ان تین سالوں میں بیشک 3 الیکشن کروا لیں۔ جوڑ توڑ کر جیسی مرضی حکومت بنا لیں۔ ملک کے معاشی حالات ایسے ہی رہیں گے۔ کیونکہ خزانہ خالی ہے۔ایسا ہی ہے جناب، تو پھر، یوں ہو گا کہ ڈیڑھ دو سال بعد، یہ اتحادی انہیں بھی چھوڑ دیں گے۔
بات اصولی طور پر درست ہے۔ تاہم، ملکی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے سیاسی استحکام شرطِ اول ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ تو کیا احتساب نہ کیا جائے! اب بتائیے، کون سا احتساب، کہاں کا احتساب! بلا امتیاز احتساب نہ ہو سکا اور جو پکڑے گئے تھے، وہ بھی رفتہ رفتہ چھوٹتے جا رہے ہیں تو پھر، کیا یہی بہتر نہ تھا کہ میثاق معیشت پر ہی اتفاق کر لیا جاتا۔ یہ ایک سنجیدہ تجویز ہے۔ اس پر اب بھی غور کر لیجیے۔ان تین سالوں میں بیشک 3 الیکشن کروا لیں۔ جوڑ توڑ کر جیسی مرضی حکومت بنا لیں۔ ملک کے معاشی حالات ایسے ہی رہیں گے۔ کیونکہ خزانہ خالی ہے۔
کنویں سے بار بار زہریلا پانی نکالنے کی بجائے اس میں سے مرے ہوئے کتے کو نکالیں۔ تب ہی کوئی بہتری ہو سکتی ہے۔
آپ کی تجویز بعد النظر میں بالکل درست ثابت ہوئی۔کیا یہی بہتر نہ تھا کہ میثاق معیشت پر ہی اتفاق کر لیا جاتا۔ یہ ایک سنجیدہ تجویز ہے۔ اس پر اب بھی غور کر لیجیے۔
این آر او جنہوں نے دینا تھا، وہ دے چکے اور کسی کو کچھ سمجھ بھی نہ آئی کہ یہ سب کب ہوا، کیسے ہوا؟ دراصل، ایک فرد، چاہے کس قدر بھی اچھی نیت کا حامل ہو، اس نظام کو تن تنہا بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اس وقت خان صاحب اس مسئلے میں پھنس چکے ہیں کہ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو تکلیف کا شکار رہیں گے، اقتدار چھوڑ دیتے ہیں، تو اگلی بار انہیں سادہ اکثریت بھی شاید نہ مل پائے گی۔ آنے والی حکومت میثاق معیشت کی طرف بڑھے گی کیونکہ بہرصورت ملک بھی چلانا ہے۔آپ کی تجویز بعد النظر میں بالکل درست ثابت ہوئی۔
عمران خان اب رہیں یا نہ رہیں۔ البتہ گزشتہ چند ماہ میں "ووٹ کو عزت دو" اور "سویلین بالادستی" کا چورن بیچنے والی اپوزیشن جماعتوں کو جس طرح ننگا کیا ہے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات میں نتائج بالکل غیریقینی آسکتے ہیں۔این آر او جنہوں نے دینا تھا، وہ دے چکے اور کسی کو کچھ سمجھ بھی نہ آئی کہ یہ سب کب ہوا، کیسے ہوا؟ دراصل، ایک فرد، چاہے کس قدر بھی اچھی نیت کا حامل ہے، اس نظام کو تن تنہا بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اس وقت خان صاحب اس مسئلے میں پھنس چکے ہیں کہ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو تکلیف کا شکار رہیں گے، اقتدار چھوڑ دیتے ہیں، تو اگلی بار انہیں سادہ اکثریت بھی شاید نہ مل پائے گی۔ آنے والی حکومت میثاق معیشت کی طرف بڑھے گی کیونکہ بہرصورت ملک بھی چلانا ہے۔
یہ نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں، خاص طور پر، اب جب کہ نعرے لگانے والے خاموش ہو گئے۔ عام انتخابات کے وقت بس ایک ہوا چلتی ہے۔ اب بھی غالباََ وہی سب کچھ ہو گا جو کہ ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت سال دو سال بعد غیر مقبول ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کے ساتھ بھی بعینہ یہی ہوا ہے۔ اب تبدیلی تو آ کر رہنی ہے۔ اس وقت متبادل قیادت کے طور پر شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ تبدیلی تو شاید ایک ڈیڑھ سال بعد، یا مڈٹرم الیکشن کے بعد آئے، تاہم اس وقت جو نام گردش میں ہے، وہ شہباز شریف کا ہی ہے۔ وہی میثاق معیشت کی تجویز پیش کر چکے۔ ان پر اپوزیشن پارٹیاں اتفاق کر سکتی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بگاڑنے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔عمران خان اب رہیں یا نہ رہیں۔ البتہ گزشتہ چند ماہ میں "ووٹ کو عزت دو" اور "سویلین بالادستی" کا چورن بیچنے والی اپوزیشن جماعتوں کو جس طرح ننگا کیا ہے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات میں نتائج بالکل غیریقینی آسکتے ہیں۔
میثاق معیشت اگر ہو جاتا ہے تو پھر یہ واقعی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کے بعد کوئی ٹیکس چور یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکے گے کہ میں ٹیکس کیوں دوں۔ میں نے کونسا اس حکومت کو ووٹ دیا ہے۔
اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم ضرور ہوگا لیکن اتنا نہیں ہوگا کہ بالکل ہی حیثیت کھو دے۔ نیز اگر عمران خان کو غیر آئینی و قانونی طور پر ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ "کیوں نکالا" کا ورد کرتے ہوئے خاموشی سے بنی گالہ نہیں جائے گا۔ پورے ملک کیلئے ایک نئی مصیبت بن جائے گا۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ کو اب جو بھی چال چلنی ہے سوچ سمجھ کر چلنی ہوگی۔یہ نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں، خاص طور پر، اب جب کہ نعرے لگانے والے خاموش ہو گئے۔ عام انتخابات کے وقت بس ایک ہوا چلتی ہے۔ اب بھی غالباََ وہی سب کچھ ہو گا جو کہ ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت سال دو سال بعد غیر مقبول ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کے ساتھ بھی بعینہ یہی ہوا ہے۔ اب تبدیلی تو آ کر رہنی ہے۔ اس وقت متبادل قیادت کے طور پر شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ تبدیلی تو شاید ایک ڈیڑھ سال بعد، یا مڈٹرم الیکشن کے بعد آئے، تاہم اس وقت جو نام گردش میں ہے، وہ شہباز شریف کا ہی ہے۔ وہی میثاق معیشت کی تجویز پیش کر چکے۔ ان پر اپوزیشن پارٹیاں اتفاق کر سکتی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بگاڑنے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔
خان صاحب سب سے زیادہ مقبول 2011 تا 2013 میں تھے۔ 2018 میں کافی حد تک مقبول تھے۔ اب وہ اس حد تک مقبول لیڈر نہ ہیں کہ ریاست یا ملک کے لیے بڑا خطرہ بن جائیں۔اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم ضرور ہوگا لیکن اتنا نہیں ہوگا کہ بالکل ہی حیثیت کھو دے۔ نیز اگر عمران خان کو غیر آئینی و قانونی طور پر ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ "کیوں نکالا" کا ورد کرتے ہوئے خاموشی سے بنی گالہ نہیں جائے گا۔ پورے ملک کیلئے ایک نئی مصیبت بن جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اب جو بھی چال چلنی ہے سوچ سمجھ کر چلنی ہوگی۔
اگر عمران خان کی مقبولیت کا یہ حال ہے تو شہباز شریف کا کیا حال ہوگا جو فوج کے آگے بالکل لیٹ جانے کی وجہ سے اپنی ہی پارٹی میں سخت بدنام ہو چکے ہیں۔ اور لندن میں صحافیوں تک کو فیس نہیں کر پا رہےخان صاحب سب سے زیادہ مقبول 2011 تا 2013 میں تھے۔ 2018 میں کافی حد تک مقبول تھے۔ اب وہ اس حد تک مقبول لیڈر نہ ہیں کہ ریاست یا ملک کے لیے بڑا خطرہ بن جائیں۔
وہ کب بہت زیادہ مقبول رہے! انہیں متوقع طور پر جو لائیں گے، وہی تحفظ بھی دیں گے۔ جب انہیں فارغ کیا جائے گا، تو وہ یوسف رضا گیلانی بن جائیں گے۔ مقبول رہنما تو عمران خان اور نواز شریف ہیں، یا پھر، مریم نواز صاحبہ بن سکتی ہیں، ممکنہ طور پر! بلاول صاحب کو ابھی بہت وقت لگے گا۔ ان کے چانسز کافی کم ہیں۔اگر عمران خان کی مقبولیت کا یہ حال ہے تو شہباز شریف کا کیا حال ہوگا جو فوج کے آگے بالکل لیٹ جانے کی وجہ سے اپنی ہی پارٹی میں سخت بدنام ہو چکے ہیں۔ اور لندن میں صحافیوں تک کو فیس نہیں کر پا رہے