نعمان حجازی
محفلین
کہاں تم قید ہو اِس چار دیواری اور چادر میں؟
بہت اچھا تھا یہ سب گرچہ دورِ”گرینڈ فادر“ میں!
مگر جو اَب زمانہ ہے اسے ”ایڈوانس“ کہتے ہیں
کبھی تقدیر ہوتی تھی، جسےاب ”چانس“ کہتے ہیں
ضروری ہے ترقی کا کوئی اِک ”چانس“ تم لے لو
جہاں پہنچی ہیں لندن والیاں، تم بھی وہاں پہنچو
پتہ بھی ہے! کہ بنتِ حوا اڑتی ہے ہواؤں میں
زمانہ لد گیا جب کھیلتی تھی گھر کی چھاؤں میں
بندھی چولھے سے لیکن، تم ابھی تک جاں جلاتی ہو
وہ پہنچیں چاند پر اور تم یہیں چمچہ چلاتی ہو
اڑاتی ہیں وہ ”جیٹ“ اور تم بس بچے کھلاتی ہو
وہ دنیا گھوم آئیں، تم فقط جھاڑو گھماتی ہو
یہ درجن بھر جو بچے ہیں بھلا کیسے سنبھالو گی؟
اگر ”ڈیڈ“ ہو گئے ”ڈیڈی“ ہی ان کے، کیسے پالو گی؟
کبھی سوچو کہ مرد وزن تو ہیں گاڑی کے پہیے دو
برابر ان کو چلنے دو، ذرا کچھ ”لوڈ“ تم بھی لو!
تم اس کا ساتھ دو، ”کھاؤ“ کماؤ، دل بڑا رکھو
نئی دنیا بھی دیکھو۔۔۔ ”آؤٹنگ“ کا بھی مزا چکھو!
جو ”یو۔این۔او“ نے بخشے ہیں وہ ”رائٹس“ بھی ”شیئر“ کر لو
کچھ اپنے حق کو پہچانو، کچھ اپنی بھی ”کیئر“ کر لو
ہمارا ساتھ دو تو ہم تمہیں آزاد کر دیں گے
”سول سوسائٹی“ میں بیٹھو گی، دل شاد کر دیں گے
کوئی مشکل ہوئی، پردیس میں آباد کر دیں گے
رکاوٹ جو بنے گا اس کو مردہ باد کر دیں گے
وگرنہ، مذہب و ناموس کے جو قید خانے ہیں
تمہارے سارے ”ٹیلنٹ“ کو یونہی برباد کر دیں گے!
محلے ہی کے بچوں کو الف، با، تا، پڑھاؤ گی؟!
بتاؤ تو؟ تم ”اسٹیٹس“ خود اپنا کب بناؤ گی؟
پرانی سوچ کو چھوڑو، نئی آواز پر لپکو
اور اپنے دامنوں سے ہر بندھی زنجیر کو جھٹکو
قدم گھر سے نکالو۔۔۔۔ ”ویل فیئر“ کا ”چارم“ تو لے لو!
ذرا آگے بڑھو، یہ این۔جی۔او کا ”فارم“ تو لے لو!
جو ولدیت کا خانہ ہے، بس اس میں گم شدہ لکھ دو!
جہاں مذہب کا ہے پوچھا، وہاں پر بے خدا لکھ دو!
بہت اچھا تھا یہ سب گرچہ دورِ”گرینڈ فادر“ میں!
مگر جو اَب زمانہ ہے اسے ”ایڈوانس“ کہتے ہیں
کبھی تقدیر ہوتی تھی، جسےاب ”چانس“ کہتے ہیں
ضروری ہے ترقی کا کوئی اِک ”چانس“ تم لے لو
جہاں پہنچی ہیں لندن والیاں، تم بھی وہاں پہنچو
پتہ بھی ہے! کہ بنتِ حوا اڑتی ہے ہواؤں میں
زمانہ لد گیا جب کھیلتی تھی گھر کی چھاؤں میں
بندھی چولھے سے لیکن، تم ابھی تک جاں جلاتی ہو
وہ پہنچیں چاند پر اور تم یہیں چمچہ چلاتی ہو
اڑاتی ہیں وہ ”جیٹ“ اور تم بس بچے کھلاتی ہو
وہ دنیا گھوم آئیں، تم فقط جھاڑو گھماتی ہو
یہ درجن بھر جو بچے ہیں بھلا کیسے سنبھالو گی؟
اگر ”ڈیڈ“ ہو گئے ”ڈیڈی“ ہی ان کے، کیسے پالو گی؟
کبھی سوچو کہ مرد وزن تو ہیں گاڑی کے پہیے دو
برابر ان کو چلنے دو، ذرا کچھ ”لوڈ“ تم بھی لو!
تم اس کا ساتھ دو، ”کھاؤ“ کماؤ، دل بڑا رکھو
نئی دنیا بھی دیکھو۔۔۔ ”آؤٹنگ“ کا بھی مزا چکھو!
جو ”یو۔این۔او“ نے بخشے ہیں وہ ”رائٹس“ بھی ”شیئر“ کر لو
کچھ اپنے حق کو پہچانو، کچھ اپنی بھی ”کیئر“ کر لو
ہمارا ساتھ دو تو ہم تمہیں آزاد کر دیں گے
”سول سوسائٹی“ میں بیٹھو گی، دل شاد کر دیں گے
کوئی مشکل ہوئی، پردیس میں آباد کر دیں گے
رکاوٹ جو بنے گا اس کو مردہ باد کر دیں گے
وگرنہ، مذہب و ناموس کے جو قید خانے ہیں
تمہارے سارے ”ٹیلنٹ“ کو یونہی برباد کر دیں گے!
محلے ہی کے بچوں کو الف، با، تا، پڑھاؤ گی؟!
بتاؤ تو؟ تم ”اسٹیٹس“ خود اپنا کب بناؤ گی؟
پرانی سوچ کو چھوڑو، نئی آواز پر لپکو
اور اپنے دامنوں سے ہر بندھی زنجیر کو جھٹکو
قدم گھر سے نکالو۔۔۔۔ ”ویل فیئر“ کا ”چارم“ تو لے لو!
ذرا آگے بڑھو، یہ این۔جی۔او کا ”فارم“ تو لے لو!
جو ولدیت کا خانہ ہے، بس اس میں گم شدہ لکھ دو!
جہاں مذہب کا ہے پوچھا، وہاں پر بے خدا لکھ دو!