ابن جمال
محفلین
اہل زبان کون ہیں؟
حروف تہجی سے 'ق' باہر نکال پھینکا
یہ بحث پوری پڑھی، چونکہ متعلقہ موضوع صحافت کے زمرہ میں تھا، وہاں پر کچھ کہنا مناسب خیال نہیں ہوا، اس لئے اس کا ربط یہاں دے کر بحث کو آگے بڑھاتاہوں۔
سوال یہ ہے کہ کسی کو اہل زبان کس بنیاد پر کہاجائے گا اورکیوں،حالی اگر دلی والوں کو اردو کی نشوونما کی وجہ سے اہل زبان قراردیتے ہیں توپھر اہل دکن جہاں سے اردو کا آغاز ہوا،اورجہاں اردو کا سب سے پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہوا، اورجہاں کے ولی دکنی کی شاگردی اور ان کے انداز کو دہلی والوں نے اپنایا، وہاں کے لوگ اہل زبان کیوں نہیں ،شیرانی صاحب کے بقول اردو کا آغاز پنجاب سے ہوا، توپھر اہل پنجاب اہل زبان کیوں نہیں؟
اردو کا دائرہ بہت وسیع ہے،وہ کشمیر سے کنیاکماری اوربہار سے پنجاب تک سمجھی اوربولی جاتی ہے توپھر اس کے لئے اہل زبان محض دوشہر دہلی اورلکھنوتک کیوں سمٹ گئے؟اس میں علمی رویوں کو دخل تھایاپھر تعصب کو؟
عرب میں کتنے قبیلے تھے، ہرقبیلہ کااپناالگ لہجہ ہواکرتاتھااوربعض خاص حروف وہ الگ طرح سے اداکرتے تھے، مصریوں کو جنت کو گنت کہنا تو سامنے کی بات ہے ورنہ عربی زبان میں مختلف قبائل اورشہروں کے تلفظ میں بہت فرق واقع ہوتاہے،لیکن کیابھی ایساہواکہ قریش نے دعویٰ کردیاہو کہ ہم ہی اہل زبان ہیں، اورمستند ہے میرا فرمایاہوا، قریش کو اس باب میں امتیاز تھاکہ وہ اوروں سےا چھی عربی بولتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ انہوں نے خواب میں بھی نہیں کیاکہ صرف ہم اہل زبان ہیں اورپورے عرب کو ہماری پیروی کرنی چاہئے، یہ شرف صرف لکھنو اوردہلی کے تنگ نظروں کو ہی ملا۔
فارسی زبان کے بارے میں بھی یہی بات ہے،کیاکسی دوشہر والوں نے فارس میں دعویٰ کیاکہ ہم ہی اہل زبان ہیں اوربقیہ پورا فارس یاایران ہمارے تابع ہیں،جو ہم بولیں گے وہی مستند ہوگا، اورسب کو وہی بولناپڑے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان پر اس سے بڑاظلم نہیں ہوسکتاتھاکہ اہل زبان کو صرف لکھنو اور دلی تک محدود کردیاجائے، ایساکرکے نہ صرف اردو کی لسانی وسعت کو محدود کیاگیابایں طورکہ ہرجگہ عظیم آباد،دکن،لاہور،اور دیگر دبستان اردو میں مقامی زبان کے میل جول سے جو الفاظ آئے تھے، ان کو دربدر کردیاگیا، اورصرف دہلی ولکھنوکو مستند تسلیم کیاگیااس سے اردو زبان کے لسانیات کابڑاذخیرہ تلف ہوگیا۔
ایک بنیادی سوال جس پر سب سے کم توجہ دی گئی حالانکہ جس پر سب سے زیادہ بحث ہونی چاہئے تھی کہ صرف دہلی اورلکھنووالے اہل زبان کا تمغہ خود کو کیوں دے سکتے ہیں، اہل زبان ہونے کا ایساکیا معیار ہے جو دوسروں کے پاس نہیں اورصرف ان کے پاس ہے؟ڈاکٹر کلیم عاجز کا ایک مقالہ ہے جس میں انہوں نے ثابت کیاہے کہ اردو کے متقدمین شعرا جو دہلی کے تھے ،انہی ادوار کے شعرا جو عظیم آباد(پٹنہ)کے تھے، دونوں کے کلام کا تقابلی مطالعہ کیاہے جس سے پتہ چلتاہے کہ عظیم آباد کے شعرا کے کلام میں سلاست اورروانی دہلی والوں سے زیادہ ہے۔
میری حقیر رائے میں اردو کے تمام دبستان خواہ وہ عظیم آباد کے ہوں،دکن کے ہوں، پنجاب کے ہوں، بنگال کے ہوں، یاکہیں کے بھی ہوں، وہاں کےرہنے والے اہل زبان ہیں۔
بعض لوگ جو لکھنو اوردہلی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ش،ص ق اور ڑ کے تلفظ پر فخر کرتے ہیں اور جو ان کی طرح تلفظ نہ کرے،اسے حقیر گردانتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ فعل سراسر جاہلانہ ہے، تلفظ کا اہل زبان ہونے سے اگر کوئی تعلق ہوتا توپھر مصری اور عربی بہت سارے قبائل عرب اہل زبان کی فہرست سے خارج ہوجاتے،؟یہ جہالت صرف ہندوستان کے بعض مخصوص علاقوں میں ہی پائی جاتی ہے ورنہ بقیہ دنیا عموما اس طرح کے جاہلانہ انداز سے محفوظ ہے،خود انگلش میں کتنے لہجے ہیں، تلفظ کا کتنا فرق ہے، لیکن ایک دوسرے کا مذاق نہیں اڑایاجاتا، بلکہ اس کو مقامی پس منظر سے وابستہ سمجھاجاتاہے،لیکن یہ بات ہمارے ہندوپاک میں ہی ہے کہ اگر ایک بہاری ڑ کا صحیح تلفظ نہ کرے تو اس پر ہنساجائے، ایک بنگالی اگر ش کا صحیح تلفظ نہ کرے تواسے شرمندہ کیاجائے، ایک دکنی اگر ق کو خ بولے تواسے معیوب گرداناجائے ،ہوناتویہ چاہئے تھاکہ اس قسم کا رویہ اختیار کرنے والوں پر لوگ ہنسیں اوراسے جاہل سمجھیں،لیکن افسوس جنہیں روناچاہئے،وہ ہنس رہے ہیں۔
حروف تہجی سے 'ق' باہر نکال پھینکا
یہ بحث پوری پڑھی، چونکہ متعلقہ موضوع صحافت کے زمرہ میں تھا، وہاں پر کچھ کہنا مناسب خیال نہیں ہوا، اس لئے اس کا ربط یہاں دے کر بحث کو آگے بڑھاتاہوں۔
سوال یہ ہے کہ کسی کو اہل زبان کس بنیاد پر کہاجائے گا اورکیوں،حالی اگر دلی والوں کو اردو کی نشوونما کی وجہ سے اہل زبان قراردیتے ہیں توپھر اہل دکن جہاں سے اردو کا آغاز ہوا،اورجہاں اردو کا سب سے پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہوا، اورجہاں کے ولی دکنی کی شاگردی اور ان کے انداز کو دہلی والوں نے اپنایا، وہاں کے لوگ اہل زبان کیوں نہیں ،شیرانی صاحب کے بقول اردو کا آغاز پنجاب سے ہوا، توپھر اہل پنجاب اہل زبان کیوں نہیں؟
اردو کا دائرہ بہت وسیع ہے،وہ کشمیر سے کنیاکماری اوربہار سے پنجاب تک سمجھی اوربولی جاتی ہے توپھر اس کے لئے اہل زبان محض دوشہر دہلی اورلکھنوتک کیوں سمٹ گئے؟اس میں علمی رویوں کو دخل تھایاپھر تعصب کو؟
عرب میں کتنے قبیلے تھے، ہرقبیلہ کااپناالگ لہجہ ہواکرتاتھااوربعض خاص حروف وہ الگ طرح سے اداکرتے تھے، مصریوں کو جنت کو گنت کہنا تو سامنے کی بات ہے ورنہ عربی زبان میں مختلف قبائل اورشہروں کے تلفظ میں بہت فرق واقع ہوتاہے،لیکن کیابھی ایساہواکہ قریش نے دعویٰ کردیاہو کہ ہم ہی اہل زبان ہیں، اورمستند ہے میرا فرمایاہوا، قریش کو اس باب میں امتیاز تھاکہ وہ اوروں سےا چھی عربی بولتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ انہوں نے خواب میں بھی نہیں کیاکہ صرف ہم اہل زبان ہیں اورپورے عرب کو ہماری پیروی کرنی چاہئے، یہ شرف صرف لکھنو اوردہلی کے تنگ نظروں کو ہی ملا۔
