محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
ربط
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لفظ ’نوکِ زُباں‘ پر ہے لیکن یاد نہیں آتا؟ - BBC News اردو
محققین: راجر کروز اور رچرڈ رابرٹس
28 نومبر 2020
(یہ رپورٹ ایم آئی ٹی پریس ریڈر سے لی گئی ہے)
کیا آپ کو کبھی کسی کا نام یاد کرنے میں مشکل محسوس ہوئی ہے؟ شاید اُس وقت آپ کے ذہن میں اُس شخص کی تصویر بن رہی ہو اور اگر آپ کا کوئی دوست اُس کے نام کا کوئی اشارہ دے تو آپ فوراً ہی اس کا نام پہچان جائیں گے۔
یہ مسئلہ اگرچہ زیادہ تر ناموں کے یاد کرنے میں ہوتا ہے، تاہم کسی لفظ کے یاد کرنے کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو ایک تصور یاد کرنے میں دِقّت ہوتی ہے بلکہ آپ کے ذہن میں اس کا مناسب لفظ یاد نہیں آ رہا ہوتا۔
الفاظ تلاش کرنے میں مسائل عام سے معاملات ہیں جو ادھیڑ عمر یا بڑی عمر کے لوگوں میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس طرح صحیح نام یا لفظ یاد کرنے میں ناکامی بسا اوقات ان ناموں یا اشیاء کے بارے میں بھی ہوتی ہو جن سے ہم عموماً بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا ہے کہ وہ الفاظ جنھیں یاد کرنے میں بہت زیادہ دِقت ہوتی ہے وہ اسمِ مناسب یا اشیاء کے نام ہوتے ہیں۔ نام یاد کرنے میں ناکامی ایک لمحے سے لے کر منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتی ہے اور یہ بہت زیادہ اشتعال بھی دلا سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگوں سے جب بڑھتی ہوئی عمر کے مسائل کے بارے میں بات کی جائے تو وہ لفظ یاد کرنے میں مشکل کی کافی زیادہ شکایت کرتے ہیں۔
ایسے واقعات میں ایک شخص کو یقین ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا لفظ یاد کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لفظ جسے یاد کیا جا رہا ہوتا ہے وہ ذہن کے کسی کونے میں ہے، زبان پر آیا چاہتا ہے لیکن کم از کم اُس لمحے میں مل نہیں رہا ہوتا ہے۔
ماہرینِ نفسیات اس کیفیت کو 'ٹِپ آف دی ٹنگ' یعنی نوکِ زُباں یا ’ذہن میں تلاش کے دوران زبان پر آنے کے منتظر لفظ کی حالت‘ کہتے ہیں۔ لیکن کیا یہ کیفیت دماغ کے ماؤف ہونے کا اشارہ ہے جیسا کہ یہ بظاہر نظر آتی ہے؟
ماہرینِ نفسیات جانتے ہیں کہ کسی شخص میں یہ کیفیت پیدا ہونا ناگزیر ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا کب ہوگا۔
اس حوالے سے غیر یقینی نے اس کیفیت پر دو زاویوں سے تحقیق کے راستے کھولے: ایک قدرتی طریقوں سے اور دوسرا کسی شخص کو لیبارٹری میں رکھ کر لفظ تلاش کرنے میں ناکامی کے حالات میں ڈال کر جائزہ لینے کا طریقہ۔
لفط تلاش کرنے اور ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کا مطالعہ کرنے والے محققین نے خاص طور ان دو پہلوؤں کو ایک مقداری کیفیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے: یہ کیفیت کتنی مرتبہ پیدا ہوتی ہے اور کتنی مرتبہ اس کیفیت کا حل نکل آتا ہے، یعنی جس لفظ کی تلاش ہو رہی ہوتی ہے وہ بغیر کسی کی مدد کے اچانک یاد آ جاتا ہے (اس میں کوئی دوست یا کوئی دوسرا شخص وہ لفظ یاد کرنے میں مدد نہ دے)۔
