مولانا شیرانی کس کا کھیل کھیل رہے تھے ؟
رعایت اللہ فاروقی
یہ 1997ء کی بات ہے، میں اس زمانے میں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے لئے کالم لکھا کرتا تھا۔ تب میں ایک عسکری تنظیم کا سیکریٹری اطلاعات و نشریات بھی تھا اور کچھ ہی عرصہ قبل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ذاتی سطح کا دوستانہ تعلق بھی قائم ہوگیا تھا۔
1997ء کے عام انتخابات آئے تو پولنگ سے چار روز قبل میں نے مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان فون کرکے آگاہ کیا ان کی شکست کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
جس پرمولانا نے فرمایا
اس بار کوئی چاہے بھی تو دھاندلی سے شکست نہیں دلوا سکتا کیونکہ حلقے میں میری مقبولیت غیر معمولی ہے۔
میں نے عرض کیا
شاید اسی لئے فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ ووٹ آپ کے پچھلے الیکشن سے زیادہ ہوں گے مگر فتح آپ کی نہیں ہوگی۔
اگلے دن مولانا کا فون آیا، انہوں نے بتایا
میں نے صدر لغاری سے آج کہا ہے کہ مجھے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ مجھے دھاندلی کے ذریعے ہرانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ صدر لغاری نے حلفیہ کہا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ میرے پاس تو آپ کے حلقے سے متعلق یہ رپورٹ آئی ہے کہ مولانا اس حلقے میں سب سے آگے ہیں اور انہی کے جیتنے کا امکان ہے۔
میں نے عرض کیا
مولانا میں اپنی خبر پر قائم ہوں، ممکن ہے صدر لغاری پلان سے آگاہ نہ ہوں۔
پھر الیکشن سے ایک روز قبل مولانا کا دوسرا فون آیا، اس بار ان کا لہجہ بجھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا
آج کمشنر ڈی آئی خان مجھ سے ملے ہیں اور بتایا ہے کہ ہمیں آپ کی شکست یقینی بنانے کا حکم آگیا ہے۔ اگر آپ کچھ کرسکتے ہیں تو آج ہی کا دن ہے اسلام آباد اور راولپنڈی میں رابطے کرلیں تاکہ حکم تبدیل ہوجائے ورنہ کل تو ہم وہ کرنے پر مجبور ہوں گے جس کا کہا گیا ہے۔
مولانا نے کسی سے رابطہ نہیں کیا۔ الیکشن ہوگئے، اور مولانا پچھلے الیکشن سے دس ہزار ووٹ زیادہ لے کر ہار گئے۔ انتخابات کے فوراً بعد ڈی آئی خان میں جے یو آئی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا جس کا اعلامیہ اس اعلان کی صورت جاری ہوا کہ جے یو آئی انتخابی سیاست سے کنارہ کشی پر غور کرے گی۔ انہی دنوں میری اسلام آباد کے ایم این اے ہاسٹل میں حافظ حسین احمد سے ملاقات ہوئی جو میرے پس منظر سے واقف تھے۔
میں نے ان سے سوال کیا
کیا جے یو آئی انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کے حوالے سے سنجیدہ ہے ؟۔
حافظ صاحب نے جوابا سوال کیا
آپ کو اس میں غیر سنجیدگی کیوں نظر آرہی ہے ؟۔
میں نے عرض کیا
کیونکہ اس اعلان کے فوراً بعد مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان گورنمنٹ کی پجیرو گاڑی وصول فرمائی ہے جو بلوچستان اسمبلی کے موٹر پول سے انہیں دی گئی ہے اور آپ کو اسلام آباد پہنچانے بھی وہی گاڑی آئی ہے جو اس وقت بھی نیچے پارکنگ میں کھڑی ہے۔
یہ سن کر حافظ صاحب غصے سے پھٹ پڑے اور فرمایا
تم ایجنسیوں کی گود میں بیٹھنے والے اس طرح کی بکواس نہیں کروگے تو اور کیا کروگے ؟ اور تم۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے مجھے ایجنسی کا طعنہ عسکری تنظیم سے تعلق کی نسبت سے دیا تھا میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے اسی شدت کے ساتھ کہا۔
مجھے ایجنسی کا طعنہ بھی آپ دینگے ؟ الیکشن سے چار روز قبل آپ اسلام آباد سے ایل ایم 60 نمبر کی ایک سرخ رنگ والی ڈبل کیبن گاڑی میں خفیہ دورے پر لاہور گئے تھے۔ بتاؤں آپ کو کہ وہ گاڑی کس کی تھی اور آپ کس کے کہنے پر لاہور جا کر کس سے ملے تھے ؟۔
اس جوابی حملے نے ان کے اوسان خطاء کر دیئے۔ افرا تفری میں بڑے مضحکہ خیز انداز کے ساتھ انٹرکام اٹھا کر کیفے ٹیریا میں آرڈر دیتے ہوئے بولے
دوا دودھ پتی راؤڑا (دود دودھ پتی لاؤ)۔
اس ملاقات کے اگلے روز میں جناح ہاسٹل میں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات کر رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور حافظ صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ مگر مجھ پر نظر پڑتے ہی ایک دم چونکے اور جھٹکے سے پلٹ کر کمرے سے نکل گئے۔
مولانا حیران ہوئے۔ انہوں نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں کل والے واقعے کی تفصیل ہی نہیں بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ حافظ صاحب لاہور میں کس سے ملے تھے اور کیا یقین دہانی کروائی تھی۔
حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی دونوں مولانا کی 1997ء کے الیکشن میں شکست سے پیشگی آگاہ تھے اور حافظ حسین احمد الیکشن سے چار روز قبل لاہور میں میاں نواز شریف سے جاکر ملے تھے۔ اس ملاقات میں نواز شریف کو یقین دلایا گیا تھا کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق آپ کے شدید مخالف مولانا فضل الرحمٰن اسمبلی میں نہیں ہوں گے جس کے سبب جے یو آئی کا پارلیمانی گروپ ہمارے کنٹرول میں ہوگا اور وہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لئے فرینڈلی اپوزیشن ثابت ہوگااورآنے والے عرصے میں ایسا ہی ہوا۔
مولانا شیرانی کو جو پجیرو گاڑی الاٹ ہوئی تھی وہ اسمبلی کے حلف اٹھانے سے بھی قبل الاٹ ہوگئی تھی اور مزے کی بات یہ کہ صوبائی اسمبلی کی یہ گاڑی ایسے شخص کو الاٹ ہوئی تھی جو اس اسمبلی کا اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر تو کیا رکن ہی نہ تھا۔
سو اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ گاڑی کا یہ تحفہ انہیں الاٹ کرنے والے وہی لوگ تھے جو مولانا فضل الرحمٰن کی شکست کے ذمہ دار تھے اور جن کا اب آگے کے پارلیمانی معاملات میں شیرانی نے سہولت کار بننا تھا۔
آگے چل کر جب مشرف دور میں ایم ایم اے بنی تو یہ مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد ہی تھے جو مولانا فضل الرحمن پر مسلسل جماعت کے اندر سے لابنگ کے ذریعے یہ دباؤ رکھا کرتے تھے کہ دنیا و آخرت کی ساری کامیابیاں جنرل مشرف کی رضا میں میں پوشیدہ ہیں۔
حافظ حسین احمد تو نادیدہ قوتوں سے اپنے مراسم کے حوالے سے غیر محتاط تھے مگر مولانا شیرانی اس معاملے میں بڑی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ وہ نجی محفلوں میں اپنے ملاقاتیوں کے ساتھ گفتگو میں خود ہی فوج کا ذکر چھیڑ دیتے اور اسے ملکی مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے۔
یہ چلن انہوں نے پچھلے بیس پچیس سالوں کے دوران مستقل اپنائے رکھا، اور یہ بندوبست وہ اس لئے کیا کرتے تھے کہ اگر خدانخواستہ کبھی ان کا بھانڈہ کہیں سے پھوٹ جائے تو سننے والے یقین ہی نہ کریں اور وہ یہ سوچتے رہیں کہ مولانا شیرانی کو تو ہم نے خود نجی مجالس میں فوج کے خلاف باتیں کرتے سنا ہے۔
جے یو آئی کے اس زراعتی گروپ کا 2002ء تک صرف بلوچستان کی حد تک جماعتی اثر تھا۔ لیکن ایم ایم اے دور میں جے یو آئی خیبر پختونخوا میں بھی قوت بن کر ابھری تو انہوں نے مولانا گل نصیب خان اور مفتی کفایت اللہ کو بھی رفتہ رفتہ اپنے گروپ کا حصہ بنا لیا۔
یوں یہ گروپ اب دونوں صوبوں میں موجود تھا اور دونوں ہی صوبوں سے مولانا فضل الرحمن کو مشوروں کی صورت وہ لائن دینے کی کوششیں کیا کرتا جو محکمہ زراعت کی لائن ہوتی۔
مولانا فضل الرحمن تقریباً بیس سال تک انہیں برداشت کرتے رہے مگر مضبوط سے مضبوط قوت برداشت بھی ایک دن جواب دے جاتی ہے۔
جب وہ موقع آیا تو مولانا فضل الرحمن کے پاس واحد آپشن یہی تھی کہ ان کی سفید داڑھیوں کا لحاظ کرتے ہوئے صرف سائیڈ لائن کرکے بے اثر کرنے پر اکتفا کر جائیں۔
مولانا کو ان کے خلاف کسی سازش کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ انہوں نے بس یہ کیا کہ ملک بھر میں پھیلے اہم جماعتی ارکان کو خاموشی سے زراعتی گروپ کی حقیقت سے آگاہ کردیا۔ جب جماعتی الیکشن آیا تو ارکان نے اپنے ووٹوں کی طاقت سے اس پورے گروپ کو کھڈے لائن لگا کر بے اثر کردیا۔
کچھ عرصے کے لئے تو یہ سکتے سے دوچار رہے کہ ان کے ساتھ یہ ہو کیا گیا مگر جس قوت نے ان پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے ان کے تقاضے ابھی باقی تھے۔ ان تقاضوں کی حالیہ تکمیل مولانا شیرانی نے علانیہ بغاوت کی صورت کی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی روز بروز بڑھتی عوامی مقبولیت اور سخت موقف نے جنہیں پریشان کر رکھا تھا وہی یہ اعلان بغاوت کرانے والے ہیں۔
کوشش اچھی تھی مگر چونکہ شیرانی سیاسی شعور بالکل نہیں رکھتے سو اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے جے یو آئی سے بغاوت اور اسرائیل و عمران خان کی حکومت کو تسلیم کرنے جیسی بغاوت بیک ظرف و زمان کر بیٹھے۔
یوں آج جے یو آئی کے ورکرز انہیں محض اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار کے طور پر ہی نہیں بلکہ اسرائیل نواز ٹولے کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ اور حالت یہ ہے کہ خود شیرانی کی اپنی تحصیل سے بھی انہیں مخالفت کا سامنا ہے۔
جے یو آئی انضباطی کمیٹی نے ایکشن لیتے ہوئے اس گروپ کو جماعت سے نکال دیا ہے جو ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ مگر خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کے لئے ٹاک شوز میں اوور ایکٹنگ کرنے والے مفتی کفایت اللہ کا انجام ابھی باقی ہے۔
حال ہی میں مولانا شیرانی نے ان سے کہا تھاکہ آپ میڈیا پر فضل الرحمن کا دفاع جس جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں اس سے تو کبھی کبھی مجھے بھی شک پڑنے لگتا ہے کہ آپ انہی کے وفادار ہیں اور مفتی کفایت اللہ نے اس کا جواب ایک زوردار قہقہے کی صورت دیا تھا۔
مفتی کفایت اللہ تیل دیکھ تیل کی دھار دیکھ ۔پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ ان کا پروگرام باغی گروپ کی کامیابی کا یقین حاصل کرنے کے بعد انہیں جوائن کرنے کاتھا۔
اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ان کے سیف گیم سے آگاہ نہیں ہیں تو یہ خوش فہمی ان کی جلد دور ہوجائے گی۔