شمشاد
لائبریرین
ایک آسماں کو چھونے کی حسرت میں پر گئے
ہم ان کے گھر گئے نہ اپنے ہی گھر گئے
ایسے تو تیرتا ہے ان آنکھوں کی جھیل میں
اے چاند تجھ کو ڈھونڈنے ہم در بدر گئے
وعدوں کے پھول سانس کی ڈالی پہ تھے جواں
جو ان کے انتظار میں کھل کر بکھر گئے
وہ جس جگہ کہ زندہ جہاں پیار دفن ہے
اپنے اسی مزار پہ شام و سحر گئے
یہ زندگی ہے چند ہی لمحوں کا راستہ
ان چند لمحوں کے لیے برسوں گزر گئے