(اگر ہم با زباں ہوتے
نہ جانے اب کہاں ہوتے)
اکثر لوگ اسی وجہ سے میرا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں ایک پٹھان ہوں اور مذکر مونث کی خبر نہیں تو مجھے لکھنا نہیں چاہیئے۔ تو اس شعر میں جذبات کا اظہار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اردو میری مادری زبان نہیں ورنا آج یوں لوگ حقارت سے نہ دیکھتے۔
(جہاں ماہر ٹہرتے ہیں
یقینا ہم وہاں ہوتے)
اہل زبان ماہرین جس مقام کو پاتے ہیں میں بھی اس مقام کو پہنچتا۔
(چھو لیتے ہم سما کوبھی
اگر تیرے نشاں ہوتے)
اگر کوئی مخلص رہنمائی کرنے والا ملتا تو ہر کوشش کرتا اس کے شاگرد بننے کا۔
(یہی ہے آرزو اپنی
ہمارے بھی بیاں ہوتے)
یہی خواہش ہے کہ کاش مجھے اردو زبان اور شعروشاعری پہ دسترس حاصل ہوتی اور لوگ مجھ کو حقارت سے نہ دیکھتے اور سنتے مجھے۔
(واضخ رہے نہ میں خود کو شاعر سمجھتا ہوں ، نہ نام و نمود کی کوئی خواہش ہے۔ بس دراصل کچھ لوگوں نے جذبات کا مزاق اڑایا تو اسی وجہ سے یہ لکھا۔)