روز مرّہ کے امور کی ڈائری لکھنے والے افراد جس میں وہ اپنی ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کیفیات کو باقاعدگی کے ساتھ درج کرتے ہیں، وہ محققین کو یہ ڈیٹا فراہم کرتے ہیں کہ کتنی مرتبہ انھوں نے اس کیفیت کا تجربہ کیا اور کتنی مرتبہ انہوں نے اس کیفیت کو کامیابی کے ساتھ حل کرلیا۔
ان نتائج سے معلوم ہوا کہ کالج کے طلبا و طالبات ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کا ہفتے میں ایک سے دو مرتبہ سامنا کرتے ہیں، جبکہ وہ افراد جو 60 یا 70 کی عمر کے ہوتے ہیں انھیں اس کیفیت کا کچھ زیادہ مرتبہ سامنا کرنا پڑا۔
تاہم اس تحقیق کے شرکا جن کی عمریں 80 کے پیٹے میں تھیں انھوں نے ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کا تجربہ کالج کے طلبا اور طالبات کی نسبت دوگنی مرتبہ کیا۔ ڈائریوں کے اس مطالعے کے تجربے نے دکھایا کہ عموماً شرکا ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کو حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس میں عموماً کامیابی کا تناسب 90 فیصد دیکھا گیا ہے۔
تجربے کے شرکا کو غیر معروف الفاظ کے صرف لغت میں موجود معنی بتا دینے سے ان کے لیے اصل لفظ کو تلاش کرنے میں ناکامی ہوگی۔
اس قدرتی تجربے کے ڈیٹا کی توجیہ کرتے وقت ہمیں ذرا احتیاط کی ضرورت ہوگی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ جو اپنی یادداشت کے کھو جانے کے معاملے میں تشویش کے شکار ہوتے ہیں وہ اپنی ایسی کیفیات کو زیادہ ریکارڈ کریں گے۔
وہ انھیں لکھنے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں کیونکہ شاید ان کی زندگیاں نوجوان شرکا کی نسبت زیادہ مصروف نہیں ہوتیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تجربے کے شرکا ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیات کو ریکارڈ کرتے وقت لفظ کو یاد کرنے کی کامیابی کے اعداد و شمار زیادہ مرتبہ لکھیں جبکہ اصل میں وہ اتنی مرتبہ بھول جانے والے لفظ کو یاد نہ کر پائے ہوں۔
لفظ کی تلاش کے تجربے کے اس کے متبادل طریقے میں ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کو ایک لیبارٹری کے ماحول میں پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جسے ایک ماہرِ نفسیات راجر براؤن اور ڈیوڈ میک نیل نے اس وقت دریافت کیا تھا جب یہ دونوں ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوتے تھے۔
ان دونوں نے دیکھا کہ تجربے کے شرکا کو غیر معروف الفاظ کے صرف لغت میں موجود معنی بتا دینے سے انھیں اصل لفظ تلاش کرنے میں ناکامی ہوگی۔ ان کی تحقیق کی ایک مثال تھی 'سمت کے تعین میں مدد دینے والا آلہ، جس سے سورج، چاند اور ستاروں کے افق پر زاویے کی پیمائش کی جاتی ہے، خاص طور پر سمندر میں سفر کے دوران۔‘
(اگر اس کیفیت کی وجہ سے آپ میں ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت پیدا ہوئی ہو تو پھر آپ جو لفظ تلاش کر رہے ہیں وہ ’سیکسٹینٹ‘ یعنی ’زاویہ پیما‘ آلہ ہے)۔
اس تحقیق کے شرکا زیادہ تر اس لفظ کو باآسانی تلاش کر لیتے تھے جس کو وہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔ دوسرے مواقع پر اس تجربے کے شرکا کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ جو تفصیل بیان کی جا رہی ہے وہ کس لفظ کے بارے میں ہے۔
تاہم اگر اُنھوں نے محسوس کیا کہ وہ ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت میں ہیں تو براؤن اور میک نیل نے اُن سے اضافی سوالات کیے۔ ان محققین نے دریافت کیا کہ جب وہ اس کیفیت میں تھے، شرکا اس تلاش کیے جانے والے لفظ کے بارے میں کچھ معلومات بتا رہے تھے، اور اصل لفظ ان کے ذہن میں کہیں موجود تو تھا لیکن ان کے ذہن میں آ نہیں رہا تھا اور وہ اُسے زبان سے ادا نہیں کر پا رہے تھے۔
مثال کے طور پر اس تجربے کے شرکا نے اس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب اِن سے پوچھا گیا کہ وہ اندازہ لگائیں کہ یہ لفظ کتنے سلیبلز یعنی ارکان پر مشتمل ہے یا اس کا پہلا حرف کیا ہے۔
اور اس میں حیرانی نہیں ہوئی کہ جب انھوں نے غلطیاں کیں تو اُنھوں نے ایسے الفاظ بیان کیے جو کہ درست لفظ سے ملتے جلتے معنی تھے۔ جب انھیں لفظ ’سیکسٹینٹ‘ کی تفصیل بیان کی گئی تو کئی ایک نے ایسٹرولیب (اصطرلاب، سورج اور ستاروں کا بلندی معلوم کرنے کا آلہ) یا کمپاس (قُطب نما) کا لفظ یاد کیا۔
تاہم انھوں نے اصل لفظ جس کی تلاش کی جا رہی تھی اس کی جگہ ایسے الفاظ بھی بیان کیے جن کی آواز اصل لفظ کی آواز سے ملتی جلتی تھی۔ جب ’سیکسٹینٹ‘ لفظ کی تفصیلات بیان کی گئیں تو بعض نے اس سے ملتی جلتی آواز والے الفاظ ’سیکسٹیٹ‘ اور ’سیکسٹون‘ بھی جواب میں دیے۔
اگر ہم یہ فرض کریں کہ ’سیکسٹینٹ‘ آلہ تھامے جہاز راں نہ کسی چھ رکنی میوزیکل گروپ کے ارکان ہیں اور نہ قبر کھودنے والے ہیں تو پھر ایسی غلطیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان الفاظ کا علم کس ترتیب سے ہماری یادداشت میں جگہ بناتا ہے۔
تاہم بڑی عمر کے افراد کے بارے میں تحقیقات بتاتی ہیں کہ تلاش کیے جانے والے لفظ کے بارے میں جو کچھ معلومات اُنھیں دی گئیں تھیں، مثلاً اُس لفظ کا پہلا حرف، وہ ان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں تھیں۔
جہاں تک بڑی عمر میں علم حاصل کرنے کے بارے میں مسائل کا تعلق ہے تو ہم ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کے واقعات میں اضافہ اُسی طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے کہ ایک گلاس کے نصف بھرے ہوئے یا نصف خالی ہونے کی مثال کا ہوتا ہے۔
ایک جانب تو لفظ کو تلاش کرنے میں ناکامی کے ان واقعات کو ایک ایسے ثبوت کے طور پر لے سکتے ہیں جو یہ ظاہر کرے کہ ایک لفظ کا اس کے مخصوص معنی سے تعلق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، جس کا مطلب ہوا کہ طویل مدت میں یادداشت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بڑی عمر میں ایک لفظ کی تلاش شاید ایک بالکُل ہی مختلف بات ظاہر کرتی ہے۔
امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی ساؤتھ ایسٹ سے وابستہ ماہرِ نفسیات ڈونا ڈہلگرام کہتی ہیں کہ اصل معاملہ زیادہ عمر کا نہیں بلکہ معلومات کا ہے۔ اگر زیادہ عمر کے افراد طویل المدتی یادداشت میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کے زیادہ تجربات ہوں گے۔
تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگر آپ ’ایروبِک فٹنس‘ (زیادہ آکسیجن پہنچانے والی سخت جسمانی ورزش) کرتے رہیں تو آپ کے ساتھ بھولنے کے واقعات کم ہوں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیات کا ہونا آپ کے لیے فائدہ مند ہو۔ یہ شاید بڑھتی ہوئی عمر میں ایک اشارہ ہو کہ جس لفظ کی تلاش کی جا رہی ہے وہ علم میں ہے لیکن فی الحال ذہن میں آ نہیں رہا ہے۔
’ميٹا کوگنيشَن‘ (یعنی کسي شخص کي اپني سوچ کے عمل کے بارے ميں شعور اور تفہيم) کے بارے میں ایسی معلومات ہمارے لیے کافی فائدہ مند بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ ایک لفظ کی تلاش میں ناکامی میں اسے تلاش کرنے کی زیادہ کوشش کرنا آخر میں زیادہ کامیابی کی جانب لے جائے۔
اگر اس معاملے کو اس انداز سے دیکھا جائے تو ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت شاید لفظ کو ذہن کے کسی کونے کھدرے سے تلاش کرنے کی ناکامی نہ ہو، بلکہ بہت ہی قابلِ قدر معلومات کا ذریعہ ہو۔
اگر آپ زیادہ عمر کے ایک شخص ہیں اور اب بھی ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیات کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں جن کا آپ کو تجربہ ہوتا ہے، تو اس بارے میں تحقیق یہ بتاتی ہے ’ایروبک فٹنس‘ آپ کو اس حوالے سے مدد دے سکتی ہے۔
اس لیے آئندہ اگر آپ کو کوئی لفظ کے یاد کرنے میں کوئی دِقّت محسوس ہو تو آپ اسے اپنے ارد گرد کے ماحول میں تلاش کرنے کے لیے اِدھر اُدھر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لفظ ’نوکِ زُباں‘ پر ہے لیکن یاد نہیں آتا؟ - BBC News اردو
محققین: راجر کروز اور رچرڈ رابرٹس
28 نومبر 2020
(یہ رپورٹ ایم آئی ٹی پریس ریڈر سے لی گئی ہے)
کیا آپ کو کبھی کسی کا نام یاد کرنے میں مشکل محسوس ہوئی ہے؟ شاید اُس وقت آپ کے ذہن میں اُس شخص کی تصویر بن رہی ہو اور اگر آپ کا کوئی دوست اُس کے نام کا کوئی اشارہ دے تو آپ فوراً ہی اس کا نام پہچان جائیں گے۔
یہ مسئلہ اگرچہ زیادہ تر ناموں کے یاد کرنے میں ہوتا ہے، تاہم کسی لفظ کے یاد کرنے کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو ایک تصور یاد کرنے میں دِقّت ہوتی ہے بلکہ آپ کے ذہن میں اس کا مناسب لفظ یاد نہیں آ رہا ہوتا۔
الفاظ تلاش کرنے میں مسائل عام سے معاملات ہیں جو ادھیڑ عمر یا بڑی عمر کے لوگوں میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس طرح صحیح نام یا لفظ یاد کرنے میں ناکامی بسا اوقات ان ناموں یا اشیاء کے بارے میں بھی ہوتی ہو جن سے ہم عموماً بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا ہے کہ وہ الفاظ جنھیں یاد کرنے میں بہت زیادہ دِقت ہوتی ہے وہ اسمِ مناسب یا اشیاء کے نام ہوتے ہیں۔ نام یاد کرنے میں ناکامی ایک لمحے سے لے کر منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتی ہے اور یہ بہت زیادہ اشتعال بھی دلا سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگوں سے جب بڑھتی ہوئی عمر کے مسائل کے بارے میں بات کی جائے تو وہ لفظ یاد کرنے میں مشکل کی کافی زیادہ شکایت کرتے ہیں۔
ایسے واقعات میں ایک شخص کو یقین ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا لفظ یاد کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لفظ جسے یاد کیا جا رہا ہوتا ہے وہ ذہن کے کسی کونے میں ہے، زبان پر آیا چاہتا ہے لیکن کم از کم اُس لمحے میں مل نہیں رہا ہوتا ہے۔
ماہرینِ نفسیات اس کیفیت کو 'ٹِپ آف دی ٹنگ' یعنی نوکِ زُباں یا ’ذہن میں تلاش کے دوران زبان پر آنے کے منتظر لفظ کی حالت‘ کہتے ہیں۔ لیکن کیا یہ کیفیت دماغ کے ماؤف ہونے کا اشارہ ہے جیسا کہ یہ بظاہر نظر آتی ہے؟
ماہرینِ نفسیات جانتے ہیں کہ کسی شخص میں یہ کیفیت پیدا ہونا ناگزیر ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا کب ہوگا۔
اس حوالے سے غیر یقینی نے اس کیفیت پر دو زاویوں سے تحقیق کے راستے کھولے: ایک قدرتی طریقوں سے اور دوسرا کسی شخص کو لیبارٹری میں رکھ کر لفظ تلاش کرنے میں ناکامی کے حالات میں ڈال کر جائزہ لینے کا طریقہ۔
لفط تلاش کرنے اور ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کا مطالعہ کرنے والے محققین نے خاص طور ان دو پہلوؤں کو ایک مقداری کیفیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے: یہ کیفیت کتنی مرتبہ پیدا ہوتی ہے اور کتنی مرتبہ اس کیفیت کا حل نکل آتا ہے، یعنی جس لفظ کی تلاش ہو رہی ہوتی ہے وہ بغیر کسی کی مدد کے اچانک یاد آ جاتا ہے (اس میں کوئی دوست یا کوئی دوسرا شخص وہ لفظ یاد کرنے میں مدد نہ دے)۔
روز مرّہ کے امور کی ڈائری لکھنے والے افراد جس میں وہ اپنی ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کیفیات کو باقاعدگی کے ساتھ درج کرتے ہیں، وہ محققین کو یہ ڈیٹا فراہم کرتے ہیں کہ کتنی مرتبہ انھوں نے اس کیفیت کا تجربہ کیا اور کتنی مرتبہ انہوں نے اس کیفیت کو کامیابی کے ساتھ حل کرلیا۔
ان نتائج سے معلوم ہوا کہ کالج کے طلبا و طالبات ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کا ہفتے میں ایک سے دو مرتبہ سامنا کرتے ہیں، جبکہ وہ افراد جو 60 یا 70 کی عمر کے ہوتے ہیں انھیں اس کیفیت کا کچھ زیادہ مرتبہ سامنا کرنا پڑا۔
تاہم اس تحقیق کے شرکا جن کی عمریں 80 کے پیٹے میں تھیں انھوں نے ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کا تجربہ کالج کے طلبا اور طالبات کی نسبت دوگنی مرتبہ کیا۔ ڈائریوں کے اس مطالعے کے تجربے نے دکھایا کہ عموماً شرکا ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کو حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس میں عموماً کامیابی کا تناسب 90 فیصد دیکھا گیا ہے۔
تجربے کے شرکا کو غیر معروف الفاظ کے صرف لغت میں موجود معنی بتا دینے سے ان کے لیے اصل لفظ کو تلاش کرنے میں ناکامی ہوگی۔
اس قدرتی تجربے کے ڈیٹا کی توجیہ کرتے وقت ہمیں ذرا احتیاط کی ضرورت ہوگی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ جو اپنی یادداشت کے کھو جانے کے معاملے میں تشویش کے شکار ہوتے ہیں وہ اپنی ایسی کیفیات کو زیادہ ریکارڈ کریں گے۔