فارسی زبان کے بارے میں بھی یہی بات ہے،کیاکسی دوشہر والوں نے فارس میں دعویٰ کیاکہ ہم ہی اہل زبان ہیں اوربقیہ پورا فارس یاایران ہمارے تابع ہیں،جو ہم بولیں گے وہی مستند ہوگا، اورسب کو وہی بولناپڑے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان پر اس سے بڑاظلم نہیں ہوسکتاتھاکہ اہل زبان کو صرف لکھنو اور دلی تک محدود کردیاجائے، ایساکرکے نہ صرف اردو کی لسانی وسعت کو محدود کیاگیابایں طورکہ ہرجگہ عظیم آباد،دکن،لاہور،اور دیگر دبستان اردو میں مقامی زبان کے میل جول سے جو الفاظ آئے تھے، ان کو دربدر کردیاگیا، اورصرف دہلی ولکھنوکو مستند تسلیم کیاگیااس سے اردو زبان کے لسانیات کابڑاذخیرہ تلف ہوگیا۔
ایک بنیادی سوال جس پر سب سے کم توجہ دی گئی حالانکہ جس پر سب سے زیادہ بحث ہونی چاہئے تھی کہ صرف دہلی اورلکھنووالے اہل زبان کا تمغہ خود کو کیوں دے سکتے ہیں، اہل زبان ہونے کا ایساکیا معیار ہے جو دوسروں کے پاس نہیں اورصرف ان کے پاس ہے؟ڈاکٹر کلیم عاجز کا ایک مقالہ ہے جس میں انہوں نے ثابت کیاہے کہ اردو کے متقدمین شعرا جو دہلی کے تھے ،انہی ادوار کے شعرا جو عظیم آباد(پٹنہ)کے تھے، دونوں کے کلام کا تقابلی مطالعہ کیاہے جس سے پتہ چلتاہے کہ عظیم آباد کے شعرا کے کلام میں سلاست اورروانی دہلی والوں سے زیادہ ہے۔
میری حقیر رائے میں اردو کے تمام دبستان خواہ وہ عظیم آباد کے ہوں،دکن کے ہوں، پنجاب کے ہوں، بنگال کے ہوں، یاکہیں کے بھی ہوں، وہاں کےرہنے والے اہل زبان ہیں۔
بعض لوگ جو لکھنو اوردہلی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ش،ص ق اور ڑ کے تلفظ پر فخر کرتے ہیں اور جو ان کی طرح تلفظ نہ کرے،اسے حقیر گردانتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ فعل سراسر جاہلانہ ہے، تلفظ کا اہل زبان ہونے سے اگر کوئی تعلق ہوتا توپھر مصری اور عربی بہت سارے قبائل عرب اہل زبان کی فہرست سے خارج ہوجاتے،؟یہ جہالت صرف ہندوستان کے بعض مخصوص علاقوں میں ہی پائی جاتی ہے ورنہ بقیہ دنیا عموما اس طرح کے جاہلانہ انداز سے محفوظ ہے،خود انگلش میں کتنے لہجے ہیں، تلفظ کا کتنا فرق ہے، لیکن ایک دوسرے کا مذاق نہیں اڑایاجاتا، بلکہ اس کو مقامی پس منظر سے وابستہ سمجھاجاتاہے،لیکن یہ بات ہمارے ہندوپاک میں ہی ہے کہ اگر ایک بہاری ڑ کا صحیح تلفظ نہ کرے تو اس پر ہنساجائے، ایک بنگالی اگر ش کا صحیح تلفظ نہ کرے تواسے شرمندہ کیاجائے، ایک دکنی اگر ق کو خ بولے تواسے معیوب گرداناجائے ،ہوناتویہ چاہئے تھاکہ اس قسم کا رویہ اختیار کرنے والوں پر لوگ ہنسیں اوراسے جاہل سمجھیں،لیکن افسوس جنہیں روناچاہئے،وہ ہنس رہے ہیں۔
آخری تدوین: