اگر عمران خان کامیاب ہوگئے تو!

جاسم محمد

محفلین
اگر عمران خان کامیاب ہوگئے تو!
خرم شہزاد جمعہ۔ء 19 جولائ 2019
1747757-agerimrankhan-1563446125-122-640x480.jpg

ان حالات میں عوام کی اکثریت یہی سوچ رہی ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہوگئے تو کیا ہو گا؟ (تصویر: انٹرنیٹ)

ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم بڑے عجیب لوگ ہیں۔ کسی بھی بات کا مثبت پہلو کبھی دیکھتے ہی نہیں۔ اس کی ایک مثال عورت ہے۔ ہمارے گھر اور معاشرے کی زندگی اس کے بغیر مکمل ہونا تو دور کی بات ہے، شروع بھی نہیں ہوتی۔ لیکن جب اسی عورت کے حوالے سے ہم قیامت کا ذکر کرتے ہیں، جنت دوزخ کی بات کرتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو پتہ ہے کہ ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی۔

سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہماری ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کی اتنی محبت، خلوص، پیار، گھر و رشتے داروں کےلیے اتنی قربانیاں کہاں چلی جاتی ہیں کہ ان رشتوں کے پرے جب بھی ہم انہیں صرف عورت کے طور پر سوچتے اور دیکھتے ہیں تو ہمارا مکمل علم بس اسی قدر رہ جاتا ہے کہ ایک عورت چار مردوں کے جہنم جانے کا باعث ہوگی؟

چلیں بحث چھوڑتے ہیں، یہ بتائیے کہ ایک مرد کتنی عورتوں کو جنت میں لے کر جائے گا؟ یا چلیں یہ بتادیجئے کہ ایک مرد کی وجہ سے کتنی عورتیں جنت میں جائیں گی۔ نہیں پتہ۔ کیونکہ ہم نے کبھی مثبت سوچا ہی نہیں ہے اور نہ ہم میں مثبت سوچنے کی صلاحیت موجود ہے۔ نکاح کرتے وقت ہمارے ذہن میں سب سے پہلے یہ بات گھومتی ہے کہ شرائط کیا لکھوانی ہیں، کیونکہ اگر یہ رشتہ نہ چلا تو؟ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ بھئی یہ رشتہ کیوں نہیں چلے گا؟ اور اگر یہ رشتہ چل گیا تو پھر؟

ہمیں کسی سرکاری دفتر میں کام ہوتا ہے، تو بجائے دفتر جانے کے ہم میل ملاپ والے لوگوں کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کوئی سفارش لے کر جائے بغیر ہماری تسلی ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہی نہیں ہے کہ اگر سرکاری دفتر میں بھی بنا کسی رشوت یا سفارش کے کام ہوگیا تو پھر؟ یا سرکاری دفتر میں بھی بنا کسی میل ملاپ اور پہچان والے کے کام ہوسکتا ہے؟ کسی کی گاڑی یا بنگلہ دیکھ لیں تو پہلے خیال سے بھی پہلے ہم یہ مان چکے ہوتے ہیں کہ یہ سب دھوکا، فراڈ اور بے ایمانی کے پیسے سے کمایا ہوا ہوگا۔ ہم سوچتے ہی نہیں کہ وراثت میں یہ دولت مل سکتی ہے یا اس شخص کی ذاتی محنت کے باعث یہ سب ممکن ہوسکتا ہے۔

اسی طرح جب بھی کوئی حکومت بنتی ہے تو سب سے پہلے الیکشن ہارنے والے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہیں اور پھر جب حکومت بن جاتی ہے تو پورے پاکستان میں ہر شخص یا تو یہ اندازہ لگارہا ہوتا ہے کہ یہ حکومت کتنے دن چلنے کے بعد ختم ہوجائے گی، یا پھر لوگ حکومت کے الیکشن کے دنوں کے وعدوں اور نعروں کا جواب مانگتے ہوئے اس کی ناکامی کی دلیل دے رہے ہوتے ہیں۔ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ حکومت چل بھی سکتی ہے اور حکومت اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے اپنی مدت پوری بھی تو کرسکتی ہے۔ اپوزیشن ہو تو ڈٹ کر اپوزیشن کرنے کا اعلان سامنے آتا ہے، جس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نہ کوئی قانون پاس ہونے دیں گے اور نہ ہی حکومت کو کام کرنے دیں گے۔

اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنے زوال کے کمال پر ہیں۔ ہم اپنی ذات میں چور بھی ہوتے ہیں اور دھوکے باز بھی۔ اسی لیے فوراً دوسرے کو بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہم نے زندگی میں کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا ہوتا، اسی لیے دوسروں سے بھی ہمیں ایسی کوئی امید نہیں ہوتی۔ ہم اپنی زندگی میں ناکام ہوچکے ہوتے ہیں، اسی لیے کسی دوسرے کو بھی کامیاب دیکھنا ہمیں پسند ہی نہیں ہے۔ ہمارے پاس اپنے آنے والے کل کےلیے کوئی امید، کوئی پروگرام نہیں۔ کیونکہ اپنی ذات میں ہم نے اپنے آپ کو انسان کے بجائے کوئی اور مخلوق تسلیم کرلیا ہے۔ اسی لیے نہ اپنی جان کی کوئی پروا ہوتی ہے اور نہ گھر والوں کےلیے آنے والے کل کا کوئی پروگرام یا امید ہم نے جگائی ہوتی ہے۔ ہماری زندگی کی معراج بس اتنی سی ہے کہ بچہ کسی نوکری میں لگ جائے یا کہیں سیٹ ہوجائے تو اس کی شادی کروا دیں اور پھر مرجائیں۔ اس سے زیادہ کی نہ تو ہماری سوچ ہے اور نہ ہم ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

ایسے معاشرے میں جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہوگیا تو کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ بلکہ ہم شد و مد سے ایسی وجوہات پر غور کرنا شروع کردیتے ہیں جو عمران خان کی ناکامی کا باعث بنیں گی۔ ہم جو ایک بیوی اور دو بچوں والے گھر کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہوتے، پورے ملک کو چلانے والے کو نہ صرف مشورے دے رہے ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو ایمان کی حد تک یقین سے یہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میری بات لکھ لو ایسا ہوکر رہنا ہے۔ آخر معاشرہ اپنے زوال کے کمال پر ایسے ہی تو نہیں پہنچ جاتا۔

ہم یہ تو سوچتے ہیں کہ اگر عمران خان ناکام ہوا تو کیا ہو گا؟ لوگوں کی ایک امید ٹوٹ جائے گی۔ لوگ تبدیلی لفظ کا نہ صرف مذاق بنالیں گے بلکہ آئندہ بھی کسی کو تبدیلی کے نام پر ووٹ نہیں دیں گے۔ لوگ چوروں اور مخلص لوگوں میں فرق بھول جائیں گے اور پاکستان کولہو کے بیل کی طرح پھر سے ایک دائرے میں پہنچ جائے گا۔ جہاں کسی کے ہونے نہ ہونے، آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور ڈالر کی قیمت کے ساتھ ساتھ عمران خان کے وعدے و دعوے اور اب تک ان میں بعض کا پورا نہ ہونا وہ بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے اس حکومت کے نہ صرف دن تھوڑے ہیں بلکہ یہ سب عمران خان کے ناکام ہونے کی واضح نشانیاں بھی ہیں۔ ہمارے پاس دلائل بھی ہیں، جواز بھی اور موازنہ کرتی ہوئی رپورٹیں بھی، کہ پاکستان بنا تو آلو کتنے روپے تھے، تب سونا کتنے کا تھا اور پٹرول کتنے کا۔

ہمارا جذبہ، جوش اور نفرت اگر دوسرے کو قائل نہیں کرتی تو چپ لازمی کروا دیتی ہے کہ برداشت کا مادہ ویسے بھی لوگوں میں اب کم ہوتا جارہا ہے۔ کون سی بحث کب لڑائی جھگڑے میں بدل جائے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ لیکن یہ سوال کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ اگر عمران خان کامیاب ہوگیا تو پھر؟ آپ کسی سے بھی پوچھیں، پہلے تو کوئی یقین نہیں کرے گا اور اگر بمشکل اسے راضی کرلیں کہ چلو فرض کرلو کہ عمران خان کامیاب ہوگیا تو پھر؟ یقین جانیں کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ بلکہ جواب تو آپ کے اپنے پاس بھی نہیں ہے کہ عمران خان اگر کامیاب ہوگیا تو کیا ہوگا؟

سوچئے کہ آپ کیسا پاکستان چاہتے ہیں اور پھر عمران خان کا ساتھ دیں۔ جہاں تک آپ سے ممکن ہے خود بھی کچھ کریں کہ سب کچھ کرنا حکومت کا بھی کام نہیں ہے۔ اپنے گلی محلے تو خود ٹھیک کریں کہ حکومت پھر بڑے منصوبوں پر کام کرسکے۔ ایک بار اپنی زندگی سے ذاتی ناکامیوں، نفرت، کاہلی اور خود فریبی کو نکال کر اپنی ذات کو دوبارہ سے تعمیر کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر بات میں کچھ مثبت سوچئے۔ ہر شخص کے بارے میں کچھ نیک گمان بھی کرلیا کیجئے اور سب سے اہم، جذباتیت اور باتوں کے بجائے کچھ عملی ہونے کا ثبوت دیجئے اور جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ اگر عمران خان کامیاب ہوگیا تو پھر؟ کیا پتہ وہ کامیاب ہوہی جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جن کی توقعات صرف عمران خان صاحب سے وابستہ ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ پاکستان میں ان سے بڑی کئی شخصیات آئیں اور جب منظرنامے سے ہٹیں، تو یادداشت سے بھی قریب قریب محو ہو گئیں۔ تبدیلی کے نام پر ایک مذاق کیا گیا۔ ہوم ورک سرے سے ہی کیا ہی نہ گیا تھا۔ بہتر یہی ہے کہ خان صاحب سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔ اگر وہ کسی حد تک بھی بہتری لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اچھی پیش رفت ہو گی۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ اسی سیاسی لاٹ میں سے اچھے لوگ بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ نظام چلتے رہنا چاہیے۔
 
ہم جو ایک بیوی اور دو بچوں والے گھر کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہوتے، پورے ملک کو چلانے والے کو نہ صرف مشورے دے رہے ہوتے ہیں
کالم نگار موصوف کا دھیان نہیں گیا کہ مخالفین یا نقاد پر کسی گئی پھبتی کی زد میں خود ممدوح وزیر اعظم صاحب بھی آ رہے ہیں۔

یعنی ان کے اپنے معیار کے مطابق گھر چلانے میں ناکام رہنے والے مشورہ دینے کے اہل بھی نہیں ہیں، تو حکومت کے اہل کیونکر ہو سکتے ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے ایک کولیگ ہیں، کٹر نون لیگی۔ فنانس کے انچارج ہیں۔ سارا دن عمران خان اور انکی حکومت کو صلوات سناتے ہیں اور ہم (میں اور دوسرے کولیگ جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا) سنتے ہیں کیونکہ نون لیگی دور میں وہ سنتے تھے۔ :)

میرے پاس لے دے کے ایک دلیل بچتی ہے کہ چونکہ معیشت کو دستاویزی کرنا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ملک کے مفاد میں ہے لہذا گالیاں یہی حکمران اور حکومت کھائے گی اور ناکام ہو کر جائے گی لیکن آئندہ آنے والی "جمہوری" حکومتوں کو یہ کڑوا گھونٹ نہیں بھرنا پڑے گا سو ان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ پیسے کے معاملات کو چونکہ اندر تک سمجھتے ہیں اس لیے کچھ دیر کے لیے منہ بند کرتے ضرور ہیں لیکن بس کچھ ہی دیر کے لیے۔ :)
 

آصف اثر

معطل
میرے ایک کولیگ ہیں، کٹر نون لیگی۔ فنانس کے انچارج ہیں۔ سارا دن عمران خان اور انکی حکومت کو صلوات سناتے ہیں اور ہم (میں اور دوسرے کولیگ جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا) سنتے ہیں کیونکہ نون لیگی دور میں وہ سنتے تھے۔ :)
:D

میرے پاس لے دے کے ایک دلیل بچتی ہے کہ چونکہ معیشت کو دستاویزی کرنا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ملک کے مفاد میں ہے لہذا گالیاں یہی حکمران اور حکومت کھائے گی اور ناکام ہو کر جائے گی لیکن آئندہ آنے والی "جمہوری" حکومتوں کو یہ کڑوا گھونٹ نہیں بھرنا پڑے گا سو ان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔
مبنی برحقیقت۔
 

جاسم محمد

محفلین
جن کی توقعات صرف عمران خان صاحب سے وابستہ ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ پاکستان میں ان سے بڑی کئی شخصیات آئیں اور جب منظرنامے سے ہٹیں، تو یادداشت سے بھی قریب قریب محو ہو گئیں۔ تبدیلی کے نام پر ایک مذاق کیا گیا۔ ہوم ورک سرے سے ہی کیا ہی نہ گیا تھا۔ بہتر یہی ہے کہ خان صاحب سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔ اگر وہ کسی حد تک بھی بہتری لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اچھی پیش رفت ہو گی۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ اسی سیاسی لاٹ میں سے اچھے لوگ بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ نظام چلتے رہنا چاہیے۔
میرے خیال میں یہ کالم عمران خان پر نہیں قوم کے عمومی منفی رویوں کی عکاسی اجاگر کرنے کیلئے لکھا گیا ہے۔
اور عمران خان کو صرف بطور مثال پیش کیا ہے۔
 
Top