ایم کیو ایم اور فوج - جنم جنم کا ساتھ

نبیل

تکنیکی معاون
Altaf_Hussain_British.jpg

ایم کیو ایم جنرل ضیاءالحق اور ایجنسیوں کی تخلیق کردہ جماعت تھی جو کہ سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے منظر عام پر لائی گئی تھی۔ 1986 میں ایک طالبہ بشری زیدی کی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت کو بہانہ بنا کر کراچی پر جس مافیا کا قبضہ کروایا گیا وہ اب تک جاری ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ کی سپورٹ ناقابل تردید ہے۔ الطاف حسین کو ملت کا رہبرورہنما تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے فادر آف دی نیشن تک کہا جاتا ہے۔ 12 مئی 2007 کو معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی میں داخلے سے روکنے کے لیے شہر میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھری کی گئیں اور پورے شہر میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اور عین اسی وقت اسلام آباد میں پرویز مشرف اور حکمران پارٹی کے لوگ سٹیج پر بھنگڑا ناچ رہے تھے اور مکا دکھا کر کہہ رہے تھے کہ 'دیکھی ہماری طاقت'۔ 9 اپریل 2008 کو کراچی میں 6 بے گناہ افراد کو زندہ جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ لیکن کچھ دوستوں کی رائے میں آٹھ سال میں اس طرح کے 'چند معمول سے ہٹ کر واقعات' زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور ان کا ذکر عصبیت کو جنم دے گا۔ متحدہ کے کرتوتوں کو سامنے لانے کو اردو سپیکنگ طبقے کی توہین قرار دیا جاتا ہے۔ کیا کراچی اور حیدرآباد کے سارے عوام متحدہ کے حامی ہیں؟ کیا کراچی میں قتل و غارت گری کی مذمت کرنا تعصب پھیلانے کے مترادف ہے؟

ایم کیو ایم، یا متحدہ قومی موومنٹ کے مختلف ادوار میں فوج کے ساتھ ملوث ہونے کے بارے میں ایک مرتبہ روزنامہ ڈان کے تجزیہ نگار ایاز امیر نے کئی سال قبل ایک کالم لکھا تھا جس کا مطالعہ آج بھی معلومات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ ذیل میں اس کے اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ اوپر کی تصویر میں الطاف حسین فخر سے اپنا برطانوی پاسپورٹ دکھا رہے ہیں۔ الطاف حسین برطانیہ کا شہری ہے اور وہ لندن کے ایک فلیٹ سے بذریعہ ٹیلی فون کراچی اور حیدرآباد کو کنٹرول کرتا ہے:
حوالہ . A love-hate relationship, Ayaz Amir

From 1990 when Nawaz Sharif became prime minister for the first time, until mid-1995 when Benazir Bhutto’s interior minister Naseerullah Babar launched a vicious crackdown against the MQM, Karachi remained in the grip of a reign of terror, far more sinister and all-embracing than any terror generated by any martial law. Dissidents went in fear of their lives. Armed gangs collected protection money across Karachi. Newspapers, including the most well-established, bowed before the prevailing winds.

General Aslam Beg, who became army chief on General Zia’s death, had an unmistakable soft corner for the MQM. Well-founded rumour had it that he helped pitch the MQM into the ranks of the opposition to then prime minister Benazir Bhutto.

General Asif Nawaz who stepped into Beg’s shoes had other ideas. Not long after his installation he decided to crack down on the MQM. Marked by half-measures, this move came to nothing, the MQM bruised but by no means incapacitated. In any event, the situation was sufficiently fraught to persuade Pir Altaf Hussain to leave Pakistan and take up self-exile in the United Kingdom.

As part of the anti-MQM campaign, the ubiquitous agencies, encouraged a splinter faction to break away from the parent body and challenge Altaf Hussain’s leadership.This splinter faction was known as the Haqiqis, or the real ones.

Naseerullah Babar’s mid-1995 crackdown, marked by a spree of extra-judicial killings of important MQM workers by the police (workers suspected of terrorism but convicted by no court of the crime) brought the organization to its knees. The Haqiqis ruled Karachi’s urban sprawl unchallenged.

