راحیل فاروق
محفلین
شوقؔ بہرائچی کا وہ معروف شعر تو آپ نے سنا ہی ہو گا:
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس یعنی این ٹی ایس (NTS) کے سی ای او جناب ڈاکٹر ہارون رشید ستارۂِ امتیاز کی پی ایچ ڈی کی ڈگری 72 فیصد نقل پر مبنی ثابت ہوئی ہے۔ ایچ ای سی کی تحقیقات کے مطابق موصوف نے 2004ء میں ہمدرد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ایک سکالر رفیق الرحمٰن کے مقالے پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کی کامسیٹس یونیورسٹی میں بھی ایک کلیدی عہدے پر فائز ہیں۔
اب نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ذاتی طور پر علامہ موصوف یا ان کی ڈگری سے کوئی کد نہیں۔ اگر وزیرِ اعظم پاکستان پارلیمانِ مقدس میں جھوٹ بول سکتا ہے، صدرِ پاکستان سراپا ممنون ہو سکتا ہے، قبلہ رحمٰن ملک علامہ قرار دیے جا سکتے ہیں، ہمارے آدم خور بھائی رحمۃ اللعالمینﷺ کے نام پر چندہ حاصل کر سکتے ہیں، مسٹر ٹین پرسنٹ ملک چلا سکتا ہے تو ایک نقل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ علامہ ہارون اگر چاہیں تو کلاسیکی فارسی محاورے 'نقلِ کفر کفر نباشد' سے بھی مدد لے سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ فقط نقل کر لینے سے ان کا مقالہ رفیق الرحمٰن کے مقالے جیسا نہیں ہو جاتا۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے دلائل ہمارے ہاں بہت مقبول ہوتے ہیں اور ایسے دانشور دن دگنی نہ سہی، رات چوگنی ترقی ضرور کرتے ہیں۔
ہمیں تو صرف اس بات کا دکھ ہے کہ ہم جیسے چھوٹے موٹے ایمان فروشوں کی روزی پر ان حضرت نے لات مار دی ہے۔ محاورے میں گنجائش نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عام لات نہیں بلکہ فلائنگ کک رسید فرمائی ہے۔ ہماری مراد این ٹی ایس کے بڑھتے ہوئے علمی اور امتحانی معیار سے ہے۔ ہمیں ڈاکٹر ہارون سے فقط یہ کہنا ہے کہ غزالاں تم تو واقف ہو۔ یعنی بندہ پرور، آپ تو جانتے ہیں اور آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ یونیورسٹی سے ڈگری لے لینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ پڑھے لکھے بھی ہیں۔ اب اگر آپ ہی ہم سے الٹے سیدھے سوالات پوچھنے لگ جائیں تو ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں؟
محکمۂِ تعلیم، پنجاب میں اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے ہونے والے حالیہ امتحانات این ٹی ایس نے لیے ہیں۔ اس پر عوام کی جانب سے کچھ اس قسم کا ردِ عمل سامنے آیا ہے:
آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ یہ سب باتیں تو این ٹی ایس کے بارے میں ہیں۔ وہ گاپوچی گم گم والی بات تو ہوئی ہی نہیں۔ لیکن اگر آپ کو صبر کرنے کی عادت ہوتی تو آج ملک اس حال کو نہ پہنچتا۔ خیر، یہ قصہ بھی آپ کے پریس کانفرنس کرنے سے پہلے ہم آپ کو سنا دیتے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اس قصے کا این ٹی ایس اور ملازمت کے حصول وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ محبِ وطن پاکستانی ہونے کے ناتے اسے صرف اور صرف لطیفہ سمجھنا آپ کا اور پوری قوم کا فرض ہے۔
ایک امیدوار انٹرویو بورڈ کے سامنے بیٹھا تھا۔
گھنٹہ بھر کے انٹرویو کے بعد جب اس نے تمام سوالات کے صحیح جوابات دے دیے تھے، اسے اپنی کامیابی یقینی نظر آنے لگی تھی۔
اچانک میز کے اس پار بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا:
"میں آپ سے ایک آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں جس کے بعد آپ جا سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ گاپوچی گم گم کا مطلب کیا ہے؟"
امیدوار کی سٹی گم ہو گئی۔ وہ سر نہوڑا کے غور و فکر میں مصروف ہو گیا۔
کافی دیر کے بعد اس نے سر اٹھایا اور ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:
"جناب، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے نوکری نہیں دینا چاہتے۔"
اس کے بعد وہ اٹھا، کرسی کے دائیں جانب سے نکلا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ بھوتنی کا۔ ہاہاہاہاہا!
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا
وطنِ عزیز کی حالتِ زار پر اس شعر کو چسپاں کرتے ہوئے بھی ہمیں عرصہ بیت گیا ہے مگر مجال ہے جو کسی الو کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ایک ایک شاخ پہ الوؤں کی کئی کئی رہائشی سکیمیں وجود میں آ گئی ہیں جن کے لیے جوئیں کم پڑ گئی ہیں۔ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس یعنی این ٹی ایس (NTS) کے سی ای او جناب ڈاکٹر ہارون رشید ستارۂِ امتیاز کی پی ایچ ڈی کی ڈگری 72 فیصد نقل پر مبنی ثابت ہوئی ہے۔ ایچ ای سی کی تحقیقات کے مطابق موصوف نے 2004ء میں ہمدرد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ایک سکالر رفیق الرحمٰن کے مقالے پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کی کامسیٹس یونیورسٹی میں بھی ایک کلیدی عہدے پر فائز ہیں۔
اب نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ذاتی طور پر علامہ موصوف یا ان کی ڈگری سے کوئی کد نہیں۔ اگر وزیرِ اعظم پاکستان پارلیمانِ مقدس میں جھوٹ بول سکتا ہے، صدرِ پاکستان سراپا ممنون ہو سکتا ہے، قبلہ رحمٰن ملک علامہ قرار دیے جا سکتے ہیں، ہمارے آدم خور بھائی رحمۃ اللعالمینﷺ کے نام پر چندہ حاصل کر سکتے ہیں، مسٹر ٹین پرسنٹ ملک چلا سکتا ہے تو ایک نقل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ علامہ ہارون اگر چاہیں تو کلاسیکی فارسی محاورے 'نقلِ کفر کفر نباشد' سے بھی مدد لے سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ فقط نقل کر لینے سے ان کا مقالہ رفیق الرحمٰن کے مقالے جیسا نہیں ہو جاتا۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے دلائل ہمارے ہاں بہت مقبول ہوتے ہیں اور ایسے دانشور دن دگنی نہ سہی، رات چوگنی ترقی ضرور کرتے ہیں۔
ہمیں تو صرف اس بات کا دکھ ہے کہ ہم جیسے چھوٹے موٹے ایمان فروشوں کی روزی پر ان حضرت نے لات مار دی ہے۔ محاورے میں گنجائش نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عام لات نہیں بلکہ فلائنگ کک رسید فرمائی ہے۔ ہماری مراد این ٹی ایس کے بڑھتے ہوئے علمی اور امتحانی معیار سے ہے۔ ہمیں ڈاکٹر ہارون سے فقط یہ کہنا ہے کہ غزالاں تم تو واقف ہو۔ یعنی بندہ پرور، آپ تو جانتے ہیں اور آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ یونیورسٹی سے ڈگری لے لینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ پڑھے لکھے بھی ہیں۔ اب اگر آپ ہی ہم سے الٹے سیدھے سوالات پوچھنے لگ جائیں تو ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں؟
محکمۂِ تعلیم، پنجاب میں اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے ہونے والے حالیہ امتحانات این ٹی ایس نے لیے ہیں۔ اس پر عوام کی جانب سے کچھ اس قسم کا ردِ عمل سامنے آیا ہے:
ایک امیدوار انٹرویو بورڈ کے سامنے بیٹھا تھا۔
گھنٹہ بھر کے انٹرویو کے بعد جب اس نے تمام سوالات کے صحیح جوابات دے دیے تھے، اسے اپنی کامیابی یقینی نظر آنے لگی تھی۔
اچانک میز کے اس پار بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا:
"میں آپ سے ایک آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں جس کے بعد آپ جا سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ گاپوچی گم گم کا مطلب کیا ہے؟"
امیدوار کی سٹی گم ہو گئی۔ وہ سر نہوڑا کے غور و فکر میں مصروف ہو گیا۔
کافی دیر کے بعد اس نے سر اٹھایا اور ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:
"جناب، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے نوکری نہیں دینا چاہتے۔"
اس کے بعد وہ اٹھا، کرسی کے دائیں جانب سے نکلا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ بھوتنی کا۔ ہاہاہاہاہا!
آخری تدوین: