نیرنگ خیال
لائبریرین
اسے شعر تو نہیں سمجھنا ناں؟!
شعر تو اسے بھی نہیں سمجھنا
اے عقل تجھ کو آنے سے میں روکتا نہیں
جذبات کو ترے آنے کی لیکن خبر نہ ہو
اسے شعر تو نہیں سمجھنا ناں؟!
شعر تو اسے بھی نہیں سمجھنا
اے عقل تجھ کو آنے سے میں روکتا نہیں
جذبات کو ترے آنے کی لیکن خبر نہ ہو
اس پر کیا موقوف ہے۔ ہم تو اکثر اپنے شعر کو بھی شعر سمجھ لیتے ہیں۔ اس سے اس شعر کے شعر نہ ہونے کا افہام اور ہماری شاعرانہ کمزوری کا بیان مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہمیں شعروں کی پہچان میں ذرا مسئلہ ہے!
لیکن آپ نے تو اپنے دستخط میں بھی ایک (اوکھا سا) شعر سجا رکھا ہے۔
آپ نے خود ہی تو کہا ہے کہ شعروں کی پہچان میں مسئلہ ہے اور خود ہی دستخط میں
ملے آواز مری کم سخن خموشی کوکھلے حجازؔ کا دیوان غم کبھی نہ کبھیمعنی خیز شعر سجا رکھا ہے۔ میں یہی کہنا چاہتا تھا۔
ویسے آپ کےساتھ سخت زیادتی ہوئی ۔
کھانوں کے شہر میں جانے کیا کھا کر چلتے بنے ۔
کاش بھولے بھٹکے سے لکشمی چوک جا نکلتے تو کوئی حسرت "حسرت" نہ رہتی ۔
سفرنامہ خوب تھا۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔ اچھا لکھا ہے، ویسے اچھا ہے پائے نہیں کھائے کیوں کہ مجھے نہیں پسند
ہاہاہاہاہا۔۔۔ اچھا لکھا ہے، ویسے اچھا ہے پائے نہیں کھائے کیوں کہ مجھے نہیں پسند
لو بتاؤ بھلا پائے، پیڑا لسی، سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی جیسی نعمتیں تو کسی بڑے سے بڑے ہوٹل میں بھی نہیں ملیں گی۔
ہاں شاید اگر لاہور کے پائے بھی پیڑا لسی اور سرسوں کے ساگھ اور مکئی کی روٹی کی طرح ہوتے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ کھائے بن لوٹ آئے!
اب رات کے دو بجے تو پھر ایسی ہی مکئی کی روٹی اور ساگ ملے گا ناں۔
گھر کا کھایا ہوتا تو ساری زندگی اس کا ذائقہ نہ بھولتے۔
سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی تو مجھےبہت پسند ہے
بہت خوب۔۔۔ مزیدار مضمون ہے۔ گویا کہ :
کھائے پائے سخت جانی، ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شِیر کا۔۔۔
(چچا غالب سے معذرت کے ساتھ)