حسان خان
لائبریرین
اگر تو فارغی از حالِ دوستان یارا
فراغت از تو مُیسّر نمیشود ما را
تو را در آینه دیدن جمالِ طلعتِ خویش
بیان کند که چه بودهست ناشِکیبا را
بِیا که وقتِ بهار است تا من و تو به هم
به دیگران بِگُذاریم باغ و صحرا را
به جایِ سروِ بلند ایستاده بر لبِ جُوی
چرا نظر نکنی یارِ سرْوبالا را
شَمایلی که در اوصافِ حُسنِ ترکیبش
مجالِ نُطق نمانَد زبانِ گویا را
که گُفت در رُخِ زیبا نظر خطا باشد
خطا بُوَد که نبینند رویِ زیبا را
به دوستی که اگر زهر باشد از دستت
چنان به ذوق و ارادت خورم که حلوا را
کسی ملامتِ وامق کند به نادانی
حبیبِ من که ندیدهست رویِ عذرا را
گرفتم آتشِ پنهان خبر نمیداری
نگاه مینکنی آبِ چشمِ پیدا را
نگُفتمت که به یغما روَد دلت سعدی
چو دل به عشق دِهی دلبرانِ یغما را
هنوز با همه دردم اُمیدِ درمان است
که آخِری بُوَد آخِر شبانِ یلدا را
(سعدی شیرازی)
اے یار! اگر تم دوستوں کے حال سے فارغ و بے نیاز ہو، [تو] ہم کو [کسی لمحہ] تم سے فراغت مُیسّر نہیں ہوتی۔
تمہیں آئینے میں اپنے چہرے کی زیبائی کا نظارہ بیان کر دے گا کہ تمہارے عاشقِ بے صبر و حوصلہ پر کیا گذرتی رہی ہے۔
آ جاؤ کہ وقتِ بہار ہے تاکہ ہم اور تم باہم [مِل کر] باغ و صحرا کو دیگروں کے لیے چھوڑ دیں (یا دیگروں کے سُپُرد کر دیں)۔ (یعنی سعدی کے نزدیک موسمِ بہار میں باغ و صحرا میں سَیر و تفریح کی بجائے معشوق کے ساتھ ہم نشینی بہتر ہے۔ وہ گردشِ باغ و بوستان پر محفلِ اُنس کو، اور لذّتِ بہارِ دُنیا پر لذّتِ مُصاحبت کو ترجیح دیتا ہے۔ جس جگہ سعدی کا یار ہو، وہاں خود ہی باغ ظاہر ہو جاتا ہے، لہٰذا سعدی کو بہار کے وقت باغ میں جانے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی۔)
لبِ جُو (یعنی نہر کے کنارے) پر کھڑے سرْوِ بُلند کی بجائے تم یارِ سرْو قامت پر نظر کیوں نہیں کرتے؟
وہ اِک ایسی شکل و صورت ہے کہ اُس کے حُسنِ ترکیب (یعنی جمال و زیبائی) کی توصیف میں، بولنے والی زبان کو مجالِ نُطْق و تکلُّم نہیں رہتا۔ (یعنی زبانِ گویا اُس کی زیبائی کے وصف میں سُخن نہیں کہہ سکتی، یا زبان اُس کی زیبائی بیان کرنے پر قادر نہیں ہے۔)
کس نے کہا کہ رُخ زیبا پر نظر کرنا خطا ہے؟ خطا تو یہ ہے کہ چہرۂ زیبا کو نہ دیکھا جائے۔
دوستی کی قسم! اگر تمہارے دست سے زہر ہو تو میں اُسے ایسے ذوق و ارادت کے ساتھ کھاؤں گا کہ جیسے حلوے کو [کھا رہا ہوؤں۔]
اے میرے حبیب! وہ ہی شخص نادانی سے وامق کی ملامت کرتا ہے جس نے عذرا کا چہرہ نہ دیکھا ہو۔ (وامِق، عذرا کا عاشق تھا۔)
میں نے مان لیا کہ تم کو [میری] آتشِ پنہاں کی خبر نہیں ہے۔۔۔ [لیکن کیا] تم [میرے] ظاہر اشکِ چشم پر نگاہ نہیں کرتے؟
اے سعدی! [کیا] میں نے نہیں کہا تھا کہ جب تم «یغما» کے دلبروں کو عشق میں دل دو گے تو تمہارا دل غارت و تاراج ہو جائے گا؟ (یغْما = مشرقی تُرکستان کے ایک شہر کا نام، جو اپنے زیبا رُوؤں کے لیے فارسی شاعری میں مشہور رہا ہے۔)
[اپنے] تمام درد کے باجود ہنوز مجھے اُمیدِ درماں ہے، کیونکہ شبانِ یلدا کا آخرکار ایک اختتام ہوتا ہے۔ (شبِ یلدا = سال کی طویل ترین شب)
فراغت از تو مُیسّر نمیشود ما را
تو را در آینه دیدن جمالِ طلعتِ خویش
بیان کند که چه بودهست ناشِکیبا را
بِیا که وقتِ بهار است تا من و تو به هم
به دیگران بِگُذاریم باغ و صحرا را
به جایِ سروِ بلند ایستاده بر لبِ جُوی
چرا نظر نکنی یارِ سرْوبالا را
شَمایلی که در اوصافِ حُسنِ ترکیبش
مجالِ نُطق نمانَد زبانِ گویا را
که گُفت در رُخِ زیبا نظر خطا باشد
خطا بُوَد که نبینند رویِ زیبا را
به دوستی که اگر زهر باشد از دستت
چنان به ذوق و ارادت خورم که حلوا را
کسی ملامتِ وامق کند به نادانی
حبیبِ من که ندیدهست رویِ عذرا را
گرفتم آتشِ پنهان خبر نمیداری
نگاه مینکنی آبِ چشمِ پیدا را
نگُفتمت که به یغما روَد دلت سعدی
چو دل به عشق دِهی دلبرانِ یغما را
هنوز با همه دردم اُمیدِ درمان است
که آخِری بُوَد آخِر شبانِ یلدا را
(سعدی شیرازی)
اے یار! اگر تم دوستوں کے حال سے فارغ و بے نیاز ہو، [تو] ہم کو [کسی لمحہ] تم سے فراغت مُیسّر نہیں ہوتی۔
تمہیں آئینے میں اپنے چہرے کی زیبائی کا نظارہ بیان کر دے گا کہ تمہارے عاشقِ بے صبر و حوصلہ پر کیا گذرتی رہی ہے۔
آ جاؤ کہ وقتِ بہار ہے تاکہ ہم اور تم باہم [مِل کر] باغ و صحرا کو دیگروں کے لیے چھوڑ دیں (یا دیگروں کے سُپُرد کر دیں)۔ (یعنی سعدی کے نزدیک موسمِ بہار میں باغ و صحرا میں سَیر و تفریح کی بجائے معشوق کے ساتھ ہم نشینی بہتر ہے۔ وہ گردشِ باغ و بوستان پر محفلِ اُنس کو، اور لذّتِ بہارِ دُنیا پر لذّتِ مُصاحبت کو ترجیح دیتا ہے۔ جس جگہ سعدی کا یار ہو، وہاں خود ہی باغ ظاہر ہو جاتا ہے، لہٰذا سعدی کو بہار کے وقت باغ میں جانے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی۔)
لبِ جُو (یعنی نہر کے کنارے) پر کھڑے سرْوِ بُلند کی بجائے تم یارِ سرْو قامت پر نظر کیوں نہیں کرتے؟
وہ اِک ایسی شکل و صورت ہے کہ اُس کے حُسنِ ترکیب (یعنی جمال و زیبائی) کی توصیف میں، بولنے والی زبان کو مجالِ نُطْق و تکلُّم نہیں رہتا۔ (یعنی زبانِ گویا اُس کی زیبائی کے وصف میں سُخن نہیں کہہ سکتی، یا زبان اُس کی زیبائی بیان کرنے پر قادر نہیں ہے۔)
کس نے کہا کہ رُخ زیبا پر نظر کرنا خطا ہے؟ خطا تو یہ ہے کہ چہرۂ زیبا کو نہ دیکھا جائے۔
دوستی کی قسم! اگر تمہارے دست سے زہر ہو تو میں اُسے ایسے ذوق و ارادت کے ساتھ کھاؤں گا کہ جیسے حلوے کو [کھا رہا ہوؤں۔]
اے میرے حبیب! وہ ہی شخص نادانی سے وامق کی ملامت کرتا ہے جس نے عذرا کا چہرہ نہ دیکھا ہو۔ (وامِق، عذرا کا عاشق تھا۔)
میں نے مان لیا کہ تم کو [میری] آتشِ پنہاں کی خبر نہیں ہے۔۔۔ [لیکن کیا] تم [میرے] ظاہر اشکِ چشم پر نگاہ نہیں کرتے؟
اے سعدی! [کیا] میں نے نہیں کہا تھا کہ جب تم «یغما» کے دلبروں کو عشق میں دل دو گے تو تمہارا دل غارت و تاراج ہو جائے گا؟ (یغْما = مشرقی تُرکستان کے ایک شہر کا نام، جو اپنے زیبا رُوؤں کے لیے فارسی شاعری میں مشہور رہا ہے۔)
[اپنے] تمام درد کے باجود ہنوز مجھے اُمیدِ درماں ہے، کیونکہ شبانِ یلدا کا آخرکار ایک اختتام ہوتا ہے۔ (شبِ یلدا = سال کی طویل ترین شب)
آخری تدوین: