لیے جب وہ آتا ہے تو باقاعدہ ایک پوری تصدیق کے طریقہ کار سے گزرنے کے بعد اسے لاکر تک رسائی دی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بینک کے پاس موجود چابی اور کلائنٹ کی چابی کے بیک وقت لگانے سے لاکر کھلتا ہے۔ انھوں نے اس امکان کو مسترد کیا کہ بینک کے پاس کسی صارف کی ڈپلیکیٹ چابی بھی ہو سکتی ہے۔
لاکرز سے چوری کیسے ہو جاتی ہے؟
سٹیٹ بینک کی جانب سے لاکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جاری کی گئی ہدایات اور بینکوں کی جانب سے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے باوجود بینک لاکرز کیسے ٹوٹ جاتے ہیں یا ان میں موجود قیمتی چیزوں کی چوری کیسے کر لی جاتی ہے اس کے بارے میں راشد مسعود کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب بینک کا عملہ اور سکیورٹی سٹاف اس میں ملوث ہو۔‘
ان کے مطابق بینکوں میں لاکرز ٹوٹنے اور ان میں رکھی قیمتی اشیا کی چوری کے واقعات اکثر ہفتے اور اتوار کو رونما ہوتے ہیں کیونکہ جمعہ کی رات سے لے کر سوموار کی صبح تک دو دن میں یہ کام کیا جاتا ہے کیونکہ لاکرز کو کاٹنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے تاہم یہ بھی اس وقت ممکن ہے جب بینک عملہ اور سکیورٹی سٹاف اس میں ملوث ہو۔
راشد مسعود نے بتایا کہ یہ صحیح بات ہے کہ بینکوں کے عملے کی مدد سے یہ کارروائی کی جاتی ہے وگرنہ لاکرز توڑنا ممکن نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایک بینک کی ان برانچوں کو مرکزی نگرانی کے نظام سے منسلک نہیں کیا جا سکتا تو انھوں نے کہا فی الحال ایسا ممکن نہیں کیونکہ لاتعداد بینکوں میں لاکرز موجود ہیں اور ان کی نگرانی ایک مرکزی نظام سے نہیں ہو سکتی۔
بینک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
لاکرز سے چوری کی صورت میں بینک کی جانب سے تلافی کیسے کی جاتی ہے؟
لاکرز توڑ کر اس میں موجود قیمتی چیزوں کی چوری کی صورت میں بینک صارف کے نقصان کی تلافی کیسے کرتا ہے اس بارے میں سٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لاکر میں جو کچھ رکھا جاتا ہے وہ کلائنٹ کی جانب سے ظاہر نہیں کیا جاتا کہ وہ اس میں میں کیا رکھ رہا ہے۔ تاہم لاکر ایک کی ایک خاص حد تک انشورنس کوریج ہوتی ہے اور اس میں چوری کی صورت میں کلائنٹ کو اس کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
راشد مسعود نے بتایا کہ انشورنش کی رقم بڑے اور چھوٹے لاکرز کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ ان کے مطابق بڑے لاکر پر تقریباً دس لاکھ روپے تک انشورنس ہوتی ہے اور چھوٹے پر اس کی حد پانچ لاکھ روپے کی رقم تک ہوتی ہے۔
قانون کے شعبے سے وابستہ اور مالیاتی و تجارتی کیسوں کے ماہر عمیر نثار ایڈوکیٹ نے بتایا کہ لاکر کھولنے پر دو قسم کی انشورنس ہوتی ہے۔ ایک لازمی اور دوسری اختیاری۔
انھوں نے کہا کہ لاکر کھلتے ہوئے لازمی انشورنس کا اطلاق تو فوراً ہو جاتا ہے تاہم اگر صارف سمجھتا ہے کہ اس کی جانب سے لاکر میں رکھی جانے والی چیزوں کی مالیت بہت زیادہ ہے تو وہ اختیاری انشورنس بھی لے سکتا ہے جس کے لیے اسے پریمیئم ادا کرنا پڑے گا۔
عمیر نے بتایا کہ بینکوں میں کھولے جانے والے لاکرز کی بیشتر لازمی انشورنس ہی ہوتی ہے اور بہت ہی کم لوگ اختیاری انشورنس کرواتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی قیمتی چیزوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
’لاکر میں سونا، فارن کرنسی اور دوسرے قیمتی جواہرات رکھے جاتے ہیں اور اختیاری انشورنس کی صورت میں انھیں یہ سب ظاہر کرنا پڑے گا اور اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے لوگ ان چیزوں کو اکثر اوقات ڈیکلیئر نہیں کرتے۔‘
تلافی نہ ہونے کی صورت میں کیا قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟
سٹیٹ بینک کے ترجمان نے اس سلسلے میں کہا کہ لاکرز سے چوری ایک پولیس کیس ہے۔
لاکر ٹوٹنے یا اس میں چوری کی صورت میں ایک خاص انشورنس کی رقم کی ادائیگی تو کلائنٹ اور بینک کا آپس کا معاملہ ہے کہ جو لاکر کھولنے کے لیے معاہدے کے تحت طے پایا جاتا ہے۔ اگر بینک کلائنٹ کو انشورنس نہیں دیتا تو اس صورت میں وہ سٹیٹ بینک کے شعبہ تحفظ صارف سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بینکاری شعبے کے محتسب سے بھی اس سلسلے میں رجوع کیا جا سکتا ہے۔
عمیر نثار نے اس سلسلے میں کہا کہ جب بھی کوئی ایسی واردات ہوتی ہے تو بینک لازمی انشورنس کے تحت اپنے کلائنٹ کو رقم کی ادائیگی کا پابند ہے تاہم اگر کلائنٹ سمجھتا ہے کہ لاکر سے چوری کی گئی چیزوں کی مالیت بہت زیادہ ہے اور اسے زیادہ انشورنس کی رقم ملنی چاہیے تو وہ بینکنگ کورٹ میں کیس داخل کر سکتا ہے تاہم سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش آتی ہے کہ کلائنٹ کیسے ثابت کرے گا کہ جتنی مالیت کا وہ دعویٰ کر رہا ہے وہ واقعی لاکر میں موجود تھی۔
انھوں نے کہا کیونکہ اکثر افراد لاکر کھلواتے وقت اس میں رکھی جانے والی چیزوں کو ڈکلیئر نہیں کرتے اور اختیاری انشورنس نہیں لیتے، اس لیے ان کے لیے بڑی مالیت کا دعویٰ جمع کرانا اور اس کی بنیاد پر چوری کی گئی چیزوں کی مالیت کے برابر رقم حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کے یہ دعوے اکثر مسترد ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر لاکر کی چوری میں بینک کا ہاتھ ہے تو بینک کو بھی اِس کا حرجانا بھرنا چاھئیے ۔ یااگر کسی وارث یا پارٹنر کا ہاتھ ہوتو اُسے بھی لیکن آپ کی تحریر پڑھ کر اندازہ ہوا ہے کہ بینک والوں کو اگر رقموں یا دیگر قیمتی چیزوں کا پتہ ہی نہ ہوگا تو وہ کیسے آپ کو آپ کی پوری رقم ادا کریں گے ۔ گھر میں اتنی زیادہ مالیت کی چیزیں رکھنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جو گھر کا بھیدی لنکا ڈبوئے اب اِس کا حل یہ ہی ہے کہ بینک والے کوئی ایسا سسٹم بنائیں کہ چوری کا خدشہ بھی ختم ہوجائے کیونکہ ایسے لاکرز کی اہمیت کو آج کے دور میں ہم لوگ نظر انداز نہیں کرسکتے ۔
لیکن اِس میں ایک بات اور بھی ہے کہ ورثاء لاکر جب بینک لاکر کے مینیجر کے پاس جاتے ہیں تو وہ اُنہیں کہتے ہیں کہ آپ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ لے کر آو جب وہ لے کر آتے ہیں تو شاید اِس دوران کوئی بینک کا عملہ چوری کرتا ہو وللہ عالم
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اس تحریر کے زیادہ تر کیسز میں یہی نظر آیا کہ ورثاء نے جب رابطہ کیا تو اُنہیں سندِ وفات بنانے کے جھمیلے میں اُلجھا دیا گیا اور پھر لاکر خالی کر دیا گیا کہ مرنے والا تو آکر دعویٰ کرنے سے رہا۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس تحریر کے زیادہ تر کیسز میں یہی نظر آیا کہ ورثاء نے جب رابطہ کیا تو اُنہیں سندِ وفات بنانے کے جھمیلے میں اُلجھا دیا گیا اور پھر لاکر خالی کر دیا گیا کہ مرنے والا تو آکر دعویٰ کرنے سے رہا۔
اب تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خاصی خوش آئیند کہ اُِنھوں نے شہریوں سے کہا کہ وہ بینک کے لاکرز کی خود بھی انشورنس کروائیں ۔لاکرزچوری کے معاملے پر گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا۔ایک عام طریقہ ہے کہ جو چیزیں بینک کے لاکرز میں رکھی جاتی ہیں ان کی قیمت یا تعداد کا تخمینہ لگانے کا رواج نہیں ہے، جو چیز چاہیں لاکر میں رکھیں، بینک کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ( اگرچہ کہ بعد میں آپ الگ سے ان چیزوں کی قیمت کے حساب سے انشورینس خرید سکتے ہیں) اس مقصد کیلئے، لاکر میں جو چیزیں آپ نے رکھی ہیں ان کے حساب سےبینک آپ کو ایک یکساں قیمت کی انشورنس کی پیشکش کرتا ہے!جو لاکر کے سائز پر منحصر ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے لاکر کے اندر کی چیزوں کے انشورنس کیلئے جو قوانین بنائے ہیں وہ سارے بینکوں پر یکساں ہیں-
 

محمداحمد

لائبریرین
اب تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خاصی خوش آئیند کہ اُِنھوں نے شہریوں سے کہا کہ وہ بینک کے لاکرز کی خود بھی انشورنس کروائیں ۔لاکرزچوری کے معاملے پر گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا۔ایک عام طریقہ ہے کہ جو چیزیں بینک کے لاکرز میں رکھی جاتی ہیں ان کی قیمت یا تعداد کا تخمینہ لگانے کا رواج نہیں ہے، جو چیز چاہیں لاکر میں رکھیں، بینک کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ( اگرچہ کہ بعد میں آپ الگ سے ان چیزوں کی قیمت کے حساب سے انشورینس خرید سکتے ہیں) اس مقصد کیلئے، لاکر میں جو چیزیں آپ نے رکھی ہیں ان کے حساب سےبینک آپ کو ایک یکساں قیمت کی انشورنس کی پیشکش کرتا ہے!جو لاکر کے سائز پر منحصر ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے لاکر کے اندر کی چیزوں کے انشورنس کیلئے جو قوانین بنائے ہیں وہ سارے بینکوں پر یکساں ہیں-

اچھی بات ہے۔

فی الحال تو گھر میں بھی ہمارا کوئی لاکر نہیں ہے ۔ اُمید ہے کہ مستقبل قریب میں نہیں تو مستقبل بعید میں اللہ تعالیٰ ہمی بھی دو چار لاکر عطا فرمائیں گے اور اُس میں رکھنے والی چیزیں بھی۔ :) :)
 
Top