نویں سالگرہ ایک افسانہ روزانہ --- اسم اعظم

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

ہفتہ لائبریری میں ایکٹیویٹی سلسلے بعنوان " ایک افسانہ ۔۔۔ روزانہ" کا آج دوسرا دن ہے ۔ یہ سلسلہ محترم محمد احمد بھائی نے تجویز کیا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے سات افسانوں کو منتخب کیا اور ان کے اسکین فراہم کئے۔ یہ اسکین صفحات یہاں پیش کئے جائیں گے اور قطع نظر اس کے کہ آپ لائبریری رکن ہیں یا نہیں آپ تمام اراکین محفل کو دعوت ہے کہ آپ ان صفحات کو ٹائپ کیجئے اور انہیں پروف ریڈ کیجئے۔ اگر آپ اراکین محفل روزانہ کی بنیاد پر ایک مکمل افسانہ تحریر اور پروف ریڈ کر سکے تو اختتام ہفتہ پر سات افسانوں پر مشتمل ایک ای بک لائبریری کا حصہ بن جائے گی۔

اس سلسلے میں پہلے افسانے بعنوان " اعلانوں بھرا شہر" کی ٹائپنگ مکمل ہو چکی ہے اور آج یہاں دوسرا افسانہ پیش کیا جا رہا ہے بعنوان "اسم اعظم"۔ اس کے اسکین صفحات یہاں شامل کیے جا رہے ہیں ۔ ٹائپ کیا ہوا متن اسی دھاگے میں ارسال کرنا ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
33p4kly.jpg


w0n7tg.jpg


308gqxe.jpg


21eovoy.jpg


2hqsaah.jpg


2djcped.jpg


2yloci8.jpg
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
اسمِ اعظم

اعجاز احمد فاروقی
پاکستان

فروری 1974ء میں جب لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو اس وقت "سیارہ ڈائجسٹ" میری ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بیت المقدس کو نذر آتش کئے جانے کی ناپاک اسرائیلی جسارت کے خلاف پورا عالمِ اسلام سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، اس لئے قدرتا "سیارہ ڈائجسٹ" کے اوراق میں بھی اسلامی دنیا پر خصوصی مضامین پر توجہ دی جاتی تھی اور تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن کسی بھی عرب ملک سے "افسانہ" (جدید میں) دستیاب نہ ہوتا تھا۔ یہ کسر اعجاز فاروقی نے پوری کی۔ عالم عرب کو پیش آمدہ مسائل پر انہوں نے شاندار کہانیاں لکھیں۔ اسی زمانے میں "اسمِ اعظم" موصول ہوا۔ آپ پڑھ کر خود اندازہ لگا لیں گے کہ موجودہ شمارے کا آغآز اس کہانی سے کیوں کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن شاہ عبداللہ سٹاف روم میں بیٹھے ہوئے تھے کچھ اور اساتذہ بھی تھے باہمی گفتگو جاری تھی جس کا کوئی مرکزی موضوع نہیں تھا جو کوئی بھی سخن گفتنی آگے بڑھاتا کچھ منٹوں کے لئے ہی باہمی گفتگو کو مرکز موضوع بن جاتا عین اس وقت عبداللہ نے مصر کے جنرل نجیب کی خود نوشت سوانح عمری کا ذکر چھیڑ دیا اس کتاب کا نام جنرل نجیب نے "مصر کی تقدیر" رکھا تھا۔ شاہ عبداللہ نے چونکہ انہی ایام میں یہ کتاب پڑھی تھی لہذا بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ اس کا تعارف کرانا شروع کیا جو کہ اس کے مطالعے کا نچوڑ تھا انہوں نے جنرل نجیب کے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا جنرل نجیب نے لکھا ہے۔
"میں جس زمانے میں گورڈن کالج خرطوم میں بی اے کا طالب علم تھا تو ایک دن انگریزی کے پیریڈ میں انگریزی کے انگریز استاد نے اپنے موضوع سے ہٹ کر یہ کہا کہ مصر پر انگریزوں کی حکومت ہے۔ میں یہ تبصرہ سن کر غضبناک ہو گیا اور کھڑا ہو گیا پھر گرج کر کہا۔ پروفیسر آپ جھوٹ بولتے ہیں، مصر پر انگریزوں کی حکومت نہیں ہے مصر پر انگریزوں کا قبضہ ہے حاکم اور غآصب کا فرق سن کر پوری جماعت میری ہمنوا ہو گئی اور پروفیسر مشتعل ہو گیا اور پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گیا۔"
عین اس وقت نوین جماعت کا ایک طالب علم سید احمد کسی کام سے سٹاف روم میں آ گیا۔
شاہ عبداللہ نے اس وقت اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا۔ "کیا آپ میں سے کسی نے یہ معرکۃالآراء کتاب پڑھی ہے؟"
"نہیں۔" یہ سب کا متفقہ جواب تھا۔
اس وقت شاہ جی کو احساس برتری کی ایک نامعلوم تیز رو بہا کر لے گئی انہوں نے کہا۔ "بڑی عجیب بات ہے کہ کتاب کو بازار میں آئے ہوئے ایک برس ہو گیا ہے اور آپ میں سے کسی صاحب نے ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھی۔"
سننے والوں کے لئے یہ جملہ خاصا ناخوشگوار اور تکلیف دہ تھا۔ اس میں ان کی تحقیر کا خاصا سامان موجود تھا۔ عبداللہ صاحب نے اس وقت یہ احساس نہیں کیا اور پھر جنرل نجیب کے ذہن کا تجزیہ کرنے لگے کہ حکمران اور غاصب کا جو تصور جنرل کے ذہن میں راسخ ہو چکا تھا، وہ کیا نتائج پیدا کر سکتا تھا۔
اس وقت ان کے ساتھی کچھ سننے کے موڈ میں نہیں رہے، اتنے میں آواز آئی۔ "سر۔"
سننے والوں نے دیکھا کہ سید احمد کچھ کہنے کے لئے بےقرار ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اس نے شاہ عبداللہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ "سر، میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔"
شاہ عبداللہ اپنے طالب علم کی طرف ملتفت ہوئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر ایک عجیب و غریب رونق نمایاں تھی۔ "سر۔ کیا آپ نے قرآن مجید اسی طرح پڑھا ہے جیسے جنرل نجیب کی کتاب آپ نے پڑھی ہے؟"
شاہ عبداللہ کے لئے یہ سوال بجلی کا جھٹکا ثابت ہوا۔ وہ ایک دم سکتے میں آ گئے اور چونکہ بات کلام اللہ کی تھی لہذا انہوں نے اعترافا کہا۔ "نہیں تو! کیوں کیا بات ہے؟"
"سر اس کتاب کو زمین پر اترے ہوئے 1372 برس گزر چکے ہیں اور آپ نے ابھی تک اسے نہیں پڑھا ہے۔"
یہ کہہ کر سید احمد خاموش ہو گیا اور یہ سن کر شاہ عبداللہ گنگ ہو گئے بقیہ سٹاف ممبر سید احمد کی ذہانت پر عش عش کر اٹھے۔ اس نے انہیں احساس کمتری کے اس زمیں دوز ٹھکانے سے باہر نکال لیا جہاں شاہ عبداللہ نے انہیں نادانستہ طور پر پہنچا دیا تھا۔
سید احمد کا یہی جملہ تھا جو ایک بےپناہ انجام کی خوشگوار ابتداء بن کر رہا۔
سالانہ امتحانات ہوئے تو اسکول کا روایتی جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا۔ اس تقریب میں روایت کے مطابق محکمہ تعلیم کے سربراہ شریک ہوئے۔ اسکول کی انتظامیہ کے ارکان شریک ہوئے اخباروں کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے اس روز فی الواقعہ سکول میں بڑی گہما گہمی تھی جو ایسی تقریب کے موقع پر ہمیشہ اور ہر جگہ دیکھی جاتی ہے۔
تقریب کلام پاک کی تلاوت سے شروع ہوئی پھر ہیڈ ماسٹر نے سکول کی سالانہ رپورٹ پڑھی۔ پھر محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر نے تقریر کی اس کے بعد انتظامیہ کے صڈر نے سکول کو بہتر بنانے کے لئے اپنے آئندہ عزائم کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اول، دوم اور سوم آنے والے طلباء کو انعامات اور سرٹیفکیٹ دئیے گئے۔ ان کی بڑی تکریم کے ساتھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ ان کے والدین بہت مسرور دیکھے گئے۔ تقیسم انعامات کے بعد ایک پروگرام شروع ہوا۔ اس میں بعض طلباء نے مباحثہ میں حصہ لینا تھا، بعض نے نظمیں پڑھنا تھیں، بعض نے مضامین سنانے تھے۔ اس پروگرام میں سید احمد نے نعت پڑھنا تھی اور اسی سے اس آخری پروگرام کا آغاز ہونا تھا۔
