ایک آسماں کو چھونے کی حسرت میں پر گئے - سوہن راہی

شمشاد

لائبریرین
ایک آسماں کو چھونے کی حسرت میں پر گئے​
ہم ان کے گھر گئے نہ اپنے ہی گھر گئے​
ایسے تو تیرتا ہے ان آنکھوں کی جھیل میں​
اے چاند تجھ کو ڈھونڈنے ہم در بدر گئے​
وعدوں کے پھول سانس کی ڈالی پہ تھے جواں​
جو ان کے انتظار میں کھل کر بکھر گئے​
وہ جس جگہ کہ زندہ جہاں پیار دفن ہے​
اپنے اسی مزار پہ شام و سحر گئے​
یہ زندگی ہے چند ہی لمحوں کا راستہ​
ان چند لمحوں کے لیے برسوں گزر گئے​
 

طارق شاہ

محفلین
ایک آسماں کو چھونے کی حسرت میں پر گئے
ہم ان کے گھر گئے نہ اپنے ہی گھر گئے

شمشاد صاحب !
مطلع بہت ہی خوب ہےلیکن شاید دوسرے مصرع میں کوئی حرف رہ گیا ہے ٹائپ ہونے سے

تشکّر شیئر کرنے پر
اب آئیں ہیں اس طرف تو آتے رہیے گا :)
 
وعدوں کے پھول سانس کی ڈالی پہ تھے جواں
جو ان کے انتظار میں کھل کر بکھر گئے
وہ جس جگہ کہ زندہ جہاں پیار دفن ہے
اپنے اسی مزار پہ شام و سحر گئے
بہت خوبصورت کلام​
لطف آیا پڑھ کر​
شاد و آباد رہیں​
 
Top