ایسی آنکھیں نہیں دیکھیں
ایسا کاجل نہیں دیکھا
ایسا جلوا نہیں دیکھا
ایسا چہرا نہیں دیکھا
جب یہ دامن کی ہوا دے
آگ جنگل میں لگا دے
جب یہ صحراؤں میں جائے
ریت میں پھول کھلا دے
ایسی دنیا نہیں دیکھی
ایسا منظر نہیں دیکھا
ایسا عالم نہیں دیکھا
ایسا دلبر نہیں دیکھا
اس کے کنگن کا کھنکنا
جیسے بلبل کا چہکنا
اس کی پازیب کی چھم چھم
جیسے برسات کا موسم
ایسا ساون نہیں دیکھا
ایسی بارش نہیں دیکھی
ایسی رم جھم نہیں دیکھی
ایسی خواہش نہیں دیکھی
اس کی بےباک سی باتیں
جیسے سردی کی ہو راتیں
اُف یہ تنہاہی یہ مستی
جیسے طوفان میں کشتی
میٹھی کوئل سی ہے بولی
جیسے گیتوں کی رنگولی
سرخ گالوں پہ پسینہ
جیسے پھاگُن کا مہینہ
ایسی آنکھیں نہیں دیکھیں
ایسا کاجل نہیں دیکھا
ایسا جلوا نہیں دیکھا
ایسا چہرا نہیں دیکھا