مہوش علی
لائبریرین
نعمان صاحب،
ہمیں صوبائیت کی سطح سے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستانی بن کر ان مسائل کا حل دیکھنا ہے۔
پشتون اور بلوچستان کے مسائل کا سارا الزام صرف آرمی پر ڈالنا مکمل انصاف نہیں ہے۔ اور اس کی وجوہات یہ ہیں:
1۔ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پشتون کا ایک گروہ ہمیشہ سے پاکستان کے قیام کے خلاف رہا ہے اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتا ہے (باچا خان کی قیادت میں)۔
چونکہ پشتون مسائل اس دھاگے کا موضوع نہیں، اس لیے بحث کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ اگر مزید بحث کی ضرورت ہوئی تو نیا دھاگہ کھولنا بہتر رہے گا۔
2۔ بلوچستان کے مسائل بھی صرف آرمی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کے سب سے بڑے ذمہ دار خود بلوچ سردار ہیں۔
دوسرے نمبر پر قصوروار ہمارے سیاست دان ہیں (چاہے اُن کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہو یا آرمی کے جنرل جنہوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لی، یا اُن کے تحت سول بیوروکریسی)
بلوچستان میں سب سے بڑا آپریشن سول حکومت (بھٹو صاحب) کے دور میں ہوا۔
بلوچستان کے مسائل ایک بہت بڑا موضوع ہے، اور اس کے لیے بھی یہ دھاگا مناسب نہیں۔ لہذا بحث کو یہاں ہی روکنا مناسب ہو گا۔
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف، جو کہ ہے ایم کیو ایم۔
جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں، کراچی کی عوام کو سب سے زیادہ شکایت خود اُن پشتون اور سندھی اور پنجابی مہاجرین سے تھی جو کہ کراچی آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اسی طرح انہیں شکایت تھی کہ سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کو کوٹہ سسٹم پر کیوں داخلہ مل جاتا ہے۔
انہی شکایات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا وجود عمل میں آیا، اور اہل کراچی نے (جو خود مہاجر ہیں) دوسرے پاکستانی علاقوں سے آنے والے دیگر پشتون، سندھی، پنجابی مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس بنیاد پر کراچی میں فسادات پھوٹے۔
ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کی منافقت کی بڑی نشانی میرے نزدیک یہی ہے کہ کل تک یہی قیادت اپنے کارکنوں کو کہہ رہی تھی کہ ان سندھیوں اور پشتونوں کو کراچی سے مار بھگاؤ، اور آج سیاست کی غرض سے انہی قوموں کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کی قیادت کا یہ موجودہ کردار صرف سیاسی حربے اور حیلے ہیں، تاکہ پاکستان کے مفادات کی قیمت پر وہ اپنی دکان چمکا سکیں۔
ہر جگہ جہاں علاقائیت کی بات ہوتی ہے، ایم کیو ایم اُس کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایم کیو ایم خود علاقائی اور لسانی جماعت ہے، اور دیگر علاقائی اور لسانی تنظیمیں ختم ہو گئیں تو خود ایم کیو ایم کے وجود کو خطرہ پڑ جائے گا اور اس کے باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
کراچی کے عوام اگر ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر کوئی اور ایسی جماعت نہیں ہے جس پر وہ اعتماد کر سکیں (یعنی اُن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے)۔
پیپلز پارٹی سندھیوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی کی بڑی بڑی پوسٹیں سندھیوں کو دی جاتی ہیں۔
مسلم لیگ کو پنجابی جماعت سمجھا جاتا ہے، اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی میں پنجابی گھس جاتے ہیں۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں اگر کوئی اور جماعت کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے یہی ایم کیو ایم ہے جو اُس جماعت کی اینٹ سے اینٹ بجاتی ہے۔
کراچی کی یہی جماعتِ اسلامی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگاتی ہے کہ وہ اُس کے ہزاروں کارکنوں کے قتل کہ ذمہ دار ہے۔ (نوٹ: اس لیے یہ الزام لگانا کہ یہ صرف آرمی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے، غلط ہے)۔ کراچی کے کالجوں میں بھی ووٹنگ کے وقت دیگر جماعتوں کو یہی ایم کیو ایم اپنا سٹال نہیں لگانے دیتی۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر آج یہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کراچی میں گلے میں گلے ملے ہوئے نظر آ رہے ہیں، تو یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔
مختصرا، بطور پاکستانی کم از کم میری سوچ تو یہی ہے کہ مہاجروں کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہو رہی ہے (مثلا کوٹہ سسٹم اور بیہاری مہاجرین کے واپسی وغیرہ) تو میں اس کے خلاف ہوں۔ لیکن جہاں تک ایم کیو ایم جیسی علاقائی تنظیموں کا تعلق ہے، تو ان کا وجود پاکستان کے لیے زہر قاتل ہے۔
(نوٹ: بہاری مہاجرین کی واپسی کے خلاف ہونے کا سارا الزام فوج پر ڈال دینا پھر ناانصافی ہو گی، بلکہ یہ سندھی، بلوچی اور پشتون عوام بھی ہے جو کہ اُن کی واپسی کے خلاف ہیں۔ یاد رکھئیے، فوج بذاتِ خود کچھ نہیں، بلکہ عوام کا ہی ایک حصہ ہے اور اسی عوام کی ذہنیت کی عکاس ہے)۔
ہمیں صوبائیت کی سطح سے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستانی بن کر ان مسائل کا حل دیکھنا ہے۔
پشتون اور بلوچستان کے مسائل کا سارا الزام صرف آرمی پر ڈالنا مکمل انصاف نہیں ہے۔ اور اس کی وجوہات یہ ہیں:
1۔ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پشتون کا ایک گروہ ہمیشہ سے پاکستان کے قیام کے خلاف رہا ہے اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتا ہے (باچا خان کی قیادت میں)۔
چونکہ پشتون مسائل اس دھاگے کا موضوع نہیں، اس لیے بحث کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ اگر مزید بحث کی ضرورت ہوئی تو نیا دھاگہ کھولنا بہتر رہے گا۔
2۔ بلوچستان کے مسائل بھی صرف آرمی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کے سب سے بڑے ذمہ دار خود بلوچ سردار ہیں۔
دوسرے نمبر پر قصوروار ہمارے سیاست دان ہیں (چاہے اُن کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہو یا آرمی کے جنرل جنہوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لی، یا اُن کے تحت سول بیوروکریسی)
بلوچستان میں سب سے بڑا آپریشن سول حکومت (بھٹو صاحب) کے دور میں ہوا۔
بلوچستان کے مسائل ایک بہت بڑا موضوع ہے، اور اس کے لیے بھی یہ دھاگا مناسب نہیں۔ لہذا بحث کو یہاں ہی روکنا مناسب ہو گا۔
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف، جو کہ ہے ایم کیو ایم۔
جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں، کراچی کی عوام کو سب سے زیادہ شکایت خود اُن پشتون اور سندھی اور پنجابی مہاجرین سے تھی جو کہ کراچی آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اسی طرح انہیں شکایت تھی کہ سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کو کوٹہ سسٹم پر کیوں داخلہ مل جاتا ہے۔
انہی شکایات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا وجود عمل میں آیا، اور اہل کراچی نے (جو خود مہاجر ہیں) دوسرے پاکستانی علاقوں سے آنے والے دیگر پشتون، سندھی، پنجابی مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس بنیاد پر کراچی میں فسادات پھوٹے۔
ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کی منافقت کی بڑی نشانی میرے نزدیک یہی ہے کہ کل تک یہی قیادت اپنے کارکنوں کو کہہ رہی تھی کہ ان سندھیوں اور پشتونوں کو کراچی سے مار بھگاؤ، اور آج سیاست کی غرض سے انہی قوموں کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کی قیادت کا یہ موجودہ کردار صرف سیاسی حربے اور حیلے ہیں، تاکہ پاکستان کے مفادات کی قیمت پر وہ اپنی دکان چمکا سکیں۔
ہر جگہ جہاں علاقائیت کی بات ہوتی ہے، ایم کیو ایم اُس کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایم کیو ایم خود علاقائی اور لسانی جماعت ہے، اور دیگر علاقائی اور لسانی تنظیمیں ختم ہو گئیں تو خود ایم کیو ایم کے وجود کو خطرہ پڑ جائے گا اور اس کے باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
کراچی کے عوام اگر ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر کوئی اور ایسی جماعت نہیں ہے جس پر وہ اعتماد کر سکیں (یعنی اُن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے)۔
پیپلز پارٹی سندھیوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی کی بڑی بڑی پوسٹیں سندھیوں کو دی جاتی ہیں۔
مسلم لیگ کو پنجابی جماعت سمجھا جاتا ہے، اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی میں پنجابی گھس جاتے ہیں۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں اگر کوئی اور جماعت کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے یہی ایم کیو ایم ہے جو اُس جماعت کی اینٹ سے اینٹ بجاتی ہے۔
کراچی کی یہی جماعتِ اسلامی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگاتی ہے کہ وہ اُس کے ہزاروں کارکنوں کے قتل کہ ذمہ دار ہے۔ (نوٹ: اس لیے یہ الزام لگانا کہ یہ صرف آرمی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے، غلط ہے)۔ کراچی کے کالجوں میں بھی ووٹنگ کے وقت دیگر جماعتوں کو یہی ایم کیو ایم اپنا سٹال نہیں لگانے دیتی۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر آج یہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کراچی میں گلے میں گلے ملے ہوئے نظر آ رہے ہیں، تو یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔
مختصرا، بطور پاکستانی کم از کم میری سوچ تو یہی ہے کہ مہاجروں کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہو رہی ہے (مثلا کوٹہ سسٹم اور بیہاری مہاجرین کے واپسی وغیرہ) تو میں اس کے خلاف ہوں۔ لیکن جہاں تک ایم کیو ایم جیسی علاقائی تنظیموں کا تعلق ہے، تو ان کا وجود پاکستان کے لیے زہر قاتل ہے۔
(نوٹ: بہاری مہاجرین کی واپسی کے خلاف ہونے کا سارا الزام فوج پر ڈال دینا پھر ناانصافی ہو گی، بلکہ یہ سندھی، بلوچی اور پشتون عوام بھی ہے جو کہ اُن کی واپسی کے خلاف ہیں۔ یاد رکھئیے، فوج بذاتِ خود کچھ نہیں، بلکہ عوام کا ہی ایک حصہ ہے اور اسی عوام کی ذہنیت کی عکاس ہے)۔