خریدار تو خیر ساری دنیا ہی ہے بشمول پاکستانیوں کے،جو کچھ ایمازون پر بیچا جاتا ہے وہ آپ با آسانی خرید سکتے ہیں۔
لیکن پاکستانی صرف خریدار ہی تو نہیں ہیں بلکہ بہت کچھ بیچتے بھی ہیں (ایک امریکی عہدیدار کے بقول تو پاکستانی چند سکوں کے بدلے میں" سب کچھ" ہی بیچنے کو تیار ہیں)۔ پاکستان میں کئی ایک بہترین مصنوعات بنتی ہیں جو کہ پہلے ہی ایمازون پر بِک رہی ہیں لیکن یہ سب کچھ کسی تیسرے ملک کے ذریعے سے ہوتا ہے، یعنی پاکستانی اپنی چیز مثال کے طور پر انگلینڈ میں رکھوا دیتے ہیں اور جب اس کا آرڈر آتا ہے تو وہ انگلینڈ ہی سے بھیجی جاتی ہے اور پیسے بھی بھیجنے والے کو ملتے ہیں، اس کا پاکستان کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ اب ایمازون سیلر لسٹ میں آنے کا یہ مطلب ہے کہ پاکستانی کمپنیاں ڈائریکٹ ایمازون پر رجسٹرڈ ہونگی، وہ پاکستان ہی سےمطلوبہ چیزیں اپنے گاہکوں کو بھیج سکیں گے اور پاکستان ہی میں رقم وصول کر سکیں گے۔ یعنی سب کچھ براہ راست ہوگا۔
اس سے پاکستانی کمپنیوں بالخصوص چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کو جو تیسرے ملک کے ذریعے ایمازون پر اپنی چیز نہیں بیچ سکتے تھے ان کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا کہ براہ راست گاہک کو چیز بیچ سکیں اور پاکستان میں ہی رقم وصول کر سکیں گے۔ حکومت جو اتنی بغلیں بجا رہی ہے وہ اسی آخری خصوصیت کی وجہ ہی سے، یعنی براہِ راست پاکستان میں زرمبادلہ آئے گا۔
ایک حکومتی ادارہ (ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان TDAP) 25 مئی کو شام 4 بجے اسی موضوع پر مزید معلومات کے لیے ایک ویبنار کروا رہا ہے، جس پر رجسٹریشن کا ربط یہ ہے:
Amazon in Pakistan
ادارے کی طرف سے جو ای میل موصول ہوئی، وہ بھی نیچے درج کر رہا ہوں: