ایبٹ آباد آپریشن جعلی تھا، اسامہ کا انتقال 2006 ء میں ہوا، سابق سی آئی اے ایجنٹ

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


يہ بات حيران کن ہے کہ 911 کے حادثے کے دس برس بعد بھی ايسے افراد موجود ہیں جو اپنے دلائل انھی بے سروپا سازشی کہانيوں کو بنياد بنا کر پيش کرتے ہیں اور ان مجرموں کے بےگناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نا صرف يہ کہ خود اپنے الفاظ کے مطابق اس "بارحمت واقعے" کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں بلکہ اپنی اس "کاميابی" پر اتراتے بھی ہیں۔ چاہے وہ درجنوں کی تعداد ميں القائدہ کی قيادت کی جانب سے ريليز کيے جانے والے آڈيو اور ويڈيو پيغامات ہوں، پاکستانی صحافی حامد مير کا اسامہ بن لادن سے کيا جانے والا مشہور زمانہ انٹرويو ہو، القائدہ کے ليڈر ابو ال يزيد کا جيو ٹی وی کے پروگرام کامران خان پر ديا جانے والا تفصيلی انٹرويو ہو يا پھر اسامہ بن لادن کے وہ حمايتی يا چاہنے والے ہوں جو اس کی موت پر اسے ايک ايسے بے خوف شہيد سے تعبير کر رہے تھے جو امريکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گيا – القائدہ کی قيادت کی جانب سے کبھی بھی ايسا مستند دعوی سامنے نہیں آيا جس ميں ان الزامات کو رد کيا گيا ہو باوجود اس کے کہ تمام عالمی برادری اور 40 سے زائد ممالک کی فوجی قوتوں نے ان جرائم کی پاداش ميں عسکری کاروائ تک کر ڈالی۔ یقينی طور پر کم ازکم وہ ان الزامات کی نفی تو کرتے ليکن اس کے برعکس ان کی جانب سے ہميشہ اس واقعے کی تشہير ايک عظيم کاميابی کی حيثيت سے کی گئ۔

ميں نے يقينی طور پر 911 کے حوالے سے انٹرنيٹ پر موجود سازشی ويڈيوز اور ديگر بے شمار مواد ديکھ رکھا ہے جو عمومی طور پر غير مستند ماہرين اور يہاں تک کہ کچھ بوريت کا شکار شوقين مزاج افراد کی تخليق ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے جو دلائل اور "ثبوت" انتہائ جذباتی انداز ميں پيش کيے جاتے ہیں، ان کی بنياد ہی میں واضح تضاد موجود ہے۔ ايک طرف تو يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے اندر موجود کچھ عناصر 911 کے واقعات کے ذمہ دار تھے۔ اس تھيوری کو درست تسليم کرنے کا مطلب يہ ہے کہ يہ عناصر انتہائ طاقتور اور اثر ورسوخ کے حامل ہيں جن کے اختيارات کو چيلنج کرنا ممکن نہيں ہے۔ يہ عناصر اپنی عياری سے نہ صرف يہ کہ ہزاروں کی تعداد ميں موجود اس واقعے کے چشم دید گواہوں کو دھوکہ دينے ميں کامياب ہو گئے بلکہ کڑوروں کی تعداد ميں جن لوگوں نے دنيا کے کونے کونے ميں ٹی وی پر براہراست يہ مناظر ديکھے، وہ بھی اس چالبازی کو نہيں سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت کے اندر موجود يہ پراسرار عناصر ہزاروں کی تعداد ميں ماہرين اور درجنوں نجی تنظيموں اور اداروں کی تحقيقات کو بھی اپنے اثرورسوخ اور اختيارات کی بدولت دھوکہ دينے ميں کامياب ہو گئے۔ صرف يہی نہيں بلکہ القائدہ کی ليڈرشپ سميت ہزاروں کی تعداد ميں جو افراد اس عظيم سازش کا حصہ تھے، وہ بھی پچھلے 10 سالوں سے اس راز پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ يہاں تک کہ اسامہ بن لادن سميت القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قیادت اپنے قبيح جرائم کی وجہ سے ہلاک يا گرفتار ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود وہ 911 کے واقعے کو اپنے لیے ايک "تمغہ" سمجھ کر اس کی تشہير کرتے ہيں۔ يقينی طور پر اس قسم کے ردعمل کی توقع آپ کسی ايسے بے گناہ شخص سے نہيں کر سکتے جو کسی ايسے الزام ميں موت کی سزا کا سامنا کر رہا ہو جو اس سے سرزد ہی نا ہوا ہو، بجائے اس کے کہ وہ اس کو اپنی ايک عظيم کاميابی قرار دے کر اس کا پرچار کر رہا ہو۔

ميں يہ بھی تجويز کروں گا کہ جب آپ انتہائ پرجوش انداز ميں 911 کے حوالے سے معلومات کی پڑتال کرتے ہیں جو اپنی تلاش صرف اسی مواد تک موقوف نہ رکھيں جو آپ کے مخصوص نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔ انٹرنيٹ پر جانے مانے ماہرين اور سائنسی کميونٹيز سے منسوب ايسی مستند معلومات بھی موجود ہيں جن کے ذريعے سازشی ويڈيوز ميں اٹھائے جانے والے تمام سوالات کے جوابات اور الزامات کی نفی موجود ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے ایک بات کو جواب دے دیں کہ اسامہ کی نعش کو ایبٹ آباد سے اٹھا کر آپ لوگ افغانستان لے گئے اور پھر وہاں سے کراچی سے بھی آگے کھلے سمندر میں لے گئے اور بقول آپ کی حکومت کے اسلامی طریقے سے اس کی نعش کو سمندر میں بہا دیا۔

کیا آپ کی حکومت کو ایبٹ آباد سے افغانستان تک اور پھر افغانستان سے لیکر کراچی تک کوئی قبرستان نہیں ملا جہاں اسے اسلامی طریقے سے جنازہ پڑھا کر دفن کیا جاتا؟

صرف اس بات کا جواب لے دیں اپنی حکومت سے۔
 

ساجد

محفلین
شمشاد بھائی ، ایک جھوٹ چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں لیکن جھوٹ پھر بھی پکڑا جاتا ہے۔
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اسامہ بن لادن نے نہ صرف امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا بلکہ وہ پوری انسانيت کے لیے بھی خطرہ تھا۔ وہ 911 کے واقعے ميں ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل ميں ملوث تھا۔ دنيا بھر ميں ان کی دہشت گردی کی مہم کے دوران بے شمار بے گناہ مارے گئے جن ميں ہر قوميت اور اسلام سميت کئ مذاہب کے عورتيں، مرد اور بچے شامل تھے۔ وہ مستقبل ميں بھی امريکہ اور پاکستان سميت دنيا بھر ميں مزيد ہلاکتوں کے لیے پرعزم تھا۔

وفاداری، دوستی اور عام انسانوں کے حالت زندگی ميں بہتری لانے کی خواہش ايسی خصوصيات نہيں ہيں جن کی بنا پر انھيں تاريخ ميں ياد رکھا جائے گا۔ وہ عالم انسانيت کا دوست نہيں تھا اور خاص طور پر امريکہ کا تو بالکل بھی نہيں کيونکہ ان کی زندگی کے آخری 20 برس صرف اس بات پر صرف ہوئے کہ اپنے پيروکاروں کو دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جائے۔

اس ميں کوئ شک نہيں اسامہ بن لادن مر چکا ہے۔ القائدہ کے ممبران کو بھی اس ميں شک نہيں ہے کہ وہ واقعی مر چکا ہے۔ طالبان اور القائدہ کے متعدد قائدين اور خود اسامہ بن لادن کے اپنے خاندان کے کچھ افراد جنھوں نے اس سارے آپريشن کو اپنی آنکھوں سے ديکھا ان کے بيانات انتہائ شکی مزاج کے انسان کے ليے بھی کافی ثبوت ہے کہ بن لادن واقعی ہلاک ہو چکے ہیں

اصليت يہی ہے کہ اسامہ بن لادن اب کبھی بھی بے گناہ انسانوں کے قتل کے احکامات جاری نہيں کر سکيں گے۔ ان کے اپنے حمايتی اورساتھيوں نے بھی اس سچ کو تسليم کر ليا ہے اور اپنے بيانوں سے اس کی تصديق بھی کر دی ہے کہ وہ امريکی ہی تھے جن کے آپريشن کے نتيجے ميں اسامہ بن لادن کا خاتمہ ہوا۔ يہ امر اس حقيقت کو ثابت کرنے کے ليے کافی ہے کہ باقی دنيا کی طرح ہمارے مفادات اور ہمارے شہريوں کی حفاظت کا يہی تقاضا تھا کہ دہشت گردی کے اس محرک کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

اگر آپ کے غلط اور بے بنياد تاثر کے مطابق اسامہ بن لادن امريکہ کا دوست ہوتا تو يقينی طور پر اس کی موت امريکی کاوشوں اور آپريشن کے نتيجے ميں نا ہوتی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall


/
اگر کسی نے کبھی سفید جھوٹ نہیں پڑھا تو مندرجہ بالا عبارت کو دیکھے۔
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


يہ بات حيران کن ہے کہ 911 کے حادثے کے دس برس بعد بھی ايسے افراد موجود ہیں جو اپنے دلائل انھی بے سروپا سازشی کہانيوں کو بنياد بنا کر پيش کرتے ہیں اور ان مجرموں کے بےگناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نا صرف يہ کہ خود اپنے الفاظ کے مطابق اس "بارحمت واقعے" کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں بلکہ اپنی اس "کاميابی" پر اتراتے بھی ہیں۔
ایسے افراد اُن مجرموں (امیریکن تھنک ٹینک ، یہودی لابی ، دنیا کے سب سے بڑے ظالموں ، امن کے عالمی دشمنوں ، مسلمانوں کے ازلی دشمنوں ، ہر قوم میں غدار پیدا کرنے والوں ، جھوٹ کے عَلَم برداروں) کو کبھی بھی بے گناہ نہیں سمجھتے۔ اس "بے رحمت" ڈرامے کی وجہ سے پوری دنیا کا چین و سکون غارت ہو گیا۔ اور امیریکہ بزدل چھ ارب سے زائد انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو کر اپنی اس بے بنیاد "کامیابی" پر اتراتا ہے۔
بے گناہ مسلمانوں پر بھوکے گِدھوں کی طرح پل پڑنے کسی صورت بھی انسان کہلانے کے حق دار نہیں۔ اور بلکہ وہ تو خود کو انسان کی اولاد سمجھتے بھی نہیں ۔ لیکن وہ پھر بھی حضرت آدم کی یعنی اللہ کے خلیفہ فی الارض کی ہی اولاد ہی ہیں ۔ تو کیا ان کے معاملات ایسے ہیں کہ وہ ایک عظیم پیغمبر کی اولاد ہوتے ہوئے ان کارناموں پر فخر کر سکیں ؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
چاہے وہ درجنوں کی تعداد ميں القائدہ کی قيادت کی جانب سے ريليز کيے جانے والے آڈيو اور ويڈيو پيغامات ہوں، پاکستانی صحافی حامد مير کا اسامہ بن لادن سے کيا جانے والا مشہور زمانہ انٹرويو ہو، القائدہ کے ليڈر ابو ال يزيد کا جيو ٹی وی کے پروگرام کامران خان پر ديا جانے والا تفصيلی انٹرويو ہو يا پھر اسامہ بن لادن کے وہ حمايتی يا چاہنے والے ہوں جو اس کی موت پر اسے ايک ايسے بے خوف شہيد سے تعبير کر رہے تھے جو امريکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گيا – القائدہ کی قيادت کی جانب سے کبھی بھی ايسا مستند دعوی سامنے نہیں آيا جس ميں ان الزامات کو رد کيا گيا ہو باوجود اس کے کہ تمام عالمی برادری اور 40 سے زائد ممالک کی فوجی قوتوں نے ان جرائم کی پاداش ميں عسکری کاروائ تک کر ڈالی۔ یقينی طور پر کم ازکم وہ ان الزامات کی نفی تو کرتے ليکن اس کے برعکس ان کی جانب سے ہميشہ اس واقعے کی تشہير ايک عظيم کاميابی کی حيثيت سے کی گئ۔

ميں نے يقينی طور پر 911 کے حوالے سے انٹرنيٹ پر موجود سازشی ويڈيوز اور ديگر بے شمار مواد ديکھ رکھا ہے جو عمومی طور پر غير مستند ماہرين اور يہاں تک کہ کچھ بوريت کا شکار شوقين مزاج افراد کی تخليق ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے جو دلائل اور "ثبوت" انتہائ جذباتی انداز ميں پيش کيے جاتے ہیں، ان کی بنياد ہی میں واضح تضاد موجود ہے۔ ايک طرف تو يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے اندر موجود کچھ عناصر 911 کے واقعات کے ذمہ دار تھے۔ اس تھيوری کو درست تسليم کرنے کا مطلب يہ ہے کہ يہ عناصر انتہائ طاقتور اور اثر ورسوخ کے حامل ہيں جن کے اختيارات کو چيلنج کرنا ممکن نہيں ہے۔ يہ عناصر اپنی عياری سے نہ صرف يہ کہ ہزاروں کی تعداد ميں موجود اس واقعے کے چشم دید گواہوں کو دھوکہ دينے ميں کامياب ہو گئے بلکہ کڑوروں کی تعداد ميں جن لوگوں نے دنيا کے کونے کونے ميں ٹی وی پر براہراست يہ مناظر ديکھے، وہ بھی اس چالبازی کو نہيں سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت کے اندر موجود يہ پراسرار عناصر ہزاروں کی تعداد ميں ماہرين اور درجنوں نجی تنظيموں اور اداروں کی تحقيقات کو بھی اپنے اثرورسوخ اور اختيارات کی بدولت دھوکہ دينے ميں کامياب ہو گئے۔ صرف يہی نہيں بلکہ القائدہ کی ليڈرشپ سميت ہزاروں کی تعداد ميں جو افراد اس عظيم سازش کا حصہ تھے، وہ بھی پچھلے 10 سالوں سے اس راز پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ يہاں تک کہ اسامہ بن لادن سميت القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قیادت اپنے قبيح جرائم کی وجہ سے ہلاک يا گرفتار ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود وہ 911 کے واقعے کو اپنے لیے ايک "تمغہ" سمجھ کر اس کی تشہير کرتے ہيں۔ يقينی طور پر اس قسم کے ردعمل کی توقع آپ کسی ايسے بے گناہ شخص سے نہيں کر سکتے جو کسی ايسے الزام ميں موت کی سزا کا سامنا کر رہا ہو جو اس سے سرزد ہی نا ہوا ہو، بجائے اس کے کہ وہ اس کو اپنی ايک عظيم کاميابی قرار دے کر اس کا پرچار کر رہا ہو۔

ميں يہ بھی تجويز کروں گا کہ جب آپ انتہائ پرجوش انداز ميں 911 کے حوالے سے معلومات کی پڑتال کرتے ہیں جو اپنی تلاش صرف اسی مواد تک موقوف نہ رکھيں جو آپ کے مخصوص نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔ انٹرنيٹ پر جانے مانے ماہرين اور سائنسی کميونٹيز سے منسوب ايسی مستند معلومات بھی موجود ہيں جن کے ذريعے سازشی ويڈيوز ميں اٹھائے جانے والے تمام سوالات کے جوابات اور الزامات کی نفی موجود ہے۔
ہمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی طرح اسامہ بھی ایک ایسا ہی ٹوپی ڈرامہ کردار ہو گا جس کو کفار نے اسلام کو بدنام کرنے اور بعد میں مسلمانوں کو تاتار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ پچھلے دس سالوں میں پتہ نہیں اس کی ہلاکت کی کون سی خبر سچی تھی ۔ یا شاید وہ ابھی تک وہائٹ ہاؤس کے کسی کونے میں لیٹا ہوا تعیش میں مگن ہے ۔ اور اہل اسلام کے خلاف سازشیں بُننے کا آلہ کار بن رہا ہے ۔ کفار صرف ایک غدار بنا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور بھولے بھالے مسلمان اس کو اپنا مسیحا سمجھ کر اس کی حمایت میں اپنی ذات تک کو بھول جاتے ہیں۔ اور اپنے بچے ان ظالموں کی عسکری تنظیموں میں ذبح ہونے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ جبکہ اس نوعیت کے تمام غدار مغربی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں اور ان کے اپنے بچے بھی مغرب کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ۔ اور دوسرے مسلمان عوام کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے حرام کی موت مرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اگر گیارہ ستمبر کا ڈرامہ اس طرح ہو تا جس طرح مشہور کیا گیا تو کیا
 
اگر گیارہ ستمبر کا ڈرامہ اس طرح ہو تا جس طرح مشہور کیا گیا تو کیا امیریکہ میں پینٹاگون کے ہمسائے میں ان نام نہاد جہادیوں کے ذرائع اس "ٹریڈ سنٹر" کی تباہی کے لیے زیادہ مؤثر تھے؟
کیا پینٹاگون خود بھی اُتنا ہی محفوظ ہے جتنا کہ "ٹریڈ سنٹر"؟
کیا سی آئی اے اور دیگر ہزاروں امیریکن جاسوسی ادارے سو رہے تھے؟
کیا ان نام نہاد جہادیوں کے پاس موجودہ سپر پاور امیریکہ سے جدید ٹیکنالوجی ہے؟
اور رہا یہ سوال کہ یہ جھوٹے جہادی خاموش کیوں رہتے ہیں ۔ یا اس "نیکی" کو اپنے کھاتے میں کیوں ڈالتے ہیں ۔ جب کہ وہ تو ان کے بوس (امیریکہ) کی کارستانی ہے ۔ تو وہ فکری غلام ہونے کے ساتھ ساتھ غدار ہونے کی وجہ سے بد ترین لوگ ہیں ۔ اور امیریکہ کے جھنڈے تلے منظم بھی ہیں۔ اور ان ایمان فروشوں کا ایک ہی خیال ہے کہ
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
جب خبر آتی ہے کہ فلاں ٹی وی چینل سے یا فلاں ویب سائٹ پر اِس طرح کی اُس طرح کی فلاں کی ، فلان کی آڈیو یا ویڈیو کیسٹ نشر ہوئی ہے اس میں یہ یہ کہا گیا ہے۔ اب یہ ہو گا ۔ اب وہ ہو جائے گا۔ تو کیا امیریکہ اس چینل یا اس ویب سائٹ تک رسائی کر پانے کی اہلیت نہیں رکھتا؟
سمجھ سے بالاتر بات ہے۔۔۔۔۔
ابھی پرسوں 30مئی 2012 کے روزنامہ پاکستان کے صفحہ اول پر ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ ایک نئی شخصیت کا سحر۔ ایک نیا دعویٰ۔ ایک نیا جھوٹ ۔ ایک نیا الزامات کا دور۔ امیریکہ یا دیگر کفار اگر دو چار غداروں کے ایمان خرید کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو دہشت گرد ظاہر کروانے کا کاروبار کرتا ہے تو یہ سودا اسے مہنگا تو نہیں؟
پھر کوئی نیا "عبداللہ ابن سبا" ، کوئی نیا "حسن بن صباح" ، کوئی نیا "ابن علقمی" ، کوئی نیا "میر صادق" ، کوئی نیا "میر جعفر" ، کوئی نیا "سر سید" ، کوئی نیا "ہمفر" ، کوئی نیا "ابن سعود" ، کوئی نیا "فیصل شریف مکہ لارنس کا گمراہ کردہ " کوئی نیا "سید احمد بریلوی شہید" ، کوئی نیا "سید اسماعیل دہلوی" کوئی نیا "لارنس آف عریبیہ" ، کوئی نیا "ابو الکلام آزاد" ، کوئی نیا "قادیانی" ، کوئی نیا "محمد علی باغ" ، کوئی نیا "گاندھی" ، کوئی نیا "مودودی" ، کوئی نیا "ذاکر نایک" ، بڑے نام نہاد مترجم ، مفسر ، اور پتا نہیں کیا کیا۔ غدار ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ۔
کیا جہاں سے مواد اپ لوڈ ہوتا ہے وہ جگہ تلاش کرنا امیریکہ کے لیے نا ممکن ہے؟
یا فنگر پرنٹس کی شناخت ناممکن؟
زمین پر پڑی سوئی کو دیکھ لینے والی ٹیکنالوجی کی اہلیت رکھنے کا دعویٰ کرنے کے بعد ان چھوٹے چھوٹے معاملات میں نااہلی چہ معنی دارد؟
آنکھوں دیکھے والی بات تو ایبٹ آباد اٹیک پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ کافی سارے لوگ اس کو بھی سچ کہتے ہیں​
اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوا جاتا ہے جو دشمن ہو​
ہر کوئی اپنے اپنے مخصوص نقطہ نظر سے ہی دیکھا کرتا ہے ۔ جیسے آپ جناب خود​
 

Fawad -

محفلین
ہمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی طرح اسامہ بھی ایک ایسا ہی ٹوپی ڈرامہ کردار ہو گا جس کو کفار نے اسلام کو بدنام کرنے اور بعد میں مسلمانوں کو تاتار کرنے کے لیے استعمال کیا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ميں آپکی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے نا صرف يہ کہ استعمال کيا گيا ہے بلکہ اس کی تضحيک بھی کی گئ ہے۔ ليکن ميں اس رائے سے متفق نہیں ہوں امريکہ نے اسلام کو دہشت گردی کے حوالے سے بحث ميں شامل کيا ہے۔ آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ القائدہ اور اس تنظيم سے منسلک مختلف گروہوں نے ہميشہ يہ غلط دعوی کيا ہے کہ ان کی کاروائياں اسلامی تعليمات کے عين مطابق ہيں۔

اس ضمن ميں آپ کی توجہ ايک ماہنامہ اردو رسالے کی جانب دلوانا چاہتا ہوں جسے دہشت گرد تنظيميں اپنے پيغام کی تشہير کے ليے استعمال کر رہی ہيں۔ اس ميں موجود مواد کا بغور جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ خود کريں کہ مذہب کو تشہير کے ليے کون استعمال کر رہا ہے۔

http://postimage.org/image/lp4b9p8g7/4bf41ad3/
ي
ہ رسالہ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے اپنی سوچ کی ترويج کے ليے استعمال کيے جانے والے تشہيری مواد پر مشتمل ہے۔ اس رسالہ پر سرسری نظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان تنظيموں کی تمام تر اشتہاری مہم اور جدوجہد کا مرکز نا صرف يہ کہ امريکہ سے نفرت کو فروغ دے کر مذہب کی آڑ ميں جذبات کو بھڑکانہ ہے بلکہ مسلمانوں سميت ہر اس فرد اور ادارے کو ہدف بنانا ہے جو ان کی مکروہ سوچ سے اختلاف کرے۔ يہ دہشت گرد ہی ہيں جو جانتے بوجھتے ہوئے دہشت گردی کے فروغ اور نفرت کو پھيلانے کے ليے مذہب کو ايک "حربے" کے طور پر استعمال کر رہے ہيں۔

امريکی حکومت اپنے اتحاديوں کے باہم تعاون اور کاوشوں سے اس دھوکے اور فريب کا پردہ چاک کر کے ان کا اصلی چہرہ سب پر واضح کرنے کی متمنی ہے، جو کہ ايک ايسے بے رحم قاتل اور مجرمانہ ذہنيت کو واضح کرتا ہے جو مذہبی نعروں کی آڑ ميں بے گناہ انسانوں کے قتل کی توجيہات پيش کرتا ہے۔

اس رسالہ کا سرورق کچھ اس قسم کا ہونا چاہيے۔

http://postimage.org/image/7irbmvbut/18a305e4/

ميں نے بارہا سرکاری دستاويزات اور ريکارڈ پر موجود بيانات کے ذريعے يہ واضح کيا ہے کہ ہم کسی مخصوص مذہب، ملک يا ثقافت کے خلاف ہرگز نہیں ہيں۔ ہماری مشترکہ جدوجہد اور لڑائ ان مجرموں کے خلاف ہے جو بغير کسی تفريق کے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ميں آپکی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے نا صرف يہ کہ استعمال کيا گيا ہے بلکہ اس کی تضحيک بھی کی گئ ہے۔ ليکن ميں اس رائے سے متفق نہیں ہوں امريکہ نے اسلام کو دہشت گردی کے حوالے سے بحث ميں شامل کيا ہے۔ آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ القائدہ اور اس تنظيم سے منسلک مختلف گروہوں نے ہميشہ يہ غلط دعوی کيا ہے کہ ان کی کاروائياں اسلامی تعليمات کے عين مطابق ہيں۔

اس ضمن ميں آپ کی توجہ ايک ماہنامہ اردو رسالے کی جانب دلوانا چاہتا ہوں جسے دہشت گرد تنظيميں اپنے پيغام کی تشہير کے ليے استعمال کر رہی ہيں۔ اس ميں موجود مواد کا بغور جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ خود کريں کہ مذہب کو تشہير کے ليے کون استعمال کر رہا ہے۔

http://postimage.org/image/lp4b9p8g7/4bf41ad3/
ي
ہ رسالہ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے اپنی سوچ کی ترويج کے ليے استعمال کيے جانے والے تشہيری مواد پر مشتمل ہے۔ اس رسالہ پر سرسری نظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان تنظيموں کی تمام تر اشتہاری مہم اور جدوجہد کا مرکز نا صرف يہ کہ امريکہ سے نفرت کو فروغ دے کر مذہب کی آڑ ميں جذبات کو بھڑکانہ ہے بلکہ مسلمانوں سميت ہر اس فرد اور ادارے کو ہدف بنانا ہے جو ان کی مکروہ سوچ سے اختلاف کرے۔ يہ دہشت گرد ہی ہيں جو جانتے بوجھتے ہوئے دہشت گردی کے فروغ اور نفرت کو پھيلانے کے ليے مذہب کو ايک "حربے" کے طور پر استعمال کر رہے ہيں۔

امريکی حکومت اپنے اتحاديوں کے باہم تعاون اور کاوشوں سے اس دھوکے اور فريب کا پردہ چاک کر کے ان کا اصلی چہرہ سب پر واضح کرنے کی متمنی ہے، جو کہ ايک ايسے بے رحم قاتل اور مجرمانہ ذہنيت کو واضح کرتا ہے جو مذہبی نعروں کی آڑ ميں بے گناہ انسانوں کے قتل کی توجيہات پيش کرتا ہے۔

اس رسالہ کا سرورق کچھ اس قسم کا ہونا چاہيے۔

http://postimage.org/image/7irbmvbut/18a305e4/

ميں نے بارہا سرکاری دستاويزات اور ريکارڈ پر موجود بيانات کے ذريعے يہ واضح کيا ہے کہ ہم کسی مخصوص مذہب، ملک يا ثقافت کے خلاف ہرگز نہیں ہيں۔ ہماری مشترکہ جدوجہد اور لڑائ ان مجرموں کے خلاف ہے جو بغير کسی تفريق کے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
اوں ہوں۔۔۔!
یہی تو میں کہتا ہوں کہ جن کو آپ "تنظیمیں کہہ رہے ہیں۔ وہ امیریکہ اور دیگر کفار کی ہی بنائی ہوئی ہیں۔ تا کہ ان کے ہاتھوں اس طرح کے پروپےگنڈہ کروا کر پھر مسلمانوں پر دھاوا بولا جا سکے۔ وہ القاعدہ کا لیبل ہو ، یا طالبان کا ، حزب التحریر کا یا کوئی بھی ہو۔ سب "میڈ ان امیریکہ" یا "میڈ ان کافرستان" ہیں
 

Fawad -

محفلین
اوں ہوں۔۔۔ !
یہی تو میں کہتا ہوں کہ جن کو آپ "تنظیمیں کہہ رہے ہیں۔ وہ امیریکہ اور دیگر کفار کی ہی بنائی ہوئی ہیں۔ تا کہ ان کے ہاتھوں اس طرح کے پروپےگنڈہ کروا کر پھر مسلمانوں پر دھاوا بولا جا سکے۔ وہ القاعدہ کا لیبل ہو ، یا طالبان کا ، حزب التحریر کا یا کوئی بھی ہو۔ سب "میڈ ان امیریکہ" یا "میڈ ان کافرستان" ہیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو بھی يہ سوچ رکھے کہ القائدہ کا محض فرضی ہوا کھڑا کيا گيا ہے اور حقيقت ميں اس حوالے سے کوئ خطرہ سرے سے موجود ہی نہيں ہے، اسے چاہيے کہ گزشتہ دو دہائيوں کے دوران دنيا بھر ميں اس تنظيم کی کاروائيوں اور ظلم اور بربريت پر مبنی شہ سرخيوں پر ايک نظر ڈالے جو اس تنظيم کی ايک لامتنائ خونی مہم کو اجاگر کرتی ہيں جس کے نتيجے ميں ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہری مارے گئے ہيں، جن ميں زيادہ تر مسلمان ہيں۔


يہ کہنا حقائق کے منافی اور ناقابل فہم ہے کہ دہشت گردی کا ايشو امريکہ کا تخليق کردہ اور ہماری تشہير کے نتيجے ميں دنيا کے سامنے لايا گيا ہے۔ اگر آپ دنيا بھر ميں دہشت گردی کا شکار ہونے والے بے گناہوں کے کوائف پرنظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کسی بھی سياسی اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر دہشت گردی تمام انسانيت کے ليے مشترکہ ايشو اور خطرہ ہے۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان سميت دنيا بھر ميں بے شمار اسلامی ممالک کی حکومتوں نے القائدہ اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہوں کے خلاف امريکی اور نيٹو افواج کی کاوشوں کو نا صرف يہ کہ تسليم کيا ہے بلکہ اس ضمن ميں مکمل حمايت اور سپورٹ بھی فراہم کی ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov


http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
يہ کہنا حقائق کے منافی اور ناقابل فہم ہے کہ دہشت گردی کا ايشو امريکہ کا تخليق کردہ اور ہماری تشہير کے نتيجے ميں دنيا کے سامنے لايا گيا ہے۔
کم از کم
طالبان کی تاریخ

دنیا جن کو آج طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام صرف مدرسہ کے معصوم طلباء نہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ، قاتل، ڈاکو وغیرہ شامل ہو چکے ہیں۔ طالبان کی تحریک کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات ہیں لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ اسامہ بن لادن اور طالبان دونوں کو امریکی سی آئی اے نے پاکستانی جاسوسی اداروں کی مدد سے تخلیق کیا۔[3]۔[4] اس وقت امریکی دانشوروں مثلاً سلگ ہیریسن نے امریکی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم ایک درندہ پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طلبا نہیں ہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔[5]۔ آج یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے طالبان پیدا کیے اور سی آئی اے نے صرف مدد کی مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹو (NATO) نے پاکستان سے بھی زیادہ براہ راست کردار ادا کیا یہاں تک کہ طالبان کے پہاڑوں میں خفیہ اڈے تک سی آئی اے نے براہ راست خود بنائے۔[6] 1994ء میں افغانستان میں طالبان کی شروعات ہوئی جس کے لیے پیسہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب نے فراہم کیا۔ درحقیقت پاکستان نے امریکہ کے لیے یہ کام کیا[7]
وکیپیڈیا سے حوالہ
 

Fawad -

محفلین
کم از کم
طالبان کی تاریخ

دنیا جن کو آج طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام صرف مدرسہ کے معصوم طلباء نہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ، قاتل، ڈاکو وغیرہ شامل ہو چکے ہیں۔ طالبان کی تحریک کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات ہیں لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ اسامہ بن لادن اور طالبان دونوں کو امریکی سی آئی اے نے پاکستانی جاسوسی اداروں کی مدد سے تخلیق کیا۔[3]۔[4] اس وقت امریکی دانشوروں مثلاً سلگ ہیریسن نے امریکی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم ایک درندہ پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طلبا نہیں ہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔[5]۔ آج یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے طالبان پیدا کیے اور سی آئی اے نے صرف مدد کی مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹو (NATO) نے پاکستان سے بھی زیادہ براہ راست کردار ادا کیا یہاں تک کہ طالبان کے پہاڑوں میں خفیہ اڈے تک سی آئی اے نے براہ راست خود بنائے۔[6] 1994ء میں افغانستان میں طالبان کی شروعات ہوئی جس کے لیے پیسہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب نے فراہم کیا۔ درحقیقت پاکستان نے امریکہ کے لیے یہ کام کیا[7]
وکیپیڈیا سے حوالہ


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


طالبان – کچھ تاريخی حقائق


چونکہ آپ نے افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد طالبان کی تحريک کے آغاز، اور اس دوران امريکی رول کے بارے ميں تجزيہ کيا ہے تو يہ ضروری ہے کہ قياس اور عمومی تاثر کی بجائے تاريخی حقائق کی روشنی ميں بحث کی جائے۔

ميں جو حقائق پيش کر رہا ہوں يہ کسی ادارے يا فرد کے تجزيے يا رپورٹ کی بنياد پر نہيں ہيں بلکہ امريکی حکومت کے سرکاری دستاويزات کی بنياد پر ہيں جو ميں فورمز پر پہلے بھی پيش کر چکا ہوں۔

يہ درست ہے کہ امريکہ اور افغان عوام نے روسی انخلاء کا خير مقدم کيا تھا۔ ليکن اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں ايک واضح سياسی خلا پيدا ہو گيا تھا۔ اس خلا کے نتيجے ميں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو اقوام متحدہ نے اپنے ايک خصوصی نمايندے محمود مستری کے ذريعے مختلف سياسی دھڑوں کے مابين سياسی مفاہمت کی کئ کوششيں کيں ليکن وہ ناکام ثابت ہوئيں۔ اس ضمن ميں عالمی برادری نے کابل ميں ربانی اور احمد شاہ مسعود سميت کئ گروپوں کے مابين امن معاہدے کی ناکام کاوششيں کيں۔ ان ناکام کوششوں کے بعد افغانستان ميں خانہ جنگی شدت اختيار کر گئ جس ميں ربانی اور مسعود کسی حد تک حکومتی رول نبھا رہے تھے ليکن افغان جہاد کے وار لارڈ جيسے کہ ازبک کمانڈر عبدل راشد دوستم، پاکستان کے تربيت يافتہ گلبدين حکمت يار اور اسماعيل خان اپنے اثر ورسوخ اور طاقت ميں کمی کرنے پر آمادہ نہيں ہوئے جس کے نتيجے ميں مسلئے کا پرامن حل ممکن نہيں رہا۔

اس صورت حال ميں بيرونی طاقتوں نے افغانستان ميں عدم تحفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سياسی اور دفاعی ايجنڈے کو فروغ دينا شروع کيا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے افغانستان کو بھارت کے خلاف دفاعی اصطلاح ميں "اسٹريٹيجک ڈيپتھ" کے طور پر استعمال کرنے کا فيصلہ کيا۔

ابتدا ميں پاکستان نے پختون کمانڈر گلبدين حکمت يار کو سپورٹ کيا جو افغان جہاد ميں اپنے کردار کی وجہ سے افغنستان کے سياسی منظر نامے پر اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ جب حکمت يار پاکستان کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ميں ناکام رہے تو حکومت پاکستان نے مذہبی طالب علموں کی ايک نئ تحريک کو سپورٹ کرنے کا فيصلہ کيا جو کہ طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ واقعات کا يہ تسلسل ان سرکاری دستاويزات سے ثابت ہے جو ميں يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔

نومبر 1994 کی يہ دستاويز اس واقعے کے ايک ماہ بعد کی ہے جب افغان پاکستان بارڈر پر طالبان نے سپن بولڈيک کی پوسٹ پر قبضہ کيا۔ اس کاروائ ميں طالبان کی براہراست مدد پاکستان کی فرنٹير کور نے کی تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173492&da=y

(اس دستاويز ميں يہ واضح ہے کہ طالبان کی براہراست سپورٹ پاکستان سے کی گئ جس ميں سب سے نماياں کردار جرنل بابر کا تھا۔)

اس دستاويز سے يہ بھی واضح ہے کہ اس کاميابی کے بعد طالبان کے اثرورسوخ ميں اضافہ ہو گيا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اسلحے کی سپلائ ميں بھی بتدريج اضافہ ہوتا گيا۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ کا فيصلہ صرف اس ليے نہيں تھا کہ افغانستان کی سڑکوں کو محفوظ بنا کرٹرانس افغان گيس پائپ لائن کو ممکن بنايا جا سکے بلکہ پاکستانی قيادت کے نزديک طالبان افغانستان کے اندر اپنے اثر ورسوخ اور طاقت کے ذريعے پاکستانی کو حکمت عملی کے حوالے سے وہ فوجی برتری دلا سکتے ہيں جو وہ بھارت کے مقابلے ميں استعمال کر سکتے ہیں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173496&da=y

(يہ دستاويز اس مراسلے کی ہے جو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے افغان ڈيسک کو بيجھی گئ تھی جس ميں حکومت پاکستان اور آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی قندھار کے قبضے کے ضمن ميں براہ راست مداخلت پر تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ اس مراسلے کے آخر ميں ہاتھ سے لکھا ہوا يہ جملہ بھی موجود ہے کہ "اج صبح جرنل بابر طالبان آپريشن کی کمانڈ کر رہے تھے")

تاريخی دستاويزات سے يہ واضح ہے کہ پاکستانی افسران کو اس بات کا احساس ہو گيا کہ طالبان پر نہ صرف يہ کنٹرول رکھنا ممکن نہيں ہے بلکہ وہ قابل اعتبار بھی نہيں ہيں۔

کچھ موقعوں پر طالبان امن کے قيام کی ضرورت کا اظہار کرتے، اقوام متحدہ سے تعاون کی يقين دہانی کرواتے اور افغانستان کے مسائل کے حل کے ليے طاقت کی بجائے پرامن طريقوں کی حمايت بھی کرتے ليکن پھر اپنا يہ نقطہ نظر بھی بيان کر ديتے کہ "جو بھی ہمارے راستے ميں آئے گا اسے ختم کر ديا جائے گا"۔

سرکاری دستاويزات سے يہ بھی واضح ہے کہ امريکہ نے افغانستان کے پرامن سياسی حل کے ليے ہر ممکن کوشش کی صرف اس ليے نہيں کہ امريکہ ٹی – اے – پی سے منسلک کاروباری فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا بلکہ ديگر اہم ايشوز جيسے کہ انسانی حقوق، منشيات کا خاتمہ اور دہشت گردی بھی اس کے ايجنڈے کا حصہ تھے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173493&da=y

(اس دستاويز ميں امريکی سفير کی سويت خارجہ سفير سے ملاقات کا ذکر موجود ہے جس ميں امريکہ کی جانب سے افغنستان کے مسلئے کے حل کيے ليے ہر ممکن کوشش کا يقين دلايا گيا تھا)۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173494&da=y

(اس دستاويز سے يہ پتا چلتا ہے کہ کابل ميں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان ميں امريکی قونصل خانے کو ہدايت کی گئ تھی کہ طالبان کے بارے ميں نہ صرف يہ کہ ضروری معلومات حاصل کی جائيں بلکہ اس تنظيم سے رابطہ کرنے کا انتظام بھی کيا جائے۔ اس دستاويز سے يہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امريکہ اس وقت بھی اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا)

کئ مواقع پر امريکہ نے طالبان سے منشيات، خواتين کے حقوق اور اسامہ بن لادن کو اپنی دہشت گردی کی کاروائيوں کے لیے محفوظ مقام فراہم کرنے کے ضمن ميں اپنے خدشات سے آگاہ کيا۔

يہ تھيوری کہ سی – آئ – اے طالبان کی امداد ميں براہ راست ملوث تھی، ان دستاويزات سے غلط ثابت ہو جاتی ہے کيونکہ يہ واضح ہے کہ امريکہ کو ہر سطح پر طالبان سے بات چيت ميں شديد مشکلات درپيش تھيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173495&da=y

يہ حقيقت جلد ہی واضح ہو گئ کہ طالبان کی حکومت افغانستان اور عالمی سلامتی کے ليے ايک اچھا شگون نہيں تھا۔ منشيات کو غير اسلامی قرار دينے کے باوجود اس ضمن ميں ان کی عملی پاليسی اور القائدہ سميت بے شمار دہشت گردوں کو اپنے اڈے بنانے کی اجازت اس حقيقت کو واضح کر رہے تھے۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے فروری 1996 ميں پاکستان کے وزير خارجہ آصف علی سے اپنی ملاقات ميں طالبان کے حوالے سے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے افغانستان ميں طالبان کی سپورٹ کو مقبوضہ کشمير ميں عسکری گروپوں کو دی جانے والی سپورٹ سے تشبيہہ دی۔ ۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے کہا تھا کہ اگرچہ يہ سپورٹ پاکستان نے اپنے وسيع تر قومی مفاد ميں دی ہے ليکن اس اسپورٹ کے پاکستان اور خطے کے لیے ايسے نتائج بھی نکل سکتے ہيں جس کی نہ تو پاکستان توقع کر رہا ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔


امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے جن غير متوقع نتائج کا ذکر کيا تھا وہ 11 ستمبر 2001 کو سب پر واضح ہو گئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

محمد امین

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ درست ہے کہ بہت سی سازشی کہانياں اور ويڈيوز امريکی شہريوں کی ہی جانب سے منظر عام پر آتی ہيں۔ ميرا نقطہ يہ ہے کہ جب کچھ دوست ان کا تذکرہ کرتے ہيں تو پھر اس سوچ کو مکمل طور پر قبول کرنے کی بجائے محض اپنی مرضی کے مواد کو استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب 911 کے حوالے سے فورمز پر ويڈيوز کا تذکرہ کيا جاتا ہے تو صرف ان ويڈيوز کا ريفرنس ديا جاتا ہے جن ميں امريکی حکومت يا کسی يہودی گروپ کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دينے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ايسی بھی ويڈيوز موجود ہيں جن کے مطابق 911 کا واقعہ کسی غير مرئ مخلوق کی کارستانی يا ايک اجتماعی عبادت کی عکاسی کرتا ہے۔ کيا وجہ ہے کہ صرف انھی ويڈيوز کا چناؤ کيا جاتا ہے جو پاکستان ميں موجود ايک مخصوص سياسی طرز فکر کی ترجمانی کرتی ہيں جن کے مطابق دنيا ميں تمام تر برائ کا ذمہ دار امريکہ ہے۔

