ایس ایم شاہ
محفلین
ایران صبر و استقامت کا استعارہ
تحریر: ایس ایم شاہ
ایران اس وقت استعماری طاقتوں کے مدمقابل استقامت کا استعارہ بن چکا ہے۔ آج 11فروری کو ملت ایران 2500سالہ شہنشائیت کے خاتمے اور انقلاب اسلامی کی بیالیسویں سالگرے کاجشن منا رہی ہیں۔ جونہی امام خمینیٖؒ کی قیادت میں ملت ایران نے ملوکیت سے نجات حاصل کر لی اور امریکہ اور اس کے حواریوں کو وہاں سے مار بھگایا تو اس وقت سے تمام مغربی طاقتیں اس انقلاب کو ختم کرنے کے لیے ہر فورم پر ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں لیکن الحمد للہ آج تک یہ انقلاب اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ باقی ہے اور استعماری طاقتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ در اصل امام خمینیؒ نے یہ درس حضرت علیؑ اور حضرت امام حسین ؑکے اس الہام بخش فرمان سے لیے ہیں: "لاتکن عبدغیرک و قد جعلک اللہ حُرّا"، "ھیھات منّا الذلۃُ"یعنی اللہ تعالیٰ نے تجھے آزاد خلق کیا ہے لہذا کبھی کسی کا غلام بن کر نہ رہنا۔ ذلت و رسوائی تو ہم سے کوسوں دور ہے" اس آزادی کی ایرانی قوم کو بہت بھاری قیمت چکانی پڑی اور اب بھی وہ لوگ یہ قیمت چکا رہے ہیں، بیالیس سالوں سے آئے روز ان پر اقتصادی پابندیوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا بچا ہو کہ جس پر اب تک پابندی عائد نہ ہوئی ہو۔ مغربی طاقتوں نے ہر ممکن کوشش کی تاکہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے اور ان کے سامنےسرتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا جاسکے، لیکن ان کو کہاں معلوم کہ اس انقلاب کی آبیاری ڈھائی لاکھ سے زیادہ شہداء کے خون کے ذریعے ہو رہی ہے۔ایرانی قوم نے اپنے روحانی پیشوا کی قیادت میں شروع دن سے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک اس ملت کا ایک فرد بھی باقی ہے تب تک یہ انقلاب اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ باقی رہے گا اور منجی عالم بشریت امام مہدی ؑ کے انقلاب سے متصل ہوگا، اگر شروع دن ہی ایرانی قوم ان استعماری طاقتوں اور نام نہاد سپر طاقتوں کی دھمکیوں اور پابندیوں سے مرعوب ہوکر اس انقلاب سے ہاتھ اٹھا لیتی تو آج دنیا میں ان کا کوئی نام لیوا نہ ہوتا۔ جبکہ اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہے۔یہاں ایک ایرانی مذہبی سکالر کا قول قابل ذکر ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اس انقلاب کے باعث عالمی طور پر آپ لوگوں نےمختلف صعوبتیں برداشت کیں اور آئے روز ان مشکلات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ آخر بین الاقوامی سطح پر آپ لوگوں نے ان تمام قربانیوں کے بعد کیا پایا ؟ انھوں نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں جواب دیا کہ اس انقلاب کی بدولت ہم پوری دنیا میں پہچانے گئے، آج کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ دنیا کے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں کسی نہ کسی حوالے سے ایران کا نام نہ آتا ہو۔ ورنہ دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے بھی ہیں کہ جن کے نام تک سے دنیا واقف نہیں جیسے 'مالٹا"؛کیونکہ ان کا کوئی موقف نہیں اور نا ہی ان کی کوئی ٹھوس آئیڈیالوجی ہے۔ایران اپنی ٹھوس آئیڈیالوجی پر اب بھی سختی سے کاربند ہے کہ ہر مظلوم کی ہم نے حمایت کرنا ہے اور ہر ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جہاں کہیں سے بھی کسی مظلوم کی فریاد بلند ہوتی ہے، خواہ یہ فلسطین کی مقدس سرزمین سے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی ہو یا ہندؤں کے ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم کشمیری مسلمانوں کی ہو یا عرصہ چھ سالوں سے آل سعود کے دردناک مظالم کا شکار نہتے مظلوم یمنی مسلمانوں کی دکھ بھری فریادیں ہوں، ہر فریاد پر ایران کی غیور قیادت اور عوام دونوں لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں 5فروری2021 کو ایران کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز قم میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ گزشتہ سال جونہی ہندو شدت پسند انڈین وزیر اعظم مودی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس پر اپنا مستقل قبضہ جمانے کا اعلان کیا گیا تو پاکستان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہی تھے کہ جنہوں نے اس ظالمانہ اور جابرانہ اقدام پر سخت لہجے میں انڈین حکومت کو متنبہ کیا اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں سے بھرپور اظہار یکجہتی کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی تائید کی جس پر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔جبکہ اس وقت خادمین حرمین شریفین نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا۔
ایسے وقت میں جب پوری دنیا نے ملت ایران سے رخ موڑ لیا اور پورا عالم کفر ان کے خلاف ایک ہوگیا تو وہاں کی روحانی قیادت نے نہ صرف ان کو مایوسی کے بھنور میں پھنسے سے بچا لیا بلکہ امید کی کرن ان کے دلوں میں روشن کرکے انہیں اپنے تابناک مستقبل کی نوید بھی سنا دیں۔ جب مغربی طاقتوں نے ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی غرض سے آئے روز پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا تو ان کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ان ظالمانہ پابندیوں کے رد عمل میں برملا اعلان کیا کہ ہمیں پابندیوں کے خلاف ویکسین لگائی گئی ہے، لہذا دشمن کی ان ظالمانہ پابندیوں کا اب ہم پر کوئی اثر مترتب نہیں ہوگا۔ یہ پابندیاں ہمارے فائدے میں جا رہی ہیں(کیونکہ ان پابندیوں کے سبب ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم ہوا ہے) لہذاہمیں امریکہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ یہ پابندیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ جونہی یہاں اسلامی انقلاب آیا تو اسی وقت سے ہی امریکہ اور یورپی ممالک نے اپنی طرف سے یک طرفہ پابندیاں لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔یہ لوگ اب مدت مدید تک ہمیں ان پابندیوں میں جھکڑے نہیں رکھ سکتے کیونکہ دنیا ان کو قبول نہیں کرتی۔ آج کی دنیا ایسی نہیں ہے کہ امریکہ کی باتوں پر کان دھرے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران کے غیور عوام نے ان پابندیوں سے مرعوب ہوکر بے بسی دکھانے کے بجائے ان پابندیوں کو بہترین فرصتوں میں تبدیل کر دیا۔ یوں ملت ایران نے صحت، تعلیم، اقتصاد، مواصلات، سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاع سمیت زندگی کے ہر اہم شعبے میں قابل ذکرپیشرفت کی ہے۔دفاعی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ان کے ناقابل تسخیر ہونے کا اعتراف اب یہی استعماری طاقتیں بھی کرتی ہیں۔جس کا بہترین مظاہرہ 2جنوری2020کو ایران کے القدس بریگیڈ کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے دیرینہ ساتھی اور عراق کے حشدالشعبی کے نائب سربراہ ابومہدی المہندس کے ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ظالمانہ حملے میں شہادت کے بعد 8جنوری کو ایران نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعےنام نہاد سپر طاقت امریکہ کے ریڈارسسٹم کو مکمل طور پر جام کرکے عراق میں موجود امریکہ کے سب سے بڑے بیس کیمپ عین الاسد اور ایربیل کو ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائل سے نشانہ بناکر ان کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یوں پوری دنیا پر اپنا رعب جمائے رکھنے اور اپنے آپ کو ناقابل تسخیر تصور کرنے والے امریکہ اور اس کے حواریوں کا غرور مکمل طور پر خاک میں مل گیا۔ حال ہی میں کرونا وائرس کے خاتمے کے لئے صحت کے شعبے میں ایران کی کارکردگی کی پوری دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ظالم استعماری طاقتوں کی جانب سے تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی ایران نے کرونا وائرس کے خلاف کامیابی کے ساتھ بہترین ویکسین بناکر انسانیت کے لیے بہترین خدمت کا موقع پاکر اپنا نام بھی دنیا کے سپر طاقتوں میں شامل کر دیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق برطانیہ سے پھیلنے والی کرونا کی نئی لہر کے لیے بھی یہ ویکسین بہت ہی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ایٹم بم بنانے کے حوالے سے حال ہی میں ایران کے انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مغرب کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے تنگ آکر ایران جوہری ہتھیار بھی بنا سکتا ہے۔بنابریں یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قومیں بہترین اور بابصیرت قائد کی قیادت میں اور صبر و استقامت، عزم و حوصلے، محنت و لگن اور جہدمسلسل کے ذریعے ہی سربلندی پاتی ہیں جس کی واضح مثال جمہوری اسلامی ایران ہے۔
اب ملت ایران اپنی بیالیسویں انقلاب اسلامی کی مناسبت سے نام نہاد استعماری طاقتوں کو یہی پیغام دیں گے:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا
ارادے جن کے پختے ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
تحریر: ایس ایم شاہ
ایران اس وقت استعماری طاقتوں کے مدمقابل استقامت کا استعارہ بن چکا ہے۔ آج 11فروری کو ملت ایران 2500سالہ شہنشائیت کے خاتمے اور انقلاب اسلامی کی بیالیسویں سالگرے کاجشن منا رہی ہیں۔ جونہی امام خمینیٖؒ کی قیادت میں ملت ایران نے ملوکیت سے نجات حاصل کر لی اور امریکہ اور اس کے حواریوں کو وہاں سے مار بھگایا تو اس وقت سے تمام مغربی طاقتیں اس انقلاب کو ختم کرنے کے لیے ہر فورم پر ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں لیکن الحمد للہ آج تک یہ انقلاب اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ باقی ہے اور استعماری طاقتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ در اصل امام خمینیؒ نے یہ درس حضرت علیؑ اور حضرت امام حسین ؑکے اس الہام بخش فرمان سے لیے ہیں: "لاتکن عبدغیرک و قد جعلک اللہ حُرّا"، "ھیھات منّا الذلۃُ"یعنی اللہ تعالیٰ نے تجھے آزاد خلق کیا ہے لہذا کبھی کسی کا غلام بن کر نہ رہنا۔ ذلت و رسوائی تو ہم سے کوسوں دور ہے" اس آزادی کی ایرانی قوم کو بہت بھاری قیمت چکانی پڑی اور اب بھی وہ لوگ یہ قیمت چکا رہے ہیں، بیالیس سالوں سے آئے روز ان پر اقتصادی پابندیوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا بچا ہو کہ جس پر اب تک پابندی عائد نہ ہوئی ہو۔ مغربی طاقتوں نے ہر ممکن کوشش کی تاکہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے اور ان کے سامنےسرتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا جاسکے، لیکن ان کو کہاں معلوم کہ اس انقلاب کی آبیاری ڈھائی لاکھ سے زیادہ شہداء کے خون کے ذریعے ہو رہی ہے۔ایرانی قوم نے اپنے روحانی پیشوا کی قیادت میں شروع دن سے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک اس ملت کا ایک فرد بھی باقی ہے تب تک یہ انقلاب اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ باقی رہے گا اور منجی عالم بشریت امام مہدی ؑ کے انقلاب سے متصل ہوگا، اگر شروع دن ہی ایرانی قوم ان استعماری طاقتوں اور نام نہاد سپر طاقتوں کی دھمکیوں اور پابندیوں سے مرعوب ہوکر اس انقلاب سے ہاتھ اٹھا لیتی تو آج دنیا میں ان کا کوئی نام لیوا نہ ہوتا۔ جبکہ اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہے۔یہاں ایک ایرانی مذہبی سکالر کا قول قابل ذکر ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اس انقلاب کے باعث عالمی طور پر آپ لوگوں نےمختلف صعوبتیں برداشت کیں اور آئے روز ان مشکلات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ آخر بین الاقوامی سطح پر آپ لوگوں نے ان تمام قربانیوں کے بعد کیا پایا ؟ انھوں نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں جواب دیا کہ اس انقلاب کی بدولت ہم پوری دنیا میں پہچانے گئے، آج کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ دنیا کے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں کسی نہ کسی حوالے سے ایران کا نام نہ آتا ہو۔ ورنہ دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے بھی ہیں کہ جن کے نام تک سے دنیا واقف نہیں جیسے 'مالٹا"؛کیونکہ ان کا کوئی موقف نہیں اور نا ہی ان کی کوئی ٹھوس آئیڈیالوجی ہے۔ایران اپنی ٹھوس آئیڈیالوجی پر اب بھی سختی سے کاربند ہے کہ ہر مظلوم کی ہم نے حمایت کرنا ہے اور ہر ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جہاں کہیں سے بھی کسی مظلوم کی فریاد بلند ہوتی ہے، خواہ یہ فلسطین کی مقدس سرزمین سے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی ہو یا ہندؤں کے ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم کشمیری مسلمانوں کی ہو یا عرصہ چھ سالوں سے آل سعود کے دردناک مظالم کا شکار نہتے مظلوم یمنی مسلمانوں کی دکھ بھری فریادیں ہوں، ہر فریاد پر ایران کی غیور قیادت اور عوام دونوں لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں 5فروری2021 کو ایران کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز قم میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ گزشتہ سال جونہی ہندو شدت پسند انڈین وزیر اعظم مودی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس پر اپنا مستقل قبضہ جمانے کا اعلان کیا گیا تو پاکستان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہی تھے کہ جنہوں نے اس ظالمانہ اور جابرانہ اقدام پر سخت لہجے میں انڈین حکومت کو متنبہ کیا اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں سے بھرپور اظہار یکجہتی کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی تائید کی جس پر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔جبکہ اس وقت خادمین حرمین شریفین نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا۔
ایسے وقت میں جب پوری دنیا نے ملت ایران سے رخ موڑ لیا اور پورا عالم کفر ان کے خلاف ایک ہوگیا تو وہاں کی روحانی قیادت نے نہ صرف ان کو مایوسی کے بھنور میں پھنسے سے بچا لیا بلکہ امید کی کرن ان کے دلوں میں روشن کرکے انہیں اپنے تابناک مستقبل کی نوید بھی سنا دیں۔ جب مغربی طاقتوں نے ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی غرض سے آئے روز پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا تو ان کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ان ظالمانہ پابندیوں کے رد عمل میں برملا اعلان کیا کہ ہمیں پابندیوں کے خلاف ویکسین لگائی گئی ہے، لہذا دشمن کی ان ظالمانہ پابندیوں کا اب ہم پر کوئی اثر مترتب نہیں ہوگا۔ یہ پابندیاں ہمارے فائدے میں جا رہی ہیں(کیونکہ ان پابندیوں کے سبب ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم ہوا ہے) لہذاہمیں امریکہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ یہ پابندیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ جونہی یہاں اسلامی انقلاب آیا تو اسی وقت سے ہی امریکہ اور یورپی ممالک نے اپنی طرف سے یک طرفہ پابندیاں لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔یہ لوگ اب مدت مدید تک ہمیں ان پابندیوں میں جھکڑے نہیں رکھ سکتے کیونکہ دنیا ان کو قبول نہیں کرتی۔ آج کی دنیا ایسی نہیں ہے کہ امریکہ کی باتوں پر کان دھرے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران کے غیور عوام نے ان پابندیوں سے مرعوب ہوکر بے بسی دکھانے کے بجائے ان پابندیوں کو بہترین فرصتوں میں تبدیل کر دیا۔ یوں ملت ایران نے صحت، تعلیم، اقتصاد، مواصلات، سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاع سمیت زندگی کے ہر اہم شعبے میں قابل ذکرپیشرفت کی ہے۔دفاعی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ان کے ناقابل تسخیر ہونے کا اعتراف اب یہی استعماری طاقتیں بھی کرتی ہیں۔جس کا بہترین مظاہرہ 2جنوری2020کو ایران کے القدس بریگیڈ کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے دیرینہ ساتھی اور عراق کے حشدالشعبی کے نائب سربراہ ابومہدی المہندس کے ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ظالمانہ حملے میں شہادت کے بعد 8جنوری کو ایران نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعےنام نہاد سپر طاقت امریکہ کے ریڈارسسٹم کو مکمل طور پر جام کرکے عراق میں موجود امریکہ کے سب سے بڑے بیس کیمپ عین الاسد اور ایربیل کو ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائل سے نشانہ بناکر ان کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یوں پوری دنیا پر اپنا رعب جمائے رکھنے اور اپنے آپ کو ناقابل تسخیر تصور کرنے والے امریکہ اور اس کے حواریوں کا غرور مکمل طور پر خاک میں مل گیا۔ حال ہی میں کرونا وائرس کے خاتمے کے لئے صحت کے شعبے میں ایران کی کارکردگی کی پوری دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ظالم استعماری طاقتوں کی جانب سے تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی ایران نے کرونا وائرس کے خلاف کامیابی کے ساتھ بہترین ویکسین بناکر انسانیت کے لیے بہترین خدمت کا موقع پاکر اپنا نام بھی دنیا کے سپر طاقتوں میں شامل کر دیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق برطانیہ سے پھیلنے والی کرونا کی نئی لہر کے لیے بھی یہ ویکسین بہت ہی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ایٹم بم بنانے کے حوالے سے حال ہی میں ایران کے انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مغرب کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے تنگ آکر ایران جوہری ہتھیار بھی بنا سکتا ہے۔بنابریں یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قومیں بہترین اور بابصیرت قائد کی قیادت میں اور صبر و استقامت، عزم و حوصلے، محنت و لگن اور جہدمسلسل کے ذریعے ہی سربلندی پاتی ہیں جس کی واضح مثال جمہوری اسلامی ایران ہے۔
اب ملت ایران اپنی بیالیسویں انقلاب اسلامی کی مناسبت سے نام نہاد استعماری طاقتوں کو یہی پیغام دیں گے:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا
ارادے جن کے پختے ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے