عرفان قادر

محفلین
ایسے سرتاج کو ملتی ہے ہدایت کم کم
جس کی سینڈل سے ہو کی جاتی مُرمّت کم کم


کرتے رہتے ہیں یہاں گاؤں کے کنگلے بھی بہت
"شہر میں رزق تو وافر تھا محبت کم کم"


ووٹ لینا ہو تو در در ہیں بھٹکتے پھرتے
پھر نظر آتے ہیں اربابِ سیاست کم کم


پانچ دیوان ہیں چھَپوائے ہوئے شاعر نے
پائی جاتی ہے مگر اُن میں فراست کم کم

جان! اِن بیوٹی کریموں پہ بھروسا مت کر
گورا کرتی ہیں چُڑیلوں کی یہ رنگت کم کم

چائے پانی کے، لیے جاتے ہیں پیسے اکثر
اب کے دفتر میں چلا کرتی ہے رشوت کم کم


حد سے بڑھ جانے پہ ہے عشق دکھائی دیتا
پہلے آتی ہے نظر کوئی علامت کم کم


گھر سے باہر ہی اکڑفوں ہے نری، اور اندر
لال بیگوں سے بھی شوہر کی ہے دہشت کم کم


فیس بُک کو بھی ذرا وقت دیا کر رانجھے
اپنے شیڈول میں رکھ بھینس کی خدمت کم کم


اگلے وقتوں میں نہیں جاتی تھی بجلی ہرگز
اور اب آتی ہے یہ ماسی مصیبت کم کم


ہوں شکم سیر تو بالکل نہ دُلتّی جھاڑیں
پائی جاتی ہے گدھوں میں یہ روایت کم کم

یوں تو وہ شہر میں مشہور ہے چوٹی کا وکیل
سامنے چلتی ہے بیگم کے وکالت کم کم


ہم سمجھتے رہے شرمائے گا، مُلّا ہو کر
میم کو دیکھ کے بول اُٹھّا وہ حضرت "کم! کم!"

پہلوانوں کی غزل سن کے نہ جو "واہ" کہیں
ہاتھ پاؤں ہیں رہے اُن کے سلامت کم کم
۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان قادر
 
Top