اہل بیت کون ہیں؟

انتہا

محفلین
اہل بیت کون ہیں؟
علامہ طاہر القادری​

دین اسلام پر اس سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں ہوگا کہ اہل بیت اطہار کی محبت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بے ادبی کی جائے۔ اسلام کے اندر اس چیز کی کوئی گنجائش نہیں، بے شک اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی محبت عین ایمان ہے۔ جس شخص کے دل میں اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت نہیں وہ مسلمان نہیں۔ وہ اسلام سے خارج اور جہنم کا ایندھن ہے۔ دل کے اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت سے خالی ہونے کا مطلب دل کا اسلام، ایمان، قرآن اور نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہونا ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان میں یہ درجہ ہے اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان میں یہی درجہ ہے لہذا جو شخص صحابہ کرام بشمول خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کی طرف کسی قسم کی ناپاکی منسوب کرتا ہے خواہ وہ اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت کے نام پر کرے یا کسی اور حوالے سے وہ شخص بھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ وہ صحابہ کرام، خلفائے راشدین یا ازواج مطہرات کا ہی منکر نہیں وہ منکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

اہل بیت کون ہیں؟
بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے۔
1. بیت نسب
2. بیت مسکن یا بیت سکنٰی
3. بیت ولادت۔
اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں۔
1. اہل بیت نسب
2. اہل بیت سکنٰی
3. اہل بیت ولادت
* اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً چچا، تایا، پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں۔
* اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی۔
*اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
انَّمَا یْرِیدْ الله لِیْذہبَ عَنکْمْ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَیْطَهِّرَکْم تَطیهِرًا(الاحزاب، 33 : 33)
’’اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دْور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘
یعنی اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے دامن، سیرت، کردار اور اعمال کے ظاہر وباطن کو ہر نجس اور ناپاکی سے اس طرح پاک فرما دے کہ تم طہارت اور پاکیزگی کا قابل تقلید نمونہ بن جاؤ اور قیامت تک طہارت اور پاکیزگی تم سے جنم لیتی رہے۔
جب انسان متعصب ہوجاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے۔ وہ دو طبقے جو حب صحابہ اور حب اہل بیت رضی اللہ عنھم کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہوئے ان میں سے ایک طبقے نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو نکال دیا۔ گویا انہوں نے اہل بیت میں سے اہل بیت مسکن کو نکال دیا۔ جب اہل بیت میں سے بیویاں ہی نکل جائیں تو پھر اولاد کا گھر سے کیا تعلق رہا؟ بہر حال انہوں نے ازواج مطہرات کو نکال کر کہا کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا، حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔
بے شک مذکورہ چاروں ہستیاں اہل بیت میں شامل ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چادر تطہیر میں چھپایا اور ان کے اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا انکار فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے مگر سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ایک طبقے نے کچھ اہل بیت مراد لئے اور باقی چھوڑ دیئے۔ اس کے رد عمل کے طور پر دوسرے طبقے نے کہا کہ اہل بیت سے مراد صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ، سیدہ دوعالم حضرت فاطمہ الزہراء اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہل بیت میں شامل ہی نہیں۔ دونوں طبقوں نے قرآن پاک کو گویا سکول کا رجسٹر داخل خارج سمجھ لیا ہے کہ جسے چاہا داخل کردیا اور جسے چاہا خارج کردیا۔ من مانی تاویلیں کرکے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور نہ صرف امت بلکہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی متنازعہ بنا دیا۔
ارے نادانو! جو گھر والا ہے وہ تو ہر گھر والے کو پیارا ہے اور وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے پھر جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق والا ہے، آپ کے گھر میں ہے یا آپ کی نسل پاک میں سے ہے اور اہل ایمان ہے۔ اسے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل بیت اور ہر ایک کو پیارا ہونا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق ہونا، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انصاف کررہے ہیں؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے۔
قابل غور نکتہ
یہ بات قابل غور ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی کام رد عمل کے طور پر شروع ہوگا اس میں اعتدال وتوازن نہیں ہوگا۔ اس میں افراط و تفریط اور انتہا پسندی ہوگی۔ وہ کام اعتدال اور میانہ روی کے اس تصور سے ہٹ کر ہوگا جس کا اسلام نے درس دیا ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم اعتدال اور میانہ روی ہے۔ امت مسلمہ کو امت وسط بھی دراصل اسی لئے کہا جاتا ہے کہ باری تعالیٰ نے امت مصطفوی کو وہ وقار اور کردار عطا کیا ہے جو توسط و اعتدال پر مبنی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کے لئے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا درج ذیل فرمان ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے۔ ہوشیار! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔ ’’ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا،، (مسند احمد بن حنبل 2 : 167، رقم 1376) خود شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا، حد سے بڑھانے والا۔ وہ محبت اس کو غیر حق کی طرف لے جائے گی۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا، وہ بغض اس کو خلاف حق کی طرف لے جائے گا اور سب سے بہتر حال میرے معاملہ میں میانہ رو جماعت کا ہے پس اس میانہ رو جماعت کو اپنے لئے ضروری سمجھو اور (بڑی جماعت) سواد اعظم کے ساتھ وابستہ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے اور خبردار! اس جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوگا وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوگا جس طرح ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیئے کا شکار ہوتی ہے،،۔ (ترجمہ و شرح نہج البلاغہ جلد اول، 383)

بغض اہل بیت رضی اللہ عنھم اور بغض صحابہ رضی اللہ عنہ کا منطقی نتیجہ
آج کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو حب علی رضی اللہ عنہ میں افراط کی وجہ سے راہ اعتدال کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ بغض علی رضی اللہ عنہ کی بناء پر راہ اعتدال پر نہیں رہے۔ پہلا گروہ ایسا ہے جو سارا سال اپنے مذہبی اجتماع فقط سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنھم کے حوالے سے کرتا ہے۔ اس گروہ نے نہ تو کبھی سیر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے کوئی اجتماع کیا ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر کے حوالے سے، اہل بیت کے علاوہ انہوں نے ہر ایک سے اپنا تعلق قطع کرلیا ہے اور دوسرا گروہ ایسا ہے جو سارا سال مدح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام پر اجلاس اور اجتماع کرتا ہے۔ اس گروہ کی کیفیت یہ ہے کہ محرم الحرام کے مہینے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن بھی کبھی اہل بیت اور شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر اجتماع نہیں کرتا۔ جس طرح پہلے گروہ نے اہل بیت پاک اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسلام کے باقی تمام موضوعات چھوڑ دیئے ہیں اسی طرح دوسرے گروہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے موضوع کے علاوہ باقی تمام موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ دونوں طرف ردعمل (Reaction) ہو رہا ہے اور اعتدال کی راہ چھوٹی جارہی ہے۔

اہل بیت رضی اللہ عنھم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا باہمی تعلق
راہ اعتدال سے ہٹ جانے والے دونوں گروہوں کے لئے دنگا فساد کی فضا ختم کرنے اور امن و سلامتی کی فضا قائم کرنے کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنھم اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی آپس میں کوئی لڑائی نہ تھی بلکہ یہ سب ایک دوسرے سے محبت کرنے والے، پیار کرنے والے اور ایک دوسرے پر جانیں قربان کرنے والے لوگ تھے۔

امام محمد باقر اور احترام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
شیعہ مذہب کی معتبر کتاب ’’کشف الغمہ فی معرفۃ الآئمۃ،، میں عروہ بن عبداللہ سے مروی ایک واقعہ مذکور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر سے سوال کیا کہ تلواروں کے دستے پر چاندی چڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی تلوار کے دستے پر چاندی چڑھائی تھی۔
عروہ بن عبداللہ نے بھی شاید یہ رائے قائم کرلی تھی کہ اہل بیت رضی اللہ عنھم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں مخالفت ہے چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ آپ بھی صدیق کہتے ہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر امام محمد باقر رضی اللہ عنہ جلال میں آکر کھڑے ہوگئے، قبلہ رخ منہ کرلیا اور فرمایا نعم الصدیق، نعم الصدیق، نعم الصدیق فمن لم یقل لہ الصدیق فلا صدق اللہ قولا فی الدنیا ولا فی الآخرۃ۔ (کشف الغمہ فی معرفۃ الآئمۃ، 2 : 359) ’’ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں اور جو انہیں صدیق نہ کہے گا اس کی بات کو اللہ دنیا میں بھی جھوٹا کردے گا اور آخرت میں بھی،،۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اورعظمت وشان علی رضی اللہ عنہ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جب میرے والد یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اکٹھے بیٹھے ہوتے تو میں دیکھتی کہ میرے والد اکثر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ تکتے رہتے، ان کی نگاہ ہر وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر رہتی، ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ ابا جان! جب آپ خود اتنے بلند مرتبہ ہیں تو پھر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو کیوں دیکھتے رہتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اے عائشہ رضی اللہ عنہ ! میں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ ہر وقت تکتا رہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی عزت کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : النظر الی وجہ علی عبادۃ۔ ’’(حضرت) علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو (فقط) دیکھنا (بھی) عبادت ہے،،۔ انہی الفاظ کے ساتھ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (المستدرک الحاکم، کنزالعمال 11 : 601) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکر علی عبادۃ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر عبادت ہے،،۔ بے شک صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کے درمیان بے حد قلبی محبت موجود تھی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حْبِّ علی رضی اللہ عنہ
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں قیام پذیر ہوئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دو مرتبہ فرمایا۔ ’’تم نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و پیارا اور بہتر ہوں؟،، سب نے کہا ’’ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،،۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللھم من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ۔ ’’اے اللہ! جس کا میں دوست ہوں علی (رضی اللہ عنہ) بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ! اس سے محبت رکھ جو علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھے،،۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا۔ ھنیئا یا ابن ابی طالب اصبحت وامسیت مولی کل مومن ومومنۃ(مشکوۃ المصابیح بحوالہ احمد، 565) ’’اے ابن ابی طالب! تم صبح و شام خوش رہو اور تمہیں ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت کا مولیٰ ہونا مبارک ہو،،۔ کتب سیرو تاریخ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں آپ کے پاس دو دیہاتی لڑتے ہوئے آئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کردیا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ ہمارے درمیان کیا فیصلے کرے گا؟ فوثب علیہ العمر واخذ بتلبیبہ وقال ویحک ماتدری من ھذا؟ ھذا مولاک ومولی کل مومن من لم یکن مولاہ فلیس مومن۔ (الصواعق المحرقہ، 179) ’’پس یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا ’’جانتا ہے یہ کون ہیں؟ یہ تیرے اور ہر مومن کے مولیٰ ہیں اور جس کے یہ مولیٰ نہیں ہیں وہ مومن نہیں ہے،،

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور احترام حسنین کریمین رضی اللہ عنہ
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب ایران فتح ہوا تو ایران کے آخری بادشاہ یزد گرد کی بیٹی حضرت شہر بانو جنگی قیدی بن کر مال غنیمت میں آئیں جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو اہل مدینہ اور اسلامی لشکر سوچنے لگا کہ دیکھتے ہیں ایران کے بادشاہ یزد گرد کی بیٹی شہر بانو کس خوش نصیب کے حصے میں آتی ہے۔ جب مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے شہر بانو کی باری آئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ یزد گرد کی بیٹی شہزادی ہے اسے میں جس کی زوجیت میں دوں گا وہ بھی شہزادہ ہی ہوگا۔ لوگ سوچنے لگے کہ دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں شہزادہ کون ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے حسین رضی اللہ عنہ ! ہمارے ہاں شہزادہ تو ہی ہے اور حضرت شہر بانو رضی اللہ عنہ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں دیدیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ترجیح دی کیونکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہیں بلکہ آپ کے اہل بیت پاک بھی دل وجان سے عزیز اور محبوب تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کے دروازے پر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہوئے حاضر ہونے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ اتفاق سے ان کو حاضر ہونے کی اجازت نہ ملی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ یہ خیال کرکے کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی تو مجھے کب اجازت دیں گے، واپس آگئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اس خیال سے واپس چلے گئے ہیں تو آپ فوراً حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ مجھے آپ کے تشریف لانے کی اطلاع نہ تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں اس خیال سے واپس آگیا کہ جب آپ نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے؟،، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انت احق بالاذن منہ وھل ابنت الشعر فی الراس بعد اللہ الا انتم۔ (الصواعق المحرقہ، 179) ’’تم اس سے زیادہ اجازت کے مستحق ہو اور یہ بال سر پر اللہ تعالیٰ کے بعد کس نے اگائے سوائے تمہارے (یعنی تمہاری بدولت ہی راہ راست پائی اور تمہاری برکت سے اس مرتبے کو پہنچا،، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : اذا جئت فلا تستاذن۔ (الصواعق المحرقہ، 179) ’’آپ جب تشریف لایا کریں تو بغیر اجازت کے آجایا کریں،،۔
مذکورہ تمام واقعات سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت پاک کے درمیان کسی قسم کی عداوت یا رنجش نہیں تھی بلکہ ان کے درمیان باہم محبت و الفت کا رشتہ تھا۔ بے شک تمام صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کا ادب و احترام اور محبت و مودت عین ایمان ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنا بالواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی ہے خواہ کوئی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھے یا ہاتھ باندھ کر رفع یدین کرے یا نہ کرے، یہ اپنا اپنا مسلک ہے اس سے ایمان پر زد نہیں آتی البتہ اسلام کی حد کو کبھی توڑنے کی کوشش نہ کیجئے، یہ حد صحابہ کرام اور اہل بیت پاک کے ادب و احترام کی حد ہے۔
جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف کفر منسوب کرتا ہے یا گالی دیتا ہے وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کفر منسوب کرنا یا گالی دینا چاہے ظاہراً یا باطناً ہو، اشارے یا کنایہ سے ہو، بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہو، کیونکہ ایسے شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر اپنی اس گستاخی و زبان درازی کا نشانہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنا رہا ہے جو یقیناً کفر ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعریف تو عمر بھر کرتا رہے، عظمت صحابہ رضی اللہ عنہ کے نعرے لگاتا رہے مگر اپنے دل میں اہل بیت رضی اللہ عنھم کی محبت نہ رکھے، اس کے دل میں اہل بیت رضی اللہ عنھم کے بارے میں بغض ہو اور اہل بیت رضی اللہ عنھم اطہار کا ذکر سن کر اس کے دل میں گھٹن آئے اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
آیئے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ سے دوسرا سبق امن کا حاصل کریں۔ ہر کسی کو یاد حسین رضی اللہ عنہ اپنے اپنے طریقے سے منانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ ہر ایک کو عظمت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یاد منانے کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ پاک سر زمین ہے ہی اس لئے کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عظمت کے ترانے گونجیں، اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی عظمت و محبت کے ترانے گائے جائیں۔ جس سر زمین پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بے ادبی اور گستاخی ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو گالی دی جائے یا اہل بیت رضی اللہ عنھم پر طعن زنی ہو، الزام تراشی اور گستاخی ہو پھر وہاں مسلمان زندہ بھی رہیں تو وہ مسلمان بے حمیت ہیں۔ مسلمانوں کی سر زمین پر نہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے خلاف زبان کھلنی چاہئے اور نہ ہی اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کے خلاف بے ادبی کی زبان کھولنے کی
اجازت ہونی چاہئے۔ کسی دوسرے کے مسلک پر تنقید نہ کی جائے، نہ کسی کو گالی دو اور نہ بے ادبی کرو، ادب و احترام سے چلو، قرآن وسنت کی رو سے اپنے اپنے مسلک کے دائرے میں چلتے رہو، اپنے مسلک کی حقانیت پر خوب دلائل دو اور مسلک کی تعریف کرو مگر دوسرے کو نہ برا بھلا کہو، نہ گالی دو اور نہ تحقیر کرو۔ یہ اصولی بات ہے حتی کہ قرآن پاک میں یہ ہے کہ کافروں کے بتوں کو بھی گالی نہ دو کہ کہیں وہ تمہارے سچے خدا کو گالی نہ دینے لگیں۔ اپنے مسلک اور عقیدے پر چلا جائے اور دوسرے پر طعن نہ کیا جائے۔ (بشکریہ ،عالمی اخبار ڈاٹ کام)
 

محمد وارث

لائبریرین
انتہا صاحب، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ متفرقات کا موضوع ہے؟

آپ پلیز ماڈریشن سے بچنے کیلیے ایسے موضوعات متفرقات فورم میں پوسٹ نہ کریں کہ ایسے موضوعات حذف کر دیے جاتے ہیں۔

فی الحال اس موضوع کو اسلامی تعلیمات میں بھیج رہا ہوں۔
 
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ بلاشک و شبہ ہر دو فریق کے جانبداری سے جو شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کو اجاگر کیا گیا ہے تعصب اور مسلکی جانبداری سے غیر جانبدار تحریر ہے۔
لیکن انتہا اصل بات یہ ہے کہ یہ سب قیامت تک چلتا رہے گا۔
فائدہ: اگر شیعہ نہ ہونگے تو اماموں کو کون یاد رکھے گا واقعہ کربلا کون یاد رکھے گا اور ہر سال اس کا اعادہ کون کرتا رہے گا۔
نقصان : شیعہ محبت میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں میں نے خود اپنے کانوں سے خلفائے ثلاثہ کو گالیاں دیتے سنا ہے اور ابھی ابھی تو فیس بک پر ایک وڈیو چلی ہے جس میں امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجو کی گئی ہے۔
دوسرا گروپ کا یہ فائدہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے ایام شہادت کی یاد دلاتا رہتا ہے خصوصا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کی یوم شہادت اور ان کی سیرت پر جلسے جلوس کرواتا ہے اور تقاریر وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے اور ہمارے عام مولوی حضرات جو کہ آپس میں ایک دوسرے کو (یعنی بریلوی دیوبندی اور وہابی) برا بھلا کہتے رہتے ہیں ان کو بھی اس میدان میں طبع آزمائی کی دعوت دیتا ہے۔
نقصان: یہ گروپ یزید کی محبت میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ یزید کو جہنم کی آگ سے کھینچ کر بہشت میں طوبیٰ کی بلند شاخ پر متمکن کردیا ہے اور عین محرم میں بھی سیرت یزید پر تقاریر اور جلسے جلوس کا اہتمام کرواتا رہتا ہے۔
نوٹ: اب کوئی صاحب میری اس پوسٹ کو بنیاد بنا کر کفر کے فتوے نہ دینا شروع کردیں کیونکہ اگر شیعہ ایسا کرتے ہیں تو ان کو بتایا اور سکھایا ہی ایسا گیا ہے اور اگر یزیدی گروپ اس طرح کرتا ہے تو ان کو بھی بتایا اور سکھایا ہی اس طرح گیا ہے۔
اصل میں یہ دونوں گروپ مسلمانوں میں صرف دو فیصد اور دوسرا گروپ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور بحمدللہ اللہ نے ایک عام سے مسلمان کو بھی یہ عقل اور شعور دیا ہوا ہے اس کو یہ پتہ ہے کہ حق کیا ہے اور حق سے ہٹا ہوا کیا ہے
 
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ بلاشک و شبہ ہر دو فریق کے جانبداری سے جو شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کو اجاگر کیا گیا ہے تعصب اور مسلکی جانبداری سے غیر جانبدار تحریر ہے۔
لیکن انتہا اصل بات یہ ہے کہ یہ سب قیامت تک چلتا رہے گا۔
فائدہ: اگر شیعہ نہ ہونگے تو اماموں کو کون یاد رکھے گا واقعہ کربلا کون یاد رکھے گا اور ہر سال اس کا اعادہ کون کرتا رہے گا۔
نقصان : شیعہ محبت میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں میں نے خود اپنے کانوں سے خلفائے ثلاثہ کو گالیاں دیتے سنا ہے اور ابھی ابھی تو فیس بک پر ایک وڈیو چلی ہے جس میں امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجو کی گئی ہے۔
دوسرا گروپ کا یہ فائدہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے ایام شہادت کی یاد دلاتا رہتا ہے خصوصا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کی یوم شہادت اور ان کی سیرت پر جلسے جلوس کرواتا ہے اور تقاریر وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے اور ہمارے عام مولوی حضرات جو کہ آپس میں ایک دوسرے کو (یعنی بریلوی دیوبندی اور وہابی) برا بھلا کہتے رہتے ہیں ان کو بھی اس میدان میں طبع آزمائی کی دعوت دیتا ہے۔
نقصان: یہ گروپ یزید کی محبت میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ یزید کو جہنم کی آگ سے کھینچ کر بہشت میں طوبیٰ کی بلند شاخ پر متمکن کردیا ہے اور عین محرم میں بھی سیرت یزید پر تقاریر اور جلسے جلوس کا اہتمام کرواتا رہتا ہے۔
نوٹ: اب کوئی صاحب میری اس پوسٹ کو بنیاد بنا کر کفر کے فتوے نہ دینا شروع کردیں کیونکہ اگر شیعہ ایسا کرتے ہیں تو ان کو بتایا اور سکھایا ہی ایسا گیا ہے اور اگر یزیدی گروپ اس طرح کرتا ہے تو ان کو بھی بتایا اور سکھایا ہی اس طرح گیا ہے۔
اصل میں یہ دونوں گروپ مسلمانوں میں صرف دو فیصد اور دوسرا گروپ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور بحمدللہ اللہ نے ایک عام سے مسلمان کو بھی یہ عقل اور شعور دیا ہوا ہے اس کو یہ پتہ ہے کہ حق کیا ہے اور حق سے ہٹا ہوا کیا ہے
جناب روحانی بابا جی اہل بیت کی عزت ان لوگوں سے زیادہ ہم کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو جھوٹی باتیں اہل بیت کے ساتھ منصوب کرتے ہیں وہ کیا ہیں۔ اپ اپنی تحریر میں کچھ ترمیم کریں۔ وہ لوگ محبت میں نہیں صحابہ کے بغض میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں۔ نا وہ صحابہ سے محبت کرتے ہیں۔ اور نا ہی اہل بیت سے۔
 
