ایک اطلاع

منصور مکرم

محفلین
اُمتِ مسلمہ کے پاس جو ”اطلاع“ ہے، وہ اطلاع اگرامریکا کے پاس ہوتی تو اس سے اب تک پانچ سو گھنٹے کی ”ٹیلی نیوز“ برآمد ہوچکی ہوتیں، اس کے حوالے سے دوہزار چھوٹے بڑے مذاکرے نشر ہوچکے ہوتے، ممتاز شخصیات کے ایک ہزار انٹرویوز نشر ہوکر ناظرین کے حافظے کا حصہ بن چکے ہوتے، چھوٹی بڑی دوسو دستاویزی فلمیں تخلیق ہوچکی ہوتیں، ہالی ووڈ میں پانچ چھ بڑے بجٹ کی فلموں پرکام جاری ہوتا۔ لیکن اُمتِ مسلمہ کے پاس اطلاع کیا ہے؟

عزیزانِ گرامی قدر! صرف یہ کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مجاہدین نے شکست دے دی ہے۔
یہ ایک تاریخ ساز اطلاع ہے۔ کبھی امریکا کے پاس ایسی ہی تاریخ ساز اطلاع تھی امریکا کو معلوم ہوگیا تھا کہ مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دے دی ہے۔ اس ایک اطلاع پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے خبروں‘ تبصروں‘ تجزیوں‘ انٹرویوزاور دستاویزی فلموں کے کارخانے نہیں ملیں لگالی تھیں۔

ابلاغ کا عمل اسی کا نام ہے مگر امتِ مسلمہ کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کے پاس تاریخ ساز اطلاع ہے لیکن اس سے کچھ اور کیا اخبار کی ایک شہ سرخی بھی تخلیق نہیں ہو پارہی۔ یہ ہماری اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کی انتہا ہے۔ اس دائرے میں پوری اُمتِ مسلمہ بلاشبہ ”خطِ غربت“ سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں تو ٹھیک طرح سے اپنی خوشی منانی بھی نہیں آتی۔ مگر اس کی وجہ کیا ہے؟ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ وسائل کی قلت ہے۔ لیکن مسئلہ وسائل کی قلت کا نہیںبلکہ ترجیحات کے درست تعین کے فقدان کا ہے ۔

مسلم معاشروں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مسجد اور مدرسے کی تعمیر کے لیے آپ کو کروڑوں روپے دے سکتے ہیں، لیکن آپ اُن سے کہیں کہ ہمیں ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کرنا ہے، تو اس منصوبے کے لیے وہ آپ کو دس روپے بھی نہیں دیں گے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی دینی کام نہیں ہے۔ اُن کے ایسا سمجھنے کی ایک وجہ ٹیلی ویژن کا عام تصور ہے۔ ٹیلی ویژن کو عام طور پر فسق وفجور پھیلانے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رائے سازی کی جنگ میں ٹیلی ویژن سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لیے جو کچھ ٹیلی ویژن اسکرین پر ہے وہی حقیقت ہے، اور جو کچھ ٹیلی ویژن پر نہیں ہے اس کا یا تو وجود ہی نہیں، یا ہے تو اس کی اہمیت نہیں۔

ٹیلی ویژن کی یہ اہمیت افسوس ناک ہے، مگر امر واقع یہی ہے۔رائے سازی کے سلسلے میں ٹیلی ویژن کی اہمیت کی ایک اچھی مثال ”الجزیرہ“ ہے۔ مشرق وسطیٰ بادشاہوں اور آمروں کی سرزمین ہے۔ وہاں سیاسی رائے تخلیق کرنا اور عرب عوام کو بیدار و متحرک کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن الجزیرہ نے یہ کام کردکھایا۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ الجزیرہ نے یہ کام کس طرح کیا؟ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کی ”تفصیلات“ دکھاکر۔ مگر یہاں تفصیلات کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ الجزیرہ نے صرف اسرائیل کی بمباری‘گولہ باری اور حملے ہی رپورٹ نہیں کیے، بلکہ اس نے ان حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی صورت حال کو بھی رپورٹ کیا۔

مثلاً یہ کہ جس گھرانے کے لوگ شہید ہوئے اس گھرانے پرکیا گزری؟ وہاں کس طرح گریہ و زاری کی گئی؟ اس گھرکی معاش کا کیا ہوا؟ بچوں کی۔ ۔ ۔

ماخوذ از :شہامت اردو
 

سید زبیر

محفلین
بھائی درویش خُراسانی ! بہت عمدہ تحریر ہے ۔بے شک افغان قوم معمولی اسلحے سے انتہائی جدید اسلحے ،مواصلاتی نظام اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ اور اس کے ساٹھ حواریوں کی منظم فوج سے گذشتہ گیارہ سال سے بر سر پیکار ہے اس کا اپنے رب پر یقین کامل ہے کہ آخری فتح ان ہی کی ہوگی۔افغان باقی کہسار باقی
اب بات کرتے ہیں میڈیا کی ۔اس جنگ میں عالمی الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا بھی مالواسطہ یا بلاواسطہ صیہونی مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں ۔یہاں آپ کو امریکی دہشت گردی کو مختلف زاویوں سے پیش کرہی ہے اس طرح وہ لوگوں کو مزید دہشت زدہ رہا ہے جسطرح ہلاکو خان کے سروں کے مینار کی شہرت اس کے حملے سے پہلے پہنچائی جاتی تھی تاکہ لوگ ظالم سے خوفزدہ ہو جائیں ۔ سسکتے بلکتے والدین کو ٹی وی کے چینل پر دکھا کر یہی مقصد حاصل کیا جاتا ہے کہ ظالم کیسے کیسے ہتھکنڈوں سے ظلم ڈھا سکتا ہے ۔ میں خود ایسے ہی سانحہ سے گزر چکا ہوں۔جب ایک عربی چینل والے میرا انٹر ویو لینے آئے تو میں نے انہیں واضح کردیا کہ مجھےیقین نہیں کہ آپ عرب مسلمان ہیں اور مجھے یقین ہے کہ 'لارنس آف عریبیا ' کی طرح آج بھی بے شمار ایسے کارندے موجود ہیں جن کو ہم کبھی عرب اور کبھی چیچن یا بو سینا کے مجاہد سمجھ کر ان کے ہاتھ چومتے ہیں مسلمانوں نے ہمیشہ اغیار کی جعل سازیوں سےدھوکے کھائے۔کاش میڈیا یہ بھی دکھا سکتا کہ مجاہدین ظالموں سے کس بے جگری سے لڑ رہے ہیں ۔روزانہ کتنے کفن یورپ پہنچ رہے ہیں جو رات کی تاریکی میں فوجی اڈوں پر اترتے ہیں۔ امریکہ میں کتنے فوجی نفسیاتی مریض ہوگئے۔کتنے فوجیوں نے اپنے اعزازات امریکی حکومت کے منہ پر مارے ۔افغانستان میں امریکی فوجیوں کی لاشوں کے کس طرح پر خچے اڑتے ہیں ۔اگر ایسے مناظر دکھائے جائیں تو نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار بلبلا اٹھیں گے ۔ان امریکی خاندانوں کے انٹرویو دکھائیں جن کے پیارے اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔صومالیہ میں ایک امریک کی لاش کو ہجوم کے ہاتھوں سڑک پر گھسیٹتے دکھایا گیا تو امریکہ کو فورا اپنی فوج نکالنی پڑی ۔ لیکن یہ میڈیا ظالم کے ظلم کو اس لیے نشر کرتا ہے کہ عوام مزید دہشت زدہ ہو جائیں اور اس ظالم سے مقابلے کا تصور بھی نہ کریں ۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج وطن عزیز کے مسلمانوں کی کثیر تعداد یہ کہتی ہے کہ ہم امریکہ سے نہیں لڑ سکتے ۔کمزور ، بے بس افغان لڑ سکتا ہے تو ہم تو شائد اس سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں ہم کیوں نہیں لڑ سکتے ۔افغان کو گیارہ سال میں ساٹھ ملکوں کی جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح فوج شکست نہیں دے سکی اور انشا اللہ یہاں سے اس کی واپسی اس کے لیے اور بھی مہنگی پڑے گی ۔
ہو سکتا ہے آپ کو میری باتوں سے اختلاف ہو۔جو میری ناقص رائے تھی وہ لکھ دی
اللہ ہمیں ہر ظلم کے خلاف راہ حسین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 
Top