x boy
محفلین
قدرتی آفات اور بیماریاں امیر غریب عوام اور حکمران کی تفریق کیے بغیر آتی ہیں اور ان کی پکڑ میں کوئی بھی شخص آ سکتا ہے۔ ایڈز، کانگوفیور اور ڈینگی کے وبائی امرایض کو ہم بھگت چکے ہیں ان امراض نے لاکھوں افراد کو متاثر اور ہزاروں کی جان لی اب افریقی ممالک گنی، سیرالیون اور لائبیریا سے ایبولا وائرس کی وبا پھوٹی ہے جس نے افریقی ممالک میں بیس ہزاروں کو متاثر کیا ہے۔
ایبولا وائرس ایبولا ایک ایسا زہریلا وائرس ہے جو انسان کے جسم میں خون کے بہائو پر حملہ کرتا ہے۔سائنس دانوں نے ایبولا کو جریان یا سیلان خون کے بخار کا نام دیا ہے۔اس وائرس کے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں ایبولا سے متاثرہ شخص کے جسم کے کسی یا تمام حصوں سے خون رسنے لگتا ہے۔ اس مرض کا آغاز افریقا میں جنگلی جانوروں سے ہوا۔ یہ وائرس ان جانوروں کے جسم میں موجود ہوتا ہے جو انہیں تو کچھ نہیں کہتا تاہم ان جانوروں کو کھانے والے افراد اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مرض 1976 میں سب سے پہلے افریقہ میں ظاہر ہوا تھا۔ ایبولا ایک دریا کا نام ہے جوافریقہ کی ریاست جمہوریہ کانگومیں واقع ہے۔ 2013 تک اس مرض کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تاہم رواں برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور سیرا لیون، لائبریا اور نائیجریا اس سے سب سے متاثر ہوئے ہیں۔ اب تک یورپ کے ملک اسپین اور امریکا میں بھی اس کے ایک ، ایک کیسز سامنے آئے جس کے بعد سے دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی خوف کی لہر پھیل گئی ہے۔ علامات اس مرض کی علامات میں بخار،گلے میں درد‘ سردرد، دست و قے، جوڑوں اور رگ پٹھوں کا درد، پیٹ میں درد‘قے‘ ڈائریا‘خارش‘ بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متاثرہو جاتی ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ ملیریا‘ٹائفائیڈ بخار، گردن توڑ بخار‘ڈینگی فیور سے کافی زیادہ ملتی جلتی علامات کی وجہ سے اس کی تشخیص میں تھوڑی مشکل پیش ضرور آ سکتی ہے پھر بھی اس کیلئے ملیریا‘اور دیگر کو مسترد کرنے کیلئے مندرجہ ذیل ٹیسٹ کے جانے چاہیے 1- antibody-capture enzyme-linked immunosorbent assay (ELISA) 2-antigen-capture detection tests 3- serum neutralization test 4-reverse transcriptase polymerase chain reaction (RT-PCR) assay 5- electron microscopy 6-virus isolation by cell culture. پھیلاؤ مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور اس وقت اس کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ ٭ایبولا کیسے منتقل ہوتا ہے؟ 1 ۔ مریض سے قریبی تعلق اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ 2 ۔تھوک، خون، ماں کے دودھ، پیشاب، پسینے ، فضلے سمیت جسمانی تعلقات وغیرہ سے بھی یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ 3۔مریض کے زیراستعمال سرنج کا صحت مند شخص پر استعمال اسے بھی ایبولا کا شکار بناسکتا ہے۔ 4۔ا ایبولا کے شکار جانوروں کا گوشت کھانے یا ان کے بہت زیادہ نزدیک رہنا۔ ان سب سے ہٹ کر یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مریض کی چھوئی ہوئی اشیاء سے یہ مرض کسی اور میں منتقل ہوسکتا ہے اور نہ ہی متاثرہ ممالک سے آنے والے طیاروں کے ذریعے یہ کسی اور ملک میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ فلو، خسرے یاایسے ہی عام امراض کی طرح نہیں، بلکہ اس کا نسبتاً کم امکان ہوتا ہے کہ یہ کسی وبا کی طرح ایک سے دوسرے براعظم تک پھیل جائے۔ تاہم متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد اگر اس کا شکار ہوں تو وہ ضرور کسی ملک میں اس کے پھیلاؤکا سبب بن سکتے ہیں۔ متاثرہ افراد کی تعداد نیویارک کے ہوائی اڈے پر گذشتہ دنوں شروع ہونے والی اسکریننگ کے دوران تربیت یافتہ عملہ مسافروں سے سوال نامے پر کرا رہے ہیں جب کہ انفراریڈ اور دیگر ذرائع سے ان میں بخار اور ایبولا کی علامات کو چیک کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے صحت کے مطابق سات ملکوں میں ایبولا کے اب تک 8400 سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں جن میں10اکتوبر تک 4033 مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں۔جن میں نو کے علاوہ باقی تمام اموات ایبولا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تین مغربی افریقی ملکوں لائبیریا، سیرالیون اور گنی میں ہوئی ہیں۔ آٹھ افراد نائجیریا جب کہ ایک امریکہ میں ہلاک ہوا ہے۔اسپین اور سینیگال میں بھی اب تک ایبولا کا ایک، ایک مریض سامنے آچکا ہے لیکن ان ملکوں میں اب تک اس وائرس سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے۔ مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس سے متاثر ہونے والے 70 فیصد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مزید اقدامات نہ کیے گئے تو جنوری 2015 تک وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 14 لاکھ تک پہنچنے کا احتمال ہے۔ وفاقی حکومت نے ایبولا وائرس پر قابو پانے کیلئے ایمرجنسی پلان بنایا ہے جس میں افریقی ممالک سے آنیوالے مسافروں کی خصوصی سکریننگ کی جائیگی۔پاکستان میں ایبولا وائرس پھیلنے کے خدشات موجود ہیں کیونکہ بیرون ممالک سے پاکستان آنیوالے مسافروں کا باقاعدہ معائنہ نہیں کیا جاتا۔ پاکستانیوں کو اس موذی وائرس سے محفوظ رکھنے کیلئے افریقہ سے جو مسافر پاکستان آتے ہیں انکی چیکنگ کا نظام سخت کیا جائے۔ اس موذی مرض کی تشخیص کیلئے بھی ہستپالوں میں علیحدہ کاؤنٹر بنائے جائیں اور خصوصی طورپر افریقی ممالک سے واپس آنیوالے فوجیوں کی مانیٹرنگ کی جائے اور داخلی و خارجی راستوں پر مسافروں کی سکریننگ لازمی کی جائے اور عوام کو اس مرض سے محفوظ رکھنے کیلئے شعور پیدا کیا جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر کے عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ احتیاطی تدابیر ٭طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد یہ جراثیم یہاں بھی پھیلا سکتے ہیں۔ اس مرض سے بچنے کے لیے ضروری اقدام بہت ضروری ہے ٭ہاتھ صابن سے دھوئیں اور صاف ستھرے کپڑے سے پونچھیں۔ ٭خود کو صرف گھر میں پکائی غذاوں تک ہی محدود رکھیں۔بازار بھی بنی ہوئی اشیاء سے ہر ممکن حد تک بچنے کی کوشش کریں۔ ٭گھر کے اندر کونوں کھدروں،صوفوں اور بیڈز کے نیچے کی جگہ پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کریں۔ ٭کمروں کی کھڑکیاں کھول کر رکھیں کمروں میں سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں،کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ ٭گھر میں موجود زندہ چوہوں اور اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے۔ ٭پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔
ایبولا وائرس ایبولا ایک ایسا زہریلا وائرس ہے جو انسان کے جسم میں خون کے بہائو پر حملہ کرتا ہے۔سائنس دانوں نے ایبولا کو جریان یا سیلان خون کے بخار کا نام دیا ہے۔اس وائرس کے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں ایبولا سے متاثرہ شخص کے جسم کے کسی یا تمام حصوں سے خون رسنے لگتا ہے۔ اس مرض کا آغاز افریقا میں جنگلی جانوروں سے ہوا۔ یہ وائرس ان جانوروں کے جسم میں موجود ہوتا ہے جو انہیں تو کچھ نہیں کہتا تاہم ان جانوروں کو کھانے والے افراد اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مرض 1976 میں سب سے پہلے افریقہ میں ظاہر ہوا تھا۔ ایبولا ایک دریا کا نام ہے جوافریقہ کی ریاست جمہوریہ کانگومیں واقع ہے۔ 2013 تک اس مرض کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تاہم رواں برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور سیرا لیون، لائبریا اور نائیجریا اس سے سب سے متاثر ہوئے ہیں۔ اب تک یورپ کے ملک اسپین اور امریکا میں بھی اس کے ایک ، ایک کیسز سامنے آئے جس کے بعد سے دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی خوف کی لہر پھیل گئی ہے۔ علامات اس مرض کی علامات میں بخار،گلے میں درد‘ سردرد، دست و قے، جوڑوں اور رگ پٹھوں کا درد، پیٹ میں درد‘قے‘ ڈائریا‘خارش‘ بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متاثرہو جاتی ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ ملیریا‘ٹائفائیڈ بخار، گردن توڑ بخار‘ڈینگی فیور سے کافی زیادہ ملتی جلتی علامات کی وجہ سے اس کی تشخیص میں تھوڑی مشکل پیش ضرور آ سکتی ہے پھر بھی اس کیلئے ملیریا‘اور دیگر کو مسترد کرنے کیلئے مندرجہ ذیل ٹیسٹ کے جانے چاہیے 1- antibody-capture enzyme-linked immunosorbent assay (ELISA) 2-antigen-capture detection tests 3- serum neutralization test 4-reverse transcriptase polymerase chain reaction (RT-PCR) assay 5- electron microscopy 6-virus isolation by cell culture. پھیلاؤ مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور اس وقت اس کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ ٭ایبولا کیسے منتقل ہوتا ہے؟ 