کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب سے کپتان کو سیلیکٹ کیا گیا ہے، سی پیک پر کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے؟ ایک ایسے شخص کو بھی ہیڈ بنایا گیا جس کی تمامتر دلچسپیاں امریکہ میں اپنے کاروبار میں تھیں!
شکریہ لاریجانی صاحب! وزیراعظم پاکستان کو اپنی اوقات یاد دلانے کا شکریہ!
بغض عمران میں اپنے ہی وطن سے دشمنی سمجھ سے باہر ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اگر ان کے محبوب قائد یا پارٹی حکومت میں نہیں تو ملک ہی سلامت نہ رہے۔ عجیب سوچ ہے۔
کل سے پٹواری دو خبریں شئیر کررہے ہیں:
1۔ چین نے سی پیک پراجیکٹ پاکستان سے لے کر ایران کو دے دیا ہے۔
2۔ چین نے کہا ہے کہ ایران بعض ممالک کی طرح ایک فون کال پر اپنا مؤقف نہیں بدل لیتا۔
سی پیک پراجیکٹ اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے اور آپ اس منصوبے کی ویب سائٹ پر جا کر تسلی کرسکتے ہیں۔ بلکہ چین نے تو سی پیک پر مزید آٹھ بلین ڈالرز کے انفراسٹرکچر اور انرجی پراجیکٹس لگانے پر غور شروع کردیا ہے۔
اور ہاں، سی پیک مخفف ہے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈر کا- سی پیک کا مطلب ہی چین اور پاکستان کے درمیان معاشی راہداری کا قیام ہے اور یہ راہداری چین کو صرف اور صرف پاکستان ہی فراہم کرسکتا ہے۔ ایران یا کوئی اور ملک اس راہداری سے منسلک ایکسٹینشنز تو لگا سکتے ہیں لیکن بحرہ عرب سے گوادر اور پھر وہاں سے چین تک کا تجارتی راستہ صرف اور صرف پاکستان ہی دے سکتا ہے۔ چنانچہ پہلی خبر تو مکمل جھوٹ ہے ۔ ۔ سی پیک کہیں نہیں جارہا۔
اب آجائیں دوسری خبر کی طرف۔
یہ بیان کہ
ایران بعض ممالک کی طرح اپنی پالیسی ایک فون کال پر تبدیل نہیں کرتا
یہ بات چین نے نہیں بلکہ ایرانی آفیشل نے اپنے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی تھی۔ ایرانی آفیشل نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا اشارہ کس ملک کی طرف تھا۔ پٹواریوں کے خیال میں ایران نے یہ بات پاکستان کیلئے کہی ہے جب 2001 میں امریکی وزیرخارجہ کے ایک فون کال پر مشرف نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرلی تھی۔
دوبارہ نوٹ فرما لیں کہ یہ بات چین نے نہیں کہی کیونکہ اگر اسے مشرف سے اتنا ہی شکوہ ہوتا تو وہ مشرف کے ساتھ 2005 میں گوادر پورٹ کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط نہ کرتا۔ پھر 2010 میں پاکستان کے ساتھ سی پیک کے خدوخال تیار نہ کرتا اور پھر 2015 میں باقاعدہ سی پیک پر کام نہ شروع کردیتا۔
اب آجائیں اس بات پر کہ ایران نے یہ بات کس کیلئے کہی۔
اس کیلئے آپ کو 90 کی دہائی میں جانا ہوگا جب ایران، پاکستان اور انڈیا نے گیس پائپ لائن منصوبے کا پلان بنایا۔
1995 میں تینوں ممالک نے اس منصوبے کے ابتدائی خدوخال پر اتفاق کیا۔
ایران نے 1995 میں پاکستان اور 1999 میں بھارت کے ساتھ پارلیمانی معاہدہ سائن کیا۔
پھر اگلے چند برس تک پلاننگ ہوتی رہی۔
2007 میں پاکستان نے ایران سے گیس کے نرخ ایگری کرلئے۔
2008 میں ایران نے چین کو اس منصوبے میں شمولیت کی دعوت دی۔
2009 میں انڈیا اس منصوبے سے یہ کہہ کر دستبردار ہوگیا کہ عالمی برادری بالخصوص امریکہ اس منصوبے کے حق میں نہیں۔
اس لئے پہلا امکان یہ ہے کہ ایرانی آفیشل کا اشارہ بھارت کی طرف تھا۔
آگے چلیں۔
2012 میں پاکستان اور ایران نے انڈیا کے بغیر ہی اس منصوبے کے آغاز کا اعلان کردیا۔
جنوری 2013 میں پاکستانی حکومت نے ایران کے ساتھ معاہدہ سائن کرلیا۔
پھر آیا جون 2013 میں نوازشریف کا دور -
نوازحکومت پر امریکہ نے وہی دباؤ ڈالا جو کہ اس سے قبل بھارت اور زرداری پر ڈالا تھا۔ نوازشریف امریکہ کے دباؤ میں آگیا اور اس نے اس منصوبے پر عملدرامد کی رفتار سلو کردی۔
پھر بالآخر 25 فروری 2014 کو پاکستان کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں اعلان کردیا کہ وہ ایران کے ساتھ یہ منصوبہ شروع نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت پر بہت دباؤ ہے۔ یوں وہ منصوبہ کہ جس پر پچھلے بیس برس سے کام ہورہا تھا، نوازشریف نے ایک امریکی کال پر ختم کردیا۔
پٹواریو!
اگر کسی نے امریکی کال پر گھٹنے ٹیکے تو وہ صرف مشرف ہی نہیں بلکہ نوازشریف بھی تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے بیان کا سکرین شاٹ لگا دیا ہے، اور لنک نیچے کمنٹس میں ڈال دوں گا۔
پٹواری ایک مرتبہ پھر مٹھائی قبل از وقت کھا کر ذلیل ہوگئے ہیں!
باباکوڈا
Sanctions on Iran holding back IP gas pipeline project: Abbasi | The Express Tribune