ايک اور نقطہ جسے لوگ بآسانی پس پش ڈال ديتے ہيں وہ يہ ہے کہ سازشی ويڈيوز ميں عام طور پر جو ايشوز اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کے جوابات ماہرين اور کئ نجی اداروں سے منسلک افراد کی تحقيق کی روشنی ميں مختلف رائے عامہ کے مختلف فورمز پر ديے جاتے ہيں۔ وہ بھی امريکی شہری ہوتے ہيں۔ کيا وجہ ہے کہ کچھ افراد انتہائ جذباتی انداز ميں کسی موضوع کے صرف ايک پہلو پر ہی بحث مرکوز رکھتے ہيں ليکن انھی ميڈيمژ پر موجود جوابات کے حصول کے ليے کوئ کوشش کرنا ضروری نہيں سمجھتے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall


اماں جاؤ۔۔۔۔ گورے امریکی اپنی حکومت کو ہر جگہ ٹانگ اڑانے پر گالیوں سے نوازتے اور ٹیکس پئیرز کی رقم دنیا میں جھونکنے پر برا بھلا کہتے ہیں۔۔۔تم جعلی امریکی ہو کر بھی امریکہ کا دفاع کرنے میں سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہو۔ امریکہ ہی تو ذمے دار ہے ساری دنیا کی بدامنی کا۔۔۔ اور نہیں تو کیا جنت کا فرشتہ ہے امریکہ؟؟؟؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اسامہ بن لادن نے نہ صرف امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا بلکہ وہ پوری انسانيت کے لیے بھی خطرہ تھا۔ وہ 911 کے واقعے ميں ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل ميں ملوث تھا۔ دنيا بھر ميں ان کی دہشت گردی کی مہم کے دوران بے شمار بے گناہ مارے گئے جن ميں ہر قوميت اور اسلام سميت کئ مذاہب کے عورتيں، مرد اور بچے شامل تھے۔ وہ مستقبل ميں بھی امريکہ اور پاکستان سميت دنيا بھر ميں مزيد ہلاکتوں کے لیے پرعزم تھا۔

وفاداری، دوستی اور عام انسانوں کے حالت زندگی ميں بہتری لانے کی خواہش ايسی خصوصيات نہيں ہيں جن کی بنا پر انھيں تاريخ ميں ياد رکھا جائے گا۔ وہ عالم انسانيت کا دوست نہيں تھا اور خاص طور پر امريکہ کا تو بالکل بھی نہيں کيونکہ ان کی زندگی کے آخری 20 برس صرف اس بات پر صرف ہوئے کہ اپنے پيروکاروں کو دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جائے۔

اس ميں کوئ شک نہيں اسامہ بن لادن مر چکا ہے۔ القائدہ کے ممبران کو بھی اس ميں شک نہيں ہے کہ وہ واقعی مر چکا ہے۔ طالبان اور القائدہ کے متعدد قائدين اور خود اسامہ بن لادن کے اپنے خاندان کے کچھ افراد جنھوں نے اس سارے آپريشن کو اپنی آنکھوں سے ديکھا ان کے بيانات انتہائ شکی مزاج کے انسان کے ليے بھی کافی ثبوت ہے کہ بن لادن واقعی ہلاک ہو چکے ہیں

اصليت يہی ہے کہ اسامہ بن لادن اب کبھی بھی بے گناہ انسانوں کے قتل کے احکامات جاری نہيں کر سکيں گے۔ ان کے اپنے حمايتی اورساتھيوں نے بھی اس سچ کو تسليم کر ليا ہے اور اپنے بيانوں سے اس کی تصديق بھی کر دی ہے کہ وہ امريکی ہی تھے جن کے آپريشن کے نتيجے ميں اسامہ بن لادن کا خاتمہ ہوا۔ يہ امر اس حقيقت کو ثابت کرنے کے ليے کافی ہے کہ باقی دنيا کی طرح ہمارے مفادات اور ہمارے شہريوں کی حفاظت کا يہی تقاضا تھا کہ دہشت گردی کے اس محرک کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

اگر آپ کے غلط اور بے بنياد تاثر کے مطابق اسامہ بن لادن امريکہ کا دوست ہوتا تو يقينی طور پر اس کی موت امريکی کاوشوں اور آپريشن کے نتيجے ميں نا ہوتی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall


/

بھائی جب چاہے اسامہ کو مار دو، جب چاہے حسنی مبارک کو صدر لگوا دو اور پھر اس کے خلاف مہم چلوادو۔۔۔ چو چاہے تمہارا حسنِ خرابی ساز کرے۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
اماں جاؤ۔۔۔ ۔ گورے امریکی اپنی حکومت کو ہر جگہ ٹانگ اڑانے پر گالیوں سے نوازتے اور ٹیکس پئیرز کی رقم دنیا میں جھونکنے پر برا بھلا کہتے ہیں۔۔۔ تم جعلی امریکی ہو کر بھی امریکہ کا دفاع کرنے میں سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہو۔ امریکہ ہی تو ذمے دار ہے ساری دنیا کی بدامنی کا۔۔۔ اور نہیں تو کیا جنت کا فرشتہ ہے امریکہ؟؟؟؟



بھائی جب چاہے اسامہ کو مار دو، جب چاہے حسنی مبارک کو صدر لگوا دو اور پھر اس کے خلاف مہم چلوادو۔۔۔ چو چاہے تمہارا حسنِ خرابی ساز کرے۔۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ بات قابل غور ہے کہ گزشتہ برس اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے قبل انھی فورمز پر اکثر رائے دہندگان اس دليل کی بنياد پر کہانياں تخليق کرتے تھے کہ تکنيکی وسائل سے مالا مال دنيا کے اتنے بڑے ملک کے ليے صرف ايک شخص تک رسائ حاصل کرنا کيونکر درد سر بنا ہوا ہے۔ اسی دليل کی بنياد پر يہ تاثر عام کيا جاتا تھا کہ ايسا صرف اسی صورت ميں ممکن ہے کہ اسامہ بن لادن دراصل سی آئ اے کے ليے ہی کام کر رہے تھے۔ اردو فورمز پر ميری کئ پوسٹنگز موجود ہيں جن ميں انھی کہانيوں کے حوالے سے ميری وضاحت ريکارڈ پر موجود ہے۔

اب جبکہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کيا جا چکا ہے اور ان کی حمايتيوں سميت القائدہ کی باقی رہ جانے والی قيادت نے بھی ان کی موت کی حقيقت کو تسليم کر ليا ہے تو دليل اور نظريہ يہ ہے کہ انھيں تو کئ برس پہلے ہی ہلاک کيا جا چکا تھا اور امريکہ اس موقع پر ان کی ہلاکت کی خبر کو سامنے لا کر واقعات کے نئے تسلسل کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر آپ کو ياد ہو تو سال 2008 ميں امريکی انتخابات سے قبل فورمز پر يہ بات اکثر کہی گئ کہ اسامہ بن لادن کی موت کی خبر کو عين انتخابات سے قبل سامنے لا کر اليکشنز کے نتائج پر اثر انداز ہرنے کی کوشش کی جائے گي۔ سوال يہ ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کو سال 2006 ميں ہی ہلاک کیا جا چکا تھا تو پھر ان کی موت کی خبر کو اس وقت سامنے لا کر "استعمال" کيوں نہيں کيا گيا؟

اسی طرح فورمز پر اکثر امريکہ کے حوالے سے اس بنياد پر تنقيد کی جاتی رہی ہے کہ امريکہ اسلامی ممالک ميں کٹھ پتلی حکومتوں اور فوجی آمروں کو بر سراقتدار لانے کا ذمہ دار ہے۔ ماضی ميں ميری ايسی کئ پوسٹنگز موجود ہيں جن ميں امريکہ کی جانب سے حسنی مبارک کو اقتدار ميں رکھنے کے حوالے سے الزامات کا جواب ديا گيا ہے۔ اب جب کہ ان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر بھی الزام امريکہ پر ہی ہے کہ ہم ہی اس کے ذمہ دار ہيں۔

شايد مصر ميں ہزاروں کی تعدار ميں عام شہريوں کا سڑکوں پر نکلنا اور کئ ماہ تک اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا اور ديگر اسلامی ممالک ميں بھی جاری اسی قسم کی تحريکوں کی آپ کے نزديک کوئ وقعت نہيں کيونکہ آپ کے نزديک تو يہ امريکی حکومت ہی ہے جو اپنے ان ديکھے ايجنڈوں کے ذريعے مسلم ممالک ميں حکومتوں اور آمروں کو تبديل کر ہی ہے۔ وہی آمر جنھيں ماضی ميں امريکی کٹھ پتلياں قرار ديا جاتا رہا ہے۔ گويا امريکی اپنے ہی وسائل کے ذريعے اپنے ہی قيمتی اثاثوں کو ملياميٹ کرتا چلا جا رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی Fawad -,
نیٹ کی دنیا میں آباد اس عالمی گاؤں میں دو ہستیوں نے مجھے شدید متاثر کیا ۔
جو کبھی اپنی منطق اور اپنی اختیاری راہ سے کبھی بھولے سے بھی نہیں ہٹتے
اک توآپ ہیں
اور دوسرے میرے عزیز ترین دوست عزیز امینمحترم بھائی کسی دوسرے دھاگے میں بھی حصہ لیا کریں نا ۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ بات قابل غور ہے کہ گزشتہ برس اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے قبل انھی فورمز پر اکثر رائے دہندگان اس دليل کی بنياد پر کہانياں تخليق کرتے تھے کہ تکنيکی وسائل سے مالا مال دنيا کے اتنے بڑے ملک کے ليے صرف ايک شخص تک رسائ حاصل کرنا کيونکر درد سر بنا ہوا ہے۔ اسی دليل کی بنياد پر يہ تاثر عام کيا جاتا تھا کہ ايسا صرف اسی صورت ميں ممکن ہے کہ اسامہ بن لادن دراصل سی آئ اے کے ليے ہی کام کر رہے تھے۔ اردو فورمز پر ميری کئ پوسٹنگز موجود ہيں جن ميں انھی کہانيوں کے حوالے سے ميری وضاحت ريکارڈ پر موجود ہے۔

اب جبکہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کيا جا چکا ہے اور ان کی حمايتيوں سميت القائدہ کی باقی رہ جانے والی قيادت نے بھی ان کی موت کی حقيقت کو تسليم کر ليا ہے تو دليل اور نظريہ يہ ہے کہ انھيں تو کئ برس پہلے ہی ہلاک کيا جا چکا تھا اور امريکہ اس موقع پر ان کی ہلاکت کی خبر کو سامنے لا کر واقعات کے نئے تسلسل کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر آپ کو ياد ہو تو سال 2008 ميں امريکی انتخابات سے قبل فورمز پر يہ بات اکثر کہی گئ کہ اسامہ بن لادن کی موت کی خبر کو عين انتخابات سے قبل سامنے لا کر اليکشنز کے نتائج پر اثر انداز ہرنے کی کوشش کی جائے گي۔ سوال يہ ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کو سال 2006 ميں ہی ہلاک کیا جا چکا تھا تو پھر ان کی موت کی خبر کو اس وقت سامنے لا کر "استعمال" کيوں نہيں کيا گيا؟

اسی طرح فورمز پر اکثر امريکہ کے حوالے سے اس بنياد پر تنقيد کی جاتی رہی ہے کہ امريکہ اسلامی ممالک ميں کٹھ پتلی حکومتوں اور فوجی آمروں کو بر سراقتدار لانے کا ذمہ دار ہے۔ ماضی ميں ميری ايسی کئ پوسٹنگز موجود ہيں جن ميں امريکہ کی جانب سے حسنی مبارک کو اقتدار ميں رکھنے کے حوالے سے الزامات کا جواب ديا گيا ہے۔ اب جب کہ ان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر بھی الزام امريکہ پر ہی ہے کہ ہم ہی اس کے ذمہ دار ہيں۔

شايد مصر ميں ہزاروں کی تعدار ميں عام شہريوں کا سڑکوں پر نکلنا اور کئ ماہ تک اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا اور ديگر اسلامی ممالک ميں بھی جاری اسی قسم کی تحريکوں کی آپ کے نزديک کوئ وقعت نہيں کيونکہ آپ کے نزديک تو يہ امريکی حکومت ہی ہے جو اپنے ان ديکھے ايجنڈوں کے ذريعے مسلم ممالک ميں حکومتوں اور آمروں کو تبديل کر ہی ہے۔ وہی آمر جنھيں ماضی ميں امريکی کٹھ پتلياں قرار ديا جاتا رہا ہے۔ گويا امريکی اپنے ہی وسائل کے ذريعے اپنے ہی قيمتی اثاثوں کو ملياميٹ کرتا چلا جا رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall


میری جان۔۔۔ فورمز پر پروپگینڈا کرنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ تمہاری وفاداریاں امریکہ بہادر کے ساتھ ہیں اور ہماری وفاداریاں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہیں۔ تم لاکھ جتن کرلو، لاکھ صفائیاں اور جوابات دے لو، حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی۔ زبانِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے۔ اور مزید یہ کہ جو جس سے جتنی محبت دنیا میں رکھتا ہے اس کا حشر بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔ آخرت سے ڈرو، اللہ کو منہ بھی دکھانا ہے۔۔۔ یہ منہ دکھاؤ گے کہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی صفوں میں کھڑے تھے۔۔ مگر نہیں تمہارے لیے تو شاید یہ "امریکی مزدوری" ہی بہت ہے۔
 

Fawad -

محفلین
میری جان۔۔۔ فورمز پر پروپگینڈا کرنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ تمہاری وفاداریاں امریکہ بہادر کے ساتھ ہیں اور ہماری وفاداریاں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہیں۔ تم لاکھ جتن کرلو، لاکھ صفائیاں اور جوابات دے لو، حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی۔ زبانِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے۔ اور مزید یہ کہ جو جس سے جتنی محبت دنیا میں رکھتا ہے اس کا حشر بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔ آخرت سے ڈرو، اللہ کو منہ بھی دکھانا ہے۔۔۔ یہ منہ دکھاؤ گے کہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی صفوں میں کھڑے تھے۔۔ مگر نہیں تمہارے لیے تو شاید یہ "امریکی مزدوری" ہی بہت ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميرے ليے يہ بات حيران کن ہے کہ آپ مذہب کو بنياد بنا کر مجھے تنقيد کا نشانہ بنا رہے ہيں اور ميرے مذہبی عقائد پر سوال اٹھا رہے ہيں۔ ليکن آپ ان افراد اور گروہوں اور ان کے "کارناموں" کو يکسر نظرانداز کر رہے ہيں جو باقاعدہ مذہب کا نام لے کر بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہيں۔

آپ دہشت گردی کے عالمی مسلئے کو مسلمانوں اور غير مسلموں کے درميان جاری کسی مذہبی جنگ کا رنگ دے کر اسے غلط پيرائے ميں بيان کر رہے ہيں۔ اگر آپ کی يہ منطق درست ہوتی تو سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں سميت اسلامی دنيا کے بيشتر ممالک ہمارے ساتھ نہ کھڑے ہوتے اور تشدد اور عدم برداشت کی اس لہر کو روکنے کے ليے ہمارا ساتھ نہ دے رہے ہوتے جس نے نہ صرف يہ کہ اس خطے کو بلکہ دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہوا ہے۔ يہ دليل اس ليے بھی قابل قبول نہيں ہے کيونکہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ان درندوں کے جرائم کے سبب غير مسلموں کی بجائے مسلمانوں کا زيادہ نقصان ہوا ہے۔


آپ نے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کی بنياد پر مجھے غداری کا طعنہ ديا ہے اور ميرے مذہب پر سوال اٹھائے ہيں ليکن اگر ميری پوسٹنگز کا جائزہ ليں تو آپ يہ حقي‍ت جان ليں گے کہ ميرے اکثر پيغامات کی بنيادی اساس مذہب کے حوالے سے بالکل نہيں ہوتی۔ نا تو ميں غير مسلموں کے ليے حمايت حاصل کرنے کا متمنی ہوں اور نا ہی ميں اس بات ميں دلچسپی رکھتا ہوں کہ آپ امريکی حکومت کی تمام تر پاليسيوں سے اتفاق کريں۔ ليکن ميں دہشت گردی کے جس مشترکہ ايشو کو اجاگر کرتا ہوں وہ مذہبی وسياسی وابستگی اور جغرافيائ حدود سے قطع نظر تمام انسانيت کے ليے يکساں اہميت کا حامل ہے۔


اگر آپ دنيا بھر ميں مسلمانوں اور اسلام کے تشخص کے حوالے سے ايک فکر اور سوچ رکھتے ہيں تو پھر يہ لازم ہے کہ ان افراد کے اعمال کے خلاف اپنی آواز بلند کريں جو دانستہ اپنی متشدد کاروائيوں پر پردہ ڈالنے کے ليے مذہب کو استعمال کر رہے ہيں۔ يہ وہ لوگ ہيں جو تمام انسانيت کے خلاف مسلسل جرم کر رہے ہيں اور پھر اپنے آپ کو ايسے بے خوف جنگجو کی صورت ميں پيش کرتے ہيں جو دنيا بھر ميں مسلمانوں کی ناموس اور عظمت کے ليے باطل کے خلاف برسرپيکار ہيں۔


امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ايک مسلمان کی حيثيت سے کام کرتے ہوئے ميں سمجھتا ہوں کہ يہ ميری ذمہ داری ہے کہ ان افراد کی انسانی سوز کاروائيوں پر بات کروں جو ان مذہبی قدروں کو پامال کر رہے ہيں جو ميرے اور آپ کے ليے يکساں عزيز ہیں۔ يہ وہ لوگ ہيں جو اپنے خونی نظريات اور سوچ کی ترويج اور اپنے تسلط کو عام عوام پر بڑھانے کے ليے مذہب کو يرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہيں۔


اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے کہ دہشت گرد تنظيموں کے خلاف جاری عالمی کاوشوں کا دنيا ميں مسلمانوں اور غير مسلموں کے مابين موجود تفريق سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں نے تو بارہا يہ کہا ہے کہ ان کی لڑائ ہر اس فريق کے خلاف ہے جو ان کی جانب سے کی جانے والی مذہبی تشريح سے انحراف کرے اور اس ضمن ميں وہ مستند اسلامی اسکالرز، پاک فوج کے سپاہيوں اور يہاں تک کہ عام مسلمان شہريوں کو بھی خاطر ميں لانے کو تيار نہيں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

محمد امین

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميرے ليے يہ بات حيران کن ہے کہ آپ مذہب کو بنياد بنا کر مجھے تنقيد کا نشانہ بنا رہے ہيں اور ميرے مذہبی عقائد پر سوال اٹھا رہے ہيں۔ ليکن آپ ان افراد اور گروہوں اور ان کے "کارناموں" کو يکسر نظرانداز کر رہے ہيں جو باقاعدہ مذہب کا نام لے کر بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہيں۔

آپ دہشت گردی کے عالمی مسلئے کو مسلمانوں اور غير مسلموں کے درميان جاری کسی مذہبی جنگ کا رنگ دے کر اسے غلط پيرائے ميں بيان کر رہے ہيں۔ اگر آپ کی يہ منطق درست ہوتی تو سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں سميت اسلامی دنيا کے بيشتر ممالک ہمارے ساتھ نہ کھڑے ہوتے اور تشدد اور عدم برداشت کی اس لہر کو روکنے کے ليے ہمارا ساتھ نہ دے رہے ہوتے جس نے نہ صرف يہ کہ اس خطے کو بلکہ دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہوا ہے۔ يہ دليل اس ليے بھی قابل قبول نہيں ہے کيونکہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ان درندوں کے جرائم کے سبب غير مسلموں کی بجائے مسلمانوں کا زيادہ نقصان ہوا ہے۔


آپ نے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کی بنياد پر مجھے غداری کا طعنہ ديا ہے اور ميرے مذہب پر سوال اٹھائے ہيں ليکن اگر ميری پوسٹنگز کا جائزہ ليں تو آپ يہ حقي‍ت جان ليں گے کہ ميرے اکثر پيغامات کی بنيادی اساس مذہب کے حوالے سے بالکل نہيں ہوتی۔ نا تو ميں غير مسلموں کے ليے حمايت حاصل کرنے کا متمنی ہوں اور نا ہی ميں اس بات ميں دلچسپی رکھتا ہوں کہ آپ امريکی حکومت کی تمام تر پاليسيوں سے اتفاق کريں۔ ليکن ميں دہشت گردی کے جس مشترکہ ايشو کو اجاگر کرتا ہوں وہ مذہبی وسياسی وابستگی اور جغرافيائ حدود سے قطع نظر تمام انسانيت کے ليے يکساں اہميت کا حامل ہے۔


اگر آپ دنيا بھر ميں مسلمانوں اور اسلام کے تشخص کے حوالے سے ايک فکر اور سوچ رکھتے ہيں تو پھر يہ لازم ہے کہ ان افراد کے اعمال کے خلاف اپنی آواز بلند کريں جو دانستہ اپنی متشدد کاروائيوں پر پردہ ڈالنے کے ليے مذہب کو استعمال کر رہے ہيں۔ يہ وہ لوگ ہيں جو تمام انسانيت کے خلاف مسلسل جرم کر رہے ہيں اور پھر اپنے آپ کو ايسے بے خوف جنگجو کی صورت ميں پيش کرتے ہيں جو دنيا بھر ميں مسلمانوں کی ناموس اور عظمت کے ليے باطل کے خلاف برسرپيکار ہيں۔


امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ايک مسلمان کی حيثيت سے کام کرتے ہوئے ميں سمجھتا ہوں کہ يہ ميری ذمہ داری ہے کہ ان افراد کی انسانی سوز کاروائيوں پر بات کروں جو ان مذہبی قدروں کو پامال کر رہے ہيں جو ميرے اور آپ کے ليے يکساں عزيز ہیں۔ يہ وہ لوگ ہيں جو اپنے خونی نظريات اور سوچ کی ترويج اور اپنے تسلط کو عام عوام پر بڑھانے کے ليے مذہب کو يرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہيں۔


اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے کہ دہشت گرد تنظيموں کے خلاف جاری عالمی کاوشوں کا دنيا ميں مسلمانوں اور غير مسلموں کے مابين موجود تفريق سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں نے تو بارہا يہ کہا ہے کہ ان کی لڑائ ہر اس فريق کے خلاف ہے جو ان کی جانب سے کی جانے والی مذہبی تشريح سے انحراف کرے اور اس ضمن ميں وہ مستند اسلامی اسکالرز، پاک فوج کے سپاہيوں اور يہاں تک کہ عام مسلمان شہريوں کو بھی خاطر ميں لانے کو تيار نہيں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

1- آپ کے مذہبی عقائد پر چوٹ تو پڑے گی، اور یہ فطری ہے جناب۔ امریکہ سمیت تمام مغربی دنیا ایک عرصے تک خود مذہب کے زیرِ اثر رہی ہے۔ تو تمام افعال کو مذہب کی بنیاد پر پرکھا جانا کوئی انوکھی اور حیرت کی بات نہیں ہے۔

سعودی عرب، پاکستان اور دیگر ممالک تو امریکا کے ساتھ بوجوہ کھڑے ہیں نا۔۔ کہ یہ لوگ تو ہیں ہی استعمار کے غلام۔ سعودی وہابی ہمیشہ سے برطانوی سامراج کے غلام رہے، اب جب کہ امریکا کے پاس خلافت ہے تو ان کا قبلہ وہاں منتقل ہوگیا ہے۔

اگر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مذہبی نہیں ہے تو پھر غیر مسلم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی مثال دیجیے؟؟؟ ہاں ہوگی کوئی، مگر فی الواقع کوئی مثال؟ خود تمہارے فوجی اور سیکیورٹی ٹھیکیدار دنیا بھر میں کیا بدمعاشیاں پھیلا رہے ہیں؟ اخلاقی طور پر تو خود امریکہ حد سے زیادہ گرا ہوا معاشرہ ہے تو دنیا کا ٹھیکہ کیوں لے رکھا ہے؟ نائن الیون کے واقعے کا ذمے دار مسلمان ہیں تو پہلے جو سوالات اس واقعے پر اٹھائے گئے ہیں وہ تو صاف کیجیے۔۔۔ تمہارے اپنے لوگوں نے، ایم آئی ٹی کے پروفیسر تک نے اس پر "کونسپریسی تھیوری" پیش کر رکھی ہے۔ سارے یہودی کیوں غائب تھے اس دن؟؟

دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں کوئی قدرِ مشترک ہو نہ ہو، دہشت گردی کرنے والوں میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ امریکہ کا ان پر ہاتھ ضرور رہا ہے۔ (اب کوئی دستاویز دکھا دیں گے آپ اس بات کی مخالفت میں، جو کہ میں نہیں مانوں گا۔۔۔۔!"

اور مذہب سے ہٹ کر تو انسان بات کر ہی نہیں سکتا، اگر کرے بھی تو وہ اپنا منطقی جواز نہیں رکھتی۔ کیوں کہ دنیا کی اساس مذہبی ہے۔ دنیا سیکیولر نہیں رہی کبھی بھی۔ مذہب کے پیروکار ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں کوئی مذہب مضبوط اور اپنے پیروکاروں کے دلوں میں جڑا ہوا ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ تو آپ ہم سے مذہب سے ہٹ کر بات نہ کریں، بہتر ہوگا۔

سوال تو یہ ہے کہ دہشت گردی کیوں موجود ہے؟ دہشت گردی کی بنیاد کو کیوں نہیں اڈریس کرتے؟ افغانستان، عراق، فلسطین، شام وغیرہ کو پچھلی کئی دہائیوں سے استعمار نے نشانہ بنا رکھا ہے۔ یہاں پھوٹ ڈلوا کر پھر مصلح بن کر ٹپک پڑے۔

مگر نہیں۔۔۔۔۔ہم تو کونسپریسی تھیورسٹ ہیں اور امریکہ فرشتوں پر مشتمل معاشرہ ہے۔
 
Top