محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
ایلی کا خواب نگر
( ایلس ان ونڈر لینڈ ) مصنفہ : لوئس کیرول
ترجمہ و تالیف : محمد خالد اختر
پہلاباب
خرگوش کے بھٹ میں سے نیچے
ایلی کنارے پر اپنی بہن کی بغل میں بےکار بیٹھے بیٹھے بےحد اُکتانے لگی تھی۔ ( اُس کے کرنے کےلئے بھی تو کچھ نہ تھا )۔ ایک دو بار اس نے اس کتاب میں جھانکا تھا جسے اس کی بہن پڑھ رہی تھی لیکن اس میں نہ تو تصویریں تھیں اور نہ کوئی سوال و جواب۔( ایلس ان ونڈر لینڈ ) مصنفہ : لوئس کیرول
ترجمہ و تالیف : محمد خالد اختر
پہلاباب
خرگوش کے بھٹ میں سے نیچے
" ایسی کتاب بھی بھلا کس کام کی " ایلی نے سوچا " جس میں نہ تصویریں ہوں نہ سوال و جواب"
سو وہ اپنے دل میں اس بات پر " غور " کر رہی تھی ( جس حد تک وہ غور کر سکتی تھی۔ کیونکہ دن کی تیزی سے اس کی آنکھیں نیند کے مارے بوجھل ہو رہی تھیں اور وہ خود کو احمق لگنے لگی تھی ) کہ آیا موتیے کے پھولوں کا ایک ہار پرونے کی مسرت ایسی ہے کہ اس کی خاطر اٹھ کرموتیے کے پھول چننےکی مصیبت مول لی جائے۔ اتنے میں اچانک ایک گلابی آنکھوں والا سفید خرگوش اس کے قریب سے بھاگتا ہوا گزرا۔
اس میں کوئی اتنی حیران ہونے والی بات نہ تھی۔ نہ ہی ایلی کو یہ بات کچھ معمول سے ہٹ کر لگی کہ خرگوش اپنے آپ سے یہ کہتا جاتا تھا " اُف رے میری ماں ! اُف رے میری ماں۔ مجھ کو بڑی دیر ہو جائے گی۔"۔ ( جب ایلی نے بعد میں سوچا تو اُسے سُوجھا کہ اسے اس بات پر حیران ہونا چاہئے تھا مگر اس وقت اسے یہ سب بالکل قدرتی معلوم ہوا)۔ لیکن جب خرگوش نے سچ مچ اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک گھڑی نکالی اور اس کو دیکھا اور پھر آگے قدم چلانے کی کی تو ایلی چونک کر اچھل کھڑی ہوئی۔ کیونکہ اس کے ذہن میں اچانک یہ بات آئی کہ اُس نے پہلے کبھی کسی خرگوش کو واسکٹ پہنے یا اس کو جیب سے گھڑی نکالتے نہیں دیکھا تھا۔ اور تجسس سے بےحال ، وہ کھیت میں سے اُس کے پیچھے بھاگی اور اُس کو بس ٹھیک اُس موقع پر جا لیا جب اُس نے باڑ تلے ایک بڑے خرگوش کے بھٹ میں ڈبکی لگائی ہی تھی۔
اگلے لمحے کچھ سوچے اور دیکھے بغیر ایلی بھی خرگوش کے پیچھے بھٍٍٹ میں جا اُتری۔اُسے ایک دفعہ بھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ اس میں سے پھر نکلے گی کیونکر۔
خرگوش کا بھٹ کچھ راستہ تو ایک سرنگ کی طرح سیدھ میں گیا اور پھر یکلخت جو کھلا تو ایلی کو اپنے آپ کو روکنے اور سوچنے کا وقت بھی نہ ملا اور اتنے میں ایلی نے خود کو گویا ایک بڑے ہی گہرے کنویں میں گرتے ہوئے پایا۔
اب یا تو کنواں بڑا گہرا تھا یا وہ سست رفتاری سے گرتی چلی جا رہی تھی کیونکہ گرتے ہوئے اُس کے پاس اپنے گردا گرد دیکھنے کو ڈھیروں وقت تھا، اور اس پر حیران ہونے کا بھی کہ اب آگے کیا ہوگا۔پہلے پہل تو اُس نے نیچے کو دیکھنے اور اپنی منزل کی سوجھ لگانے کی کوشش کی مگر وہاںاندھیرا اس قدر تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ پھر اُس نے کنویں کی دیواروں کو جو گھورا تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ الماریوں اور کتابوں کے طاقچوںسے اٹی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں اُسے کھونٹیوں سے آویزاں نقشے اور تصویریں بھی نظر آیئں۔ اُس نے نیچے کو گزرتے گزرتے ایک طاقچےپر سے ایک مرتبان اچک لیا۔ مرتبان پر " مربہ نارنگی " کا لیبل چسپاں تھا۔ لیکن اُسے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ یہ اندر سے خالی تھا۔مرتبان کو ہاتھ سے چھوڑ کر نیچے گرا دینے کو اُس کا دل نہ مانا۔ کیونکہ اُس کو یہ ڈر تھا کہ نیچے کوئی ہوا تو اُس کا سر پھٹ جائے گا۔ اس لئے جب وہ ایک الماری کے پاس سے گرتی ہوئی گزری تو اُس نے کسی نہ کسی طرح مرتبان کو اس میں دھر دیا۔
" خیر بھئی " ایلی دل میں سوچنے لگی۔" اس طرح کے گرنے کے بعد تو میں گھر کی سیڑھیوں پر سے لڑھکنیاں کھانے کو کوئی بات ہی نہیں جانوں گی۔ گھر میں سب لوگ کہیں گے دیکھو یہ کتنی بہادر نڈر لڑکی ہے۔ بلکہ میں گھر کی چھت پر سے بھی نیچے آن گروں تو اس کا ذکر تک نہ کروں گی" ( اور یہ غالباً سچ تھا)۔
نیچے۔ نیچے۔ نیچے۔ کیا یہ گرنا کبھی ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ وہ اونچا بولنے لگی " اللہ جانے میں اب تک کتنے میل " گر " چکی ہوں گی۔ ہو نہ ہو میں زمین کے مرکز کے نزدیک ہی کہیں پہنچنے والی ہوں گی۔ دیکھوں تو یہ فاصلہ کوئی چار ہزارمیل نیچے ہوگا۔ میرا خیال ہے" ۔ ( کیونکہ تم جانو ایلی نے اس قسم کی بہت سی باتیں اسکول میں پڑھے اپنے سبقوں سے سیکھی تھیں اور اگرچہ یہ اپنی علمیت بگھارنے کا کوئی بہت اچھا موقع نہ تھا کہ وہاں اسے سننے والا کوئی نہ تھا۔ پھر بھی اس کا یہ سب کچھ دہرانا سبق کی اچھی خاصی مشق ضرورتھی)۔۔ ہاں تقریباً اتنا ہی فاصلہ ہے۔ چار ہزار میل۔ لیکن پھر میں سوچوں تو بھلا میں کس عرض بلد اور طول بلد میں پہنچی ہوں گی۔( ایلی کی جانے بلا کہ عرض بلد اور طول بلد کیا ہوتے ہیں۔ مگر اُس نے سوچا کہ یہ بولنے میں خوب مزے کے شاندار الفاظ ہیں )۔ ( جاری ہے )
مدیر کی آخری تدوین: