عاطف بٹ
محفلین
اگر یہ دھمکی نہیں تو کیا ہے؟
فراز ہاشمی
کہا جاتا ہے کہ عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اگر اشارہ ایم کیو ایم کےقائد الطاف حسین کی طرف سے ہو اور وہ بھی صحافیوں اور اینکر پرسنز کو تو شاید ہی ایسا کوئی نادان ہو جو ایسے اشاروں کو نظر انداز کر سکے۔الطاف حسین نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ دھمکی نہیں اشارہ ہے لیکن ان کے اس اشارے نے پاکستان میں اخبارنویسوں اور اینکر پرسنز کو پریشان نہیں تو حیران ضرور کیا ہے۔
ڈان ٹی وی کی اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے لیے یہ بیان غیر متوقع اور حیران کن ہے۔
عاصمہ کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے حالیہ برسوں میں کراچی سے باہر اپنا امیج ایک سیکولر، معتدل اور پڑھے لکھے طبقے کی جماعت کے طور پر بنانے کی شعوری کوشش کی۔ لیکن الطاف بھائی کے صرف اس ایک بیان سے ایم کیو ایم کی ان تمام تر کوششوں پر پانی پھرگیا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے جیو ٹی وی کے پروگرام ’آپس کی بات‘ میں اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک قومی رہنما کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس طرح کی زبان اور لہجہ اپنائیں۔
سینئر صحافی ایم ضیاء الدین کے لیے ایم کیو ایم کے رہنما کی طرف سے یہ بیان کوئی حیران کن بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی اس سلسلے میں تاریخ بہت طویل ہے۔
انھوں نے اس طویل تاریخ میں صرف ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ اسّی کی دہائی کے آخر میں ایم کیو ایم نے کراچی میں اخبارات کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا تھا اور تمام قومی اخباروں کے مدیروں کو نائن زیرو طلب کیا تھا۔ ان کے مطابق روزنامہ ڈان وہ واحد اخبار تھا جس کے مدیر نے الطاف حسین کے حکم سے رو گردانی کی تھی۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ لب و لہجے کی شائستگی اور الفاظ کے انتخاب کو اگر ایک لمحے کے لیے ایک طرف بھی رکھ دیں تو یہ بیان کسی طور بھی ایک سیکولر، معتدل اور پڑھے لکھوں کی نمائندگی کرنے والے رہنما کا نہیں لگتا۔
الطاف حسین کے اس بیان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ایک ایسے پاکستانی نژاد برطانوی شہری کا بیان ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے برطانیہ میں مقیم ہو جہاں جمہوریت اور جمہوری اقدار کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جہاں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے اور شاید ہی کوئی سیاسی رہنما اخبار نویسوں کو اس طرح مخاطب کرنے اور دھمکیاں دینے کے بارے میں سوچ سکتا ہو۔
ایم کیو ایم کے قائد نے خوب کہا کہ صحافیوں اور اینکرز کو اختلاف کرنے کا حق ہے لیکن ’بکواس‘ کا نہیں۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر یہ حق اینکرز کو حاصل نہیں تو اس کے جملہ حقوق کس کے پاس محفوظ ہیں۔
جملہ حقوق کس کے پاس؟
الطاف حسین نے خوب کہا کہ صحافیوں اور اینکرز کو اختلاف کرنے کا حق ہے لیکن ’بکواس‘ کا نہیں۔ بھائی نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ اگر یہ حق اینکرز کو حاصل نہیں تو اس کے جملہ حقوق کس کے پاس محفوظ ہیں۔
الطاف حسین کےاس بیان کے بعد یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ اگر اینکرز پرسنز اور صحافی رائے نہیں دے رہے اور صرف ’بکواس‘ کر رہے ہیں تو پھر انھیں اس ’بکواس‘ سے اس قدر پریشانی کیوں ہو رہی ہے۔
ایم ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے انتخابی حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کے بارے میں جو احکامات جاری ہوئے ہیں ان سے ایم کیو ایم شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی کہ ذرائع ابلاغ اور اخبارات ان کی پالیسوں کا تجزیہ کریں اور ان میں نقائص کی نشاندھی کریں۔ وہ صرف اور صرف تعریف سننا چاہتے ہیں۔
نجم سیٹھی نے بھی تاریخ کی بات کی اور کہا کہ تاریخ بڑے تلخ سبق سکھاتی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔
نجم سیٹھی کا یہ جملہ واقعی قابل ذکر ہے۔ شاید ہی کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکے کہ ابلاغ کی دنیا میں انقلاب آ چکا ہے اور اب ذرائع ابلاغ صحافیوں کے ہاتھوں سے نکل کر سوشل میڈیا کی صورت میں عوام کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔ اب لوگوں کی آواز کو دبانا ممکن نہیں ہو گا اور اس کا ادراک عوامی رہنماؤں کو بھی کرنا ہو گا اور اس حوالےسے رویوں پر نظر ثانی کی سب سے زیادہ ضرورت سیاسی قیادت کو ہے۔