ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

سید زبیر

محفلین

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھےایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر ! یہ ہے وہ شخص۔سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟ یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔ سیدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتلکیا ہے؟ وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔ کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔ یا عمرؓ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منعکیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگااور وہ موقع پر مر گیا۔ پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثےکی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیاہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہپوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرےمیں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیاہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓ پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتاہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو،قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔ وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمانقائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہمیں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئیآسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں: کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آجائے گا؟مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تکبھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمےیا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ توبعد کی بات ہے۔کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کےسودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسےتلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سےاعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھینہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر ؓبھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیاہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوںمرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیاجائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گاخود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھاکر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہےکوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیںمیں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کیسیدنا عمرؓ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔عمرؓ: جانتے ہو اسے؟ابوذرؓ: نہیں جانتا اسے۔عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟ابوذرؓ: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتاہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔عمرؓ: ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کاصدمہ دیکھنا پڑے گا۔امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروریتیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہدیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپسآنے کیلئے۔اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے توایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادیپھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمعاللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔ابو ذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذرؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سےزیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہاہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کاٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھرمعاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیںہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات وواقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتلنہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہاکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتاہے۔عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہمنے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئیتیرا پتہ جانتا تھاامیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر وپوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوںکے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہیپانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھاکہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔سیدنا عمرؓ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اسکیضمانت دے دی تھی؟ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہاب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیاکہتے ہو اب؟نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سےاسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ابلوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
سیدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہےتھے۔۔۔۔اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔اے ابو ذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔ ۔


 

نایاب

لائبریرین
روشن سچے لوگوں کی روشن سچی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہاں وہ" وفائے عہد و صداقت " عدل و انصاف " عفو و درگزر"
گنوا دی ہم نے میراث اسلاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
عدل فاروقی کی یاد تا قیامت آتی رہے گی اور دنیا تا قیامت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کرتی رہے گی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری آئیڈیل ہستی ہیں رہ گئے ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ تو یہ اصحاب صفہ کے سرخیلوں میں سے تھے ۔ ایک جنگ میں کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تو اکیلے ہی بے سروسامانی کی حالت میں جب اپنے آقا و مولا تک پہنچے تو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ ابوذر جس حالت میں آرہا ہے اسی حالت میں ان کا وصال بھی ہوگا۔ بعد میں معاویہ بن سفیان نے ان کو شام بدر کردیا تھا کیونکہ یہ لوگوں کو عبرت دلاتے تھے جس کا معاویہ اور اس کے متعلقین برا مناتے تھے کیونکہ یہ لوگ عمر رضی اللہ تعالیٰ کے برعکس عالیشان محلوں میں رہتے تھے اور جب صبح صبح گلیاں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز سے گونج اٹھتی تھیں۔ اے عالیشان محلوں میں رہنے والو موت کو بھولو جیسا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے آقا کہا کرتے تھے کہ لذتوں کو توڑنے والی موت کو یاد رکھو۔
 

تلمیذ

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالےعنہ کے سنہر ی دور حکومت کے بے شمارایسے واقعات میں سے ایک واقعہ ۔ ۔ ۔ جس میں ہمارے موجودہ حکمرانوں اور نظام عدل کے لئے سبق اور عبرت موجود ہے۔ اس واقعے میں قابل غوربنیادی نکتہ یہ ہے کہ قاتل نے بلاچون وچرا اپنے فعل کا اقبال کر لیا، جبکہ آج کل عینی شاہدوں کی شہادت کے باوجود بھی ہمارے وکلاء اور نظام عدل مجرم کو صاف بچالیتا ہے۔
شراکت کا شکریہ، سید زبیر صاحب، جزاک اللہ!
 
ایک دوسرے فورم پر اس کے غیر مستند ہونے کے بارے میں ذکر کیا تھا :
اتنا ہی كافى ہے كہ اس واقعے كى كوئى اصل نہيں جس سے معلوم ہو كہ يہ حضرت عمر رضى اللہ عنہ كے زمانے ميں ہوا تھا ، اس ليے یہ مكمل طور پر جھوٹا اور گھڑا ہوا قصہ ہے ۔
جس كتاب إعلام الناس بما وقع للبرامكة للاتليدي ميں اس سے مشابہ قصہ مذكور ہے اس مصنف نے اس كو بلاسند ذكر كرتے ہوئے انوكھا قصہ قرار ديا ہے ، اس شخص اور صحابہ رضى اللہ عنہم كے درميان صدياں حائل ہيں اور وہ اس كو براہ راست صحابہ رضى الله عنہم سے روايت كر رہا ہے ۔ نعوذ باللہ من الكذب ۔
نيز اس ميں شرعى احكام اور عقل كے خلاف باتيں مذكور ہيں جن ميں سے ايك يہ ہے كہ حضرت عمر رضى اللہ عنہ بلا جرم حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ پر حد لگانے كو تيار ہو گئے اور تمام موجود صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر اعتراض نہيں كيا ۔http://www.urduvb.com/forum/showpost.php?p=348493&postcount=22
 

نایاب

لائبریرین
عدل فاروقی کی یاد تا قیامت آتی رہے گی اور دنیا تا قیامت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کرتی رہے گی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری آئیڈیل ہستی ہیں رہ گئے ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ تو یہ اصحاب صفہ کے سرخیلوں میں سے تھے ۔ ایک جنگ میں کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تو اکیلے ہی بے سروسامانی کی حالت میں جب اپنے آقا و مولا تک پہنچے تو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ ابوذر جس حالت میں آرہا ہے اسی حالت میں ان کا وصال بھی ہوگا۔ بعد میں معاویہ بن سفیان نے ان کو شام بدر کردیا تھا کیونکہ یہ لوگوں کو عبرت دلاتے تھے جس کا معاویہ اور اس کے متعلقین برا مناتے تھے کیونکہ یہ لوگ عمر رضی اللہ تعالیٰ کے برعکس عالیشان محلوں میں رہتے تھے اور جب صبح صبح گلیاں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز سے گونج اٹھتی تھیں۔ اے عالیشان محلوں میں رہنے والو موت کو نہ بھولو جیسا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے آقا کہا کرتے تھے کہ لذتوں کو توڑنے والی موت کو یاد رکھو۔
سچ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
گیند محترم سید زبیرصاحب کی کورٹ میں آ گرا ہے ۔ ۔ ۔
سید زبیر
برادرم تلمیذ صاحب ! بالکل صحیح فرمایا گیند میرے کورٹ میں آگئی اور پوائنٹ بن گیا ۔ مجھے یہ تحریر کسی نے ای میل کی متاثر ہو کر مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنے محفل کے ساتھیوں کو بھی شریک کر لوں۔آج دن بھر اس واقعے کی سند تلاش کرتا رہا مگر سند نہ ملی ۔میں ام نور العين بہن کا شکر گزار ہوں اگرچہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سےصحابہ کرام رضوان اللہ کی شان متاثر ہوتی ہو لیکن پھر بھی ایک ایسی بات جس کا صحابہ کرام سے تعلق نہ ہو منسوب کرنا کوئی مستحسن فعل بھی نہیں میں اپنے اللہ کے حضور معافی کا خواستگار ہوں یہ میرا فعل سراسر میری کم علمی کے باعث تھا اللہ میری نیتوں سے مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔
 
برادر محترم یہ آپ کی عظمت ہے کہ میری بات پر توجہ کی، جزاک اللہ خیرا۔ شکریہ کی کوئی بات نہیں ۔ دعا میں یاد رکھنے کی درخواست ہے ۔
 

سید زبیر

محفلین
برادر محترم یہ آپ کی عظمت ہے کہ میری بات پر توجہ کی، جزاک اللہ خیرا۔ شکریہ کی کوئی بات نہیں ۔ دعا میں یاد رکھنے کی درخواست ہے ۔
اللہ کریم آپ کو دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور عظمتیں عطا فرمائے (آمین)
 
Top