حسان خان
لائبریرین
بانیِ جمہوریۂ آذربائجان محمد امین رسولزادہ اپنے مقالے 'ایران تۆرکلری: ۵' (تُرکانِ ایران: ۵) میں، جو اوّلاً عثمانی سلطنت کے مجلّے 'تۆرک یوردو' (تُرک وطن) میں ۱۳۲۸ھ/۱۹۱۲ء میں شائع ہوا تھا، لکھتے ہیں:
"ایراندا یازېلې تۆرک ادبیاتې باشلېجا ایکی شکلده تجلّی ائتمیشدیر: مرثیه، مُضحِکه. آذربایجان تۆرک شاعرلری یا کؤر اۏلونجایا قدر آغلار و آغلادېرلار و یاخود بایېلېنجایا قدر گۆلر و گۆلدۆرۆرلر. ایران تۆرکلرینین دیندار، حتّیٰ مُتعصِّب اۏلدوقلارېنې ذکر ائتمیشیک. بو دیندار خلق، سنهنین قسمِ مُهِمینی، خُصوصییله مُحرّمین ایلک گۆنلرینی نوحه و ماتملر ایچهریسینده گئچیریر. هر سنه بیر وظیفهٔ دیندارانه اۏلماق اۆزهره شُهَدا، اولیا شرفینه و کربلا فاجعهسې مغدورلارې یادېنا غرّا مجلسلری قورارلار. بو مجلسلرین نوحه-گرلیڲینی تۆرک شُعَراسې ایفا ائدرلر؛ و بونونچۆن دیوانلار دۏلوسو مرثیه یازارلار. بو مرثیهلری اهالی ازبرلر، اۏقور، آغلار و شاعرلرینه رحمت گؤندریر. مرثیه ادبیاتې فارسلاردا دا واردېر، فقط تۆرک مرثیهلری قدر مبذول دئڲیلدیر. مرثیه-نویسلرین ان مشهورو تبریزلی راجیدیر.
[راجی تبریزی کے مرثیے کے نمونے کو حذف کر دیا گیا ہے۔]
آذربایجان شُعَراسې هپسی مرثیه-نویسدیرلر. مشهورلارېندان بیری ده «دلسوز»دور."
ترجمہ:
"ایران میں تحریری تُرک ادبیات نے بُنیادی طور پر دو صورتوں میں تجلّی کی ہے: مرثیہ اور مُضحِکہ۔ آذربائجان کے تُرک شاعران یا تو کور (اندھے) ہو جانے کی حد تک روتے اور رُلاتے ہیں، یا پھر بے ہوش ہو جانے کی حد تک ہنستے اور ہنساتے ہیں۔ تُرکانِ ایران کے دین دار، حتیٰ مُتَعَصِّب ہونے کے بارے میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ یہ دیندار قوم، سال کے اہم حِصّے کو، خصوصاً مُحرّم کے اوّلین ایّام کو نوحوں اور ماتموں کے اندر گُذارتی ہے۔ ہر سال ایک فریضۂ دیندارانہ کے طور پر شُہداء و اولیاء کے شرَف میں اور فاجعۂ کربلا کے مظلوموں کی یاد میں پُرشُکوہ مجالس برپا کرتے ہیں۔ اِن مجالس میں نوحہ گری تُرک شاعران کرتے ہیں؛ اور اِس کے لیے دواوین بھر دینے جتنے مرثیے لکھتے ہیں۔ اِن مرثیوں کو مردُم ازبر کرتے ہیں، خوانتے (پڑھتے) ہیں، گِریہ کرتے ہیں، اور اُن کے شاعروں پر رحمت بھیجتے ہیں۔ رِثائی ادبیات فارْسوں میں بھی موجود ہے، لیکن وہ تُرکی مرثیوں کی مانند فراواں نہیں ہیں۔ مرثیہ نویسوں میں سے مشہور ترین راجی تبریزی ہے۔
[راجی تبریزی کے مرثیے کے نمونے کو حذف کر دیا گیا ہے۔]
آذربائجان کے تمام شُعَراء مرثیہ نویس ہیں۔ اُن میں سے ایک مشہور شاعر 'دلسوز' بھی ہے۔"
لاطینی رسم الخط میں:
İran'da yazılı Türk edebiyyatı başlıca iki şekilde tecelli etmiştir: Mersiyye, mudhike. Azerbaycan Türk şairleri ya kör oluncaya kadar ağlar ve ağlatırlar ve yahud bayılıncaya kadar güler ve güldürürler. İran Türkleri'nin dindar, hatta muta'assıb olduklarını zikretmiştik. Bu dindar halk, senenin kısm-ı mühimini, hususiyle Muharrem'in ilk günlerini nevha ve matemler içerisinde geçirir. Her sene bir vazife-i dindarane olmak üzere şüheda, evliya şerefine ve Kerbela faci'ası mağdurları yadına garra meclisleri kurarlar. Bu meclislerin nevha-gerliğini Türk şuarası ifa ederler; ve bununçün divanlar dolusu mersiyye yazarlar. Bu mersiyyeleri ahali ezberler, okur, ağlar ve şairlerine rahmet gönderir. Mersiyye edebiyyatı Farslar'da da vardır, fakat Türk mersiyyeleri kadar mebzul değildir. Mersiyye-nüvislerin en meşhuru Tebrizli Raci'dir.
----------------
Azerbaycan şuarası hepsi mersiyye-nüvistirler. Meşhurlarından biri de "Dilsuz'dur."
"ایراندا یازېلې تۆرک ادبیاتې باشلېجا ایکی شکلده تجلّی ائتمیشدیر: مرثیه، مُضحِکه. آذربایجان تۆرک شاعرلری یا کؤر اۏلونجایا قدر آغلار و آغلادېرلار و یاخود بایېلېنجایا قدر گۆلر و گۆلدۆرۆرلر. ایران تۆرکلرینین دیندار، حتّیٰ مُتعصِّب اۏلدوقلارېنې ذکر ائتمیشیک. بو دیندار خلق، سنهنین قسمِ مُهِمینی، خُصوصییله مُحرّمین ایلک گۆنلرینی نوحه و ماتملر ایچهریسینده گئچیریر. هر سنه بیر وظیفهٔ دیندارانه اۏلماق اۆزهره شُهَدا، اولیا شرفینه و کربلا فاجعهسې مغدورلارې یادېنا غرّا مجلسلری قورارلار. بو مجلسلرین نوحه-گرلیڲینی تۆرک شُعَراسې ایفا ائدرلر؛ و بونونچۆن دیوانلار دۏلوسو مرثیه یازارلار. بو مرثیهلری اهالی ازبرلر، اۏقور، آغلار و شاعرلرینه رحمت گؤندریر. مرثیه ادبیاتې فارسلاردا دا واردېر، فقط تۆرک مرثیهلری قدر مبذول دئڲیلدیر. مرثیه-نویسلرین ان مشهورو تبریزلی راجیدیر.
[راجی تبریزی کے مرثیے کے نمونے کو حذف کر دیا گیا ہے۔]
آذربایجان شُعَراسې هپسی مرثیه-نویسدیرلر. مشهورلارېندان بیری ده «دلسوز»دور."
ترجمہ:
"ایران میں تحریری تُرک ادبیات نے بُنیادی طور پر دو صورتوں میں تجلّی کی ہے: مرثیہ اور مُضحِکہ۔ آذربائجان کے تُرک شاعران یا تو کور (اندھے) ہو جانے کی حد تک روتے اور رُلاتے ہیں، یا پھر بے ہوش ہو جانے کی حد تک ہنستے اور ہنساتے ہیں۔ تُرکانِ ایران کے دین دار، حتیٰ مُتَعَصِّب ہونے کے بارے میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ یہ دیندار قوم، سال کے اہم حِصّے کو، خصوصاً مُحرّم کے اوّلین ایّام کو نوحوں اور ماتموں کے اندر گُذارتی ہے۔ ہر سال ایک فریضۂ دیندارانہ کے طور پر شُہداء و اولیاء کے شرَف میں اور فاجعۂ کربلا کے مظلوموں کی یاد میں پُرشُکوہ مجالس برپا کرتے ہیں۔ اِن مجالس میں نوحہ گری تُرک شاعران کرتے ہیں؛ اور اِس کے لیے دواوین بھر دینے جتنے مرثیے لکھتے ہیں۔ اِن مرثیوں کو مردُم ازبر کرتے ہیں، خوانتے (پڑھتے) ہیں، گِریہ کرتے ہیں، اور اُن کے شاعروں پر رحمت بھیجتے ہیں۔ رِثائی ادبیات فارْسوں میں بھی موجود ہے، لیکن وہ تُرکی مرثیوں کی مانند فراواں نہیں ہیں۔ مرثیہ نویسوں میں سے مشہور ترین راجی تبریزی ہے۔
[راجی تبریزی کے مرثیے کے نمونے کو حذف کر دیا گیا ہے۔]
آذربائجان کے تمام شُعَراء مرثیہ نویس ہیں۔ اُن میں سے ایک مشہور شاعر 'دلسوز' بھی ہے۔"
لاطینی رسم الخط میں:
İran'da yazılı Türk edebiyyatı başlıca iki şekilde tecelli etmiştir: Mersiyye, mudhike. Azerbaycan Türk şairleri ya kör oluncaya kadar ağlar ve ağlatırlar ve yahud bayılıncaya kadar güler ve güldürürler. İran Türkleri'nin dindar, hatta muta'assıb olduklarını zikretmiştik. Bu dindar halk, senenin kısm-ı mühimini, hususiyle Muharrem'in ilk günlerini nevha ve matemler içerisinde geçirir. Her sene bir vazife-i dindarane olmak üzere şüheda, evliya şerefine ve Kerbela faci'ası mağdurları yadına garra meclisleri kurarlar. Bu meclislerin nevha-gerliğini Türk şuarası ifa ederler; ve bununçün divanlar dolusu mersiyye yazarlar. Bu mersiyyeleri ahali ezberler, okur, ağlar ve şairlerine rahmet gönderir. Mersiyye edebiyyatı Farslar'da da vardır, fakat Türk mersiyyeleri kadar mebzul değildir. Mersiyye-nüvislerin en meşhuru Tebrizli Raci'dir.
----------------
Azerbaycan şuarası hepsi mersiyye-nüvistirler. Meşhurlarından biri de "Dilsuz'dur."
آخری تدوین: