Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
ايٹمی ٹيکنالوجی کے غلط ہاتھوں ميں جانے کے حوالے سے امريکہ اور عالمی برادری کے تحفظات اور خدشات يکساں ہیں۔
ايرانی صدر نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ امريکہ کے پاس نيوکلير ہتھيار اور ٹيکنالوجی ہے ليکن انھوں نے دانستہ اس حقیقت کو نظرانداز کيا ہے کہ امريکہ نے ايٹمی ہتھياروں کے عدم پھيلاؤ (نيوکلير نان پروليفريشن ٹريٹی) کے عالمی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہيں جس کا مقصد نيوکلير ٹيکنالوجی کے پھيلاؤ کو روکنا ہے۔ سال 1968 ميں امريکہ، برطانيہ اور سويت يونين سميت دنيا کے 59 ممالک نے اس پر دستخط کيے تھے۔ اس کے مقابلے ميں ايرانی حکومت نے عالمی برادری کے تحفظات کا مثبت اور تعميری گفتگو کے ذريعے جواب دينے کی بجائے مسلسل انکار کا راستہ اختيار کيا ہوا ہے اور اس ضمن ميں اپنی ذمہ داری سے انحراف کر رہا ہے۔
تينوں اہم ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کيا تھا کہ ان ممالک کی مدد نہيں کی جائے گی جن کے پاس يہ صلاحيت نہيں ہے۔ جن ممالک کے پاس نيوکلير ٹيکنالوجی نہيں ہے انھيں اس يقين دہانی کے بدلے ميں پرامن مقاصد کے لیے يہ صلاحيت فراہم کی جائے گی کہ وہ ايٹمی ہتھياروں سے اجتناب کريں گے۔ دو ايٹمی طاقتوں فرانس اور چين نے سال 1992 تک اس معاہدے کی توثيق نہيں کی تھی اور کچھ ايٹمی طاقتوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کيے تھے جن ميں پاکستان بھی شامل ہے۔ سال 1995 ميں جب يہ معاہدہ اپنی معياد کے اختتام پر تھا تو اقوام متحدہ کے 174 ممالک کے مشترکہ ووٹ کے ذريعے اس معاہدے کی مدت ميں غير معينہ مدت کے ليے توثيق کر دی گئ۔
اس ضمن ميں صدر اوبامہ کا بيان پيش ہے جس ميں آپ کے سوال کا براہراست جواب موجود ہے۔
"يہ بات ان سب پر واضح ہے جو ايٹمی ہتھياروں کے بارے ميں فکرمند ہيں کہ ہم ايک فيصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکے ہيں۔ يہ محض امريکہ کے مفاد کے بارے ميں نہيں ہے۔ يہ مشرق وسطی ميں اسلحے کی اس خطرناک دوڑ کو روکنے کے بارے ميں ہے جو ايک طرف تو اس خطے کو ايک بے حد خطرناک راستے پر دھکيل دے گی تو دوسری طرف عالمی عدم پھيلاؤ کے قوانين کو بھی تہس نہس کر دے گی۔
ميں ان لوگوں کا موقف سمجھتا ہوں جو کہتے ہيں کہ کچھ ممالک کے پاس ايٹمی اسلحہ ہے اور کچھ کے پاس نہيں۔ کسی واحد ملک کو يہ اختيار نہيں ہونا چاہيے کہ کون سے ممالک کے پاس ايٹمی اسلحہ ہونا چاہيے۔ يہی وجہ ہے کہ ميں اس امريکی اقرار کا اعادہ کرتا ہوں جس کے تحت ايک ايسی دنيا کی جستجو کی جائے گی جہاں کسی ملک کے پاس بھی ايٹمی ہتھيار نہ ہوں۔ اور ہر ملک کو بشمول ايران، عدم پھيلاؤ کے معاہدے کے تحت پرامن مقاصد کے ليے ايٹمی توانائ کے حصول کا حق ہو۔ يہ اقرار اس معاہدے کی بنياد ہے اور سب کو اس پر پوری طرح عمل پيرا ہونا چاہيے۔ مجھے اميد ہے کہ تمام ملک اس مقصد ميں شريک ہو سکتے ہيں۔
ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ جن ممالک کے پاس ايٹمی ہتھيار نہيں ہيں وہ ان کے حصول سے اجتناب کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کريں۔ تاريخ گواہ ہے کہ جو قوميں يہ راستہ اختيار کرتی ہيں وہ عالمی برادری کا جزو بن کر زيادہ سيکورٹی اور بہتر مواقع حاصل کرتی ہيں۔ جو قوميں اپنی ذمہ داريوں کو نظرانداز کرتی ہيں وہ دنيا سے کٹ کر غير محفوظ ہوتی ہيں اور بدحالی کی راہ اپنا ليتی ہیں۔ يہ وہ فيصلہ ہے جو اقوام نے کرنا ہے"۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov