این ٹی ایس محض پیسہ بنانے کا نام ہے۔ قصہ سنیے۔
ڈاکٹر ہارون جو اس ادارے کے بانی ہیں، وہ کامسیٹس کے شریک بانی اور ڈائریکٹر ایکسٹرنل کیمسز(اس پوسٹ کی آج تک سمجھ نہیں آئي) بھی ہیں۔ کامسیٹس سیمی گورنمنٹ ادارہ ہے اور جیسا کہ میں خود اس کا سٹوڈنٹ ہوں تو جو میں نے دیکھا ہے کسی بھی دوسرے ادارے کی نسبت ایچ ای سی سے سب سے زیادہ فنڈ یہ ادارہ لیتا ہے۔ اور سات کمپس ہونے پر ہر کیمپس کے لیے الگ فنڈز ایک یونیورسٹی جتنے۔ مشرف دور میں دو اداروں کی اکٹھے بنیاد رکھی گئي ایچ ای سی اور کامسیٹس۔ جتنی مراعات اور چھوٹ کامسیٹس کو ملتی ہیں شاید ہی کسی کو ملی ہیں۔ میرے ہوتے ہوئے پہلے وزٹ میں اٹک کیمپس کو پی ای سی نے اپروو کیا جو کہ پاکستان کا پہلا کیس تھا۔ اسی طرح آئی ایس او نے بھی انہیں پہلے وزٹ میں اپرو کیا۔ اس کے علاوہ فری ایجوکیشن کے نام پہ ورکرز ویلفئر بورڈ سے جو پیسے بٹورے گئے وہ قصہ بھی آنکھوں دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ اٹک کیمپس میں اسی این ٹی ایس کا جو معیار ہے وہ بھی آنکھوں دیکھا ہے کہ ٹیسٹ پاس ہے یا نہیں آپ کا ایڈمیشن اپروو۔ تھوک کے حساب سے داخلے لیے جا تے ہیں کوئيي نہیں پوچھتا اور باقی اداروں کو جس قسم کی پابندیوں کا سامنا ہے اس کا اندازہ آپ کو ہوگا۔
ڈاکٹر ہارون صاحب گورنمنٹس کے بڑے قریبی بندے ہیں لہذا یہ چھوڑ دیں کہ نہیں ہوتی کرپشن۔ پنجاب کی اسی فیصد سے زائد درخواستیں اسی راستے سے لی جاتی ہیں۔ 500 روپے فی ٹیسٹ اور ایک ایک سیٹ کے لیے لاکھوں کی درخواستیں۔۔۔۔۔۔ میں نے ایم فل داخلے کے لیے ایک بار ٹیسٹ دیا تھا۔ اس ٹیسٹ کی جسے سائیکی پتا ہے اس کو پاس کرنا کوئي مشکل نہیں۔ میں نے اس کے بعد دوبارہ این ٹی ایس کی ویب سائٹ کی شکل نہیں دیکھی کہ بھائی روکھی سوکھی کھا لو۔۔۔۔۔ ٹائم اور پیسہ مت برباد کرو۔ رشوت اور سفارش کے ابا قائل نہیں۔۔۔۔۔
آپ کو لگے گا کہ آدھا قصہ تو کامسیٹس کا تھا۔ تو بھائی وہ اس لیے کہ این ٹی ایس کی گورننگ باڈی بھی وہی ہے ساری۔ تو یہ دونوں ادارے گورنمنٹ کے لیے سونے کا انڈہ دیتی مرغیاں ہیں۔۔۔۔۔ کڑیاں ملا لیں ورنہ وہ وضاحت بھی ہم کیے دیں گے۔