حسان خان
لائبریرین
کراچی: پیر کے روز الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کراچی میں ایک اہم سیاسی جماعت کی صورت میں اُبھرکر سامنے آئی ہے، قومی اسمبلی کے ایک انتخابی حلقے سے انہیں کم ازکم پچاس ہزار ووٹ ملے ہیں۔
نارتھ ناظم آباد میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-245 جو متحدہ قومی موومنٹ کا مضبوط حلقہ سمجھا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے ریاض حیدر نے تقریباً چوّن ہزار ووٹ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار ریحان ہاشمی کے خلاف حاصل کیے، جنہیں ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ووٹ ملے تھے۔
بالکل اسی طرح ایک اور علاقہ فیڈرل بی ایریا کا ہے،جہاں ایم کیو ایم برسوں سے اپنی بے مثال اجارہ داری کا لطف اُٹھاتی چلی آرہی ہے، یہاں انتخابی حلقہ این اے-246 میں پی ٹی آئی کے امیر شرجیل نے تقریباً بتیس ہزار ووٹ حاصل کیے، جہاں ان کے مدمقابل ایم کیو ایم کے نامزد امیدوار نبیل گبول جو پہلے پیپلزپارٹی کے پکے رکن ہوا کرتے تھے، نے ایک لاکھ انتالیس ہزار تین سو چھیاسی ووٹ حاصل کیے تھے۔
ایم کیو ایم کے ایک اور زیراثر علاقہ جو نارتھ کراچی اور نیوکراچی پر مشتمل ہے، میں قومی اسمبلی حلقہ این اے-243 میں پی ٹی آئی کے زاہد حسین ہاشمی نے تقریباً تیس ہزار ووٹ حاصل کیے، جبکہ ایم کیوایم کے امیدوار نے ایک لاکھ بانوے ہزار چھ سو اٹھہتر ووٹ حاصل کیے۔
پی ٹی آئی کے راشد صدیقی نے لیاقت آباد میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-247 سے پینتس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، اور محمودآباد میں حلقہ این اے-251 سے پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ اظہر کو انتالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ ملے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران کراچی میں کسی بھی جلسے سے خطاب نہیں کیا تھا۔ ایک بڑا جلسہ دسمبر 2011ء کے میں یہاں منعقد ہوا تھا، جس سے عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ووٹوں کی اس معقول تعداد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کراچی میں اپنا ایک اہم ووٹ بینک تیار کرچکی ہے۔
کراچی میں مقیم صحافی اور ناول نگار محمد حنیف نے اس تبدیلی کے متعلق واضح کیا کہ “پی ٹی آئی کراچی ایک فطری قسم کا حلقہ بن سکتا ہے، اس لیے کہ ان کی توجہ کا مرکز شہری علاقوں کا پڑھا لکھا طبقہ ہے، اور کراچی میں اس طبقے کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
اس کے علاوہ جب ہم بات کرتے ہیں پیپلزپارٹی کے مدت اقتدار میں اس کی کمزوریوں کے حوالے سے تو یہی وجوہات ایم کیوایم پر بھی لاگو کرکے دیکھی جاسکتی ہے، اور یہ تو مشرف کے دور سے اقتدار میں بھی ہیں اور ان کا اثر کراچی پر ایک طویل عرصے سے قائم چلا آرہا ہے۔ لوگ اب چاہتے ہیں کہ کسی نئے کو موقع دیا جائے، لہٰذا ووٹوں کی یہ تعداد حیرت انگیز نہیں ہے۔”
اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے انتخابی حلقوں میں پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد بھی یکساں طور پر متاثر کن ہیں۔ کراچی 15 کے حلقے پی ایس-103 میں پی ٹی آئی کی امیدوار زرینہ سرور، کراچی 16 پی ایس-104 سے صدیق اللہ اور کراچی32 پی ایس-120 سے عابد جیلانی نےسترہ ہزار سے زیادہ ووٹ لیے ہیں۔
تین دیگر پی ٹی آئی کے امیدواروں نے بھی بیس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، جن میں محمد جاوید جیلانی نے پی ایس-105 ، عطاءاللہ پی ایس-119 اور ارم بٹ پی ایس-116 سے شامل ہیں۔ ارسلان گھمن نے پی ایس-118 سے اچھا مقابلہ کیا جہاں انہیں اکتیس ہزار آٹھ سو دو ووٹ ایم کیو ایم کے امیدوار کے خلاف حاصل کیے، جنہیں چھپن ہزار ایک سو پینتالیس ووٹ حاصل کیے۔
ایم کیو ایم پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کو کس طرح دیکھتی ہے، اس حوالے سے محمد حنیف کہتے ہیں: “میں امید کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم اس حقیقت کو قبول کرلے گی، اور دیگر امیدواروں کو دیے جانے والے ووٹ ایک اچھی اور صحتمندانہ تبدیلی ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی پرنظر ثانی کریں نئے حقائق پر غیر ضروری ردّعمل کا مظاہرہ نہ کریں، اس لیے کہ اس طرز کا رویہّ زیادہ عرصے تک انہیں آگے بڑھنے میں مدد نہیں دے سکے گا۔”
تاہم انہوں نے پی ٹی آئی کو پہلی مرتبہ ووٹ دینے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا: “پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کریں کہ آپ نے چھ چھ گھنٹے لائن میں کھڑے ہوکر اپنے امیدوار کو ووٹ دیا لیکن وہ اگر کامیاب نہ ہوسکا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس بات کے لیے آپ خود کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔پی ٹی آئی کے لیے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والوں کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو تو ہارنا ہی پڑتا ہے، اور ایسا انتخابات میں تو ہوتا ہی ہے۔”
جب ایم کیوایم کے رہنما واسع جلیل سے ڈان نے سوال کیا کہ ان کی پارٹی نے اس حیرت انگیز واقعہ کو کس طرح محسوس کیا کہ ان کے مضبوط گڑھ میں پی ٹی آئی نے ووٹوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کرلی ہے، تو انہوں نے جواب دیا: “جی ہاں، بالکل ہم نے اس چیز کو محسوس کیا ہے، ہم اسے دس جماعتی اتحاد کے نام منسوب کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے خلاف ووٹ حاصل کیے۔
میں نے گلشن اقبال اور ناظم آباد میں کچھ نوجوانوں سے ملاقات کی تھی، جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے، لیکن اس لیے کہ وہ نوجوانوں میں مقبول ہے۔ ایم کیوایم دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک اچھے مقابلے کے حوالے سے دیکھتی ہے اور ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ شہر کے دیگر لوگوں کی نمائندہ جماعتیں ہیں، لیکن دس جماعتی ایم کیوایم مخالف اتحاد جس میں شامل جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، اور جو پی ٹی آئی کے حق میں گیا۔”
ربط
نارتھ ناظم آباد میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-245 جو متحدہ قومی موومنٹ کا مضبوط حلقہ سمجھا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے ریاض حیدر نے تقریباً چوّن ہزار ووٹ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار ریحان ہاشمی کے خلاف حاصل کیے، جنہیں ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ووٹ ملے تھے۔
بالکل اسی طرح ایک اور علاقہ فیڈرل بی ایریا کا ہے،جہاں ایم کیو ایم برسوں سے اپنی بے مثال اجارہ داری کا لطف اُٹھاتی چلی آرہی ہے، یہاں انتخابی حلقہ این اے-246 میں پی ٹی آئی کے امیر شرجیل نے تقریباً بتیس ہزار ووٹ حاصل کیے، جہاں ان کے مدمقابل ایم کیو ایم کے نامزد امیدوار نبیل گبول جو پہلے پیپلزپارٹی کے پکے رکن ہوا کرتے تھے، نے ایک لاکھ انتالیس ہزار تین سو چھیاسی ووٹ حاصل کیے تھے۔
ایم کیو ایم کے ایک اور زیراثر علاقہ جو نارتھ کراچی اور نیوکراچی پر مشتمل ہے، میں قومی اسمبلی حلقہ این اے-243 میں پی ٹی آئی کے زاہد حسین ہاشمی نے تقریباً تیس ہزار ووٹ حاصل کیے، جبکہ ایم کیوایم کے امیدوار نے ایک لاکھ بانوے ہزار چھ سو اٹھہتر ووٹ حاصل کیے۔
پی ٹی آئی کے راشد صدیقی نے لیاقت آباد میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-247 سے پینتس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، اور محمودآباد میں حلقہ این اے-251 سے پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ اظہر کو انتالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ ملے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران کراچی میں کسی بھی جلسے سے خطاب نہیں کیا تھا۔ ایک بڑا جلسہ دسمبر 2011ء کے میں یہاں منعقد ہوا تھا، جس سے عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ووٹوں کی اس معقول تعداد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کراچی میں اپنا ایک اہم ووٹ بینک تیار کرچکی ہے۔
کراچی میں مقیم صحافی اور ناول نگار محمد حنیف نے اس تبدیلی کے متعلق واضح کیا کہ “پی ٹی آئی کراچی ایک فطری قسم کا حلقہ بن سکتا ہے، اس لیے کہ ان کی توجہ کا مرکز شہری علاقوں کا پڑھا لکھا طبقہ ہے، اور کراچی میں اس طبقے کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
اس کے علاوہ جب ہم بات کرتے ہیں پیپلزپارٹی کے مدت اقتدار میں اس کی کمزوریوں کے حوالے سے تو یہی وجوہات ایم کیوایم پر بھی لاگو کرکے دیکھی جاسکتی ہے، اور یہ تو مشرف کے دور سے اقتدار میں بھی ہیں اور ان کا اثر کراچی پر ایک طویل عرصے سے قائم چلا آرہا ہے۔ لوگ اب چاہتے ہیں کہ کسی نئے کو موقع دیا جائے، لہٰذا ووٹوں کی یہ تعداد حیرت انگیز نہیں ہے۔”
اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے انتخابی حلقوں میں پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد بھی یکساں طور پر متاثر کن ہیں۔ کراچی 15 کے حلقے پی ایس-103 میں پی ٹی آئی کی امیدوار زرینہ سرور، کراچی 16 پی ایس-104 سے صدیق اللہ اور کراچی32 پی ایس-120 سے عابد جیلانی نےسترہ ہزار سے زیادہ ووٹ لیے ہیں۔
تین دیگر پی ٹی آئی کے امیدواروں نے بھی بیس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، جن میں محمد جاوید جیلانی نے پی ایس-105 ، عطاءاللہ پی ایس-119 اور ارم بٹ پی ایس-116 سے شامل ہیں۔ ارسلان گھمن نے پی ایس-118 سے اچھا مقابلہ کیا جہاں انہیں اکتیس ہزار آٹھ سو دو ووٹ ایم کیو ایم کے امیدوار کے خلاف حاصل کیے، جنہیں چھپن ہزار ایک سو پینتالیس ووٹ حاصل کیے۔
ایم کیو ایم پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کو کس طرح دیکھتی ہے، اس حوالے سے محمد حنیف کہتے ہیں: “میں امید کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم اس حقیقت کو قبول کرلے گی، اور دیگر امیدواروں کو دیے جانے والے ووٹ ایک اچھی اور صحتمندانہ تبدیلی ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی پرنظر ثانی کریں نئے حقائق پر غیر ضروری ردّعمل کا مظاہرہ نہ کریں، اس لیے کہ اس طرز کا رویہّ زیادہ عرصے تک انہیں آگے بڑھنے میں مدد نہیں دے سکے گا۔”
تاہم انہوں نے پی ٹی آئی کو پہلی مرتبہ ووٹ دینے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا: “پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کریں کہ آپ نے چھ چھ گھنٹے لائن میں کھڑے ہوکر اپنے امیدوار کو ووٹ دیا لیکن وہ اگر کامیاب نہ ہوسکا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس بات کے لیے آپ خود کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔پی ٹی آئی کے لیے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والوں کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو تو ہارنا ہی پڑتا ہے، اور ایسا انتخابات میں تو ہوتا ہی ہے۔”
جب ایم کیوایم کے رہنما واسع جلیل سے ڈان نے سوال کیا کہ ان کی پارٹی نے اس حیرت انگیز واقعہ کو کس طرح محسوس کیا کہ ان کے مضبوط گڑھ میں پی ٹی آئی نے ووٹوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کرلی ہے، تو انہوں نے جواب دیا: “جی ہاں، بالکل ہم نے اس چیز کو محسوس کیا ہے، ہم اسے دس جماعتی اتحاد کے نام منسوب کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے خلاف ووٹ حاصل کیے۔
میں نے گلشن اقبال اور ناظم آباد میں کچھ نوجوانوں سے ملاقات کی تھی، جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے، لیکن اس لیے کہ وہ نوجوانوں میں مقبول ہے۔ ایم کیوایم دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک اچھے مقابلے کے حوالے سے دیکھتی ہے اور ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ شہر کے دیگر لوگوں کی نمائندہ جماعتیں ہیں، لیکن دس جماعتی ایم کیوایم مخالف اتحاد جس میں شامل جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، اور جو پی ٹی آئی کے حق میں گیا۔”
ربط