This state of affairs continued until General Pervez Musharraf’s political requirements, allied perhaps with his intrinsic sympathies, brought about another turn of the wheel. At the time of the celebrated referendum in 2002 — an event famous for its long lines of phantom voters, voters spotted miraculously by no one except the eagle-eyed Chief Election Commissioner, Justice Irshad Hasan Khan — and the general elections in October the same year, in which the clear military interest was to manufacture a pro-Musharraf majority — Gen Musharraf needed all the political support he could get. One of the sources of that support was the MQM and its mercurial chief in London.
 
بلکل درست ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ میں‌ خود اردو اسپیکنگ ہوں اور کراچی میں‌ایک طویل عرصہ بشمول بچپن گزارچکاہوں۔ اس تمام عرصہ میں‌ متحدہ کو جنتا دھشت گردی کرتے دیکھا ہے اس کی مثال نہیں‌ملتی۔ اس تنظیم نے کراچی کے نوجوانوں کو چاٹ لیا ہے۔ کراچی جو پاکستان کا دل ہے بیمار ہے اگر ہم نے اس بیماری کو دور نہ کیا تو خدانہ خواستہ پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری ایم کیو ایم ہے۔
اس تنظیم کا کوئی نظریہ بھی نہیں۔ صرف ایک نعرہ پر جی رہی ہے کہ ہم کو منزل نہیں‌رہنما چاہیے۔ اس کی کوئی منزل بھی نہیں اور رہنما لوگوں‌کو بٹھکاتا پھر رہا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں صرف مختصر الفاظ میں اپنے محسوسات بیان کرنا چاہوں گی۔

میرے ہموطنو کو بہکانا بہت آسان ہے اور ہمارے میڈیا میں بیٹھے ہوئے نام نہاد دانشور ایسی ایسی سازشی تھوریاں لیکر سامنے آ جاتے ہیں جن کا حقیقت سے تعلق کم ہوتا ہے اور وہ صحیح صورتحال کی صحیح عکاسی نہیں کرتے۔ ایک دوسرا رویہ یا فیشن یہ بھی بن گیا ہے کہ جمہوریت پسند افراد تمام تر برائیوں کا ذمہ دار کسی نہ کسی طرح فوج کو ٹہرا کا اپنی جمہوری گناہوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

مثال کے طور پر الزام یہ لگا دیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کو ضیاء صاحب کی فوج نے جنم دیا۔

مگر یہ الزام حالات کا صحیح ادراک نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کی پیدائش کہ ذمہ دار صرف فوج نہیں، بلکہ پوری قوم سزاوار ہے۔

اوپر آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ ایم کیو ایم سن انیس سو چھیاسی کو فوج نے پیدا کی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل کراچی کی اپنے حقوق کی پامالی کے خلاف یہ زہر اس سے بہت بہت پہلے بھرنا شروع ہو گیا تھا اور اسکی سزاوار صرف فوج نہیں بلکہ پچھلی سول حکومتیں اور قومیتی تعصب تھا۔ کراچی کی ہر سرکاری و صوبائی اچھی جاب کے لیے شاید ہر جگہ کا ڈومیسائل چل جاتا تھا سوائے کراچی کے اپنے ڈومیسائل کے۔ پھر اندرون سندھ ہجرت کر کے آنے والوں کے ساتھ کافی ناانصافیاں ہوتی رہیں اور پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں ان کے مقابلے میں ہمیشہ دوسروں کو فیور ہوئی۔ پھر کراچی میں پٹھان پہنچا اور اپنا مافیا قائم کیا۔ یہ سب چیزیں نفرتیں پھیلاتی رہیں اور یہ وہی نفرتیں تھیں کہ جس کی بنا پر مجیب الرحمان مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیشی قوم کا ہیرو بنا تھا۔

یہ زہر انیس سو چھیاسی میں یکدم اہل کراچی میں نہیں پھیلا تھا، بلکہ آپ لوگ ایم کیو ایم کی پوری تاریخ کو اچھی طرح پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اہل کراچی کے بہت سے لوگوں بشمول الطاف حسین نے اس تحریک کو بہت بہت پہلے سے شروع کر رکھا تھا۔

مجھے نہیں علم کی سن انیس سو چھیاسی میں بشری زیدی والے معاملے میں فوج کا کردار تھا یا نہیں، لیکن ایک بات یاد رکھئیے کہ سارا الزام فوج پر دھر دینے سے کراچی سے یہ زہر ختم نہیں ہو گا۔۔۔۔ اور اگر ہمیں نفرتوں کے اس زہر کو ختم کرنا ہے تو اہل کراچی کو انکے حقوق دینے ہوں گے اور انکی نمائندہ جماعت کو نفرت کے ساتھ نہیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گا۔

اور اگر کوئی ہمارے اخبارات میں لکھنے والے نام نہاد دانشور ابھی بھی صرف فوج فوج فوج کا شور مچائے جائیں گے اور قوم کو اپنے گریبان میں جھانکنے کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کا راستہ نہیں دکھائیں گے تو آج نہیں تو کل ہمارے سامنے پھر مشرقی پاکستان جیسی صورتحال ہو گی۔

////////////////////////////////
ہماری فوج جو کہ زیادہ تر پنجاب اور پٹھانوں پر مشتمل ہے، بذات خود اس میں اسی فیصد لوگ ایم کیو ایم کے انتہائی خلاف ہیں۔

ایم کیو ایم کے خلاف نفرت کی بڑی وجہ ہمارے میڈیا کا کردار ہے جس نے کراچی کی صرف یکطرفہ تصویر پیش کی ہے اور کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ حالات کو صحیح طور پر پیش کریں اور اندرون سندھ مہاجروں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ دکھائیں یا پھر کراچی وہ حیدر آباد میں جس طرح دوسروں کو جاب ملتی ہے اسکا ذکر کریں اور یہ بتائیں کہ صرف کراچی پولیس ہی میں اسی فیصد سے زیادہ لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہے ۔۔۔۔۔

یقینا ایم کیو ایم کے پاس اسلحہ ہے اور اس کا کردار تشددانہ بھی رہا ہے۔ مگر کراچی میں عمل اور رد عمل کی سیاست ہوئی ہے۔ اسلحہ پٹھانوں، سندھیوں، جماعت اسلامی ہر کسی کے پاس ہے اور جب تک ایم کیو ایم کمزور تھی انہوں نے اسلحہ کی بنیاد پر کراچی میں اپنا ہولڈ برقرار رکھا۔ کیا آپ بھول گئے کہ پنجاب یونیورسٹی کو جمعیت کیسے غنڈہ گردی کے زور پر کنٹرول کرتی ہے اور کیسے اس نے عمران خان کی درگت بنائی۔ مگر کراچی کا معاملہ آتا ہے تو ہمارا میڈیا اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی اور جماعت اور اسکی غنڈہ گردی و اسلحہ نظر نہیں آتا بلکہ ساری تان آ کر ایم کیو ایم پر ٹوٹتی ہے۔

بہرحال میں محسوس کرتی ہوں کراچی کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ایم کیو ایم کا رویہ بھی بدلا ہے اور اگر اہل کراچی کو انکے حقوق دے دیے جائیں تو ایم کیو ایم مثبت کردار ادا کر سکتی ہے اور کراچی اور پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ مشرف صاحب نے اپنے آٹھ سالہ دور میں اہل کراچی کے حقوق غصب نہیں کیے اور اسی لیے ایم کیو ایم نے کراچی کو ترقی دحے کر مثبت کردار ادا کیا۔

پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ کراچی میں تصادم کی سیاست کھیلنے کی بجائے نئی جمہوری حکومت امن و امان قائم رکھے ورنہ نوے کی دھائی کی سیاست صحیح نہی ہے۔

//////////////////

میرے متعلق غلط فہمی ہے کہ میں نو اپریل کے حالات بیان کرنے کی مخالف ہوں۔ بے شک یہ ظلم ہے اور اسے بیان ہونا چاہیے، مگر انصاف شرط ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس واقعہ کا سارا الزام صرف اور صرف ایم کیو ایم پر لگا دینا انصاف ہو گا۔ باقی آپ احباب کی مرضی۔

والسلام۔
 
مہوش اپ حالات کو ایم کیوایم کی پروپیگنڈا رسائل سے اخذ کرکے پڑھ رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکری نہیں‌ملتی تھی اور ہے۔ اسکا ایک شکار میں‌خود ہوں۔
یہ بھی درست ہے کہ سندھ یونی ورسٹی ، مہران یونی ورسٹی اور ٹنڈوجام یونی ورسٹی میں‌مہاجروں کو پڑھنے نہیں دیا جاتا ۔ اب بھی
یہ بھی درست ہے کہ پٹھانوں نے کراچی کی ٹرانسپورٹ پر سبقت حاصل کی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان کا رویہ مسافروں کے ساتھ اچھا نہیں‌ہوتا۔
مگر اس کے ردعمل میں‌ میں کیا لوگوں‌کو مارنا شروع کردوں؟ اگر مجھے کراچی میں‌نوکری نہیں‌ملی تو کیا میں‌بندوق اٹھا کر لوگوں‌کو لوٹنا شروع کردوں۔ اگر کوئی مجھے ایسا کرنے کو کہہ رہا ہے تو وہ مجھے گمراہ کررہا ہے۔
یہی کراچی کے نوجوانوں‌کے ساتھ ہوا۔ فرسٹریشن موجود تھی۔ اس فرسٹریشن کو فوجی ایجنسیوں‌نے خوبی کے ساتھ ایکسپولائیٹ کیا۔
کراچی کے نوجوانوں‌کی طاقت جو پورے ملک کے نظام کو بدل سکتی تھی اپنے مفاد میں دھشت گردی کی طرف موڑ دیا۔
اگر میں‌کراچی یونی ورسٹی میں‌ اے پی ایم ایس او کا کارکن بن جاتا تو دوسرے کارکنان کی طرح یا تو ماردیا جاتا یا جیل میں سڑرہا ہوتا۔ کیا ملا کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایم کیوایم کے حکومت میں انے کے بعد؟ کراچی کے نوجوانوں‌کی حالت بد سے بد تر ہورہی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہمت برادر، مجھے نہیں علم کہ کراچی کی مسائل سو فیصدی کیسے حل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ایم کیو ایم کے اپنے اندر مسلح انتہا پسند موجود ہیں اور انکی طرف سے مجھے بھی دھڑکا لگا رہتا ہے۔ مگر بس ہم امید کر سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسلح سیاست ختم ہوتی جائے اور اللہ کے فضل سے میں اس سلسلے میں کچھ بہتری پا رہی ہوں۔
اب نہ صرف یہ کہ ایم کیو ایم کے مسلح انتہا پسندوں کے لیے حالات مشکل ہو گئے ہیں، بلکہ حکومتی ایجنسیز کے لیے بھی حقیقی کے نقاب کے پیچھے چھپ کر ریاستی دھشت گردی کرنا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔
انشاء اللہ ایک دن سندھ یونورسٹی و مہران یونیورسٹی وغیرہ کا مسئلہ بھی حل ہو گا اور ہم لوگ لسانی تعصبات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرا ابھی اس موضوع پر کافی کچھ لکھنا باقی ہے۔ عوام کی یادداشت ویسے ہی کمزور ہوتی ہے، دوسرا کچھ واقعات کو دھندلانے کے لیے جھوٹ بھی بہت کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال 12 مئی 2007 اور 9 اپریل 2008 کے واقعات ہی ہیں۔ کسی کو اس چیز کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ جل کر راکھ ہونے والے بے گناہوں کی ہمدردی میں دو جھوٹے بول بھی بول دے یا ان کی مغفرت کے لیے دعا بھی کر دے۔ ہماری عقل پر ایسا پردہ پڑ گیا ہوا ہے اور ہم شخصیت پرستی میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ بے گناہوں کو جلا کر راکھ کرنے کے بعد ہماری پہلی فکر ان راکھ کے ڈھیروں کو نائین زیرو پہنچانے کی ہوتی ہے تاکہ میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کی کاروائی مکمل ہو سکے اور جیے الطاف اور جیے مہاجر کے نعرے لگ سکیں۔ یہ ہے ہمارا سیاسی شعور اور یہ ہے ہماری بالغ نظری کہ ایک ذہنی مریض قسم کا برطانوی شہریت کا حامل شخص‌ لندن سے ٹیلی فون کے ذریعے پاکستان کے دل شہروں کراچی اور حیدرآباد پر کنٹرول قائم کیے ہوئے ہے۔

میڈیا کا تعصب بھی ہر ایک پر واضح ہے کیونکہ ہم سب صرف ایک تنگ سے زاویے کے اندر سمانے والی چیزوں کو سچ سمجھتے ہیں اور اس سے باہر ہر چیز ہمارے لیے تعصب ہے، یکطرفہ پراپگینڈا ہے اور جھوٹ ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہم دوسروں کو بھی اسی تنگ زاویے سے حقائق کو دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا کراچی میں اخبارات اور جرائد کے دفتر نہیں جلائے جاتے رہے؟ کیا تمام اخبارات کے مدیروں کو نائن زیرہ بلا کر انہیں ایم کیو ایم کے حق میں لکھنے پر مجبور نہیں کیا جاتا رہا؟ اور 12 مئی 2007 کو نیوز چینلز کے دفاتر پر متحدہ کے غنڈوں کی فائرنگ کیا بھول گئی ہے؟ ان نیوز چینلز سے گستاخی یہ ہو گئی تھی کہ وہ معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد کو کوریج دے رہے تھے جبکہ اسی وقت الطاف حسین کا ٹیلی فونک خطاب جاری ہو رہا تھا۔ متحدہ والے اس بات کو برداشت نہیں کر سکے کہ الطاف حسین کی بے ربط اور روبوٹ جیسی آواز کی بجائے کسی اور چیز کو اسی وقت ٹی وی سٹیشز سے براڈ کاسٹ کیا جائے۔ متحدہ کے غالباً سیکریٹری اطلاعات مصطفی عزیز آبادی نے بعد میں نیوز چینلز کے دفاتر پر فائرنگ کو عوام کا رد عمل قرار دیا تھا۔

اگر متحدہ کو کراچی اور حیدرآباد کے عوام کی حمایت حاصل ہے تو یہ اس کے لیے کچھ بہتر کام کرنے کا موقعہ ہے نہ کہ محض اپنے مافیا انداز کے کنٹرول کو بچانے کا۔ محرومی اور حق تلفی صرف سندھ کے شہری علاقوں کا اعزاز ہی نہیں ہے، پاکستان کی بیشتر آبادی ایک مختصر سے مراعات یافتہ طبقے کو چھوڑ کر مسائل کے بوجھ تلے پس رہی ہے۔ ابھی تک بڑے جاگیردار، وڈیرے، پیر اور ہر دور میں مفادات اٹھانے والے مذہبی رہنما عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ پنجاب کے ایک گاؤں میں پنچایت کا فیصلہ کہ پانچ لوگ ایک عورت کو ریپ کریں گے، میڈیا تک پہنچنے والی صرف ایک خبر ہے۔ اس طرح کی بے شمار ظلم کی داستانیں ہیں جو کبھی منظر عام پر نہیں آتیں۔ کاروکاری اور ونی جیسی وحشیانہ اور غیرانسانی رسوم کو ہم نے روایت کے نام پر قبول کیا ہوا ہے۔ لیکن احساس محرومی کے نام پر سیاست صرف ایک دہشت گرد گروہ کا حق ہے۔
 
درست ہے۔
درآصل متحدہ کی ساخت ایسی ہے کہ اس سے کچھ بھلائی کی توقع بے کار ہے۔
عوام کو درست شعور دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود اپنے پاوں پر کلہاڑی نہ ماریں اور پوری پاکستانی قوم کی بھلائی کے لیے سوچیں۔
 
Top