نعمان
محفلین
بھارت کے تقریبا تمام ٹی وی چینلز، اخبارات اور ریڈیو پر ایڈز آگاہی پروگرام چل رہے ہیں۔ ٹی وی پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں ان میں ماں باپ کو ایڈز کے بارے میں اپنے بچوں سے بات کرنے سے ڈرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت ان دنوں بری طرح ایڈز سے متاثر ہوچکا ہے اور ایسی اشتہاری مہمیں بہت پہلے وہاں چلنی چاہئیے تھی مگر نہیں چلیں۔
پاکستان میں ایک عرصہ پہلے ایڈز پہنچ چکا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ نے پاکستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں ایڈز کے معلوم کیسز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی بھارت یا دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہے۔
گرچہ پاکستان میں شادی سے قبل جنسی تعلقات بہت زیادہ معیوب سمجھے جاتے ہیں اور جنسیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر پاکستانی ذرائع ابلاغ تو درکنار لوگ ایکدوسرے سے بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ مگر پھر بھی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان کی نوجوان نسل جنسی طور پر فعال ہے۔ خصوصا نوجوان لڑکے اور شہری علاقوں میں لڑکیاں بھی۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان ایڈز اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے یا تو لا علم ہوتے ہیں یا پھر سنہری موقعوں کو کھو دینے کے ڈر سے حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ پاکستان میں ہم جنسیت بھی کافی عام ہے اور اس دوران بھی حفاظتی تدابیر اور محفوظ جنسی تعلق پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔
غیر سرکاری تنطیموں کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں پاکستانی مرد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور تقریبا وہ تمام ہی جنسی طور پر فعال ہیں۔ ایسے مردوں میں ایک بڑی تعداد ان مردوں کی ہی جو شادی شدہ بھی ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی تعلق کے دوران حفاظتی تدابیر کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ اکثر خواتین اور لڑکیاں ایڈز سے بالکل لاعلم ہیں۔ ایسے مرد جنہیں ایچ آئی وی تشخیص بھی ہوجاتا ہے ان میں سے زیادہ تر علاج نہیں کراتے اور عین ممکن ہے کہ وہ بغیر کسی احتیاط کے یہ وائرس آگے پہنچانے کا سبب بن رہے ہوں۔
ایسی خواتین جنہیں اپنے خاوند کے دیگر خواتین یا مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا علم بھی ہوجاتا ہے وہ ان معاملات کی پردہ پوشی کرتی ہیں اور مصلحتا خاموش رہتی ہیں۔ ماں باپ اپنے نوجوان بچوں سے ایڈز کے بارے میں بات کرنا تو درکنار ان کی جنسی زندگی کے کسی پہلو پر بات نہیں کرتے۔ اسکولوں میں جنسیات یا ایس ٹی ڈی یا ایڈز کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔
کیا ہم اپنی معاشرتی اقدار پر کئی جانوں کو داؤ پر نہیں لگارہے؟ کیا آپ میں سے کوئی اپنے گھر میں، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں، اپنے رشتہ داروں یا دوست احباب کے درمیان ایڈز اور اس سے بچاؤ کے طریقوں پر بات کرتا ہے؟ کیا آپ کے خیال میں پاکستانی اسکولوں میں ایڈز اور جنسیات کے بارے میں طالبعلموں کو آگاہی دی جانی چاہئیے؟ کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں گرین اسٹار کو کنڈوم کی مارکینگ سیف سیکس کے حوالے سے کرنی چاہئیے یا انہیں خاندانی منصوبہ بندی تک ہی بات کرنی چاہئیے؟
یقینا آپ میں سے کچھ یہ جواب دینے کی سوچ رہے ہونگے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ایڈز سے بچاجاسکتا ہے۔ ٹھیک، مگر پاکستان کی عوام کی اکثریت اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتی نہ ہی اسلام پاکستان کی ثقافت کا اتنا اسٹرانگ عنصر ہے کہ اسے ایڈز سے بچاؤ کا واحد حل مان لیا جائے۔ آپ کے خیال میں پاکستانیوں کو ایڈز کے عفریت سے کسطرح لڑنا چاہئیے۔
پاکستان میں ایک عرصہ پہلے ایڈز پہنچ چکا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ نے پاکستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں ایڈز کے معلوم کیسز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی بھارت یا دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہے۔
گرچہ پاکستان میں شادی سے قبل جنسی تعلقات بہت زیادہ معیوب سمجھے جاتے ہیں اور جنسیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر پاکستانی ذرائع ابلاغ تو درکنار لوگ ایکدوسرے سے بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ مگر پھر بھی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان کی نوجوان نسل جنسی طور پر فعال ہے۔ خصوصا نوجوان لڑکے اور شہری علاقوں میں لڑکیاں بھی۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان ایڈز اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے یا تو لا علم ہوتے ہیں یا پھر سنہری موقعوں کو کھو دینے کے ڈر سے حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ پاکستان میں ہم جنسیت بھی کافی عام ہے اور اس دوران بھی حفاظتی تدابیر اور محفوظ جنسی تعلق پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔
غیر سرکاری تنطیموں کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں پاکستانی مرد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور تقریبا وہ تمام ہی جنسی طور پر فعال ہیں۔ ایسے مردوں میں ایک بڑی تعداد ان مردوں کی ہی جو شادی شدہ بھی ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی تعلق کے دوران حفاظتی تدابیر کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ اکثر خواتین اور لڑکیاں ایڈز سے بالکل لاعلم ہیں۔ ایسے مرد جنہیں ایچ آئی وی تشخیص بھی ہوجاتا ہے ان میں سے زیادہ تر علاج نہیں کراتے اور عین ممکن ہے کہ وہ بغیر کسی احتیاط کے یہ وائرس آگے پہنچانے کا سبب بن رہے ہوں۔
ایسی خواتین جنہیں اپنے خاوند کے دیگر خواتین یا مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا علم بھی ہوجاتا ہے وہ ان معاملات کی پردہ پوشی کرتی ہیں اور مصلحتا خاموش رہتی ہیں۔ ماں باپ اپنے نوجوان بچوں سے ایڈز کے بارے میں بات کرنا تو درکنار ان کی جنسی زندگی کے کسی پہلو پر بات نہیں کرتے۔ اسکولوں میں جنسیات یا ایس ٹی ڈی یا ایڈز کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔
کیا ہم اپنی معاشرتی اقدار پر کئی جانوں کو داؤ پر نہیں لگارہے؟ کیا آپ میں سے کوئی اپنے گھر میں، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں، اپنے رشتہ داروں یا دوست احباب کے درمیان ایڈز اور اس سے بچاؤ کے طریقوں پر بات کرتا ہے؟ کیا آپ کے خیال میں پاکستانی اسکولوں میں ایڈز اور جنسیات کے بارے میں طالبعلموں کو آگاہی دی جانی چاہئیے؟ کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں گرین اسٹار کو کنڈوم کی مارکینگ سیف سیکس کے حوالے سے کرنی چاہئیے یا انہیں خاندانی منصوبہ بندی تک ہی بات کرنی چاہئیے؟
یقینا آپ میں سے کچھ یہ جواب دینے کی سوچ رہے ہونگے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ایڈز سے بچاجاسکتا ہے۔ ٹھیک، مگر پاکستان کی عوام کی اکثریت اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتی نہ ہی اسلام پاکستان کی ثقافت کا اتنا اسٹرانگ عنصر ہے کہ اسے ایڈز سے بچاؤ کا واحد حل مان لیا جائے۔ آپ کے خیال میں پاکستانیوں کو ایڈز کے عفریت سے کسطرح لڑنا چاہئیے۔