فخرنوید
محفلین
موبائل فون کے ذریعے تحریری پیغام رسانی یعنی ایس ایم ایس پر وفاقی بجٹ میں ٹیکس عائد کیے جانے پر لاہور میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔
حکومت کی جانب سے ایس ایم ایس پر لگائے جانے والے بیس پیسے کے ٹیکس کے بعد یہ اپنی طرز کا پہلا احتجاجی مظاہرہ تھا۔
پراگریسو یوتھ فرنٹ نامی تنظیم کے زیر انتظام ہونے والے اس مظاہرے کے رابطہ کار کاشف اسلم کا کہنا تھا کہ یہ نوجوانوں کے لیے ایک سہولت تھی جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے سستے طریقے سے رابطہ کر سکتے تھے لیکن حکومت نے اس پر ٹیکس لگا کر ہم سے ہماری یہ سہولت چھیننے کی کوشش کی ہے۔
اسی تنظیم کی ایک رکن ربیعہ شہزادی کا کہنا تھا کہ غریب شخص فون کرنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتا اور وہ
سستے ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی بات اپنے دوست احباب تک پہنچا دیتا تھا لیکن اب اسے بھی مہنگا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کے اراکین آپس میں رابطے کے لیے اور باہری دنیا کو اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے لیے ایس ایم ایس کو ذریعہ بناتی ہے اور اس سے نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی کم پیسوں میں پیغام بھجوائے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے۔
ایک موبائل فون کمپنی کے نائب صدر بلال شیخ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں ٹیلی کمیونیکشن کے لیے اچھے اقدامات بھی کیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے سے سیلولر کمپنیوں اور ان کے صارفین کو جو تشویش ہوئی ہے اس سلسلے میں تمام کمپنیاں حکومت سے بات کر رہیں ہیں اور امید ہے کہ حکومت ان کی بات پر غور کرے گی۔
آج کے دور میں ایس ایم ایس کے ذریعے پیغام رسانی کرنا رواج اور ضرورت بن گیا ہے۔خوشی ہو یا غمی،عید ہو یا ویلنٹائن ڈے، شادی ہو یا سالگرہ ایس ایم ایس کے ذریعے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایس ایم ایس سیاسی اور دیگر نظریات پھیلانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ وکلاء تحریک اور انتخابی مہم کے دوران ان کا دھڑا دھڑ استعمال دیکھنے میں آیا۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں موبائل فون کی تعداد نو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ایک محتاط اندازہ ہے کہ روزانہ ملک بھر میں پچاس کروڑ ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں جن سے سیلولر کمپنیوں کو بے حد منافع ہوتا ہے اور حکومت کی بھی روزانہ کروڑوں میں آمدنی ہوتی ہے۔
ایس ایم ایس پر بیس پیسے ٹیکس لگانے سے حکومت کی یومیہ آمدنی کئی گنا بڑھ جائے گی لیکن اس سے ایک خدشہ ہے کہ ایس ایم ایس کرنے کے رجحان میں پہلے سے کچھ کمی ہو جائے۔
زریعہ: وائس آف پاکستان
حکومت کی جانب سے ایس ایم ایس پر لگائے جانے والے بیس پیسے کے ٹیکس کے بعد یہ اپنی طرز کا پہلا احتجاجی مظاہرہ تھا۔
پراگریسو یوتھ فرنٹ نامی تنظیم کے زیر انتظام ہونے والے اس مظاہرے کے رابطہ کار کاشف اسلم کا کہنا تھا کہ یہ نوجوانوں کے لیے ایک سہولت تھی جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے سستے طریقے سے رابطہ کر سکتے تھے لیکن حکومت نے اس پر ٹیکس لگا کر ہم سے ہماری یہ سہولت چھیننے کی کوشش کی ہے۔
اسی تنظیم کی ایک رکن ربیعہ شہزادی کا کہنا تھا کہ غریب شخص فون کرنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتا اور وہ
سستے ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی بات اپنے دوست احباب تک پہنچا دیتا تھا لیکن اب اسے بھی مہنگا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کے اراکین آپس میں رابطے کے لیے اور باہری دنیا کو اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے لیے ایس ایم ایس کو ذریعہ بناتی ہے اور اس سے نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی کم پیسوں میں پیغام بھجوائے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے۔
ایک موبائل فون کمپنی کے نائب صدر بلال شیخ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں ٹیلی کمیونیکشن کے لیے اچھے اقدامات بھی کیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے سے سیلولر کمپنیوں اور ان کے صارفین کو جو تشویش ہوئی ہے اس سلسلے میں تمام کمپنیاں حکومت سے بات کر رہیں ہیں اور امید ہے کہ حکومت ان کی بات پر غور کرے گی۔
آج کے دور میں ایس ایم ایس کے ذریعے پیغام رسانی کرنا رواج اور ضرورت بن گیا ہے۔خوشی ہو یا غمی،عید ہو یا ویلنٹائن ڈے، شادی ہو یا سالگرہ ایس ایم ایس کے ذریعے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایس ایم ایس سیاسی اور دیگر نظریات پھیلانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ وکلاء تحریک اور انتخابی مہم کے دوران ان کا دھڑا دھڑ استعمال دیکھنے میں آیا۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں موبائل فون کی تعداد نو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ایک محتاط اندازہ ہے کہ روزانہ ملک بھر میں پچاس کروڑ ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں جن سے سیلولر کمپنیوں کو بے حد منافع ہوتا ہے اور حکومت کی بھی روزانہ کروڑوں میں آمدنی ہوتی ہے۔
ایس ایم ایس پر بیس پیسے ٹیکس لگانے سے حکومت کی یومیہ آمدنی کئی گنا بڑھ جائے گی لیکن اس سے ایک خدشہ ہے کہ ایس ایم ایس کرنے کے رجحان میں پہلے سے کچھ کمی ہو جائے۔
زریعہ: وائس آف پاکستان