ایسا بھی تو ہو سکتا ہے-------- عاطف سعید

صائمہ شاہ

محفلین
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
خواب سجانے والی آنکھیں
پل بھرمیں بنجر ہو جائیں
رستہ تکتے تکتے تھک کر
امیدیں پتھر ہو جائیں
لب پر اگ آئے خاموشی
اور سینے میں حشر بپا ہو
لفظوں کی مالا کا دھاگہ
بیچ سے جیسے ٹوٹ گیا ہو
بھولی بسی ساری باتیں
میں بھی شاید یاد بنا لوں
بھول کے اپنے دکھڑے سارے
ہونٹوں پہ مسکان سجا لوں
تم ڈھونڈو پھر مجھ میں، مجھ کو
اور میں خود میں گم ہو جاؤں
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
میں بھی اک دن تم ہو جاؤں
 
Top