نویں سالگرہ ایک افسانہ۔۔۔ روزانہ: اعلانوں بھرا شھر: دوسرا صفحہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہفتہ لائبریری کا آغاز ایک دلچسپ سلسلے بعنوان " ایک افسانہ ۔۔۔ روزانہ" سے کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ محترم محمد احمد بھائی نے تجویز کیا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے سات افسانوں کو منتخب کیا اور ان کے اسکین فراہم کئے۔ یہ اسکین صفحات یہاں پیش کئے جائیں گے اور قطع نظر اس کے کہ آپ لائبریری رکن ہیں یا نہیں آپ تمام اراکین محفل کو دعوت ہے کہ آپ ان صفحات کو ٹائپ کیجئے اور انہیں پروف ریڈ کیجئے۔ اگر آپ اراکین محفل روزانہ کی بنیاد پر ایک مکمل افسانہ تحریر اور پروف ریڈ کر سکے تو اختتام ہفتہ پر سات افسانوں پر مشتمل ایک ای بک لائبریری کا حصہ بن جائے گی۔

تو آئیے پھر آغاز کرتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلے افسانے کا عنوان ہے " اعلانوں بھرا شہر"۔ یہ افسانہ کل تین صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا صفحہ یہاں شامل کیا گیا ہے۔ اس صفحہ کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ مکمل کرنا آج کا ہدف ہے۔ آپ اراکین محفل میں سے جو رکن اس صفحہ کو ٹائپ کرنا چاہیں اور آج ہی ٹائپنگ مکمل کر سکیں وہ یہاں اپنے نام نشاندہی کر دیں۔ اسی طرح جو رکن اس صفحہ کی ٹائپنگ کے بعد پروف ریڈنگ کرنا چاہیں وہ بھی اپنا نام یہاں نشاندہی کردیں۔

شکریہ

ٹائپ کیا ہوا متن اورتصحیح کیا ہوا متن اسی دھاگے میں ارسال کرنا ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دوسرا صفحہ

r9k2zd.jpg
 

اوشو

لائبریرین
البتہ ماں کا خاکہ سفید ٹوپی کے گھیردار برقع میں لپٹے ایک دودھیا پیکر کے روپ میں اس کے دل و دماغ کے پالنے میں جوں کا توں محفوظ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لاؤڈ سپیکر پر مختلف اعلانات نشر کرنے کی ذمے داری نبھاتے ہوئے، اگر اتفاق سے اس کی وضع کی کوئی سفید برقع پوش خاتون کہیں نظر آ جاتی تو نہ جانے کیوں اسے یہی گمان ہوتا کہ اس کی ماں آج بھی گلیوں بازاروں میں پریشان حال اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ایک بار تو اس وضع قطع کی ایک برقع پوش خاتون کو پاس سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اس کے منہ سے بے اختیار "اماں" نکل گیا تھا، مگر یہ لفظ ایک گھٹی ہوئی چیخ کی صورت، شور شرابے میں تحلیل ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس کو فقط اتنا یاد رہا تھا کہ چند لمحوں کے لئے اس کی ماں نے اپنی انگلی اس کے ہاتھ سے چھڑائی تھی، شاید وہ بزاز کی دکان سے کپڑا خرید رہی تھی۔ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا۔ وہ تو بس ایک نرم و نازک تنکے کی طرح، ہجوم کے تند و تیز ریلے میں بہتا ہی چلا گیا تھا۔ انسانی ہجوم کے اس ریلے میں متعدد برقع پوش عورتیں بھی موجود تھیں۔ وہ کبھی کسی ایک برقع پوش کے پیچھے کچھ دور تک روتا بسورتا چلے جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ وہ اس کی ماں نہیں تو وہ کسی دوسری برقع پوش کا پیچھا کرنے لگتا اور اسی تعاقب میں وہ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گیا! مہ و سال کا دھارا بہتا رہا اور اس کا بچپن ایک بےبادبان کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا گزرتا چلا گیا۔
زندگی کے ابتدائی سال اس نے ایک یتیم خانے میں بسر کئے۔ پھر وہ وہاں سے بھاگ نکلا اور ایک مضافاتی علاقے کی مسجد سے وابستہ ہو گیا۔ مسجد کے مولوی صاحب ایک ہمدرد آدمی تھے۔ انہوں نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیا اور اسے لکھنا پڑھنا بھی سکھا دیا۔ چند سال اس نے مولوی صاحب کی سرپرستی میں سکون و اطمینان سے کاٹے۔ مگر ایک دن مولوی جی کو اس کی کسی بدتمیزی پر اچانک غصہ آ گیا اور انہوں نے چھڑی سے اس کی پٹائی کر دی۔ اگلے دن وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ کچھ عرصہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد اس نے شہر کی راہ پکڑی اور وہاں پہنچ کر کسی نہ کسی طرح ایک ڈھابے میں گاہکوں کو کھانا کھلانے کی نوکری حاصل کر لی۔ کئی سال تک وہ یہ نوکری کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ڈھابے کا مالک، خان بابا اچانک بیمار پڑ گیا اور کچھ عرصہ بعد چل بسا اور یوں ڈھابا بند ہو گیا۔۔۔ اب وہ پوری طرح جوان ہو چکا تھا اور ہر طرح کی محنت مزدوری کر کے روٹی کما سکتا تھا۔ ضرورت اور حالات کے مطابق اس نے ہر قسم کا کام کیا، مگر اس کے پاؤں کی گردش برقرار رہی۔ آخرکار اسے لاؤڈسپیکر کے ذریعے سارے شہر میں طرح طرح کے اعلانات نشر کرنے کی ملازمت مل گئی اور یہ ملازمت حاصل کر کے اسے ایک انجانی تسکین کا احساس ہونے لگا۔ خاص طور پر جب وہ کسی گمشدہ بچے کے بارے میں اعلان کرتا تو اس کی آواز میں بھرپور درد امنڈ آتا۔ اس ملازمت سے اس کی ایک نفسیاتی اور جذباتی وابستگی قائم ہو گئی تھی۔ نسبتا کم ماہوار تنخواہ ملنے کے باوجود وہ پوری دیانتداری سے اس کام کو انجام دیتا تھا۔ گمشدہ لوگوں کی بازیابی میں بالواسطہ طریقے سے معاونت کر کے اسے بےپایاں طمانیت قلب حاصل ہوتی تھی۔ تاہم کچھ عرصہ سے نہ جانے کیوں، لاپتا اور گمشدہ افراد کے سلسلے میں اعلانات نشر کرتے ہوئے اسے کچھ یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے شہر کے بیشتر لوگ لاپتا ہو چکے ہیں، یعنی گھروں میں ہوں تو باہر کے معاملات اور مسائل میں گم رہتے ہیں اور گھروں سے باہر ہوں تو ان کا ذہن گھر کی کھونٹی سے بندھا رہتا ہے، گویا وہ وہاں نہیں ہوتے جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ جس کھولی نما کوارٹر میں گزشتہ کئی سال سے سر چھپائے ہوئے تھا، اس کی چھت کافی عرصہ سے مرمت کا تقاضا کر رہی تھی۔ تاہم ہر بار جب وہ اس کی مرمت کرانے کا ارادہ کرتا تو کوئی نہ کوئی ایسی مصیبت گلے پڑ جاتی کہ اس مقصد کے لئے پس انداز کئے ہوئے روپے خرچ ہو جاتے اور چھت کا مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا رہ جاتا۔ غریب آدمی کے سر پر چاہے کسی کا ہاتھ ہو یا نہ ہو چھت کا سایہ ضرور قائم رہنا چاہیے۔ ایک شام بڑا زبردست طوفان آیا۔ لگتا تھا، مکانوں کی چھتیں اڑ جائیں گی۔ طوفان باد و باراں کے
 
Top