اعتدال دین اسلام کا خاصہ ہے اور اپنے ماننے والوں سے اس کا مطالبہ ہے کہ اس وصف کو اپنی زندگی کا معمول بنائیں۔ عبادات ہوں یا عادات، یہاں تک کہ جذبات یا افکار کا اظہار ہو یہ اعتدال مطلوب ہے۔ اسی طرح اسلام سادگی اور للہیت کو بڑی اہمیت دیتا ہے، جب کہ نام ونمود، دکھاوے اور نمائش کی مذمت کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات پاک میں اعتدال اور سادگی کا وصف ہر آن نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک حدیث شریف جس کو حضرت انسؓ نے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ کی تواضع سادگی اس طرح واضح ہوتی ہے۔
عن انس بن مالك يقول بينما نحن جلوس مع النبيﷺ في المسجد دخل رجل على جمل فاناخه في المسجد ثم عقله ثم قال لهم: ايكم محمد؟ والنبيﷺ متكئ بين ظهرانيهم فقلنا: هذا الرجل الابيض المتكئ۔ فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب فقال له النبيﷺ قد اجبتك فقال الرجل للنبيﷺ اني سائلك فمشدد عليك في المسالة فلا تجد علي في نفسك؟ فقال سل عما بدا لك (صحيح البخاری)
ترجمہ: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی پاک ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا: ’’تم لوگوں میں محمد ﷺ کون سے ہیں؟‘‘ نبی کریم ﷺ اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا: ’’یہ سفید رنگت والے ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔‘‘ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا: ’’اے عبدالمطلب کے فرزند،‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔‘‘ وہ بولا ’’میں آپ ﷺ سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانیے گا۔‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔‘‘
جنگ بدر کے موقعے پر سواریوں کی کمی کی وجہ سے ایک ایک سواری پر متعدد افراد باری باری سوار ہوتے اور باقی لوگ پیدل چلتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابولبابہؓ اور علیؓ تھے۔ جب آپ ﷺ کی سوار ہونے کی باری آئی تو ان حضراتؓ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ سوار رہیں ہم چلتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما انتما باقوى على المشي مني وما انا باغنى عن الاجر منكما (مسند احمد)
ترجمہ: تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو، اور میں بھی تم دونوں کی طرح اجر و ثواب کا طلب گار ہوں
سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک سفر کے دوران بکری ذبح کر کے پکانے کا مشورہ ہوا۔ صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک نے اپنے ذمے کام لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے منع کرنے کے باوجود لکڑیاں جمع کرنے کے کام اپنے ذمے لے لیا اور فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ میرے لیے کافی ہیں، لیکن اللہ تعالی کو اپنے بندے کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز دیکھنا ناپسند ہے۔‘‘
ان تمام واقعات سے سب سے بڑا سبق تواضع کا ملتا ہے۔ تواضع اختیار کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ پہلے واقعے پر غور کریں، کائنات کی سب سے بزرگ شخصیت اس طرح اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ ملی جلی بیٹھی ہے کہ نئے آنے والے کو پہچان مشکل ہو جاتی تھی اور اسے آپ ﷺ کے متعلق پوچھنا پڑتا تھا۔ نہ خاص نشست، نہ کوئی خاص لباس، نہ کوئی اور ایسی علامت کہ جو آپ ﷺ کو اپنے صحابہؓ سے ممتاز کرتی ہو۔ دوسرے واقعے پر غور کریں تو اس سے سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحابؓ کے اخلاص، محبت اور وارفتگی کے باوجود ان کے ساتھ ہر کام میں شریک ہونا پسند فرماتے تھے۔ تیسرے واقعے میں تو یہ بات وضاحت سے آتی ہے کہ اللہ اپنے بندے کو مٹا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔
اب ذرا دیکھیں، مذہبی حلقوں میں اس سنت پر عمل کرنے والے کتنے نظر آتے ہیں۔ علماء ہوں یا صوفیا وہ ہر جگہ اپنے آپ کو ممتاز کرتے نظر آئیں گے۔ ان کے لباس دیکھیں تو معاشرے میں رائج لباس سے بالکل جداگانہ طرز کا ہوگا، رنگ بھی عام مزاج سے ہٹ کر ہو گا، اسی طرح ان کے عمامے کے رنگ میں بھی اور طرز میں بھی امتیاز کی شکل نظر آئے گی، لاٹھی یا عصا بھی خاص طرز کا ہو گا۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ اپنے ناموں کے ساتھ طرح طرح کے القاب لگاتے ہیں یا لگواتے ہیں۔ ان القاب کو دیکھیں تو ہر لقب ان کی شان بیان کرتا نظر آتا ہے۔ علما میں زیادہ معروف لقب علامہ ہے اور صوفیا میں سراج السالکین، جنید ثانی، قطب الاقطاب معروف القاب ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی القاب کی طویل فہرست ہے جو عام طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ذیل میں معروف القاب کی ایک نامکمل فہرست پیش خدمت ہے۔
محی الدین، محی السنۃ، ولی کامل، خطیب بے بدل، شیخ الاسلام، اعلیٰ حضرت، علامۃ الدھر، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، جنید ثانی، حجۃ الاسلام، خطیب زماں، خطیب عصر، رازی وقت، رہبر شریعت، شمس الاسلام، شہنشاہ خطابت، شیخ المشائخ، صدر الشریعہ ، علامہ عصر، علامہ زمان، غزالی دوراں، غزالی وقت، فخرالاسلام، فقیہ زماں، مرکز ملت، قطب الاقطاب، قطب لاریب، شیخ الفقہ، مفتی اعظم، مجدد وقت، محدث اعظم، محدث العصر، محقق العصر، محقق بے بدل، محقق دوراں، محقق علی الاطلاق، مفکر اسلام، نمونہ اسلاف وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ جن کے سامنے یہ القاب بولے جاتے ہیں ان کی اکثریت ان کے معنی اور مفہوم سے ناآشنا ہوتی ہے۔ بس بھاری بھرکم الفاظ سن کر متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ تاثر لے لیتے ہیں کہ یہ عالم یا صوفی بہت بڑی چیز ہیں اور یہی ان القاب کو نام کے ساتھ جوڑنے کا مقصد بھی ہوتا ہے۔ کسی کو پوچھنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اپنی جہالت کا اظہار کون کرتا ہے!
ان القاب کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت تو یہ ہے کہ جس کو یہ القاب دیے جا رہے ہیں واقعی وہ صفات اس میں موجود ہوں اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس شخص میں ان صفات کا شائبہ تک نہ ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو بھی دین کا مزاج اس کا اظہار اور تشہیر ناپسند کرتا ہے۔ صحابی رسول ﷺ ابوموسی اشعریؓ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی خوب مدح و تعریف کی، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
اھلکتم اوقطعتم ظھر الرجل (صحیح البخاری)
تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا فرمایا کہ تم نے اس کی کمر توڑ دی
صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے:
ويحك قطعت عنق صاحبك قطعت عنق صاحبك مرارا (صحیح مسلم)
ترجمہ: افسوس ہے تجھ پر، تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی، تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی بار بار (فرمایا)
اللہ تعالی نے خود کو پاک قرار دینے اور اپنی خوبیاں بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔ سورۃ النجم آیت 32 میں آتا ہے:
فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقىٰ
ترجمہ: سو مت بیان کر اپنی خوبیاں وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے
ان ’ القاب ‘ میں ایک دلچسپ چیز سگ فلاں والا (یعنی فلاں کا کتا) ’لقب‘ ہے جس سے بظاہر اپنی پستی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ پستی مقصود نہیں عاجزی مقصود ہے وہ بھی اللہ کے سامنے نہ کہ مخلوق کے سامنے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من تواضع لله رفعه الله (صحیح مسلم)