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ بلاشک و شبہ ہر دو فریق کے جانبداری سے جو شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کو اجاگر کیا گیا ہے تعصب اور مسلکی جانبداری سے غیر جانبدار تحریر ہے۔
لیکن انتہا اصل بات یہ ہے کہ یہ سب قیامت تک چلتا رہے گا۔
فائدہ: اگر شیعہ نہ ہونگے تو اماموں کو کون یاد رکھے گا واقعہ کربلا کون یاد رکھے گا اور ہر سال اس کا اعادہ کون کرتا رہے گا۔
نقصان : شیعہ محبت میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں میں نے خود اپنے کانوں سے خلفائے ثلاثہ کو گالیاں دیتے سنا ہے اور ابھی ابھی تو فیس بک پر ایک وڈیو چلی ہے جس میں امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجو کی گئی ہے۔
دوسرا گروپ کا یہ فائدہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے ایام شہادت کی یاد دلاتا رہتا ہے خصوصا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کی یوم شہادت اور ان کی سیرت پر جلسے جلوس کرواتا ہے اور تقاریر وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے اور ہمارے عام مولوی حضرات جو کہ آپس میں ایک دوسرے کو (یعنی بریلوی دیوبندی اور وہابی) برا بھلا کہتے رہتے ہیں ان کو بھی اس میدان میں طبع آزمائی کی دعوت دیتا ہے۔
نقصان: یہ گروپ یزید کی محبت میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ یزید کو جہنم کی آگ سے کھینچ کر بہشت میں طوبیٰ کی بلند شاخ پر متمکن کردیا ہے اور عین محرم میں بھی سیرت یزید پر تقاریر اور جلسے جلوس کا اہتمام کرواتا رہتا ہے۔
نوٹ: اب کوئی صاحب میری اس پوسٹ کو بنیاد بنا کر کفر کے فتوے نہ دینا شروع کردیں کیونکہ اگر شیعہ ایسا کرتے ہیں تو ان کو بتایا اور سکھایا ہی ایسا گیا ہے اور اگر یزیدی گروپ اس طرح کرتا ہے تو ان کو بھی بتایا اور سکھایا ہی اس طرح گیا ہے۔
اصل میں یہ دونوں گروپ مسلمانوں میں صرف دو فیصد اور دوسرا گروپ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور بحمدللہ اللہ نے ایک عام سے مسلمان کو بھی یہ عقل اور شعور دیا ہوا ہے اس کو یہ پتہ ہے کہ حق کیا ہے اور حق سے ہٹا ہوا کیا ہے
سر جو لوگ یزید کو صحابی کہتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ انہوں نے قسطنطنیہ پہ حملہ کیا تھا۔ وہ لوگ بھی محبت نہیں کرتے اور اس کے بقیہ زندگی کے بارے بھی جانتے ہیں کہ وہ اتنا اچھا مسلمان نہیں تھا۔
 

انتہا

محفلین
انتہا صاحب، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ متفرقات کا موضوع ہے؟

آپ پلیز ماڈریشن سے بچنے کیلیے ایسے موضوعات متفرقات فورم میں پوسٹ نہ کریں کہ ایسے موضوعات حذف کر دیے جاتے ہیں۔

فی الحال اس موضوع کو اسلامی تعلیمات میں بھیج رہا ہوں۔
بہت شکریہ وارث بھائی، میں جلدی میں موضوع کا تعین نہ کر سکا، میری غلطی ہے، معافی چاہتا ہوں، اگر بسہولت ممکن ہو سکے تو متعلقہ سیکشن میں منتقل کر دیجیے۔
 
سر جو لوگ یزید کو صحابی کہتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ انہوں نے قسطنطنیہ پہ حملہ کیا تھا۔ وہ لوگ بھی محبت نہیں کرتے اور اس کے بقیہ زندگی کے بارے بھی جانتے ہیں کہ وہ اتنا اچھا مسلمان نہیں تھا۔
دراصل جس پہلے بحری بیڑے کو جنت کی بشارت تھی اتفاقا اس میں بھی ایک یزید نامی صحابی تھے لیکن یار لوگوں نے اس کو یزید بن معاویہ بنادیا ۔ یزید بن معاویہ نے جس بحری بیڑے میں شرکت کی تھی وہ آٹھواں بحری بیڑہ تھا پہلے بحیر بیڑے میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ شریفک تھے۔
 
Top