سلمان حمید
محفلین
السّلامُ علیکم
میں اردو زبان سے محدود واقفیت رکھنے والا سیدھا سادا سا انسان ہوں اور کل ہی آ کےاس محفل سے جڑا ہوں۔ میں فیس بک پہ وقت برباد کرتے کرتے تھک گیا تو ایک دوست نیرنگ خیال کی بدولت یہاں کا پتہ ملا اوربے شمار لوگوں کو اردو لکھتے پڑھتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ جرمنی میں حالیہ سال اپنا ماسٹرز ختم کر کے بطور سافٹ وئیر انجنئیر، نوکری کر رہا ہوں۔
3 سال قبل اپنے اساتذہ عابد حسین عابد (لاہور) اور عباس تابش (لاہور) کی راہنمائی میں اپنی ایک کتاب شائع کر کے جرمنی آگیا۔ کچھ عرصہ اپنی کتاب کا اکلوتا قاری رہا اور پچھلے ایک برس سے میرے اشعار میں خود بھی نہیں سنتا
ٹیکنالوجی اور فکرِمعاش میں ایسا الجھا کہ سال سے اوپر ہو گیا ہے اور اردو لکھنا ہی بھول گیا ہوں۔ میں اردو ادب سے دوبارہ جڑنے آیا ہوں۔ کسی کا زبردستی شاگرد نہیں بننا چاہتا اور نہ ہی اپنی شاعری سنا سنا کر کسی کے سر درد کی وجہ بننا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی استاد شاعر امکان دیکھ کر راہنمائی کر دے تو بہت مہربانی ہو گی ورنہ خود کو سمجھا لوں گا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔
عباس تابش کے دیے طر ح مصرع پہ لکھی گئی ایک بہت پرانی غزل تنقید کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ الفاظ کی کمی کی وجہ سے آسان الفاظ میں شاعری کرتا ہوں تو امید ہے آسان الفاظ میں ہی تنقیدی کلمات موصول ہوں گے۔ شکریہ۔
اہلِ اظہار نہیں چاہنے والے مجھ کو،
"کس کے ہونٹوں سے گروں کون سنبھالے مجھ کو"
تیرگی شب کی مری روح میں اُتری ایسے
کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں ا’جالے مجھ کو
ہوں زمیں بوس مگر خود کو گھسیٹے جاؤں
چلنے دیتے ہی نہیں پاؤں کے چھالے مجھ کو
منسلک ہوں مگر اک عارضی مدت کے لیے
جانے کس وقت وہ آنکھوں سے گرا لے مجھ کو
وہ جو پلٹا ہے ابھی چیزیں سبھی لوٹا کر
ا’سے کہہ دو کہ رگ و پے سے نکالے مجھ کو
رات مسجد میں کئے یاد تری سے شکوے
اب تو ہونے دے مرے رب کے حوالے مجھ کو
مجھ کو مل جائیں مرے گمشدہ الفاظ اگر
پھر سے چاہیں گے مرے چاہنے والے مجھ کو
میں اردو زبان سے محدود واقفیت رکھنے والا سیدھا سادا سا انسان ہوں اور کل ہی آ کےاس محفل سے جڑا ہوں۔ میں فیس بک پہ وقت برباد کرتے کرتے تھک گیا تو ایک دوست نیرنگ خیال کی بدولت یہاں کا پتہ ملا اوربے شمار لوگوں کو اردو لکھتے پڑھتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ جرمنی میں حالیہ سال اپنا ماسٹرز ختم کر کے بطور سافٹ وئیر انجنئیر، نوکری کر رہا ہوں۔
3 سال قبل اپنے اساتذہ عابد حسین عابد (لاہور) اور عباس تابش (لاہور) کی راہنمائی میں اپنی ایک کتاب شائع کر کے جرمنی آگیا۔ کچھ عرصہ اپنی کتاب کا اکلوتا قاری رہا اور پچھلے ایک برس سے میرے اشعار میں خود بھی نہیں سنتا
ٹیکنالوجی اور فکرِمعاش میں ایسا الجھا کہ سال سے اوپر ہو گیا ہے اور اردو لکھنا ہی بھول گیا ہوں۔ میں اردو ادب سے دوبارہ جڑنے آیا ہوں۔ کسی کا زبردستی شاگرد نہیں بننا چاہتا اور نہ ہی اپنی شاعری سنا سنا کر کسی کے سر درد کی وجہ بننا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی استاد شاعر امکان دیکھ کر راہنمائی کر دے تو بہت مہربانی ہو گی ورنہ خود کو سمجھا لوں گا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔
عباس تابش کے دیے طر ح مصرع پہ لکھی گئی ایک بہت پرانی غزل تنقید کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ الفاظ کی کمی کی وجہ سے آسان الفاظ میں شاعری کرتا ہوں تو امید ہے آسان الفاظ میں ہی تنقیدی کلمات موصول ہوں گے۔ شکریہ۔
اہلِ اظہار نہیں چاہنے والے مجھ کو،
"کس کے ہونٹوں سے گروں کون سنبھالے مجھ کو"
تیرگی شب کی مری روح میں اُتری ایسے
کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں ا’جالے مجھ کو
ہوں زمیں بوس مگر خود کو گھسیٹے جاؤں
چلنے دیتے ہی نہیں پاؤں کے چھالے مجھ کو
منسلک ہوں مگر اک عارضی مدت کے لیے
جانے کس وقت وہ آنکھوں سے گرا لے مجھ کو
وہ جو پلٹا ہے ابھی چیزیں سبھی لوٹا کر
ا’سے کہہ دو کہ رگ و پے سے نکالے مجھ کو
رات مسجد میں کئے یاد تری سے شکوے
اب تو ہونے دے مرے رب کے حوالے مجھ کو
مجھ کو مل جائیں مرے گمشدہ الفاظ اگر
پھر سے چاہیں گے مرے چاہنے والے مجھ کو
آخری تدوین: