نیلم
محفلین
الله خود پر کوئی احسان نہیں رکھتا، امید بی بی اگر آپ نے اس کے لئے کوئی چیز چھوڑی ہے تو وہ آپ کو اس سے بہتر شے سے نواز دے گا-
نہیں، بعض چیزوں کے بعد ان سے بڑھ کر اور ان سے بہتر کوئی چیز نہیں ملتی کیوں کہ دل کو کوئی چیز بہتر نہی لگتی-
ڈاکٹر خورشید نے اس کی آنکھوں میں امڈتی نمی اور اسے چھپانے کے لئے جھکے سر کو دیکھا-
دین کے لئے کوئی سودا خسارے کا سودا نہیں ہوتا اور دنیا میں ہر چیز کا متبادل ہوتا ہ
ے مگر اس بات پر آپ کو تب تک یقین نہیں آئے گا جب تک متبادل آپ کو مل نہیں جائے گا-
اور اگر انسان کو کسی متبادل کی خواہش ہی نہ ہو تو؟ وہ سر اٹھا کر نم آنکھوں کے ساتھ اکھڑے لہجے میں ان سے پوچھ رہی تھی-
انسان کی خواھشات سے الله کو دلچسپی نہیں ہے-وہ اس کی تقدیر اپنی مرضی سے بناتا ہے- اسے کیا ملنا ہے اور کیا نہیں ملنا اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے- جو چیز آپ کو ملنا ہے آپ اس کی خواہش کریں یا نہ کریں وہ آپ ہی کی ہے- وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں جائے گی- انسان کا مسلہ یہ ہے کے وہ جانے والی چیز کے ملال میں رہتا ہے آنے والی چیز کی خوشی اسے مسرور نہیں کرتی-
میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ نے دین کے لئے کیا چھوڑا- میں صرف یہ پوچھوں گا کہ آپ نے کیوں چھوڑا اور یہ سوال اس لئے کروں گا کہ خدا کے لئے کے جانے والے عمل پر فخر کے بجائے آپ کو پچھتاوا ہے او یہ پچھتاوا شر سے بڑھ کر ہوتا ہے- یہ انسان کا اچھا عمل بھی تباہ کر دیتا ہے- خدا کے لئے کے جانے والے عمل پر شکر اور پھر فخر کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو آزمایا اور آپ نے ثابت قدمی اور استقامت دکھائی- لیکن آپ کو اگر پچھتانا تھا تو پھر آپ یہ قربانی نہ دیتیں- آپ بھی سایے کا انتخاب کر لیتیں- راستے تو دونوں ہی تھے آپ کے پاس اور کسی نے آپ کو یقیناً مجبور بھی نہیں کیا ہو گا- کم از کم الله نے نہیں- اس نے اختیار دیا آپ کو کہ انتخاب کا حق استعمال کریں پھر آپ نے اپنے اختیار کو استعمال کیا- اب یہ پچھتاوا کیوں؟
عمیرہ احمد کے ناول "ایمان ، امید اور محبّت " سے اقتباس
نہیں، بعض چیزوں کے بعد ان سے بڑھ کر اور ان سے بہتر کوئی چیز نہیں ملتی کیوں کہ دل کو کوئی چیز بہتر نہی لگتی-
ڈاکٹر خورشید نے اس کی آنکھوں میں امڈتی نمی اور اسے چھپانے کے لئے جھکے سر کو دیکھا-
دین کے لئے کوئی سودا خسارے کا سودا نہیں ہوتا اور دنیا میں ہر چیز کا متبادل ہوتا ہ
ے مگر اس بات پر آپ کو تب تک یقین نہیں آئے گا جب تک متبادل آپ کو مل نہیں جائے گا-
اور اگر انسان کو کسی متبادل کی خواہش ہی نہ ہو تو؟ وہ سر اٹھا کر نم آنکھوں کے ساتھ اکھڑے لہجے میں ان سے پوچھ رہی تھی-
انسان کی خواھشات سے الله کو دلچسپی نہیں ہے-وہ اس کی تقدیر اپنی مرضی سے بناتا ہے- اسے کیا ملنا ہے اور کیا نہیں ملنا اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے- جو چیز آپ کو ملنا ہے آپ اس کی خواہش کریں یا نہ کریں وہ آپ ہی کی ہے- وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں جائے گی- انسان کا مسلہ یہ ہے کے وہ جانے والی چیز کے ملال میں رہتا ہے آنے والی چیز کی خوشی اسے مسرور نہیں کرتی-
میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ نے دین کے لئے کیا چھوڑا- میں صرف یہ پوچھوں گا کہ آپ نے کیوں چھوڑا اور یہ سوال اس لئے کروں گا کہ خدا کے لئے کے جانے والے عمل پر فخر کے بجائے آپ کو پچھتاوا ہے او یہ پچھتاوا شر سے بڑھ کر ہوتا ہے- یہ انسان کا اچھا عمل بھی تباہ کر دیتا ہے- خدا کے لئے کے جانے والے عمل پر شکر اور پھر فخر کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو آزمایا اور آپ نے ثابت قدمی اور استقامت دکھائی- لیکن آپ کو اگر پچھتانا تھا تو پھر آپ یہ قربانی نہ دیتیں- آپ بھی سایے کا انتخاب کر لیتیں- راستے تو دونوں ہی تھے آپ کے پاس اور کسی نے آپ کو یقیناً مجبور بھی نہیں کیا ہو گا- کم از کم الله نے نہیں- اس نے اختیار دیا آپ کو کہ انتخاب کا حق استعمال کریں پھر آپ نے اپنے اختیار کو استعمال کیا- اب یہ پچھتاوا کیوں؟
عمیرہ احمد کے ناول "ایمان ، امید اور محبّت " سے اقتباس