وہ انھیں لکھنے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں کیونکہ شاید ان کی زندگیاں نوجوان شرکا کی نسبت زیادہ مصروف نہیں ہوتیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تجربے کے شرکا ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیات کو ریکارڈ کرتے وقت لفظ کو یاد کرنے کی کامیابی کے اعداد و شمار زیادہ مرتبہ لکھیں جبکہ اصل میں وہ اتنی مرتبہ بھول جانے والے لفظ کو یاد نہ کر پائے ہوں۔
لفظ کی تلاش کے تجربے کے اس کے متبادل طریقے میں ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کو ایک لیبارٹری کے ماحول میں پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جسے ایک ماہرِ نفسیات راجر براؤن اور ڈیوڈ میک نیل نے اس وقت دریافت کیا تھا جب یہ دونوں ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوتے تھے۔
ان دونوں نے دیکھا کہ تجربے کے شرکا کو غیر معروف الفاظ کے صرف لغت میں موجود معنی بتا دینے سے انھیں اصل لفظ تلاش کرنے میں ناکامی ہوگی۔ ان کی تحقیق کی ایک مثال تھی 'سمت کے تعین میں مدد دینے والا آلہ، جس سے سورج، چاند اور ستاروں کے افق پر زاویے کی پیمائش کی جاتی ہے، خاص طور پر سمندر میں سفر کے دوران۔‘
(اگر اس کیفیت کی وجہ سے آپ میں ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت پیدا ہوئی ہو تو پھر آپ جو لفظ تلاش کر رہے ہیں وہ ’سیکسٹینٹ‘ یعنی ’زاویہ پیما‘ آلہ ہے)۔
اس تحقیق کے شرکا زیادہ تر اس لفظ کو باآسانی تلاش کر لیتے تھے جس کو وہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔ دوسرے مواقع پر اس تجربے کے شرکا کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ جو تفصیل بیان کی جا رہی ہے وہ کس لفظ کے بارے میں ہے۔
تاہم اگر اُنھوں نے محسوس کیا کہ وہ ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت میں ہیں تو براؤن اور میک نیل نے اُن سے اضافی سوالات کیے۔ ان محققین نے دریافت کیا کہ جب وہ اس کیفیت میں تھے، شرکا اس تلاش کیے جانے والے لفظ کے بارے میں کچھ معلومات بتا رہے تھے، اور اصل لفظ ان کے ذہن میں کہیں موجود تو تھا لیکن ان کے ذہن میں آ نہیں رہا تھا اور وہ اُسے زبان سے ادا نہیں کر پا رہے تھے۔
مثال کے طور پر اس تجربے کے شرکا نے اس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب اِن سے پوچھا گیا کہ وہ اندازہ لگائیں کہ یہ لفظ کتنے سلیبلز یعنی ارکان پر مشتمل ہے یا اس کا پہلا حرف کیا ہے۔
اور اس میں حیرانی نہیں ہوئی کہ جب انھوں نے غلطیاں کیں تو اُنھوں نے ایسے الفاظ بیان کیے جو کہ درست لفظ سے ملتے جلتے معنی تھے۔ جب انھیں لفظ ’سیکسٹینٹ‘ کی تفصیل بیان کی گئی تو کئی ایک نے ایسٹرولیب (اصطرلاب، سورج اور ستاروں کا بلندی معلوم کرنے کا آلہ) یا کمپاس (قُطب نما) کا لفظ یاد کیا۔
تاہم انھوں نے اصل لفظ جس کی تلاش کی جا رہی تھی اس کی جگہ ایسے الفاظ بھی بیان کیے جن کی آواز اصل لفظ کی آواز سے ملتی جلتی تھی۔ جب ’سیکسٹینٹ‘ لفظ کی تفصیلات بیان کی گئیں تو بعض نے اس سے ملتی جلتی آواز والے الفاظ ’سیکسٹیٹ‘ اور ’سیکسٹون‘ بھی جواب میں دیے۔
اگر ہم یہ فرض کریں کہ ’سیکسٹینٹ‘ آلہ تھامے جہاز راں نہ کسی چھ رکنی میوزیکل گروپ کے ارکان ہیں اور نہ قبر کھودنے والے ہیں تو پھر ایسی غلطیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان الفاظ کا علم کس ترتیب سے ہماری یادداشت میں جگہ بناتا ہے۔
تاہم بڑی عمر کے افراد کے بارے میں تحقیقات بتاتی ہیں کہ تلاش کیے جانے والے لفظ کے بارے میں جو کچھ معلومات اُنھیں دی گئیں تھیں، مثلاً اُس لفظ کا پہلا حرف، وہ ان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں تھیں۔
جہاں تک بڑی عمر میں علم حاصل کرنے کے بارے میں مسائل کا تعلق ہے تو ہم ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کے واقعات میں اضافہ اُسی طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے کہ ایک گلاس کے نصف بھرے ہوئے یا نصف خالی ہونے کی مثال کا ہوتا ہے۔
ایک جانب تو لفظ کو تلاش کرنے میں ناکامی کے ان واقعات کو ایک ایسے ثبوت کے طور پر لے سکتے ہیں جو یہ ظاہر کرے کہ ایک لفظ کا اس کے مخصوص معنی سے تعلق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، جس کا مطلب ہوا کہ طویل مدت میں یادداشت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بڑی عمر میں ایک لفظ کی تلاش شاید ایک بالکُل ہی مختلف بات ظاہر کرتی ہے۔
امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی ساؤتھ ایسٹ سے وابستہ ماہرِ نفسیات ڈونا ڈہلگرام کہتی ہیں کہ اصل معاملہ زیادہ عمر کا نہیں بلکہ معلومات کا ہے۔ اگر زیادہ عمر کے افراد طویل المدتی یادداشت میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت کے زیادہ تجربات ہوں گے۔
تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگر آپ ’ایروبِک فٹنس‘ (زیادہ آکسیجن پہنچانے والی سخت جسمانی ورزش) کرتے رہیں تو آپ کے ساتھ بھولنے کے واقعات کم ہوں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیات کا ہونا آپ کے لیے فائدہ مند ہو۔ یہ شاید بڑھتی ہوئی عمر میں ایک اشارہ ہو کہ جس لفظ کی تلاش کی جا رہی ہے وہ علم میں ہے لیکن فی الحال ذہن میں آ نہیں رہا ہے۔
’ميٹا کوگنيشَن‘ (یعنی کسي شخص کي اپني سوچ کے عمل کے بارے ميں شعور اور تفہيم) کے بارے میں ایسی معلومات ہمارے لیے کافی فائدہ مند بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ ایک لفظ کی تلاش میں ناکامی میں اسے تلاش کرنے کی زیادہ کوشش کرنا آخر میں زیادہ کامیابی کی جانب لے جائے۔
اگر اس معاملے کو اس انداز سے دیکھا جائے تو ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیت شاید لفظ کو ذہن کے کسی کونے کھدرے سے تلاش کرنے کی ناکامی نہ ہو، بلکہ بہت ہی قابلِ قدر معلومات کا ذریعہ ہو۔
اگر آپ زیادہ عمر کے ایک شخص ہیں اور اب بھی ’ٹِپ آف دی ٹنگ‘ کی کیفیات کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں جن کا آپ کو تجربہ ہوتا ہے، تو اس بارے میں تحقیق یہ بتاتی ہے ’ایروبک فٹنس‘ آپ کو اس حوالے سے مدد دے سکتی ہے۔
اس لیے آئندہ اگر آپ کو کوئی لفظ کے یاد کرنے میں کوئی دِقّت محسوس ہو تو آپ اسے اپنے ارد گرد کے ماحول میں تلاش کرنے کے لیے اِدھر اُدھر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