اہلِ زر خاموش ہیں، اہلِ نظر خاموش ہیں - سیدابوبکرمالکی بھٹکلی

کاشفی

محفلین
غزل
(سیدابوبکرمالکی بھٹکلی)

اہلِ زر خاموش ہیں، اہلِ نظر خاموش ہیں
آنے والی آندھیوں سے بے خبر، خاموش ہیں

ًمصلحت کا دور ہے، مد مقابل ہے مفاد
کچھ اِدھر خاموش ہیں اور کچھ اُدھر خاموش ہیں

قافلہ بے سمت بڑھتا جارہا ہے آج کل
بے خبر منزل سے اب اہلِ سفر خاموش ہیں

کیوں بدلتا جارہا ہے زندگی کا یہ نظام
راہزن محو عمل ہیں، راہبر خاموش ہیں

وہ ہمارے حق میں بولیں گے ہمیں اُمید تھی
وقت آیا بولنے کا، وہ مگر خاموش ہیں

اک دھماکہ سا ہوا تھا میرے گھر کے آس پاس
چیخ میں نے بھی سنی تھی، گھر کے گھر خاموش ہیں

ہاں یہی‌ گھر ہے جسے میں نے بنایا تھا کبھی
کس لئے پھر آج یہ دیوار و در خاموش ہیں؟

کون سا ڈر پال رکھا ہے دلوں میں‌ آج کل
آج اپنے بھی یہاں مثلِ شجر خاموش ہیں

پڑھنے والے پڑھ گئے آنکھوں کی اس تحریر کو
آنکھ ان کی بولتی ہے، وہ اگر خاموش ہیں
 
Top