ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کابینہ سے علیحدگی کا اعلان

فرقان احمد

محفلین
نئی حکومت بھی آکر غریب عوام کو کوئی ریلیف نہ دے پائے گی۔ ماشاءاللہ سے پچھلی حکومت نے خسارہ اور قرضہ ہی اتنا وافر مقدار میں چھوڑا ہے کہ ملک کا آدھا بجٹ یہی کھا جاتے ہیں۔

IMF-sees-Pakistan-GDP-growth-falling-at-4-in-FY2019.png
ایسا ہی ہے جناب، تو پھر، یوں ہو گا کہ ڈیڑھ دو سال بعد، یہ اتحادی انہیں بھی چھوڑ دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا ہی ہے جناب، تو پھر، یوں ہو گا کہ ڈیڑھ دو سال بعد، یہ اتحادی انہیں بھی چھوڑ دیں گے۔
ان تین سالوں میں بیشک 3 الیکشن کروا لیں۔ جوڑ توڑ کر جیسی مرضی حکومت بنا لیں۔ ملک کے معاشی حالات ایسے ہی رہیں گے۔ کیونکہ خزانہ خالی ہے۔
کنویں سے بار بار زہریلا پانی نکالنے کی بجائے اس میں سے مرے ہوئے کتے کو نکالیں۔ تب ہی کوئی بہتری ہو سکتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ان تین سالوں میں بیشک 3 الیکشن کروا لیں۔ جوڑ توڑ کر جیسی مرضی حکومت بنا لیں۔ ملک کے معاشی حالات ایسے ہی رہیں گے۔ کیونکہ خزانہ خالی ہے۔
کنویں سے بار بار زہریلا پانی نکالنے کی بجائے اس میں سے مرے ہوئے کتے کو نکالیں۔ تب ہی کوئی بہتری ہو سکتی ہے۔
بات اصولی طور پر درست ہے۔ تاہم، ملکی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے سیاسی استحکام شرطِ اول ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ تو کیا احتساب نہ کیا جائے! اب بتائیے، کون سا احتساب، کہاں کا احتساب! بلا امتیاز احتساب نہ ہو سکا اور جو پکڑے گئے تھے، وہ بھی رفتہ رفتہ چھوٹتے جا رہے ہیں تو پھر، کیا یہی بہتر نہ تھا کہ میثاق معیشت پر ہی اتفاق کر لیا جاتا۔ یہ ایک سنجیدہ تجویز ہے۔ اس پر اب بھی غور کر لیجیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کی تجویز بعد النظر میں بالکل درست ثابت ہوئی۔ :unsure:
این آر او جنہوں نے دینا تھا، وہ دے چکے اور کسی کو کچھ سمجھ بھی نہ آئی کہ یہ سب کب ہوا، کیسے ہوا؟ دراصل، ایک فرد، چاہے کس قدر بھی اچھی نیت کا حامل ہو، اس نظام کو تن تنہا بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اس وقت خان صاحب اس مسئلے میں پھنس چکے ہیں کہ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو تکلیف کا شکار رہیں گے، اقتدار چھوڑ دیتے ہیں، تو اگلی بار انہیں سادہ اکثریت بھی شاید نہ مل پائے گی۔ آنے والی حکومت میثاق معیشت کی طرف بڑھے گی کیونکہ بہرصورت ملک بھی چلانا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
این آر او جنہوں نے دینا تھا، وہ دے چکے اور کسی کو کچھ سمجھ بھی نہ آئی کہ یہ سب کب ہوا، کیسے ہوا؟ دراصل، ایک فرد، چاہے کس قدر بھی اچھی نیت کا حامل ہے، اس نظام کو تن تنہا بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اس وقت خان صاحب اس مسئلے میں پھنس چکے ہیں کہ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو تکلیف کا شکار رہیں گے، اقتدار چھوڑ دیتے ہیں، تو اگلی بار انہیں سادہ اکثریت بھی شاید نہ مل پائے گی۔ آنے والی حکومت میثاق معیشت کی طرف بڑھے گی کیونکہ بہرصورت ملک بھی چلانا ہے۔
عمران خان اب رہیں یا نہ رہیں۔ البتہ گزشتہ چند ماہ میں "ووٹ کو عزت دو" اور "سویلین بالادستی" کا چورن بیچنے والی اپوزیشن جماعتوں کو جس طرح ننگا کیا ہے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات میں نتائج بالکل غیریقینی آسکتے ہیں۔
میثاق معیشت اگر ہو جاتا ہے تو پھر یہ واقعی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ پھر کوئی ٹیکس چور یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکے گے کہ میں ٹیکس کیوں دوں۔ میں نے کونسا اس حکومت کو ووٹ دیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان اب رہیں یا نہ رہیں۔ البتہ گزشتہ چند ماہ میں "ووٹ کو عزت دو" اور "سویلین بالادستی" کا چورن بیچنے والی اپوزیشن جماعتوں کو جس طرح ننگا کیا ہے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات میں نتائج بالکل غیریقینی آسکتے ہیں۔
میثاق معیشت اگر ہو جاتا ہے تو پھر یہ واقعی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کے بعد کوئی ٹیکس چور یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکے گے کہ میں ٹیکس کیوں دوں۔ میں نے کونسا اس حکومت کو ووٹ دیا ہے۔
یہ نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں، خاص طور پر، اب جب کہ نعرے لگانے والے خاموش ہو گئے۔ عام انتخابات کے وقت بس ایک ہوا چلتی ہے۔ اب بھی غالباََ وہی سب کچھ ہو گا جو کہ ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت سال دو سال بعد غیر مقبول ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کے ساتھ بھی بعینہ یہی ہوا ہے۔ اب تبدیلی تو آ کر رہنی ہے۔ اس وقت متبادل قیادت کے طور پر شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ تبدیلی تو شاید ایک ڈیڑھ سال بعد، یا مڈٹرم الیکشن کے بعد آئے، تاہم اس وقت جو نام گردش میں ہے، وہ شہباز شریف کا ہی ہے۔ وہی میثاق معیشت کی تجویز پیش کر چکے۔ ان پر اپوزیشن پارٹیاں اتفاق کر سکتی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بگاڑنے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں، خاص طور پر، اب جب کہ نعرے لگانے والے خاموش ہو گئے۔ عام انتخابات کے وقت بس ایک ہوا چلتی ہے۔ اب بھی غالباََ وہی سب کچھ ہو گا جو کہ ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت سال دو سال بعد غیر مقبول ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کے ساتھ بھی بعینہ یہی ہوا ہے۔ اب تبدیلی تو آ کر رہنی ہے۔ اس وقت متبادل قیادت کے طور پر شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ تبدیلی تو شاید ایک ڈیڑھ سال بعد، یا مڈٹرم الیکشن کے بعد آئے، تاہم اس وقت جو نام گردش میں ہے، وہ شہباز شریف کا ہی ہے۔ وہی میثاق معیشت کی تجویز پیش کر چکے۔ ان پر اپوزیشن پارٹیاں اتفاق کر سکتی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بگاڑنے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔
اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم ضرور ہوگا لیکن اتنا نہیں ہوگا کہ بالکل ہی حیثیت کھو دے۔ نیز اگر عمران خان کو غیر آئینی و قانونی طور پر ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ "کیوں نکالا" کا ورد کرتے ہوئے خاموشی سے بنی گالہ نہیں جائے گا۔ پورے ملک کیلئے ایک نئی مصیبت بن جائے گا۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ کو اب جو بھی چال چلنی ہے سوچ سمجھ کر چلنی ہوگی۔
ویسے بھی کئی نیب کیسز کے ہوتے ہوئے شریف خاندان کا کوئی بھی فرد اقتدار میں فی الحال نہیں آسکتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم ضرور ہوگا لیکن اتنا نہیں ہوگا کہ بالکل ہی حیثیت کھو دے۔ نیز اگر عمران خان کو غیر آئینی و قانونی طور پر ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ "کیوں نکالا" کا ورد کرتے ہوئے خاموشی سے بنی گالہ نہیں جائے گا۔ پورے ملک کیلئے ایک نئی مصیبت بن جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اب جو بھی چال چلنی ہے سوچ سمجھ کر چلنی ہوگی۔
خان صاحب سب سے زیادہ مقبول 2011 تا 2013 میں تھے۔ 2018 میں کافی حد تک مقبول تھے۔ اب وہ اس حد تک مقبول لیڈر نہ ہیں کہ ریاست یا ملک کے لیے بڑا خطرہ بن جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب سب سے زیادہ مقبول 2011 تا 2013 میں تھے۔ 2018 میں کافی حد تک مقبول تھے۔ اب وہ اس حد تک مقبول لیڈر نہ ہیں کہ ریاست یا ملک کے لیے بڑا خطرہ بن جائیں۔
اگر عمران خان کی مقبولیت کا یہ حال ہے تو شہباز شریف کا کیا حال ہوگا جو فوج کے آگے بالکل لیٹ جانے کی وجہ سے اپنی ہی پارٹی میں سخت بدنام ہو چکے ہیں۔ اور لندن میں صحافیوں تک کو فیس نہیں کر پا رہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
اگر عمران خان کی مقبولیت کا یہ حال ہے تو شہباز شریف کا کیا حال ہوگا جو فوج کے آگے بالکل لیٹ جانے کی وجہ سے اپنی ہی پارٹی میں سخت بدنام ہو چکے ہیں۔ اور لندن میں صحافیوں تک کو فیس نہیں کر پا رہے :)
وہ کب بہت زیادہ مقبول رہے! انہیں متوقع طور پر جو لائیں گے، وہی تحفظ بھی دیں گے۔ جب انہیں فارغ کیا جائے گا، تو وہ یوسف رضا گیلانی بن جائیں گے۔ مقبول رہنما تو عمران خان اور نواز شریف ہیں، یا پھر، مریم نواز صاحبہ بن سکتی ہیں، ممکنہ طور پر! بلاول صاحب کو ابھی بہت وقت لگے گا۔ ان کے چانسز کافی کم ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومتی وفد نے ناراض ہوکر وزارت چھوڑنے والے خالد مقبول صدیقی کو منالیا
ویب ڈیسک جمع۔ء 24 جنوری 2020
1964406-khalidmaqboolsiddiquix-1579876244-328-640x480.jpg

خالد مقبول صدیقی کی بہت جلد وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوگی، ذرائع ۔ فوٹو : فائل


اسلام آباد: حکومتی وفد نے ناراض ہوکر وزارت چھوڑنے والے وزیر خالد مقبول صدیقی کو منالیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت ناراض اتحادیوں کو منانے کے اپنے پہلے مشن میں کامیاب ہوگئی ہے اور انہوں اتحادی وزیر خالد مقبول صدیقی کو منالیا ہے۔ حکومت خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور نہیں کرے گی اور نہ ہی ان کی جگہ ایم کیو ایم سے کسی کو وزیربنایا جائے گا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے وفود کے درمیان آئندہ ملاقات بدھ کو ہوگی جب کہ بہت جلد خالد مقبول صدیقی کی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں :خالد مقبول صدیقی نے استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوادیا

دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ میں شمولیت کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا کیوں کہ کا بینہ سے زیادہ اہم ایشو عوامی مسائل ہیں، وفاق نے فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور فنڈز مل جائیں اس کے بعد لا ئحہ عمل بنائیں گے جب کہ حکومتی وفد سے اہم ملاقات اس ہفتے میں متو قع ہے جس کے بعد مستقبل کا تعین ہوگا۔

واضح رہے خالد مقبول صدیقی نے 12 جنوری کو حکومت سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزارت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس پر اسد عمر کی سربراہی میں حکومتی وفد انہیں منانے ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بھی آیا تھا جو ناکام ہوگیا تھا۔
 
Top