زیک
مسافر
آپ کی تجاویز اچھی ہیں لیکن اس پر عمل در آمد کے لئے لوگ کہاں سے آئیں گے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ اسلام کے نام پر تشدد کے قائل ہیں بس پیمانہ مختلف ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے حامی استاد یا والدین کس منہ سے طلبا کو سبق سکھا سکیں گے؟واقعی افسوسناک بات ہے۔ کیا ہم ذاتی کوششوں پر ایسا کچھ تربیتی نظام ترتیب دے سکتے ہیں؟
باقاعدہ کوئی سنگھٹن کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہر اسکول اور کالج میں کوچنگ سینٹرز والے اور انٹر اسکول/کالج مقابلوں کے انوی ٹیشن کے لیے جاتے ہی ہیں۔ کتنے ہی سیمی نار کریئر گائیڈنس کے ہوتے ہیں۔ انتظامیہ سے کوئی آدھے ایک گھنٹے کی بات کر کےکوئی اچھے اسپیکر کے ذریعے چھوٹا سا سیمی نار جیسا منعقد کرایا جا سکتا ہے۔
زیادہ مجمع بھی ضروری نہیں۔ محض گیارہویں باہویں جماعت کے طلباء، یا نویں دسویں کے طلباء۔ مختصر بات۔ ایسے معاملات کی سنگینیوں کا ذکر۔ مستقبل پر اثر۔ اسلام کا نظریہ۔ محبت کی باتیں۔
طلباء کی بجائے اساتذہ کو بھی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے، جو بچوں کے ساتھ سال بھر رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے ذہنوں میں محبتیں اور پازیٹیویٹی گھول سکتے ہیں۔
اگر اسکول کالج میں ممکن نہیں ہو رہا تو محلے میں جاری ٹیوشن سنٹرز کے اساتذہ سے خصوصی ملاقات کی جائے۔
کچھ تو کیا جائے!