حسان خان
لائبریرین
اب سے ہوگا ایشیا پر ایشیا والوں کا راج
دستِ محنت کو ملے گا دستِ محنت سے خراج
زندگی بدلی ہے بدلا ہے زمانے کا مزاج
پھوڑ دیں گے ہم یہ آنکھیں ہم کو مت آنکھیں دکھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ہم نے دیکھے ہیں بہت ظلم و ستم، قہر و عتاب
نوچ لیں گے ہم تمہاری سلطنت کا آفتاب
ہم بھی دیں گے تم کو اب جوتے سے جوتے کا جواب
باں بڑے آئے کہیں کے لاٹ صاحب جاؤ جاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
لد گئے وہ دن کہ جب آقا تھے تم اور ہم غلام
ہم وہ بے حس تھے کہ تم کو جھک کے کرتے تھے سلام
آج ہم ہیں بددماغ و بدزبان و بدلگام!
سیر کا بدلہ ہے سیر اور پاؤ کا بدلہ ہے پاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ہاں کبھی تھا ایشیا مجبور و محکوم و فقیر
دوسروں کا ذکر کیا خود اپنی نظروں میں حقیر
قبر کا مردہ یہ جسمِ نوجوان و روحِ پیر
زخم خوردہ پیٹھ پر تاریک صدیوں کا دباؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا روحِ لطافت، پیکرِ حسن و جمال
دھان کے کھیتوں کا سینہ، ڈھاک کے پھولوں کے گال
بجلیوں کے نرم و نازک ہاتھ، طوفانوں کے بال
آہن و فولاد ہے مضبوط شانوں کا گھٹاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ماؤ، استالن کا بھائی، لیننِ اعظم کا لال
مٹھیوں میں تتلیوں کی طرح روحِ ماہ و سال
نرم آنکھوں میں محبت، گرم ماتھے پر جلال
اس کے کھیون ہار ہاتھ اور ایشیا والوں کی ناؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ڈالروں کے زور پر اس درجہ اتراتے ہو کیا
ہم کو اپنی توپ، اپنے ٹینک دکھلاتے ہو کیا
ہائیڈروجن اور ایٹم بم سے دھمکاتے ہو کیا
ہم نہیں ڈرنے کے، جا کر اپنے بھوتوں کو ڈراؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
یہ کمینے، ملک کے غدار، ڈالر کے غلام
جن کے منہ میں تم نے ڈالی ہے حکومت کی لگام
یہ بغل بچے، یہ پٹھو بھی نہیں آئیں گے کام
یہ تو ہیں بھاڑے کے ٹٹو ان پہ مت بازی لگاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
تیوریاں بدلے ہوئے ہیں اب زمین و آسماں
بجلیاں لے کر اٹھا ہے دل کی آہوں کا دھواں
آنکھ سے آنسو کے بدلے ڈھل رہی ہیں گولیاں
بن گئے ہیں رائفل کی آنکھ اب سینے کے گھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
دیکھتی ہیں مڑ کے صدیاں چین کی فوجوں کی شان
ہے ہمالہ کی بلندی پر بغاوت کی اٹھان
ندیوں کے دل پہ چھاپے مار قدموں کے نشان
دشمنوں کو گھیرے لیتا ہے پہاڑوں کا گھماؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ویت نامی فوج چلتی ہے کہ چلتے ہیں پہاڑ
موجِ سرکش ہے کہ اڑتے ہیں اچھلتے ہیں پہاڑ
انقلابی جوش ہے جیسے پگھلتے ہیں پہاڑ
چوٹیوں پر آج روشن ہیں بغاوت کے الاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
جنگلوں سے حملہ آور ہیں ملایا کے دلیر
گونجتے ہیں بادلوں کی طرح سے برما کے شیر
ہند و پاکستان جاگ اٹھے، نہیں ہے کوئی دیر
آمد آمد عدل کی، ظلم و ستم کا چل چلاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
خاکِ ایراں میں سلگتی ہیں دبی چنگاریاں
مصر و ترکی کی زمیں پر خون کی گلکاریاں
شام اور لبنان میں اٹھنے کی ہیں تیاریاں
وقت کی تلوار کا خم ہے کہ ابرو کا کھنچاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
بُن رہے ہیں جال مل کر آج تسبیح و جنیو
بچ کے جا سکتا نہیں دیسی بدیسی کوئی دیو
پڑ رہی ہے ہر قدم پر اک تلنگانے کی نیو
دھان اور گیہوں کے پودوں میں کمانوں کا جھکاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
آندھیوں کا زور ہے نعروں کی بوچھاروں کے ساتھ
نفرتوں کی بارشیں آنکھوں کے انگاروں کے ساتھ
موت اڑتی ہے تمہارے شاہی بمباروں کے ساتھ
اب نہیں ممکن تمہارے تاج و پرچم کا بچاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
آگ کا دریا ہے اب پورب کے سرچشموں کا تیل
بن گئی ہے آہنی زنجیر انگوروں کی بیل
شہ پہ شہ پڑتی ہے اب باقی کہاں ہے کوئی کھیل
پٹ چکے ہیں سارے مہرے شاہ و فرزیں بھی اٹھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
تم کو کچے مال کے بدلے ملے گی ایک لات
بن گئے ہتھیار دہقانوں کے مزدوروں کے ہات
خاک کے سینے سے لاوا بن کے اب نکلے گی دھات
جان کی بازی ہے اب اس خاک کے ذروں کا بھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
چل رہے ہیں وقت اور تاریخ کے کھیتوں میں ہل
پھل رہے ہیں پیڑ کی شاخوں میں تلواروں کے پھل
سانس لیتے ہی بج اٹھتے ہیں ہواؤں میں دہل
الاماں بگڑی ہوئی سرکش فضاؤں کا تناؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا ہنسیوں کا جنگل ہے تمہارے واسطے
ساحلوں کی ریت بھوبل ہے تمہارے واسطے
خون سے لبریز چھاگل ہے تمہارے واسطے
بوند پانی بھی نہ دیں گے تم کو پانی کے پیاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
تم جہاں بھی پاؤں رکھو گے زمیں ہٹ جائے گی
ظلم کی گردن ہوا کی دھار سے کٹ جائے گی
یہ فضا اک بم کے گولے کی طرح پھٹ جائے گی
سلطنت کی فکر چھوڑو خیر جانوں کی مناؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا کی خاک پر دم توڑتا ہے سامراج
ایشیا کی ٹھوکروں میں ہے ملوکیت کا تاج
ایشیا میں ایشیا کا جشنِ آزادی ہے آج
ایشیا کے خون میں ہے صبحِ مشرق کا رچاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا کی جنگِ آزادی ہے اک دنیا کی جنگ
ہے ہمارے زخمِ دل میں سارے عالم کی امنگ
ہاں بدل جانے کو ہے اب مشرق و مغرب کا رنگ
آج سب مل کر پکارو، مل کے سب نعرے لگاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
(علی سردار جعفری)
دستِ محنت کو ملے گا دستِ محنت سے خراج
زندگی بدلی ہے بدلا ہے زمانے کا مزاج
پھوڑ دیں گے ہم یہ آنکھیں ہم کو مت آنکھیں دکھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ہم نے دیکھے ہیں بہت ظلم و ستم، قہر و عتاب
نوچ لیں گے ہم تمہاری سلطنت کا آفتاب
ہم بھی دیں گے تم کو اب جوتے سے جوتے کا جواب
باں بڑے آئے کہیں کے لاٹ صاحب جاؤ جاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
لد گئے وہ دن کہ جب آقا تھے تم اور ہم غلام
ہم وہ بے حس تھے کہ تم کو جھک کے کرتے تھے سلام
آج ہم ہیں بددماغ و بدزبان و بدلگام!
سیر کا بدلہ ہے سیر اور پاؤ کا بدلہ ہے پاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ہاں کبھی تھا ایشیا مجبور و محکوم و فقیر
دوسروں کا ذکر کیا خود اپنی نظروں میں حقیر
قبر کا مردہ یہ جسمِ نوجوان و روحِ پیر
زخم خوردہ پیٹھ پر تاریک صدیوں کا دباؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا روحِ لطافت، پیکرِ حسن و جمال
دھان کے کھیتوں کا سینہ، ڈھاک کے پھولوں کے گال
بجلیوں کے نرم و نازک ہاتھ، طوفانوں کے بال
آہن و فولاد ہے مضبوط شانوں کا گھٹاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ماؤ، استالن کا بھائی، لیننِ اعظم کا لال
مٹھیوں میں تتلیوں کی طرح روحِ ماہ و سال
نرم آنکھوں میں محبت، گرم ماتھے پر جلال
اس کے کھیون ہار ہاتھ اور ایشیا والوں کی ناؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ڈالروں کے زور پر اس درجہ اتراتے ہو کیا
ہم کو اپنی توپ، اپنے ٹینک دکھلاتے ہو کیا
ہائیڈروجن اور ایٹم بم سے دھمکاتے ہو کیا
ہم نہیں ڈرنے کے، جا کر اپنے بھوتوں کو ڈراؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
یہ کمینے، ملک کے غدار، ڈالر کے غلام
جن کے منہ میں تم نے ڈالی ہے حکومت کی لگام
یہ بغل بچے، یہ پٹھو بھی نہیں آئیں گے کام
یہ تو ہیں بھاڑے کے ٹٹو ان پہ مت بازی لگاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
تیوریاں بدلے ہوئے ہیں اب زمین و آسماں
بجلیاں لے کر اٹھا ہے دل کی آہوں کا دھواں
آنکھ سے آنسو کے بدلے ڈھل رہی ہیں گولیاں
بن گئے ہیں رائفل کی آنکھ اب سینے کے گھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
دیکھتی ہیں مڑ کے صدیاں چین کی فوجوں کی شان
ہے ہمالہ کی بلندی پر بغاوت کی اٹھان
ندیوں کے دل پہ چھاپے مار قدموں کے نشان
دشمنوں کو گھیرے لیتا ہے پہاڑوں کا گھماؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ویت نامی فوج چلتی ہے کہ چلتے ہیں پہاڑ
موجِ سرکش ہے کہ اڑتے ہیں اچھلتے ہیں پہاڑ
انقلابی جوش ہے جیسے پگھلتے ہیں پہاڑ
چوٹیوں پر آج روشن ہیں بغاوت کے الاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
جنگلوں سے حملہ آور ہیں ملایا کے دلیر
گونجتے ہیں بادلوں کی طرح سے برما کے شیر
ہند و پاکستان جاگ اٹھے، نہیں ہے کوئی دیر
آمد آمد عدل کی، ظلم و ستم کا چل چلاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
خاکِ ایراں میں سلگتی ہیں دبی چنگاریاں
مصر و ترکی کی زمیں پر خون کی گلکاریاں
شام اور لبنان میں اٹھنے کی ہیں تیاریاں
وقت کی تلوار کا خم ہے کہ ابرو کا کھنچاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
بُن رہے ہیں جال مل کر آج تسبیح و جنیو
بچ کے جا سکتا نہیں دیسی بدیسی کوئی دیو
پڑ رہی ہے ہر قدم پر اک تلنگانے کی نیو
دھان اور گیہوں کے پودوں میں کمانوں کا جھکاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
آندھیوں کا زور ہے نعروں کی بوچھاروں کے ساتھ
نفرتوں کی بارشیں آنکھوں کے انگاروں کے ساتھ
موت اڑتی ہے تمہارے شاہی بمباروں کے ساتھ
اب نہیں ممکن تمہارے تاج و پرچم کا بچاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
آگ کا دریا ہے اب پورب کے سرچشموں کا تیل
بن گئی ہے آہنی زنجیر انگوروں کی بیل
شہ پہ شہ پڑتی ہے اب باقی کہاں ہے کوئی کھیل
پٹ چکے ہیں سارے مہرے شاہ و فرزیں بھی اٹھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
تم کو کچے مال کے بدلے ملے گی ایک لات
بن گئے ہتھیار دہقانوں کے مزدوروں کے ہات
خاک کے سینے سے لاوا بن کے اب نکلے گی دھات
جان کی بازی ہے اب اس خاک کے ذروں کا بھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
چل رہے ہیں وقت اور تاریخ کے کھیتوں میں ہل
پھل رہے ہیں پیڑ کی شاخوں میں تلواروں کے پھل
سانس لیتے ہی بج اٹھتے ہیں ہواؤں میں دہل
الاماں بگڑی ہوئی سرکش فضاؤں کا تناؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا ہنسیوں کا جنگل ہے تمہارے واسطے
ساحلوں کی ریت بھوبل ہے تمہارے واسطے
خون سے لبریز چھاگل ہے تمہارے واسطے
بوند پانی بھی نہ دیں گے تم کو پانی کے پیاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
تم جہاں بھی پاؤں رکھو گے زمیں ہٹ جائے گی
ظلم کی گردن ہوا کی دھار سے کٹ جائے گی
یہ فضا اک بم کے گولے کی طرح پھٹ جائے گی
سلطنت کی فکر چھوڑو خیر جانوں کی مناؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا کی خاک پر دم توڑتا ہے سامراج
ایشیا کی ٹھوکروں میں ہے ملوکیت کا تاج
ایشیا میں ایشیا کا جشنِ آزادی ہے آج
ایشیا کے خون میں ہے صبحِ مشرق کا رچاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا کی جنگِ آزادی ہے اک دنیا کی جنگ
ہے ہمارے زخمِ دل میں سارے عالم کی امنگ
ہاں بدل جانے کو ہے اب مشرق و مغرب کا رنگ
آج سب مل کر پکارو، مل کے سب نعرے لگاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
(علی سردار جعفری)