1 ۔ مریض سے قریبی تعلق اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ 2 ۔تھوک، خون، ماں کے دودھ، پیشاب، پسینے ، فضلے سمیت جسمانی تعلقات وغیرہ سے بھی یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ 3۔مریض کے زیراستعمال سرنج کا صحت مند شخص پر استعمال اسے بھی ایبولا کا شکار بناسکتا ہے۔ 4۔ا ایبولا کے شکار جانوروں کا گوشت کھانے یا ان کے بہت زیادہ نزدیک رہنا۔ ان سب سے ہٹ کر یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مریض کی چھوئی ہوئی اشیاء سے یہ مرض کسی اور میں منتقل ہوسکتا ہے اور نہ ہی متاثرہ ممالک سے آنے والے طیاروں کے ذریعے یہ کسی اور ملک میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ فلو، خسرے یاایسے ہی عام امراض کی طرح نہیں، بلکہ اس کا نسبتاً کم امکان ہوتا ہے کہ یہ کسی وبا کی طرح ایک سے دوسرے براعظم تک پھیل جائے۔ تاہم متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد اگر اس کا شکار ہوں تو وہ ضرور کسی ملک میں اس کے پھیلاؤکا سبب بن سکتے ہیں۔ متاثرہ افراد کی تعداد نیویارک کے ہوائی اڈے پر گذشتہ دنوں شروع ہونے والی اسکریننگ کے دوران تربیت یافتہ عملہ مسافروں سے سوال نامے پر کرا رہے ہیں جب کہ انفراریڈ اور دیگر ذرائع سے ان میں بخار اور ایبولا کی علامات کو چیک کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے صحت کے مطابق سات ملکوں میں ایبولا کے اب تک 8400 سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں جن میں10اکتوبر تک 4033 مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں۔جن میں نو کے علاوہ باقی تمام اموات ایبولا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تین مغربی افریقی ملکوں لائبیریا، سیرالیون اور گنی میں ہوئی ہیں۔ آٹھ افراد نائجیریا جب کہ ایک امریکہ میں ہلاک ہوا ہے۔اسپین اور سینیگال میں بھی اب تک ایبولا کا ایک، ایک مریض سامنے آچکا ہے لیکن ان ملکوں میں اب تک اس وائرس سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے۔ مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس سے متاثر ہونے والے 70 فیصد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مزید اقدامات نہ کیے گئے تو جنوری 2015 تک وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 14 لاکھ تک پہنچنے کا احتمال ہے۔ وفاقی حکومت نے ایبولا وائرس پر قابو پانے کیلئے ایمرجنسی پلان بنایا ہے جس میں افریقی ممالک سے آنیوالے مسافروں کی خصوصی سکریننگ کی جائیگی۔پاکستان میں ایبولا وائرس پھیلنے کے خدشات موجود ہیں کیونکہ بیرون ممالک سے پاکستان آنیوالے مسافروں کا باقاعدہ معائنہ نہیں کیا جاتا۔ پاکستانیوں کو اس موذی وائرس سے محفوظ رکھنے کیلئے افریقہ سے جو مسافر پاکستان آتے ہیں انکی چیکنگ کا نظام سخت کیا جائے۔ اس موذی مرض کی تشخیص کیلئے بھی ہستپالوں میں علیحدہ کاؤنٹر بنائے جائیں اور خصوصی طورپر افریقی ممالک سے واپس آنیوالے فوجیوں کی مانیٹرنگ کی جائے اور داخلی و خارجی راستوں پر مسافروں کی سکریننگ لازمی کی جائے اور عوام کو اس مرض سے محفوظ رکھنے کیلئے شعور پیدا کیا جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر کے عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ احتیاطی تدابیر ٭طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد یہ جراثیم یہاں بھی پھیلا سکتے ہیں۔ اس مرض سے بچنے کے لیے ضروری اقدام بہت ضروری ہے ٭ہاتھ صابن سے دھوئیں اور صاف ستھرے کپڑے سے پونچھیں۔ ٭خود کو صرف گھر میں پکائی غذاوں تک ہی محدود رکھیں۔بازار بھی بنی ہوئی اشیاء سے ہر ممکن حد تک بچنے کی کوشش کریں۔ ٭گھر کے اندر کونوں کھدروں،صوفوں اور بیڈز کے نیچے کی جگہ پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کریں۔ ٭کمروں کی کھڑکیاں کھول کر رکھیں کمروں میں سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں،کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ ٭گھر میں موجود زندہ چوہوں اور اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے۔ ٭پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