سارا
محفلین
کیسے کیسے‘ایسے ایسے ہو گئے
ایسے ایسے‘ کیسے کیسے ہو گئے
تو صاحبو! ابھی تو ہم کیسے کیسے لوگوں کے چنگل میں دم سادھے زندگی کو گزارنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسے ایسے لوگوں نے ہلہ بول دیا۔۔۔شاید ہمارے چاروں طرف ایسے ویسے لوگوں کا ہی بسیرا ہے‘ہو سکتا ہے ہمارا تعلق بھی ان ہی میں سے کسی طبقے سے ہو۔۔اللہ نے چاہا تو ہم جیسے لوگوں کی جھلکیاں بھی آپ کو دکھائی جائیں گی اور کبھی موقع ملا تو آپ جیسے لوگوں کو بھی آئینہ دکھانے سے باز نہیں آئیں گے۔۔آخر آپ بھی تو اسی بھری پری دنیا کے باشندے ہیں کوئی آسمان سے سرخاب کے پر لگا کر تو اترے نہیں ہیں۔۔۔
اب دیکھئے نا کہ ایک بات کبھی ہماری سمجھ میں نہ آ سکی کہ لوگ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کرتے‘کنایہ موجود ہو تو اشارے کو کیا ضرورت ہے۔۔اور اشارے کرناکون سی ایسی شریفانہ بات ہے یہ تو صرف ٹریفک کے سپاہیوں کوزیب دیتی ہے یا پھر گرائمر پڑھتے ہوئے طوعاًً و کرہاً اسم اشارہ پڑھا جا سکتا ہے۔۔مگر کیا نہیں جا سکتا۔۔اسم اشارہ میں فاعل کو کیا کہتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں البتہ ہم جو ان اشاروں کی زد میں ہوتے ہیں یقیناً شارہ علیہ ہوں گے۔۔
سیاست دان ہوں کہ خطیب‘شاعر ہوں یا قوال سب اس طرح پینترے
بدل بدل کر آنکھیں نکال نکال اور کف اڑا اڑا کر بات کرتے ہیں جیسے سامعین کو کچا کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘بےچارے بچے بھی ماؤں کی گود میں ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں۔۔
ہمارے بچپن میں ایک شاعر تھے‘ آج بھی زندہ سلامت ہیں اللہ ان کو عمر خضر عطا فرمائے وہ رومی ٹوپی پہنتے تھے اور منہ میں پان کی بیڑا رکھ کر شعر سناتے تھے‘شاید اس طرح شعر‘ پان کے رنگ سے مزید رنگین ہو جاتے ہیں‘ اب موصوف منہ آسمان یا چھت کی طرف کر لیتے تا کہ پیک کے چھینٹے سننے والوں کے منہ پر نہ گریں اور ٹوپی کا پھندنا ہر لفظ پر اس کی شدت‘ حدت اور ملائمت کے مطابق ہلتا تھا۔۔ہم بہن بھائی شعر تو کیا خاک سمجھتے البتہ یہ منظر دیکھنے ضرور جاتے تھے۔۔
بہرحال آج کے پاپ سنگرز کو تو فن اشارہ میں بھی کوئی خصوصی ایوارڈ ضرور ملنا چاہیے۔۔جنون گروپ تو اس آرٹ کا ماہر ہے۔۔علی عظمت جب اپنے گنجے سر کے ساتھ بلبلا بلبلا کر منہ پھاڑ پھاڑ کر بابا بلھے شاہ کا کلام ‘بلھیا کی جانا میں کون‘ گاتا ہے تو سامعین کے ساتھ ساتھ بابا جی بھی قبر میں تڑپ اٹھتے ہوں گے اور اس دن کو کوستے ہوں گے‘
‘ جب انہوں نے یہ اشعار کہے اور ان کا بس نہیں چلتا ہو گا کہ اس کی گچی مروڑ کر کہیں کہ خدا کے واسطے چپ کر جائیں خود بتا دیتا ہوں میں کون ہوں۔۔‘‘
یہاں تک کہ سیدھی سادی گھریلو خواتین بھی اسی آزار میں مبتلا نظر آتی ہیں۔۔بغیر اشارے کے وہ بھی بات نہیں کرتیں۔۔
اشارہ کیا چیز ہے خواتین کی تو ہر بات ہی بلائے جان ہوتی ہے۔۔
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا ‘ اشارت کیا ‘ ادا کیا
ہماری ایک عزیزہ ہیں وہ ہر بات عملاً کرتی ہیں۔۔شاید ان کے اندر کوئی اداکارہ چھپی بیٹھی ‘جھاتیاں‘ مارتی ہیں۔۔ایک دن ہم نے شومئی قسمت ان سے سرسوں کا ساگ پکانے کی ترکیب پوچھ لی۔۔انہوں نے فوراً بڑے اہتمام سے پہلے خیالی ساگ کو دھویا اور پھر اپنی دو انگلیوں سے قینچی کا کام لیتے ہوئے اسے باریک باریک کاٹا پھر پتیلی میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا۔۔ان کے اشاروں کت ساتھ ساتھ ہماری گردن اوپر نیچے دائیں بائیں ہوتی رہی۔۔ہم خاصے مسحور ہو گئے تھے۔۔
‘‘لو بھئی اب تم اس میں ادرک اور پیاز کاٹ کر ڈال دو‘‘بلکہ انہوں نے خود ہی یہ خیالی پیاز اور ادرک بھی کاٹ کر ڈال دیا ہمارے منہ سے اچانک نکلا۔۔
‘‘دیکھئے دیکھئے انگلی نہ کاٹ بیٹھئے گا‘‘
ان کے ہاتھ رک گئے۔۔انہوں نےپہلے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا پھر حیران ہو کر ہماری طرف نظر ڈالی۔۔کچھ سوچا۔۔سر کو جٹھکا دیا۔۔ہمیں سٹھیایا ہوا سمجھ کر پھر سے ساگ پکانے لگیں۔۔
‘‘جب گل جائے تو خوب گھوٹو‘‘انہوں نے خیالی گھوٹنی کے ساتھ پوری طاقت سے ساگ گھوٹنا شروع کر دیا۔۔اس مشقت نے ان کو پسینہ پسینہ کر دیا۔۔
‘‘اب جناب اصلی گھی میں پسے ہوئے لہسن کا بگھار بنا کر ڈال دو۔۔ساتھ ہی ہری مرچیں بھی ڈال دو،،تیار ہو جائے تو ڈونگے میں نکال کر اوپر تازہ مکھن کا پیڑا رکھ دو۔۔ساگ تیار ہے‘‘۔۔
ہم نے اپنے منہ میں بھرا پانی بھر کر پوچھا۔۔‘‘مگر یہ ساگ تو پھیکا ہے‘‘۔۔
؛؛کیا مطلب‘‘؟ انہوں نے عینک کے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں گھمائیں۔۔ہم شاید اب تک ان کے جادو بھرے اشاروں کی وجہ سے ٹرانس میں تھے۔۔
؛مطلب یہ کہ نمک تو ڈالا نہیں‘‘۔۔
کہاں ہے ڈالا؟‘‘
ساگ میں‘‘۔۔
‘‘کہاں ہے ساگ‘‘۔۔؟
‘‘وہ جو ابھی آپ نے پکایا ہے‘‘۔۔
وہ خفا سی ہو گئیں‘‘۔۔میں نے ساگ پکایا ہے۔۔لگتا ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے۔۔میں نے ترکیب بتائی ہے کہ ساگ پکایا ہے‘‘۔۔
انہوں نے اپنا برقعہ اٹھایا اور کھڑی ہو گیئں۔۔
کہاں چل دیں؟مکئی کی روٹی کی ترکیب تو رہ گئی۔۔‘‘
انہوں نے ہمیں گھور کر دیکھا اور یہ جا وہ جا۔۔اب بھلا آپ بتائیے کہ ہم اس ساگ کو کاہے سے تناول فرمائیں گے۔۔
××××××××
یہ تو تھیں ہماری عزیزہ‘ مگر ہمارے شوہر کے عزیز تو ان سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔۔بس ہوں سمجھ لیں کہ جو فرق مارشل آرٹ اور ان ڈور گیمز میں ہوتا ہے‘ وہی عزیز اور عزیزہ کے درمیان تھا۔۔وہ ایک لمحے کو نچلا نہیں بیٹھ سکتے تھے۔۔ان کے اشاروں میں صرف ہاتھ نہیں بلکہ جسم کا ہر عضو پیروں سمیت حصہ لیتا تھا۔۔۔بچے ان کی آمد سے بہت خوش ہوتے تھے سرکس یا مداری کا تماشا دیکھنا کسے اچھا نہیں لگتا۔۔ایک روز وہ اپنی بیگم بچوں سمیت تشریف لائے۔۔چائے کی ٹرالی سامنے دھڑی تھی۔۔وہ مزے سے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔۔
‘‘اس ویک اینڈ پر کیا کرتے رہے؟‘‘
‘‘آپ کو پتا ہے بھائی جی! بندے کو شکار کا کتنا شوق ہے‘خواہ وہ کسی چیز کا ہو۔۔بس یہ ایک بیگم نہیں پھنستیں‘خواہ ہم کتنے جال ڈالیں۔۔‘‘وہ ہنسے۔۔
‘‘بڑے آئے تیس مار خان‘ آپ خالی مکھیاں ہی مار سکتے ہیں۔۔ایک چوہے نے شامت بلا رکھی ہے ہر چیز کتر کر رکھ دیتا ہے‘ کبھی برتنوں میں گھستا ہے۔۔ہم نے خوشامد درامد کی کی اس کو مار دیں تا کہ جان چھٹے۔۔
حضرت کو چوہا نظر بھی آ گیا مگر یہ تو چھلانگ مار کر صوفے پر جا چڑھے۔۔لگے چیخنے کہ بلاؤ باہر سے کسی مرد کو۔۔ہم نے یاد دلایا کہ اتفاق سے آپ بھی مرد ہیں‘ بولے میں تو صاحب ہوں۔۔تم کسی مالی‘ چوکیدار‘ ڈرائیور کو بلاؤ۔۔اب آپ بتائیے کہ چاہا کیا کسی کے آنے کا انتظار کرتا ان کی چیخم دھاڑ سن کر اڑنچھو ہوگیا۔۔۔
بیگم! اب ہم کوئی شکاری بلے تو ہیں نہیں جو چوہوں کا شکار کرتے پھریں۔۔ہم بڑی چیزوں کے شکاری ہیں ان حقیر چیزوں کے نہیں۔۔بہرحال‘ تو بھائی جی! اس بار ہم دوستوں نے حسن ابدال جھبلاہٹ پر شکار کا پروگرام بنایا میں نے اس بار جال سے مچھلی پکڑنے کا ارادہ کیا۔۔‘
وہ چائے کی پیالی ٹرالی میں رکھ کر کھڑے ہو گئے۔۔
‘بس بھائی جی!میں نے جو جال ڈالا‘‘ انہوں نے ساتھ والی میز سے میزپوش گھسیٹ کر نہایت ماہرانہ انداز میں خیالی پانی میں دے مارا۔۔اور وہ ناہجار میز پوش سیدھا ہمارے شوہر نا مراد کے سر پر پڑا اور۔۔گردن کے گرد بل کھا کر یوں لپٹ گیا جیسے پھانسی کا پھندا ڈالنے کے لیے پہلے مجرم کے منہ پر نقاب چڑھایا جاتا ہے۔۔ہم سب بھونچکے دیکھ رہے تھے۔۔بے چارے شوہر صاحب اس بلا کو سر سے اتارنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔۔انہوں نے فخر سے ہماری طرف دیکھا۔۔
‘‘دیکھی ہماری فنکاری تو بلکل آپ کے سر مبارک کی طرح ایک عظیم الحبثہ مچھلی ہمارے جال میں پھنس گئی۔۔اب ہم ہیں کہ اسے کھینچ رہے ہیں۔۔‘‘
انہوں نے کھینچ کر دکھایا۔۔شکر ہے اس وقت تک ان کا سر اس میز پوش سے برآمد ہو چکا تھا۔۔ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ ان ہی کو کھینچنے لگتے۔۔
‘ادھر وہ نا معقول مچھلی ہمیں گھسیٹ رہی تھی۔۔آخر ہم نے ایک آخری زور لگایا۔۔ادھر مچھلی باہر آئی ادھر ہم چاروں خانے چت ہو گئے۔۔
اور وہ خود دھڑام سے پیچھے جا گرے۔۔ان کا سر زور سے ٹرالی سے ٹکرایا۔۔ٹرالی میں ایک زلزلہ سا آ گیا۔۔بسکٹ ہوا میں اڑنے لگے۔۔کیک پلیٹ سے نکل کر ان کی مچھلی کی طرح قالین پر جا پڑا۔۔چائے پیالیوں سے چھلک پڑی۔۔انہوں نے گھبرا کر ان کے سر کا جائزہ لیا کہ ضرب کتنی شدید ہے‘مرہم پٹی کی ضرورت تو نہیں مگر ہر چیز سے بے نیاز اپنا سر ہلاتے ہوئے بولے۔۔
‘‘کیوں بیگم! کتنی بڑی مچھلی تھی۔۔کیا تم نے کبھی اتنی بڑی مچھلی دیکھی تھی؟؟‘‘
‘ہاں ابو ہم نے دیکھی تھی جب ہم امریکہ گئے تھے فلوریڈا میں سی ورلڈ نہیں لے گئے تھے آپ۔۔‘‘
‘‘ہم امریکہ کی نہیں ‘یہاں کی بات کر رہے ہیں۔۔‘‘وہ جھنجھلا گئے۔۔
بیگم بولی‘‘ہمیں سائز سے زیادہ اس بات پر حیرت تھی کہ اب مچھلیاں پانی میں سے مسالہ لگی ریڈی تو کک کی حالت میں نکلنے لگی ہیں۔۔اٹامک ایج ہے اکیسویں صدی ہے جو بھی ہو وہ کم ہے۔۔‘‘
وہ کچھ کھسیا گئے۔۔بھائی وہ مچھلی پھر ہم جن اڈے پر لے گئے تھے نا۔۔ وہاں صاف کروا کر مسالہ لگوایا تا کہ آپ کو کچھ تردد نہ کرنا پڑے۔۔‘‘
‘‘کتنا مزہ آئے ابو!اگر مچھلیاں تلی ہوئی نکلا کریں‘
امی کو فرائی نہ کرنہ پڑیں۔۔‘‘
‘‘تم اپنی چونچ بند رکھو۔۔سر کھانی کی بجائے یہاں آکر میرا سر دباؤ۔۔‘‘
یار! تم نے وہ مچھلی جھبلاٹ کے بجائے اڈے سے تو نہیں پکڑی تھی؟۔۔‘‘
‘‘یہ سراسر بدگمانی ہے۔۔اور اگر گمان گناہ ہوتے ہیں۔۔آپ نے ہماری مہارت پر پانی پھیر دیا۔۔‘‘
‘‘کون سا پانی‘ جھبلاٹ کا؟۔۔‘ہم نے بھی ہنس کر پوچھا۔۔
‘‘تمہاری مہارت پر نہیں اشارت پر پانی پھر گیا۔۔
اب سچ سچ اگل دو کہ وہ کیا چیز تھی جو تم نے پکڑی تھی۔۔کیا وہیل مچھلی کی آل اولاد تھی۔۔‘
‘نہیں بھائی جی۔۔‘وہ مسلسل اپنا سر سہلا رہے تھے۔۔
‘‘کوئی گومڑ وومڑ تو نہیں پڑ گیا سر میں؟۔۔‘
‘‘لگ تو رہا ہے‘دراصل وہاں جھبلاٹ کے کنارے کوئی ٹرالی نہیں تھی۔۔اس لیے منہ سر بچ کیا تھا۔۔‘انہوں نے بچوں کو سر کے ٹکور کے لیے برف لانے کو کہا۔۔
‘ہاں میاں! گمان کے علاوہ ایک چیز اور بھی ہوتی ہے‘یعنی سچ اور گپ‘اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘
انہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا۔۔‘‘دراصل وہ کسی بدنصیب کی رضائی تھی جو نہ جانے کیسے جھبلاٹ میں جا گری اور پانی پی پی کر بارہ من کی دھوبن بن گئی تھی۔۔‘‘
×××××
ایک بار جو وہ تشریف لائے تو گنگے بنوٹ اور لاٹھی چلانے پر تقریر فرمانے لگے۔۔
‘‘بھئی بروسلی کیا چیز ہے۔۔اگر اس کا سامنا کسی بنوٹ یا گنگے کے ماہر سے ہو جاتا تو اس کے غبارے کی ساری ہوا نکل جاتی۔۔‘‘انہوں نے ایک خالی غبارے سے ایک زوردار آواز کے ساتھ ہوا خارج کی تو بچے ہنسنے لگے۔۔دراصل ان کو دیکھتے ہے بچے اپنا سارا کھیل کود چھوڑ چھاڑ ان کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو جاتے تھے۔۔
‘‘یہ حقیقت ہے کہ جوڈو کراٹے ہمارے اس فن کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔۔ارے بھائی اگر بندہ برستی بارش میں لاٹھی چلاتا نکل جائے تو کیا مجال کہ اس پر پانی کا ایک قطرہ بھی گرے۔۔وہ بلکل سوکھا گھر پنہچ جائے گا۔۔انوکی کا مقابلہ اگر کسی ایسے سے ہوتا تو مونڈھا انوکی کا نکلتا۔۔بلکہ دونوں مونڈھوں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ نکل جاتا۔۔‘‘
‘‘چچاجان!آپ ہمیں کر کے دکھائیں‘ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔۔‘‘
‘‘تو بھائی اس میں ایسی کیا بات ہے۔۔ابھی کر کے دکھاتے ہیں۔۔ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ہے۔۔‘‘
‘‘تو کیا لاٹھی چلانے سے پہلے ہاتھ میں کنگن پہننے پڑتے ہیں اور آر سی کی بوتل پینی پڑتی ہے۔۔‘‘ایک صاحبزادے حیران ہو کر بولے۔۔
‘‘ارے بھئی‘یہ تو ایک محاورہ ہے۔۔یہ نئی نسل کیا جانے کہ محاورے کیا ہوتے ہیں۔۔تم ذرا دوڑ کر جاؤ اور ایک لاٹھی لے آؤ پھر دیکھو ہمارے کرتب‘‘۔۔
‘‘تمہارے کرتب تو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ لاٹھی آئے گی کہاں سے۔۔‘‘انہوں نے پوچھا۔۔
‘‘ہم تو دہشت گردی کے الزام سے بچنے کے لیے ہر قسم کی لاٹھیاں ڈنڈے‘دستے سوٹے سوٹیاں کھر سے غائب کر دی ہیں۔۔‘‘ہم نے بھی لقمہ دیا۔۔
‘‘مچھر دانی کا بانس تو ہوگا‘‘
‘‘کیسی مچھر دانی؟وہ زمانے گئے جب مچھر دانی کے پنجرے میں کبوتر بنے سوتے تھے اب تو میٹ اور جلیبی کا زمانہ ہے۔۔‘‘
؛؛بھئی کوئی چارپائی تو ہو گی۔۔اس کی چوکاٹھ کا ڈنڈا نکال لاؤ۔۔‘‘
‘‘تم کس دور کی پیداوار ہو۔۔ہر متروک چیز کا نام لے رہے ہو۔۔آج کل بیڈز ہوتے ہیں۔۔گاؤں والے بھی ڈبل بیڈ سے کم نہیں دیتے بیٹی کو جہیز میں۔۔اگر کوئی ہوتی ہے تو وہ لوہے کی فولڈنگ چارپائی ہوتی ہے۔۔‘
‘‘جاؤ بیٹا!کسی درخت کی بڑی سی شاخ توڑ لاؤ۔۔‘‘
‘‘تم نے یہ فن کہاں سے سیکھا ہے۔۔؟‘‘انہوں نے پوچھا۔۔
‘‘کیا فرق پڑتا ہے اس سے بھائی جی!اگر کسی کا بیاہ نہ ہوا ہو تو کیا اس نے بارات بھی نہیں دیکھی ہوتی۔۔‘
‘‘کیا تم نے بارات دیکھی ہے؟‘‘
‘‘کیا ایک دفعہ ایک صاحب کو یہ کرتب دکھاتے دیکھا تھا۔۔‘‘
ایسے ایسے‘ کیسے کیسے ہو گئے
تو صاحبو! ابھی تو ہم کیسے کیسے لوگوں کے چنگل میں دم سادھے زندگی کو گزارنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسے ایسے لوگوں نے ہلہ بول دیا۔۔۔شاید ہمارے چاروں طرف ایسے ویسے لوگوں کا ہی بسیرا ہے‘ہو سکتا ہے ہمارا تعلق بھی ان ہی میں سے کسی طبقے سے ہو۔۔اللہ نے چاہا تو ہم جیسے لوگوں کی جھلکیاں بھی آپ کو دکھائی جائیں گی اور کبھی موقع ملا تو آپ جیسے لوگوں کو بھی آئینہ دکھانے سے باز نہیں آئیں گے۔۔آخر آپ بھی تو اسی بھری پری دنیا کے باشندے ہیں کوئی آسمان سے سرخاب کے پر لگا کر تو اترے نہیں ہیں۔۔۔
اب دیکھئے نا کہ ایک بات کبھی ہماری سمجھ میں نہ آ سکی کہ لوگ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کرتے‘کنایہ موجود ہو تو اشارے کو کیا ضرورت ہے۔۔اور اشارے کرناکون سی ایسی شریفانہ بات ہے یہ تو صرف ٹریفک کے سپاہیوں کوزیب دیتی ہے یا پھر گرائمر پڑھتے ہوئے طوعاًً و کرہاً اسم اشارہ پڑھا جا سکتا ہے۔۔مگر کیا نہیں جا سکتا۔۔اسم اشارہ میں فاعل کو کیا کہتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں البتہ ہم جو ان اشاروں کی زد میں ہوتے ہیں یقیناً شارہ علیہ ہوں گے۔۔
سیاست دان ہوں کہ خطیب‘شاعر ہوں یا قوال سب اس طرح پینترے
بدل بدل کر آنکھیں نکال نکال اور کف اڑا اڑا کر بات کرتے ہیں جیسے سامعین کو کچا کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘بےچارے بچے بھی ماؤں کی گود میں ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں۔۔
ہمارے بچپن میں ایک شاعر تھے‘ آج بھی زندہ سلامت ہیں اللہ ان کو عمر خضر عطا فرمائے وہ رومی ٹوپی پہنتے تھے اور منہ میں پان کی بیڑا رکھ کر شعر سناتے تھے‘شاید اس طرح شعر‘ پان کے رنگ سے مزید رنگین ہو جاتے ہیں‘ اب موصوف منہ آسمان یا چھت کی طرف کر لیتے تا کہ پیک کے چھینٹے سننے والوں کے منہ پر نہ گریں اور ٹوپی کا پھندنا ہر لفظ پر اس کی شدت‘ حدت اور ملائمت کے مطابق ہلتا تھا۔۔ہم بہن بھائی شعر تو کیا خاک سمجھتے البتہ یہ منظر دیکھنے ضرور جاتے تھے۔۔
بہرحال آج کے پاپ سنگرز کو تو فن اشارہ میں بھی کوئی خصوصی ایوارڈ ضرور ملنا چاہیے۔۔جنون گروپ تو اس آرٹ کا ماہر ہے۔۔علی عظمت جب اپنے گنجے سر کے ساتھ بلبلا بلبلا کر منہ پھاڑ پھاڑ کر بابا بلھے شاہ کا کلام ‘بلھیا کی جانا میں کون‘ گاتا ہے تو سامعین کے ساتھ ساتھ بابا جی بھی قبر میں تڑپ اٹھتے ہوں گے اور اس دن کو کوستے ہوں گے‘
‘ جب انہوں نے یہ اشعار کہے اور ان کا بس نہیں چلتا ہو گا کہ اس کی گچی مروڑ کر کہیں کہ خدا کے واسطے چپ کر جائیں خود بتا دیتا ہوں میں کون ہوں۔۔‘‘
یہاں تک کہ سیدھی سادی گھریلو خواتین بھی اسی آزار میں مبتلا نظر آتی ہیں۔۔بغیر اشارے کے وہ بھی بات نہیں کرتیں۔۔
اشارہ کیا چیز ہے خواتین کی تو ہر بات ہی بلائے جان ہوتی ہے۔۔
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا ‘ اشارت کیا ‘ ادا کیا
ہماری ایک عزیزہ ہیں وہ ہر بات عملاً کرتی ہیں۔۔شاید ان کے اندر کوئی اداکارہ چھپی بیٹھی ‘جھاتیاں‘ مارتی ہیں۔۔ایک دن ہم نے شومئی قسمت ان سے سرسوں کا ساگ پکانے کی ترکیب پوچھ لی۔۔انہوں نے فوراً بڑے اہتمام سے پہلے خیالی ساگ کو دھویا اور پھر اپنی دو انگلیوں سے قینچی کا کام لیتے ہوئے اسے باریک باریک کاٹا پھر پتیلی میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا۔۔ان کے اشاروں کت ساتھ ساتھ ہماری گردن اوپر نیچے دائیں بائیں ہوتی رہی۔۔ہم خاصے مسحور ہو گئے تھے۔۔
‘‘لو بھئی اب تم اس میں ادرک اور پیاز کاٹ کر ڈال دو‘‘بلکہ انہوں نے خود ہی یہ خیالی پیاز اور ادرک بھی کاٹ کر ڈال دیا ہمارے منہ سے اچانک نکلا۔۔
‘‘دیکھئے دیکھئے انگلی نہ کاٹ بیٹھئے گا‘‘
ان کے ہاتھ رک گئے۔۔انہوں نےپہلے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا پھر حیران ہو کر ہماری طرف نظر ڈالی۔۔کچھ سوچا۔۔سر کو جٹھکا دیا۔۔ہمیں سٹھیایا ہوا سمجھ کر پھر سے ساگ پکانے لگیں۔۔
‘‘جب گل جائے تو خوب گھوٹو‘‘انہوں نے خیالی گھوٹنی کے ساتھ پوری طاقت سے ساگ گھوٹنا شروع کر دیا۔۔اس مشقت نے ان کو پسینہ پسینہ کر دیا۔۔
‘‘اب جناب اصلی گھی میں پسے ہوئے لہسن کا بگھار بنا کر ڈال دو۔۔ساتھ ہی ہری مرچیں بھی ڈال دو،،تیار ہو جائے تو ڈونگے میں نکال کر اوپر تازہ مکھن کا پیڑا رکھ دو۔۔ساگ تیار ہے‘‘۔۔
ہم نے اپنے منہ میں بھرا پانی بھر کر پوچھا۔۔‘‘مگر یہ ساگ تو پھیکا ہے‘‘۔۔
؛؛کیا مطلب‘‘؟ انہوں نے عینک کے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں گھمائیں۔۔ہم شاید اب تک ان کے جادو بھرے اشاروں کی وجہ سے ٹرانس میں تھے۔۔
؛مطلب یہ کہ نمک تو ڈالا نہیں‘‘۔۔
کہاں ہے ڈالا؟‘‘
ساگ میں‘‘۔۔
‘‘کہاں ہے ساگ‘‘۔۔؟
‘‘وہ جو ابھی آپ نے پکایا ہے‘‘۔۔
وہ خفا سی ہو گئیں‘‘۔۔میں نے ساگ پکایا ہے۔۔لگتا ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے۔۔میں نے ترکیب بتائی ہے کہ ساگ پکایا ہے‘‘۔۔
انہوں نے اپنا برقعہ اٹھایا اور کھڑی ہو گیئں۔۔
کہاں چل دیں؟مکئی کی روٹی کی ترکیب تو رہ گئی۔۔‘‘
انہوں نے ہمیں گھور کر دیکھا اور یہ جا وہ جا۔۔اب بھلا آپ بتائیے کہ ہم اس ساگ کو کاہے سے تناول فرمائیں گے۔۔
××××××××
یہ تو تھیں ہماری عزیزہ‘ مگر ہمارے شوہر کے عزیز تو ان سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔۔بس ہوں سمجھ لیں کہ جو فرق مارشل آرٹ اور ان ڈور گیمز میں ہوتا ہے‘ وہی عزیز اور عزیزہ کے درمیان تھا۔۔وہ ایک لمحے کو نچلا نہیں بیٹھ سکتے تھے۔۔ان کے اشاروں میں صرف ہاتھ نہیں بلکہ جسم کا ہر عضو پیروں سمیت حصہ لیتا تھا۔۔۔بچے ان کی آمد سے بہت خوش ہوتے تھے سرکس یا مداری کا تماشا دیکھنا کسے اچھا نہیں لگتا۔۔ایک روز وہ اپنی بیگم بچوں سمیت تشریف لائے۔۔چائے کی ٹرالی سامنے دھڑی تھی۔۔وہ مزے سے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔۔
‘‘اس ویک اینڈ پر کیا کرتے رہے؟‘‘
‘‘آپ کو پتا ہے بھائی جی! بندے کو شکار کا کتنا شوق ہے‘خواہ وہ کسی چیز کا ہو۔۔بس یہ ایک بیگم نہیں پھنستیں‘خواہ ہم کتنے جال ڈالیں۔۔‘‘وہ ہنسے۔۔
‘‘بڑے آئے تیس مار خان‘ آپ خالی مکھیاں ہی مار سکتے ہیں۔۔ایک چوہے نے شامت بلا رکھی ہے ہر چیز کتر کر رکھ دیتا ہے‘ کبھی برتنوں میں گھستا ہے۔۔ہم نے خوشامد درامد کی کی اس کو مار دیں تا کہ جان چھٹے۔۔
حضرت کو چوہا نظر بھی آ گیا مگر یہ تو چھلانگ مار کر صوفے پر جا چڑھے۔۔لگے چیخنے کہ بلاؤ باہر سے کسی مرد کو۔۔ہم نے یاد دلایا کہ اتفاق سے آپ بھی مرد ہیں‘ بولے میں تو صاحب ہوں۔۔تم کسی مالی‘ چوکیدار‘ ڈرائیور کو بلاؤ۔۔اب آپ بتائیے کہ چاہا کیا کسی کے آنے کا انتظار کرتا ان کی چیخم دھاڑ سن کر اڑنچھو ہوگیا۔۔۔
بیگم! اب ہم کوئی شکاری بلے تو ہیں نہیں جو چوہوں کا شکار کرتے پھریں۔۔ہم بڑی چیزوں کے شکاری ہیں ان حقیر چیزوں کے نہیں۔۔بہرحال‘ تو بھائی جی! اس بار ہم دوستوں نے حسن ابدال جھبلاہٹ پر شکار کا پروگرام بنایا میں نے اس بار جال سے مچھلی پکڑنے کا ارادہ کیا۔۔‘
وہ چائے کی پیالی ٹرالی میں رکھ کر کھڑے ہو گئے۔۔
‘بس بھائی جی!میں نے جو جال ڈالا‘‘ انہوں نے ساتھ والی میز سے میزپوش گھسیٹ کر نہایت ماہرانہ انداز میں خیالی پانی میں دے مارا۔۔اور وہ ناہجار میز پوش سیدھا ہمارے شوہر نا مراد کے سر پر پڑا اور۔۔گردن کے گرد بل کھا کر یوں لپٹ گیا جیسے پھانسی کا پھندا ڈالنے کے لیے پہلے مجرم کے منہ پر نقاب چڑھایا جاتا ہے۔۔ہم سب بھونچکے دیکھ رہے تھے۔۔بے چارے شوہر صاحب اس بلا کو سر سے اتارنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔۔انہوں نے فخر سے ہماری طرف دیکھا۔۔
‘‘دیکھی ہماری فنکاری تو بلکل آپ کے سر مبارک کی طرح ایک عظیم الحبثہ مچھلی ہمارے جال میں پھنس گئی۔۔اب ہم ہیں کہ اسے کھینچ رہے ہیں۔۔‘‘
انہوں نے کھینچ کر دکھایا۔۔شکر ہے اس وقت تک ان کا سر اس میز پوش سے برآمد ہو چکا تھا۔۔ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ ان ہی کو کھینچنے لگتے۔۔
‘ادھر وہ نا معقول مچھلی ہمیں گھسیٹ رہی تھی۔۔آخر ہم نے ایک آخری زور لگایا۔۔ادھر مچھلی باہر آئی ادھر ہم چاروں خانے چت ہو گئے۔۔
اور وہ خود دھڑام سے پیچھے جا گرے۔۔ان کا سر زور سے ٹرالی سے ٹکرایا۔۔ٹرالی میں ایک زلزلہ سا آ گیا۔۔بسکٹ ہوا میں اڑنے لگے۔۔کیک پلیٹ سے نکل کر ان کی مچھلی کی طرح قالین پر جا پڑا۔۔چائے پیالیوں سے چھلک پڑی۔۔انہوں نے گھبرا کر ان کے سر کا جائزہ لیا کہ ضرب کتنی شدید ہے‘مرہم پٹی کی ضرورت تو نہیں مگر ہر چیز سے بے نیاز اپنا سر ہلاتے ہوئے بولے۔۔
‘‘کیوں بیگم! کتنی بڑی مچھلی تھی۔۔کیا تم نے کبھی اتنی بڑی مچھلی دیکھی تھی؟؟‘‘
‘ہاں ابو ہم نے دیکھی تھی جب ہم امریکہ گئے تھے فلوریڈا میں سی ورلڈ نہیں لے گئے تھے آپ۔۔‘‘
‘‘ہم امریکہ کی نہیں ‘یہاں کی بات کر رہے ہیں۔۔‘‘وہ جھنجھلا گئے۔۔
بیگم بولی‘‘ہمیں سائز سے زیادہ اس بات پر حیرت تھی کہ اب مچھلیاں پانی میں سے مسالہ لگی ریڈی تو کک کی حالت میں نکلنے لگی ہیں۔۔اٹامک ایج ہے اکیسویں صدی ہے جو بھی ہو وہ کم ہے۔۔‘‘
وہ کچھ کھسیا گئے۔۔بھائی وہ مچھلی پھر ہم جن اڈے پر لے گئے تھے نا۔۔ وہاں صاف کروا کر مسالہ لگوایا تا کہ آپ کو کچھ تردد نہ کرنا پڑے۔۔‘‘
‘‘کتنا مزہ آئے ابو!اگر مچھلیاں تلی ہوئی نکلا کریں‘
امی کو فرائی نہ کرنہ پڑیں۔۔‘‘
‘‘تم اپنی چونچ بند رکھو۔۔سر کھانی کی بجائے یہاں آکر میرا سر دباؤ۔۔‘‘
یار! تم نے وہ مچھلی جھبلاٹ کے بجائے اڈے سے تو نہیں پکڑی تھی؟۔۔‘‘
‘‘یہ سراسر بدگمانی ہے۔۔اور اگر گمان گناہ ہوتے ہیں۔۔آپ نے ہماری مہارت پر پانی پھیر دیا۔۔‘‘
‘‘کون سا پانی‘ جھبلاٹ کا؟۔۔‘ہم نے بھی ہنس کر پوچھا۔۔
‘‘تمہاری مہارت پر نہیں اشارت پر پانی پھر گیا۔۔
اب سچ سچ اگل دو کہ وہ کیا چیز تھی جو تم نے پکڑی تھی۔۔کیا وہیل مچھلی کی آل اولاد تھی۔۔‘
‘نہیں بھائی جی۔۔‘وہ مسلسل اپنا سر سہلا رہے تھے۔۔
‘‘کوئی گومڑ وومڑ تو نہیں پڑ گیا سر میں؟۔۔‘
‘‘لگ تو رہا ہے‘دراصل وہاں جھبلاٹ کے کنارے کوئی ٹرالی نہیں تھی۔۔اس لیے منہ سر بچ کیا تھا۔۔‘انہوں نے بچوں کو سر کے ٹکور کے لیے برف لانے کو کہا۔۔
‘ہاں میاں! گمان کے علاوہ ایک چیز اور بھی ہوتی ہے‘یعنی سچ اور گپ‘اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘
انہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا۔۔‘‘دراصل وہ کسی بدنصیب کی رضائی تھی جو نہ جانے کیسے جھبلاٹ میں جا گری اور پانی پی پی کر بارہ من کی دھوبن بن گئی تھی۔۔‘‘
×××××
ایک بار جو وہ تشریف لائے تو گنگے بنوٹ اور لاٹھی چلانے پر تقریر فرمانے لگے۔۔
‘‘بھئی بروسلی کیا چیز ہے۔۔اگر اس کا سامنا کسی بنوٹ یا گنگے کے ماہر سے ہو جاتا تو اس کے غبارے کی ساری ہوا نکل جاتی۔۔‘‘انہوں نے ایک خالی غبارے سے ایک زوردار آواز کے ساتھ ہوا خارج کی تو بچے ہنسنے لگے۔۔دراصل ان کو دیکھتے ہے بچے اپنا سارا کھیل کود چھوڑ چھاڑ ان کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو جاتے تھے۔۔
‘‘یہ حقیقت ہے کہ جوڈو کراٹے ہمارے اس فن کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔۔ارے بھائی اگر بندہ برستی بارش میں لاٹھی چلاتا نکل جائے تو کیا مجال کہ اس پر پانی کا ایک قطرہ بھی گرے۔۔وہ بلکل سوکھا گھر پنہچ جائے گا۔۔انوکی کا مقابلہ اگر کسی ایسے سے ہوتا تو مونڈھا انوکی کا نکلتا۔۔بلکہ دونوں مونڈھوں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ نکل جاتا۔۔‘‘
‘‘چچاجان!آپ ہمیں کر کے دکھائیں‘ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔۔‘‘
‘‘تو بھائی اس میں ایسی کیا بات ہے۔۔ابھی کر کے دکھاتے ہیں۔۔ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ہے۔۔‘‘
‘‘تو کیا لاٹھی چلانے سے پہلے ہاتھ میں کنگن پہننے پڑتے ہیں اور آر سی کی بوتل پینی پڑتی ہے۔۔‘‘ایک صاحبزادے حیران ہو کر بولے۔۔
‘‘ارے بھئی‘یہ تو ایک محاورہ ہے۔۔یہ نئی نسل کیا جانے کہ محاورے کیا ہوتے ہیں۔۔تم ذرا دوڑ کر جاؤ اور ایک لاٹھی لے آؤ پھر دیکھو ہمارے کرتب‘‘۔۔
‘‘تمہارے کرتب تو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ لاٹھی آئے گی کہاں سے۔۔‘‘انہوں نے پوچھا۔۔
‘‘ہم تو دہشت گردی کے الزام سے بچنے کے لیے ہر قسم کی لاٹھیاں ڈنڈے‘دستے سوٹے سوٹیاں کھر سے غائب کر دی ہیں۔۔‘‘ہم نے بھی لقمہ دیا۔۔
‘‘مچھر دانی کا بانس تو ہوگا‘‘
‘‘کیسی مچھر دانی؟وہ زمانے گئے جب مچھر دانی کے پنجرے میں کبوتر بنے سوتے تھے اب تو میٹ اور جلیبی کا زمانہ ہے۔۔‘‘
؛؛بھئی کوئی چارپائی تو ہو گی۔۔اس کی چوکاٹھ کا ڈنڈا نکال لاؤ۔۔‘‘
‘‘تم کس دور کی پیداوار ہو۔۔ہر متروک چیز کا نام لے رہے ہو۔۔آج کل بیڈز ہوتے ہیں۔۔گاؤں والے بھی ڈبل بیڈ سے کم نہیں دیتے بیٹی کو جہیز میں۔۔اگر کوئی ہوتی ہے تو وہ لوہے کی فولڈنگ چارپائی ہوتی ہے۔۔‘
‘‘جاؤ بیٹا!کسی درخت کی بڑی سی شاخ توڑ لاؤ۔۔‘‘
‘‘تم نے یہ فن کہاں سے سیکھا ہے۔۔؟‘‘انہوں نے پوچھا۔۔
‘‘کیا فرق پڑتا ہے اس سے بھائی جی!اگر کسی کا بیاہ نہ ہوا ہو تو کیا اس نے بارات بھی نہیں دیکھی ہوتی۔۔‘
‘‘کیا تم نے بارات دیکھی ہے؟‘‘
‘‘کیا ایک دفعہ ایک صاحب کو یہ کرتب دکھاتے دیکھا تھا۔۔‘‘