ترجمہ: جو کوئی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند کر دیتا ہے۔
بہرحال اس طرح کا لقب اختیار کرنا خود ستائی یعنی اپنی تعریف خود کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ اس لیے کہ اس سے سننے والے کے دل میں بالکل متضاد خیال پیدا ہوتا ہے یعنی ’’حضرت پہنچے ہوئے ہیں‘‘ جو اپنے آپ کو سگ فلاں (فلاں کا کتا) کہنے والے کا حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور شخص حضرت، شیخ یا پیر صاحب کو سگ فلاں کہہ سکتا ہے خاص طور پر مجمع عام میں؟ آزمائش شرط ہے! اب اس آیت کو غور سے پڑھ لیں جس میں اللہ تعالی خود ستائی یعنی اپنی تعریف کرنے سے منع فرما رہے ہیں:
فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقىٰ (النجم: 32)
ترجمہ: سو مت بیان کر اپنی خوبیاں وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے
اگر دوسری صورت ہے یعنی جس شخص کے نام کے ساتھ ایسے القاب کا اضافہ کیا جا تا ہے، اس میں ان صفات کا پا یا جا نا تو دور کی بات ہے ان کی جھلک تک موجود نہیں ہوتی (جو حقیقت حال بھی ہے) تو ایسا طرز عمل جھوٹ کا ارتکاب ہے، ریاکاری ہے محض دکھلاوا ہے جس سے مقصود لوگوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ القاب اختیار کرنا ایسے لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ عام مروجہ القاب مولانا ، مفتی یا پیر صاحب کے لقب سے ان کی تسلی نہیں ہوتی اس لیے کہ یہ تو ہر عالم اور پیر کا لقب ہے اس لیے ان کو کچھ جداگانہ چاہیے ہوتا ہے۔ نہ صرف القاب بلکہ وہ اور طریقوں سے بھی ا پنے آپ کو دوسروں سے جدا کرتے ہیں۔ لباس، نشست و برخاست، طرز کلام میں جداگانہ طرز اختیار کرتے ہیں جو عام آدمی کو متاثر کر دیتا ہے۔ ان کی سجی سجائی تقریریں، اشعار سے بھرے ہوئے بیان، محض رٹے رٹائے جملوں کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ان مصنوعی سہاروں کے بغیر ان کا جداگانہ تشخص قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی ہے جس کا براہ راست تعلق ہدیوں اور چندوں سے ہے۔ سنت رسول ﷺ کا درس تو اپنے آپ کو مٹانا ہے نہ کہ جداگانہ حیثیت اختیار کرنا۔ رسول اللہ ﷺ کا طرز تو یہ تھا کہ آنے والے کو پوچھنا پڑتا تھا: اَیُّکمْ مُحَمَّدْ ﷺ؟ (تم میں سے محمد ﷺ کون ہیں؟)۔ سنت رسول ﷺ ہی معیار ہے۔ مزاج سنت سادگی ہے۔ اس پر غور کریں ، اس کو معیار بنائیں، اور اسی کو پیش نظر رکھیں۔ اسی میں خیر ہے!
آج ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ علمائے دین ہوں یا ت صوفیاء (جن کا امتیازی وصف عاجزی انکساری ہے) ان کا ایک بڑا طبقہ اس مرض کا شکار ہے۔ اشتہارات میں جلسوں میں یا دیگر اجتماعات میں ان القاب کا اظہار ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حضرات باقاعدہ اپنے حلقہ احباب کو اس طرح کے بڑے بڑے القاب اپنے ان نام کے ساتھ لگانے کی تاکید کرتے ہیں، اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے:
اذا رایتم المداحین فاحثوا فی وجوہہم التراب (مسند احمد)
ترجمہ : جب تم تعریف میں مبالغہ کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو
صحابی رسول ﷺ حضرت مقدادؓ نے کسی شخص کو ایک امیر کی تعریف فرماتے سنا تو اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے،نیز یہ فرمایا کہ آپ ﷺ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈال دیا کریں۔ (سنن ترمذی)
کتنے علمائے کرام، کتنے مشائخ کرام اس فرمان رسول ﷺ پر عمل کرنے والے ہیں؟اہل حق علمائے کرام کو چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنی مجالس میں سادگی اختیار کریں، اپنے طرز لباس میں اپنی نشست و برخاست میں اپنے کلام میں۔ اگر کوئی انہیں ایسے اسماء و القاب سے پکارے تو وہ اس کا بالکل جواب نہ دیں۔ ایسے شخص کو نرمی سے سمجھایا جائے کہ شریعت کی نظرمیں اس طرح کرنا ناپسندیدہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی تقریر کے دوران اس کا رد کریں تا کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہو۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے۔
عن انس بن مالك يقول بينما نحن جلوس مع النبيﷺ في المسجد دخل رجل على جمل فاناخه في المسجد ثم عقله ثم قال لهم: ايكم محمد؟ والنبيﷺ متكئ بين ظهرانيهم فقلنا: هذا الرجل الابيض المتكئ۔ فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب فقال له النبيﷺ قد اجبتك فقال الرجل للنبيﷺ اني سائلك فمشدد عليك في المسالة فلا تجد علي في نفسك؟ فقال سل عما بدا لك (صحيح البخاری)
ترجمہ: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی پاک ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا: ’’تم لوگوں میں محمد ﷺ کون سے ہیں؟‘‘ نبی کریم ﷺ اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا: ’’یہ سفید رنگت والے ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔‘‘ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا: ’’اے عبدالمطلب کے فرزند،‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔‘‘ وہ بولا ’’میں آپ ﷺ سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانیے گا۔‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔‘‘
جنگ بدر کے موقعے پر سواریوں کی کمی کی وجہ سے ایک ایک سواری پر متعدد افراد باری باری سوار ہوتے اور باقی لوگ پیدل چلتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابولبابہؓ اور علیؓ تھے۔ جب آپ ﷺ کی سوار ہونے کی باری آئی تو ان حضراتؓ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ سوار رہیں ہم چلتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما انتما باقوى على المشي مني وما انا باغنى عن الاجر منكما (مسند احمد)
ترجمہ: تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو، اور میں بھی تم دونوں کی طرح اجر و ثواب کا طلب گار ہوں
سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک سفر کے دوران بکری ذبح کر کے پکانے کا مشورہ ہوا۔ صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک نے اپنے ذمے کام لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے منع کرنے کے باوجود لکڑیاں جمع کرنے کے کام اپنے ذمے لے لیا اور فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ میرے لیے کافی ہیں، لیکن اللہ تعالی کو اپنے بندے کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز دیکھنا ناپسند ہے۔‘‘
ان تمام واقعات سے سب سے بڑا سبق تواضع کا ملتا ہے۔ تواضع اختیار کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ پہلے واقعے پر غور کریں، کائنات کی سب سے بزرگ شخصیت اس طرح اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ ملی جلی بیٹھی ہے کہ نئے آنے والے کو پہچان مشکل ہو جاتی تھی اور اسے آپ ﷺ کے متعلق پوچھنا پڑتا تھا۔ نہ خاص نشست، نہ کوئی خاص لباس، نہ کوئی اور ایسی علامت کہ جو آپ ﷺ کو اپنے صحابہؓ سے ممتاز کرتی ہو۔ دوسرے واقعے پر غور کریں تو اس سے سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحابؓ کے اخلاص، محبت اور وارفتگی کے باوجود ان کے ساتھ ہر کام میں شریک ہونا پسند فرماتے تھے۔ تیسرے واقعے میں تو یہ بات وضاحت سے آتی ہے کہ اللہ اپنے بندے کو مٹا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔
اب ذرا دیکھیں، مذہبی حلقوں میں اس سنت پر عمل کرنے والے کتنے نظر آتے ہیں۔ علماء ہوں یا صوفیا وہ ہر جگہ اپنے آپ کو ممتاز کرتے نظر آئیں گے۔ ان کے لباس دیکھیں تو معاشرے میں رائج لباس سے بالکل جداگانہ طرز کا ہوگا، رنگ بھی عام مزاج سے ہٹ کر ہو گا، اسی طرح ان کے عمامے کے رنگ میں بھی اور طرز میں بھی امتیاز کی شکل نظر آئے گی، لاٹھی یا عصا بھی خاص طرز کا ہو گا۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ اپنے ناموں کے ساتھ طرح طرح کے القاب لگاتے ہیں یا لگواتے ہیں۔ ان القاب کو دیکھیں تو ہر لقب ان کی شان بیان کرتا نظر آتا ہے۔ علما میں زیادہ معروف لقب علامہ ہے اور صوفیا میں سراج السالکین، جنید ثانی، قطب الاقطاب معروف القاب ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی القاب کی طویل فہرست ہے جو عام طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ذیل میں معروف القاب کی ایک نامکمل فہرست پیش خدمت ہے۔
محی الدین، محی السنۃ، ولی کامل، خطیب بے بدل، شیخ الاسلام، اعلیٰ حضرت، علامۃ الدھر، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، جنید ثانی، حجۃ الاسلام، خطیب زماں، خطیب عصر، رازی وقت، رہبر شریعت، شمس الاسلام، شہنشاہ خطابت، شیخ المشائخ، صدر الشریعہ ، علامہ عصر، علامہ زمان، غزالی دوراں، غزالی وقت، فخرالاسلام، فقیہ زماں، مرکز ملت، قطب الاقطاب، قطب لاریب، شیخ الفقہ، مفتی اعظم، مجدد وقت، محدث اعظم، محدث العصر، محقق العصر، محقق بے بدل، محقق دوراں، محقق علی الاطلاق، مفکر اسلام، نمونہ اسلاف وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ جن کے سامنے یہ القاب بولے جاتے ہیں ان کی اکثریت ان کے معنی اور مفہوم سے ناآشنا ہوتی ہے۔ بس بھاری بھرکم الفاظ سن کر متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ تاثر لے لیتے ہیں کہ یہ عالم یا صوفی بہت بڑی چیز ہیں اور یہی ان القاب کو نام کے ساتھ جوڑنے کا مقصد بھی ہوتا ہے۔ کسی کو پوچھنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اپنی جہالت کا اظہار کون کرتا ہے!
ان القاب کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت تو یہ ہے کہ جس کو یہ القاب دیے جا رہے ہیں واقعی وہ صفات اس میں موجود ہوں اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس شخص میں ان صفات کا شائبہ تک نہ ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو بھی دین کا مزاج اس کا اظہار اور تشہیر ناپسند کرتا ہے۔ صحابی رسول ﷺ ابوموسی اشعریؓ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی خوب مدح و تعریف کی، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
اھلکتم اوقطعتم ظھر الرجل (صحیح البخاری)
تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا فرمایا کہ تم نے اس کی کمر توڑ دی
صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے:
ويحك قطعت عنق صاحبك قطعت عنق صاحبك مرارا (صحیح مسلم)
ترجمہ: افسوس ہے تجھ پر، تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی، تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی بار بار (فرمایا)
اللہ تعالی نے خود کو پاک قرار دینے اور اپنی خوبیاں بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔ سورۃ النجم آیت 32 میں آتا ہے:
فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقىٰ
ترجمہ: سو مت بیان کر اپنی خوبیاں وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے
ان ’ القاب ‘ میں ایک دلچسپ چیز سگ فلاں والا (یعنی فلاں کا کتا) ’لقب‘ ہے جس سے بظاہر اپنی پستی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ پستی مقصود نہیں عاجزی مقصود ہے وہ بھی اللہ کے سامنے نہ کہ مخلوق کے سامنے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من تواضع لله رفعه الله (صحیح مسلم)
ترجمہ: جو کوئی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند کر دیتا ہے۔
بہرحال اس طرح کا لقب اختیار کرنا خود ستائی یعنی اپنی تعریف خود کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ اس لیے کہ اس سے سننے والے کے دل میں بالکل متضاد خیال پیدا ہوتا ہے یعنی ’’حضرت پہنچے ہوئے ہیں‘‘ جو اپنے آپ کو سگ فلاں (فلاں کا کتا) کہنے والے کا حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور شخص حضرت، شیخ یا پیر صاحب کو سگ فلاں کہہ سکتا ہے خاص طور پر مجمع عام میں؟ آزمائش شرط ہے! اب اس آیت کو غور سے پڑھ لیں جس میں اللہ تعالی خود ستائی یعنی اپنی تعریف کرنے سے منع فرما رہے ہیں:
فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقىٰ (النجم: 32)
ترجمہ: سو مت بیان کر اپنی خوبیاں وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے
اگر دوسری صورت ہے یعنی جس شخص کے نام کے ساتھ ایسے القاب کا اضافہ کیا جا تا ہے، اس میں ان صفات کا پا یا جا نا تو دور کی بات ہے ان کی جھلک تک موجود نہیں ہوتی (جو حقیقت حال بھی ہے) تو ایسا طرز عمل جھوٹ کا ارتکاب ہے، ریاکاری ہے محض دکھلاوا ہے جس سے مقصود لوگوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ القاب اختیار کرنا ایسے لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ عام مروجہ القاب مولانا ، مفتی یا پیر صاحب کے لقب سے ان کی تسلی نہیں ہوتی اس لیے کہ یہ تو ہر عالم اور پیر کا لقب ہے اس لیے ان کو کچھ جداگانہ چاہیے ہوتا ہے۔ نہ صرف القاب بلکہ وہ اور طریقوں سے بھی ا پنے آپ کو دوسروں سے جدا کرتے ہیں۔ لباس، نشست و برخاست، طرز کلام میں جداگانہ طرز اختیار کرتے ہیں جو عام آدمی کو متاثر کر دیتا ہے۔ ان کی سجی سجائی تقریریں، اشعار سے بھرے ہوئے بیان، محض رٹے رٹائے جملوں کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ان مصنوعی سہاروں کے بغیر ان کا جداگانہ تشخص قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی ہے جس کا براہ راست تعلق ہدیوں اور چندوں سے ہے۔ سنت رسول ﷺ کا درس تو اپنے آپ کو مٹانا ہے نہ کہ جداگانہ حیثیت اختیار کرنا۔ رسول اللہ ﷺ کا طرز تو یہ تھا کہ آنے والے کو پوچھنا پڑتا تھا: اَیُّکمْ مُحَمَّدْ ﷺ؟ (تم میں سے محمد ﷺ کون ہیں؟)۔ سنت رسول ﷺ ہی معیار ہے۔ مزاج سنت سادگی ہے۔ اس پر غور کریں ، اس کو معیار بنائیں، اور اسی کو پیش نظر رکھیں۔ اسی میں خیر ہے!
آج ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ علمائے دین ہوں یا ت صوفیاء (جن کا امتیازی وصف عاجزی انکساری ہے) ان کا ایک بڑا طبقہ اس مرض کا شکار ہے۔ اشتہارات میں جلسوں میں یا دیگر اجتماعات میں ان القاب کا اظہار ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حضرات باقاعدہ اپنے حلقہ احباب کو اس طرح کے بڑے بڑے القاب اپنے ان نام کے ساتھ لگانے کی تاکید کرتے ہیں، اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے:
اذا رایتم المداحین فاحثوا فی وجوہہم التراب (مسند احمد)
ترجمہ : جب تم تعریف میں مبالغہ کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو
صحابی رسول ﷺ حضرت مقدادؓ نے کسی شخص کو ایک امیر کی تعریف فرماتے سنا تو اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے،نیز یہ فرمایا کہ آپ ﷺ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈال دیا کریں۔ (سنن ترمذی)
کتنے علمائے کرام، کتنے مشائخ کرام اس فرمان رسول ﷺ پر عمل کرنے والے ہیں؟اہل حق علمائے کرام کو چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنی مجالس میں سادگی اختیار کریں، اپنے طرز لباس میں اپنی نشست و برخاست میں اپنے کلام میں۔ اگر کوئی انہیں ایسے اسماء و القاب سے پکارے تو وہ اس کا بالکل جواب نہ دیں۔ ایسے شخص کو نرمی سے سمجھایا جائے کہ شریعت کی نظرمیں اس طرح کرنا ناپسندیدہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی تقریر کے دوران اس کا رد کریں تا کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہو۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے۔