سید احمد نے مائیک پر نعت پڑھنا شروع کی۔ بلاشبہ اس کی آواز میں کوئی حلاوت نہ تھی مگر سننے والے محسوس کر رہے تھے کہ کثرت مشق نے آواز میں ایک وجد آفرین کیفیت پیدا کر دی تھی اور علامہ اقبال رح کے ترنم کی طرز اس پر مستزاد تھی۔ پورا مجمع محویت کے ساتھ سن رہا تھا مگر سکول کا ہیڈ ماسٹر لال پیلا ہو رہا تھا۔ سید احمد مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور نعت پڑھ رہا تھا اور اسے یوں پڑھ رہا تھا۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
مرادیں غریبوں کی بر لانے والے
غریبوں کے مولا یتیموں کے وال
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والے
معلوم نہیں سید احمد کو کیا سوجھی تھی یا سمجھائی گئی تھی کہ تصرف لفظی سے کام لیتے ہوئے "والا" کے بجائے "والے" پڑھ رہا تھا۔
جنہی سید احمد نے نعت ختم کی ہیڈ ماسٹر نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور نہایت غصے کے ساتھ اس سے پوچھا "برخوردار! تمہیں اردو کون صاحب پڑھاتے ہیں؟"
"جناب ثباہت حسین یوسف زئی صاحب۔"
"یوسف زئی صاحب آپ کہاں ہیں؟"
اس پر ثباہت حسین یوسف زئی صاحب کھڑے ہو گئے۔
"انہیں اردو آپ پڑھاتے ہیں؟"
"جی ہاں۔"
"آپ پٹھان ہیں؟"
"جی ہاں۔"
"آپ کو اردو آتی ہے؟"
"جی ہاں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟"
"آپ نے اس چھوکرے کو نعت غلط کیوں یاد کرائی؟"
یہ جملہ سن کر نوجوان پٹھان معلم سرخ ہو گیا اس نے بڑے تند و تیز لہجے میں کہا۔
"جناب پہلے تو آپ اپنی اردو درست کریں۔ آپ میرے انتہائی عزیز طالب علم کے لئے چھوکرے کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ جو کسی طرح سے مناسب نہیں ہے۔ آپ کو اتنا غصہ کس بات پر آیا ہوا ہے؟"
"آپ یہ بتائیں آپ نے نعت غلط کیوں کر یاد کرائی ہے؟"
"نعت کیسے غلط ہے؟"
"غلط اس طرح ہے کہ حالی نے لکھا ہے وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، اور یہ پڑھ کر گیا ہے وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے۔"
یہ سن کر پٹھان اس جگہ سے اٹھ کر مائیک پر آ گیا اور اعتراض کا جواب اس نے مجمع عام کو یہ دیا۔
"صاحبو! میں نے سید احمد کو اسی طرح نعت یاد کرائی ہے جیسے حالی مرحوم نے لکھی ہے مگر سید احمد اسے اس طرح پڑھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ میرے والد نے مجھے یہ نعت اس طرح پہلے یاد کرا رکھی ہے جیسی اس نے آپ کے سامنے پڑھی ہے اور ایسا کرنے کے لئے اس کے پاس دلیل یہ تھی کہ تکریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ادبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تقاضہ یہ ہے کہ میں والا کو والے پڑھوں۔ مجھے اس کی دلیل درست معلوم ہوئی اس کے دل میں تکریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جو جذبات تھے ان کا پاس کرتے ہوئے اسے اسی طرح پڑھنے دیا اور مشق کراتا رہا جیسے اس کے والد کی تمنا تھی۔"
"شاباش، شاباش۔" ہال سے آوازیں اٹھیں۔
اس کے بعد اگلے دن کے اخبارات تھے اور اس ہنگامے کی رودادیں تھیں۔ جو کہ سکول میں بپا ہوا تھا۔ خبر تھی کہ ہیڈ ماسٹر صاحب غیر مسلم تھے ، لیکن انہوں نے خود کو مسلمان ظاہر کر رکھا تھا۔ قضیہ کوتاہ سات دن کے اندر سکول میں نئے ہیڈ ماسٹر آ گئے اور پرانے ہیڈ ماسٹر صاحب جیل پہنچ گئے۔ ان پر ایک لاکھ اکتالیس ہزار روپے کے غبن کا پرانا قضیہ ازسرِ نو تازہ ہو گیا تھا۔
سکول سات روز کے بعد کھلا اب سید احمد جو بلاشبہ ہر ایک کی آنکھ کا تارا بن کر آیا وہ لڑکوں کا ہیرو تھا اور اساتذہ کا عزیز ترین طالب علم جس طرح ایک بیج درخت بن کر صدہا پھل دیتا ہے اس تمثیل پر اس واقعہ نے سکول میں نتائج در نتائج پیدا کئے اور یہ سلسلہ ایک زمانے تک چلتا رہا۔
چھ مہینے گزر گئے۔ موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سکول دوبارہ کھلا۔ ایک دن انگریزی کے ٹیچر نے شاہ عبداللہ سے سید احمد کی بڑی شکایت کی اور شکایت کی خشتِ اول ہی یہ جملہ تھا۔ "صاحب یہ سید احمد بڑا گستاخ لڑکا ہے بات نہیں مانتا۔"
شاہ عبداللہ کے لئے یہ بات تاج محل کے ڈھے جانے کی خبر جیسی تھی۔
"کیوں کیا ہوا ہے؟"
"ہونا کیا تھا، آج میں نے اسے بلیک بورڈ صاف کرنے کو کہا مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔"
"آج بلیک بورڈ پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا بس صاحبزادے اسی بات پر اڑ گئے کہ میں کلمہ طیبہ پر گندہ ڈسٹر نہیں پھیروں گا۔ بھلا یہ کوئی اڑنے کی بات تھی؟"
"بھلا یہ کوئی بگڑنے کی بات ہے۔ آپ اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے کہ اس کے دل میں کلمہ طیبہ کی کس قدر تکریم موجود ہے۔ پھر آخر وہ ابھی لڑکا ہی تو ہے۔"
"نہیں صآحب وہ آپ لوگوں کا لاڈلا ہے مگر ہم سے مسخری کرتا ہے۔"
شاہ عبداللہ نے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا مگر اتنا ضرور کہا۔ "میں اسے سمجھا دوں گا آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔"
ایک دن شاہ عبداللہ جب کاپیاں دیکھ رہے تھے تو انہیں ایک عجیب مشاہدہ نصیب ہوا جب وہ سید احمد کی کاپی دیکھ رہے تھے اس کی غلطیاں درست کر کے دستخط کرنے کے بعد اسے رکھنے لگے تو کاپی ان کے ہاتھ سے نیچے گر پڑی انہوں نے جب اسے اٹھایا تو کاپی کونے سے پکڑے جانے کے باعث کھل گئی اور جو صفحہ کھلا اس پر مندرجہ ذیل تحریر رقم تھی مگر خط سید احمد کا نہیں تھا۔
حجازی ۔ احمد الکبیر
شامی ۔ احمد کامل الثابت
اردنی ۔ احمد
مصری ۔ احمد البنا
مراکشی ۔ احمد عبداللہ
ترکی ۔ احمد الپتگین
پاکستانی ۔ لطیف احمد
بھارتی ۔ رشید احمد
انڈونیشیا ۔ احمد سوئیکارنو
الجزائری ۔ احمد بوکافی
لبنانی ۔ احمد ذوالنون
ایرانی ۔ احمد رضا
نائجیریا ۔ احمد فولانی
افغانی ۔ داؤد احمد رضا
علیٰ ہذالقیاس یہ فہرست کافی طویل تھی اس کے نیچے لکھا تھا۔
اسم مشترک، قدر مشترک ۔ احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
شاہ عبداللہ کچھ سمجھ نہ سکے کہ یہ سب کیا ہے انہوں نے سید احمد کو بلا کر پوچھا کیا "برخوردار یہ کیا ہے؟"
"سر مجھے معلوم نہیں۔"
"یہ کس نے لکھا ہے۔"
"ابا جی نے۔"
"کس مقصد کے لئے؟"
"سر معلوم نہیں۔ رات ہی انہوں نے یہ لکھا ہے پھر مجھے کچھ سمجھانے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ ماموں ملنے آ گئے۔ انہوں نے مجھے کہا اچھا یہ بات پھر کسی وقت تمہیں سمجھاؤں گا۔"
"اچھا۔ مگر خوب اچھی طرح سمجھنا۔"
اب شاہ عبداللہ کو اپنے والد کے اشارات بہت یاد آئے جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا شاہ عبداللہ کو یقین ہوتا چلا گیا کہ کوئی رفیع الشان سند کمال سید احمد کا انتظار کر رہی ہے جو ایک زمانے کے لئے مینارہ نور ثابت ہو گی۔
مگر ایک دن ایسا آیا کہ سب کیے کرائے پر پانی پھر گیا وہ خوشنما ٹاپو غرق ہو گیا جس پر شاہ عبداللہ سند باد جہازی کی طرح خیمہ زن تھے تب حقیقت کھلی وہ ٹاپو ، ٹاپو نہیں تھا وہیل مچھلی تھی جس نے سند باد جہازی کو فریب نظر کے ہمرنگ زمین میں مقید کر لیا تھا۔
واقعہ یوں ہوا۔
مہینے کا آخری دن تھا اور اس دن اسلامیات کے معلم نہیں آئے تھے نویں جماعت میں ان کا گھنٹہ خالی جا رہا تھا۔ ہیڈ ماسٹر نے شاہ عبداللہ کو وہاں جانے کے لئے کہہ دیا وہ وہاں چلے گئے۔ مگر بادل نخواستہ جماعت میں خاصا شور بپا تھا شاہ عبداللہ جماعت کے اندر داخل ہوئے تو شور و غل باہر چل دیا۔ لڑکے خاموش ہو گئے جماعت کو پرسکون دیکھ کر شاہ عبداللہ رجسٹر کھول کر بیٹھ گئے اور حاضریوں کا حساب کرنے لگے لڑکوں نے انہیں اپنی طرف سے غافل پایا تو اپنی کارروائیوں کے لئے ہوشیار ہو گئے اور آہستہ آہستہ پر پرزے نکالتے چلے گئے تا آنکہ شور کا آہنگ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں عبداللہ کے لئے کام مرکوز توجہ کے ساتھ مکمل کرنا دشوار ہو گیا۔ انہوں نے رجسٹر بند کییا اور کھڑے ہوئے تو ایک بار پھر شور بیٹھ گیا اب انہوں نے بھی بیٹھنے کی بجائے کھڑا رہنا پسند کیا اور پوچھا۔ "سید احمد یہ کس مضمون کا پیریڈ ہے؟"
"سر، اسلامیات کا۔"
"اسلامیات کی کتاب کہاں ہے؟"
کتاب انہیں دی گئی۔
"آپ نے کہاں تک پڑھ لیا ہے؟"
معلوم ہوا کہ لڑکے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے لے کر ہجرت تک کا حال پڑھ چکے ہیں اب آگے پڑھنا تھا۔ عبداللہ آگے پڑھانے کے موڈ میں نہیں تھے مگر کلاس کی مجموعی، مہیب اور جناتی قوت کو قابو کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لڑکوں کو کام میں مصروف کر دیا جائے لہذا انہوں نے بہتر یہی سمجھا اور حصہ آموختہ سے سوالات کرنے شروع کئے سوالات ان کے منہ سے نکلتے رہے اور جوابات لڑکوں کی زبان سے۔
پھر انہوں نے سید احمد سے ایک سوال کیا۔
"سید احمد ہکابکا کھڑا تھا اور گم سم بھی تھا۔"
شاہ عبداللہ قدرے حیران ہوئے کہ اچانک سید احمد کا رنگ کیونکر فق ہو گیا ہے۔
"سید احمد، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
"جی بالکل ٹھیک ہے۔"
"اچھا بتاؤ بانیِ اسلام کون تھے؟"
"اللہ کے رسول تھے۔"
"کہاں پیدا ہوئے تھے؟"
"مکہ معظمہ میں۔"
"ان کا روضہ اطہر کہاں ہے؟"
"مدینہ منورہ میں۔"
"ان کا اسمِ گرامی کیا ہے؟"
یہ سوال سنتے ہی سید احمد ایک بار گنگ ہو گیا رنگ اس کا متغیر ہو گیا اس کے چہرے پر خوف اور ندامت کی کیفیات آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ شاہ عبداللہ نے نہایت ہی گہری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھا اور پڑھا وہاں کوئی مجرمانہ کیفیت نمایاں نہیں تھی تمسخر اڑانے کی سی کیفیت کی غمازی نہیں تھی، البتہ احساس ضرور ہوا کہ وہ اندرونی طور پر ناآسودہ اور زخمی جذبات کی رو میں ہے پھر اس نے آہستہ سے سر جھکا لیا اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑے اسے نہایت دھیمے لہجے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم مبارک بتا رہے تھے۔ بقیہ جماعت بھی اس کے رویے پر تلملا رہی تھی۔ عبداللہ نے لڑکوں کو خاموش رہنے کی سختی کے ساتھ ہدایت کر دی۔ ان کا پارہ چڑھنے لگا۔ خون گرم ہونے لگا۔ مسلسل خاموشی سے بھڑک کر عبداللہ نے سید احمد کو ڈیسک سے باہر آنے کے لئے کہا وہ بڑی انکساری اور محبت کے ساتھ باہر آ گیا اس کا یہ من پسند رویہ دیکھ کر شاہ عبداللہ کا بگڑتا ہوا مزاج پھر سے ذرا سا حلیم ہو گیا۔
"سید احمد ، تمہیں اللہ کے رسولوں کے نام آتے ہیں؟"
"جی آتے ہیں۔"
"تمہیں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی نام آتا ہے؟"
"جی آتا ہے۔"
"ان کا نام صرف ایک یا بہت ہیں؟"
"جی، ذاتی نام تو ایک ہے صفاتی نام بہت سے ہیں۔"
"تمہیں ان کے سارے نام یاد ہیں؟"
"جی، یاد ہیں۔"
"اچھا، پھر بتاؤ ان کا اسم مبارک بتاؤ؟"
اور عین اس مقام پر پھر سے ڈرامے کے المیہ منظر کا آغاز ہو گیا۔ سید احمد پھر سے عالم گویائی سے شہرِ خموشاں کی طرف ہجرت کر گیا اور شاہ عبداللہ کا باطن حلم اور شفقت سے غضب اور تشدد کی سمت کا مسافر ہو گیا تشدد عملی صورت گری کے قریب پہنچ رہا تھا مگر ابھی تک تشدد کی رو چونکہ حیرت اور استفہامیہ کے حصار میں ہی تھی۔ شاہ عبداللہ نے اپنے آپ کو غالبا آخری بار قابو کر کے پوچھا۔ "سید احمد، تم عیسائی ہو؟"
"جی نہیں"
"یہودی ہو؟"
"جی نہیں۔"
"ہندو ہو؟"
"جی نہیں۔"
کمیونسٹ ہو؟"
"جی نہیں۔"
"سوشلسٹ ہو؟"
"جی نہیں۔"
"پھر کیا ہو؟"
"جی میں مسلمان ہوں۔"
"شاباش ، مسلمان کو اپنے ابنیاء علیہ السلام کے نام یاد ہوتے ہیں۔"
وہ کسی پہلو سے سید احمد کو سمجھ نہیں پا رہے تھے جس نے انہیں تکریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دیا تھا وہ آج نامِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بےزار ہو رہا تھا وہ لڑکا جو رجسٹر اپنے ہم جماعتوں سے لے کر ان کی یہ تصحیح کیا کرتا تھا کہ جہاں بھی
MOHD
لکھا ہوتا اسے کاٹ کر
MOHAMMAD
لکھ دیا کرتا تھا آج وہ اپنے قلم سے ہزاروں بار لکھے ہوئے نام کو زبان سے ادا کرنے سے منکر ہو رہا تھا۔ جو کلمہ طیبہ پر ڈسٹر پھیرنے سے گریز کرتا تھا آج اس نے اس پر سیاہی کا نخپتہ سیاہ کالم چسپاں کر دیا تھا۔
وہ سید احمد کو گھور رہے تھے۔ انہوں نے زچ ہو کر چیخ کر کہا۔ "سید احمد، یہ کیا فراڈ ہے؟ تم بولو گے یا نہیں۔"
اس چیلنج کو سن کر بھی سید احمد نے گویائی کی طرف ہجرت نہیں کی۔
یہاں طبل جنگ مچ گیا اور تیمور لنگ کی افواج قائرہ نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ حملہ شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ دہلی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ سید احمد کا رنگ سرخ ہو گیا، ناک سے خون بھی بہہ نکلا، بال الجھ گئے، قمیض شکنوں کا پلندہ ہو گئی شاہ عبداللہ کے ہاتھ تھک گئے، بید چیر گیا اور بیکار ہو گیا اس کا انگ انگ تھا آنکھیں اشکبار تھیں سسکیوں کی آواز کافی بلند تھی۔ اب بھی اس کے چہرے پر جواب دینے کی کوئی کیفیت نمودار نہیں ہوئی تھی۔ وہاں تو ایک سرمدی احساس جگمگا رہا تھا اور سید احمد جیسے کہہ رھا تھا مجھے بے شک مار ڈالو دفن کر دو، مگر میرا منہ۔۔۔۔ شاہ عبداللہ نے تھک ہار کر جماعت کا جائزہ لیا تو بظاہر تو وہ پہاڑ تھی مگر بہ باطن اس کے اندر آتش گیر لاوا بھڑک رہا تھا۔ شاید ان کے لئے سید احمد کی شدید پٹائی ناقابل برداشت تھی وہ ایک بار پھر سے ان کا ہیرو بن گیا تھا وہ اس کے لئے سر کشی پر آمادہ ہوتی چلی جا رہی تھی۔
اتنے میں آدھی چھٹی کا گھنٹہ بج گیا۔ لڑکے بےتابانہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حصار میں لے لیا۔ شاہ عبداللہ نے گرج کر کہا۔ "میں اگلے پیریڈ میں آؤں گا اور اس کا دماغ درست اور زبان چالو کر کے دم لوں گا۔"
"اب آپ دفعان ہو جائیے۔" کسی ایک لڑکے نے چیخ کر کہا۔
شاہ عبداللہ کا خون کھول رہا تھا وہ کمرے سے نکلے اور بجائے سٹاف روم میں جانے کے کینٹین میں چلے گئے اور کڑک قسم کی چائے لانے کو کہا۔ اب جو خیالات ان کے ذہن کی غلام گردشوں میں گشت کر رہے تھے وہ حقارت اور غضب اور احساس عزت کی شکست و ریخت نے مہیا کیے تھے، انہیں یقین ہو رہا تھا یہ لڑکا کوئی نوعمر عبداللہ بن سبا ہے، حسن بن صباح ہے کمسن شیخ الجبال ہے، یہ اور اس کا باپ دونوں سازشی قرامطی ہیں، انہیں اجاڑنے کے لئے چنگیز خاں بننا ہی پڑے گا۔ معلوم نہیں یہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں اور آئندہ کیا کر گزریں ۔ اب لازم ہے کہ دیہات سے دربار تک ان کا تعاقب کیا جائے پھر گھنٹہ بجا شاہ عبداللہ پھر سے نئے جوش و خروش کے ساتھ اسی کلاس پر چڑھ دوڑے۔ عبداللہ پہلے آئے بعد میں جماعت کے دوسرے استاد آئے تو ان کو عبداللہ نے اپنی جماعت میں جانے کی ہدایت کر دی۔
شاہ عبداللہ نے پہلے جماعت کا جائزہ لیا۔
لڑکوں کے موڈ پر ایک خوشگوار فرحت اور سرخوشی چھائی ہوئی تھی ان کی آنکھوں میں بغاورت کا شرارہ بجھ چکا تھا تاہم انہیں یہ احساس ہو رہا تھا جیسے یہ جماعت من حیثیت المجموع اپنی فتح اور ان کی شکست کا اعلان کر رہی ہے ہر لڑکا سید احمد کی وکالت کے لیے بےکل ہو رہا تھا اور سید احمد، وہ چپ چاپ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا سرخ اور سپید چہرہ دھلا ہوا تھا۔ بالوں پر پانی کے قطرے کہیں کہیں جھلک رہے تھے۔ ناک میں ایک طرف روئی کا پھایا دیا ہوا تھا۔ خون بہنا تو بند ہو گیا تھا۔ سید احمد کے مطمئن چہرے پر سوائے اطمینان اور سکون کے کسی اور احساس کا سراغ لگانا مشکل ہو رہا تھا۔
اس تبدیل شدہ فضا نے عبداللہ کے شکوک کی قوت کو دوچند کر کے انہیں ایک کشمکش سے دوچار کر دیا تھا جو ایک طرف حلم اور نرمی کا تقاضا کر رہی تھی دوسری طرف وہ ابھی سختی اور مار پیٹ کے آوازے پر کان لگائے ہوئے تھے۔ دو چار منٹ میں آدھی چھٹی کی کیفیت رخصت ہو گئی۔ جماعت مطمئن اور خاموش ہو رہی۔ اس وقت کشمکش سے دوچار شاہ عبداللہ نے کہا۔
"سید احمد، کھڑے ہو جاؤ۔"
سید احمد ایسے کھڑا ہو گیا جیسے وہ اس حکم نامے اور عتاب نامے کا ادراک کر چکا تھا اور کھڑا ہونے کے لئے بے چین ہو رہا تھا۔ جیسے اسے اپنی معصومیت کی وکالت کرنی ہے۔
"بتاؤ تم کس قوم کے فرد ہو؟"
"جی، مسلمان قوم سے۔"
"تمہارے والد مسلمان ہیں یا قرامطی؟"
"جی، وہ مسلمان ہیں۔"
"اور قرامطی کون ہے؟"
"جی، مجھے معلوم نہیں قرامطی کیا ہوتا ہے۔"
"یہ تمہیں ابھی پتا چل جائے گا۔ تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آتا ہے؟"
"جی، آتا ہے۔"
"اچھا بتاؤ، نبی آخر الزماں کا اسمِ مبارک کیا ہے؟"
"جی، آپ کا اسم مبارک ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔"
اس کے بعد شاہ عبداللہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آ سکا انہوں نے پھر کہا۔ "نبی آخر الزماں کا اسم مبارک کیا ہے؟"
"جناب، ان کا اسم مبارک ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔"
سید احمد نے درود شریف پڑھتے ہوئے کہا اور پھر سے درود شریف پڑھنے لگا۔
شاہ عبداللہ مسجمہ حیرت بن گئے انہوں نے جو پورس کے ہاتھی جمع کیے تھے، انہوں نے حریف کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ کے بعد ہی میدان چھوڑ دیا اور پلٹ کر اپنی فوج کو رگید ڈالا شاہ عبداللہ کا چہرہ سیاہ ہو کر بھیانک سا ہو گیا۔ وہ گنگ ہو گئے۔ کجاوہ قسطنطنیہ کو ناقابل تسخیر سمجھے بیٹھے تھے اور کجا قسطنطنیہ مفتوح ہو کر استنبول ہو رہا تھا۔
شاہ عبداللہ اس وقت مفتوح تھے، مفلوج تھے، خاموش تھے، متحیر تھے۔
انہوں نے ایک بار پھر سید احمد کو دیکھا ور پوچھا۔
"سید احمد یہ نام تمہیں پہلے بھی یاد تھا یا بھول گیا تھا؟"
"جی، بہت اچھی طرح یاد تھا۔"
"پھر پہلے تمہیں کیا سانپ سونگھ گیا تھا؟"
"جی، میں اس وقت باوضو نہیں تھا۔"
"کیا مطلب، سید احمد؟"
شاہ عبداللہ نے ایک دم پھٹ کر پوچھا۔
"جی، میں اس وقت بے وضو تھا۔"
"یہ کیا بات ہوئی؟"
"جی، یہ میرے والد کا حکم ہے کہ بیٹا مرتے مر جانا پر کبھی انے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام بے وضو مت لینا۔ الحمدللہ کہ میں نے ایسا ہی کیا۔"
اتنا کہہ کر سید احمد خاموش ہو گیا۔
اور شاہ عبداللہ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدہ شگفتہ ، محمد احمد
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی اعلیٰ اوشو صاحب ۔۔۔۔۔!

آپ نے تو آن کی آن میں ہی افسانہ ٹائپ کر دیا۔ ماشاءاللہ۔

کیا اس کی پروف ریڈنگ کی ضرورت ہے اور ہے تو ہمارے ہاں پروف ریڈنگ کا کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔

برائے توجہ : سیدہ شگفتہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت ہی عمدہ اوشو بھائی

جی محمد احمد بھائی، پروف ریڈنگ کی ضرورت ہے تاہم اوشو بھائی نے اس برق رفتاری میں بھی بہت عمدہ ٹائپنگ کی ہے اور تمام متن میں محض چند ایک جگہوں پر املاء کی درستگی کرنا ہے۔

پروف ریڈنگ کا طریق کار ابھی سادہ رکھا گیا ہے یعنی املاء اور پنکچوایشن کی درستگی ۔
کرنا یہ ہے کہ ٹائپ کیے ہوئے متن کو کاپی کر کے اس میں جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں املاء اور پنکچوایشن کی تصحیح کرنا ہے اور اس تصحیح شدہ متن کو متعلقہ دھاگے میں ارسال کر دینا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پروف ریڈ مکمل
----------

اسمِ اعظم
اعجاز احمد فاروقی - پاکستان
فروری 1974ء میں جب لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو اس وقت "سیارہ ڈائجسٹ" میری ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بیت المقدس کو نذر آتش کئے جانے کی ناپاک اسرائیلی جسارت کے خلاف پورا عالمِ اسلام سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، اس لئے قدرتا "سیارہ ڈائجسٹ" کے اوراق میں بھی اسلامی دنیا پر خصوصی مضامین پر توجہ دی جاتی تھی اور تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن کسی بھی عرب ملک سے "افسانہ" (جدید میں) دستیاب نہ ہوتا تھا۔ یہ کسر اعجاز فاروقی نے پوری کی۔ عالم عرب کو پیش آمدہ مسائل پر انہوں نے شاندار کہانیاں لکھیں۔ اسی زمانے میں "اسمِ اعظم" موصول ہوا۔ آپ پڑھ کر خود اندازہ لگا لیں گے کہ موجودہ شمارے کا آغاز اس کہانی سے کیوں کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن شاہ عبداللہ سٹاف روم میں بیٹھے ہوئے تھے کچھ اور اساتذہ بھی تھے باہمی گفتگو جاری تھی جس کا کوئی مرکزی موضوع نہیں تھا جو کوئی بھی سخن گفتنی آگے بڑھاتا کچھ منٹوں کے لئے ہی باہمی گفتگو کا مرکزی موضوع بن جاتا عین اس وقت عبداللہ نے مصر کے جنرل نجیب کی خود نوشت سوانح عمری کا ذکر چھیڑ دیا اس کتاب کا نام جنرل نجیب نے "مصر کی تقدیر" رکھا تھا۔ شاہ عبداللہ نے چونکہ انہی ایام میں یہ کتاب پڑھی تھی لہذا بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ اس کا تعارف کرانا شروع کیا جو کہ اس کے مطالعے کا نچوڑ تھا انہوں نے جنرل نجیب کے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا جنرل نجیب نے لکھا ہے۔
"میں جس زمانے میں گورڈن کالج خرطوم میں بی اے کا طالب علم تھا تو ایک دن انگریزی کے پیریڈ میں انگریزی کے انگریز استاد نے اپنے موضوع سے ہٹ کر یہ کہا کہ مصر پر انگریزوں کی حکومت ہے۔ میں یہ تبصرہ سن کر غضبناک ہو گیا اور کھڑا ہو گیا پھر گرج کر کہا۔ پروفیسر آپ جھوٹ بولتے ہیں، مصر پر انگریزوں کی حکومت نہیں ہے مصر پر انگریزوں کا قبضہ ہے حاکم اور غاصب کا فرق سن کر پوری جماعت میری ہمنوا ہو گئی اور پروفیسر مشتعل ہو گیا اور پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گیا۔"
عین اس وقت نویں جماعت کا ایک طالب علم سید احمد کسی کام سے سٹاف روم میں آ گیا۔
شاہ عبداللہ نے اس وقت اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا۔ "کیا آپ میں سے کسی نے یہ معرکۃالآراء کتاب پڑھی ہے؟"
"نہیں۔" یہ سب کا متفقہ جواب تھا۔
اس وقت شاہ جی کو احساس برتری کی ایک نامعلوم تیز رو بہا کر لے گئی انہوں نے کہا۔ "بڑی عجیب بات ہے کہ کتاب کو بازار میں آئے ہوئے ایک برس ہو گیا ہے اور آپ میں سے کسی صاحب نے ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھی۔"
سننے والوں کے لئے یہ جملہ خاصا ناخوشگوار اور تکلیف دہ تھا۔ اس میں ان کی تحقیر کا خاصا سامان موجود تھا۔ عبداللہ صاحب نے اس وقت یہ احساس نہیں کیا اور پھر جنرل نجیب کے ذہن کا تجزیہ کرنے لگے کہ حکمران اور غاصب کا جو تصور جنرل کے ذہن میں راسخ ہو چکا تھا، وہ کیا نتائج پیدا کر سکتا تھا۔
اس وقت ان کے ساتھی کچھ سننے کے موڈ میں نہیں رہے، اتنے میں آواز آئی۔ "سر۔"
سننے والوں نے دیکھا کہ سید احمد کچھ کہنے کے لئے بےقرار ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اس نے شاہ عبداللہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ "سر، میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔"
شاہ عبداللہ اپنے طالب علم کی طرف ملتفت ہوئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر ایک عجیب و غریب رونق نمایاں تھی۔ "سر۔ کیا آپ نے قرآن مجید اسی طرح پڑھا ہے جیسے جنرل نجیب کی کتاب آپ نے پڑھی ہے؟"
شاہ عبداللہ کے لئے یہ سوال بجلی کا جھٹکا ثابت ہوا۔ وہ ایک دم سکتے میں آ گئے اور چونکہ بات کلام اللہ کی تھی لہذا انہوں نے اعترافا کہا۔ "نہیں تو! کیوں کیا بات ہے؟"
"سر اس کتاب کو زمین پر اترے ہوئے 1372 برس گزر چکے ہیں اور آپ نے ابھی تک اسے نہیں پڑھا ہے۔"
یہ کہہ کر سید احمد خاموش ہو گیا اور یہ سن کر شاہ عبداللہ گنگ ہو گئے بقیہ سٹاف ممبر سید احمد کی ذہانت پر عش عش کر اٹھے۔ اس نے انہیں احساس کمتری کے اس زمیں دوز ٹھکانے سے باہر نکال لیا جہاں شاہ عبداللہ نے انہیں نادانستہ طور پر پہنچا دیا تھا۔
سید احمد کا یہی جملہ تھا جو ایک بےپناہ انجام کی خوشگوار ابتداء بن کر رہا۔
سالانہ امتحانات ہوئے تو اسکول کا روایتی جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا۔ اس تقریب میں روایت کے مطابق محکمہ تعلیم کے سربراہ شریک ہوئے۔ اسکول کی انتظامیہ کے ارکان شریک ہوئے اخباروں کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے اس روز فی الواقعہ اسکول میں بڑی گہما گہمی تھی جو ایسی تقریب کے موقع پر ہمیشہ اور ہر جگہ دیکھی جاتی ہے۔
تقریب کلام پاک کی تلاوت سے شروع ہوئی پھر ہیڈ ماسٹر نے سکول کی سالانہ رپورٹ پڑھی۔ پھر محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر نے تقریر کی اس کے بعد انتظامیہ کے صدر نے اسکول کو بہتر بنانے کے لئے اپنے آئندہ عزائم کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اول، دوم اور سوم آنے والے طلباء کو انعامات اور سرٹیفکیٹ دئیے گئے۔ ان کی بڑی تکریم کے ساتھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ ان کے والدین بہت مسرور دیکھے گئے۔ تقمی انعامات کے بعد ایک پروگرام شروع ہوا۔ اس میں بعض طلباء نے مباحثہ میں حصہ لینا تھا، بعض نے نظمیں پڑھنا تھیں، بعض نے مضامین سنانے تھے۔ اس پروگرام میں سید احمد نے نعت پڑھنا تھی اور اسی سے اس آخری پروگرام کا آغاز ہونا تھا۔
سید احمد نے مائیک پر نعت پڑھنا شروع کی۔ بلاشبہ اس کی آواز میں کوئی حلاوت نہ تھی مگر سننے والے محسوس کر رہے تھے کہ کثرت مشق نے آواز میں ایک وجد آفرین کیفیت پیدا کر دی تھی اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ترنم کی طرز اس پر مستزاد تھی۔ پورا مجمع محویت کے ساتھ سن رہا تھا مگر اسکول کا ہیڈ ماسٹر لال پیلا ہو رہا تھا۔ سید احمد مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور نعت پڑھ رہا تھا اور اسے یوں پڑھ رہا تھا۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
مرادیں غریبوں کی بر لانے والے
غریبوں کے مولا یتیموں کے والی
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والے
معلوم نہیں سید احمد کو کیا سوجھی تھی یا سُجھائی گئی تھی کہ تصرف لفظی سے کام لیتے ہوئے "والا" کے بجائے "والے" پڑھ رہا تھا۔
جونہی سید احمد نے نعت ختم کی ہیڈ ماسٹر نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور نہایت غصے کے ساتھ اس سے پوچھا "برخوردار! تمہیں اردو کون صاحب پڑھاتے ہیں؟"
"جناب ثباہت حسین یوسف زئی صاحب۔"
"یوسف زئی صاحب آپ کہاں ہیں؟"
اس پر ثباہت حسین یوسف زئی صاحب کھڑے ہو گئے۔
"انہیں اردو آپ پڑھاتے ہیں؟"
"جی ہاں۔"
"آپ پٹھان ہیں؟"
"جی ہاں۔"
"آپ کو اردو آتی ہے؟"
"جی ہاں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟"
"آپ نے اس چھوکرے کو نعت غلط کیوں یاد کرائی؟"
یہ جملہ سن کر نوجوان پٹھان معلم سرخ ہو گیا اس نے بڑے تند و تیز لہجے میں کہا۔
"جناب پہلے تو آپ اپنی اردو درست کریں۔ آپ میرے انتہائی عزیز طالب علم کے لئے چھوکرے کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ جو کسی طرح سے مناسب نہیں ہے۔ آپ کو اتنا غصہ کس بات پر آیا ہوا ہے؟"
"آپ یہ بتائیں آپ نے نعت غلط کیوں کر یاد کرائی ہے؟"
"نعت کیسے غلط ہے؟"
"غلط اس طرح ہے کہ حالی نے لکھا ہے وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، اور یہ پڑھ کر گیا ہے وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے۔"
یہ سن کر پٹھان اس جگہ سے اٹھ کر مائیک پر آ گیا اور اعتراض کا جواب اس نے مجمع عام کو یہ دیا۔
"صاحبو! میں نے سید احمد کو اسی طرح نعت یاد کرائی ہے جیسے حالی مرحوم نے لکھی ہے مگر سید احمد اسے اس طرح پڑھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ میرے والد نے مجھے یہ نعت اس طرح پہلے یاد کرا رکھی ہے جیسی اس نے آپ کے سامنے پڑھی ہے اور ایسا کرنے کے لئے اس کے پاس دلیل یہ تھی کہ تکریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ادبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تقاضہ یہ ہے کہ میں والا کو والے پڑھوں۔ مجھے اس کی دلیل درست معلوم ہوئی اس کے دل میں تکریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جو جذبات تھے ان کا پاس کرتے ہوئے اسے اسی طرح پڑھنے دیا اور مشق کراتا رہا جیسے اس کے والد کی تمنا تھی۔"
"شاباش، شاباش۔" ہال سے آوازیں اٹھیں۔
اس کے بعد اگلے دن کے اخبارات تھے اور اس ہنگامے کی رودادیں تھیں۔ جو کہ اسکول میں بپا ہوا تھا۔ خبر تھی کہ ہیڈ ماسٹر صاحب غیر مسلم تھے ، لیکن انہوں نے خود کو مسلمان ظاہر کر رکھا تھا۔ قہو کوتاہ سات دن کے اندر اسکول میں نئے ہیڈ ماسٹر آ گئے اور پرانے ہیڈ ماسٹر صاحب جیل پہنچ گئے۔ ان پر ایک لاکھ اکتالیس ہزار روپے کے غبن کا پرانا قضیہ ازسرِ نو تازہ ہو گیا تھا۔
اسکول سات روز کے بعد کھلا اب سید احمد جو بلاشبہ ہر ایک کی آنکھ کا تارا بن کر آیا وہ لڑکوں کا ہیرو تھا اور اساتذہ کا عزیز ترین طالب علم جس طرح ایک بیج درخت بن کر صدہا پھل دیتا ہے اس تمثیل پر اس واقعہ نے سکول میں نتائج در نتائج پیدا کئے اور یہ سلسلہ ایک زمانے تک چلتا رہا۔
چھ مہینے گزر گئے۔ موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سکول دوبارہ کھلا۔ ایک دن انگریزی کے ٹیچر نے شاہ عبداللہ سے سید احمد کی بڑی شکایت کی اور شکایت کی خشتِ اول ہی یہ جملہ تھا۔ "صاحب یہ سید احمد بڑا گستاخ لڑکا ہے بات نہیں مانتا۔"
شاہ عبداللہ کے لئے یہ بات تاج محل کے ڈھے جانے کی خبر جیسی تھی۔
"کیوں کیا ہوا ہے؟"
"ہونا کیا تھا، آج میں نے اسے بلیک بورڈ صاف کرنے کو کہا مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔"
"آج بلیک بورڈ پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا بس صاحبزادے اسی بات پر اڑ گئے کہ میں کلمہ طیبہ پر گندہ ڈسٹر نہیں پھیروں گا۔ بھلا یہ کوئی اڑنے کی بات تھی؟"
"بھلا یہ کوئی بگڑنے کی بات ہے۔ آپ اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے کہ اس کے دل میں کلمہ طیبہ کی کس قدر تکریم موجود ہے۔ پھر آخر وہ ابھی لڑکا ہی تو ہے۔"
"نہیں صاحب وہ آپ لوگوں کا لاڈلا ہے مگر ہم سے مسخری کرتا ہے۔"
شاہ عبداللہ نے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا مگر اتنا ضرور کہا۔ "میں اسے سمجھا دوں گا آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔"
ایک دن شاہ عبداللہ جب کاپیاں دیکھ رہے تھے تو انہیں ایک عجیب مشاہدہ نصیب ہوا جب وہ سید احمد کی کاپی دیکھ رہے تھے اس کی غلطیاں درست کر کے دستخط کرنے کے بعد اسے رکھنے لگے تو کاپی ان کے ہاتھ سے نیچے گر پڑی انہوں نے جب اسے اٹھایا تو کاپی کونے سے پکڑے جانے کے باعث کھل گئی اور جو صفحہ کھلا اس پر مندرجہ ذیل تحریر رقم تھی مگر خط سید احمد کا نہیں تھا۔
حجازی ۔ احمد الکبیر
شامی ۔ احمد کامل الثابت
اردنی ۔ احمد
مصری ۔ احمد البنا
مراکشی ۔ احمد عبداللہ
ترکی ۔ احمد الپتگین
پاکستانی ۔ لطیف احمد
بھارتی ۔ رشید احمد
انڈونیشیا ۔ احمد سوئیکارنو
الجزائری ۔ احمد بوکافی
لبنانی ۔ احمد ذوالنون
ایرانی ۔ احمد رضا
نائجیریا ۔ احمد فولانی
افغانی ۔ داؤد احمد رضا
علیٰ ہذالقیاس یہ فہرست کافی طویل تھی اس کے نیچے لکھا تھا۔
اسم مشترک، قدر مشترک ۔ احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
شاہ عبداللہ کچھ سمجھ نہ سکے کہ یہ سب کیا ہے انہوں نے سید احمد کو بلا کر پوچھا کیا "برخوردار یہ کیا ہے؟"
"سر مجھے معلوم نہیں۔"
"یہ کس نے لکھا ہے۔"
"ابا جی نے۔"
"کس مقصد کے لئے؟"
"سر معلوم نہیں۔ رات ہی انہوں نے یہ لکھا ہے پھر مجھے کچھ سمجھانے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ ماموں ملنے آ گئے۔ انہوں نے مجھے کہا اچھا یہ بات پھر کسی وقت تمہیں سمجھاؤں گا۔"
"اچھا۔ مگر خوب اچھی طرح سمجھنا۔"
اب شاہ عبداللہ کو اپنے والد کے اشارات بہت یاد آئے جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا شاہ عبداللہ کو یقین ہوتا چلا گیا کہ کوئی رفیع الشان سند کمال سید احمد کا انتظار کر رہی ہے جو ایک زمانے کے لئے مینارہ نور ثابت ہو گی۔
مگر ایک دن ایسا آیا کہ سب کیے کرائے پر پانی پھر گیا وہ خوشنما ٹاپو غرق ہو گیا جس پر شاہ عبداللہ سند باد جہازی کی طرح خیمہ زن تھے تب حقیقت کھلی وہ ٹاپو ، ٹاپو نہیں تھا وہیل مچھلی تھی جس نے سند باد جہازی کو فریب نظر کے ہمرنگ زمین جال میں مقید کر لیا تھا۔
واقعہ یوں ہوا۔
مہینے کا آخری دن تھا اور اس دن اسلامیات کے معلم نہیں آئے تھے نویں جماعت میں ان کا گھنٹہ خالی جا رہا تھا۔ ہیڈ ماسٹر نے شاہ عبداللہ کو وہاں جانے کے لئے کہہ دیا وہ وہاں چلے گئے۔ مگر بادل نخواستہ جماعت میں خاصا شور بپا تھا شاہ عبداللہ جماعت کے اندر داخل ہوئے تو شور و غل باہر چل دیا۔ لڑکے خاموش ہو گئے جماعت کو پرسکون دیکھ کر شاہ عبداللہ رجسٹر کھول کر بیٹھ گئے اور حاضریوں کا حساب کرنے لگے لڑکوں نے انہیں اپنی طرف سے غافل پایا تو اپنی کارروائیوں کے لئے ہوشیار ہو گئے اور آہستہ آہستہ پر پرزے نکالتے چلے گئے تا آنکہ شور کا آہنگ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں عبداللہ کے لئے کام مرکوز توجہ کے ساتھ مکمل کرنا دشوار ہو گیا۔ انہوں نے رجسٹر بند کیا اور کھڑے ہوئے تو ایک بار پھر شور بیٹھ گیا اب انہوں نے بھی بیٹھنے کی بجائے کھڑا رہنا پسند کیا اور پوچھا۔ "سید احمد یہ کس مضمون کا پیریڈ ہے؟"
"سر، اسلامیات کا۔"
"اسلامیات کی کتاب کہاں ہے؟"
کتاب انہیں دی گئی۔
"آپ نے کہاں تک پڑھ لیا ہے؟"
معلوم ہوا کہ لڑکے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے لے کر ہجرت تک کا حال پڑھ چکے ہیں اب آگے پڑھنا تھا۔ عبداللہ آگے پڑھانے کے موڈ میں نہیں تھے مگر کلاس کی مجموعی، مہیب اور جناتی قوت کو قابو کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لڑکوں کو کام میں مصروف کر دیا جائے لہذا انہوں نے بہتر یہی سمجھا اور حصہ آموختہ سے سوالات کرنے شروع کئے سوالات ان کے منہ سے نکلتے رہے اور جوابات لڑکوں کی زبان سے۔
پھر انہوں نے سید احمد سے ایک سوال کیا۔
"سید احمد ہکابکا کھڑا تھا اور گم سم بھی تھا۔"
شاہ عبداللہ قدرے حیران ہوئے کہ اچانک سید احمد کا رنگ کیونکر فق ہو گیا ہے۔
"سید احمد، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
"جی بالکل ٹھیک ہے۔"
"اچھا بتاؤ بانیِ اسلام کون تھے؟"
"اللہ کے رسول تھے۔"
"کہاں پیدا ہوئے تھے؟"
"مکہ معظمہ میں۔"
"ان کا روضہ اطہر کہاں ہے؟"
"مدینہ منورہ میں۔"
"ان کا اسمِ گرامی کیا ہے؟"
یہ سوال سنتے ہی سید احمد ایک بار گنگ ہو گیا رنگ اس کا متغیر ہو گیا اس کے چہرے پر خوف اور ندامت کی کیفیات آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ شاہ عبداللہ نے نہایت ہی گہری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھا اور پڑھا وہاں کوئی مجرمانہ کیفیت نمایاں نہیں تھی تمسخر اڑانے کی سی کیفیت کی غمازی نہیں تھی، البتہ احساس ضرور ہوا کہ وہ اندرونی طور پر ناآسودہ اور زخمی جذبات کی رو میں ہے پھر اس نے آہستہ سے سر جھکا لیا اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے اسے نہایت دھیمے لہجے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم مبارک بتا رہے تھے۔ بقیہ جماعت بھی اس کے رویے پر تلملا رہی تھی۔ عبداللہ نے لڑکوں کو خاموش رہنے کی سختی کے ساتھ ہدایت کر دی۔ ان کا پارہ چڑھنے لگا۔ خون گرم ہونے لگا۔ مسلسل خاموشی سے بھڑک کر عبداللہ نے سید احمد کو ڈیسک سے باہر آنے کے لئے کہا وہ بڑی انکساری اور محبت کے ساتھ باہر آ گیا اس کا یہ من پسند رویہ دیکھ کر شاہ عبداللہ کا بگڑتا ہوا مزاج پھر سے ذرا سا حلیم ہو گیا۔
"سید احمد ، تمہیں اللہ کے رسولوں کے نام آتے ہیں؟"
"جی آتے ہیں۔"
"تمہیں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی نام آتا ہے؟"
"جی آتا ہے۔"
"ان کا نام صرف ایک یا بہت ہیں؟"
"جی، ذاتی نام تو ایک ہے صفاتی نام بہت سے ہیں۔"
"تمہیں ان کے سارے نام یاد ہیں؟"
"جی، یاد ہیں۔"
"اچھا، پھر بتاؤ ان کا اسم مبارک بتاؤ؟"
اور عین اس مقام پر پھر سے ڈرامے کے المیہ منظر کا آغاز ہو گیا۔ سید احمد پھر سے عالم گویائی سے شہرِ خموشاں کی طرف ہجرت کر گیا اور شاہ عبداللہ کا باطن حلم اور شفقت سے غضب اور تشدد کی سمت کا مسافر ہو گیا تشدد عملی صورت گری کے قریب پہنچ رہا تھا مگر ابھی تک تشدد کی رو چونکہ حیرت اور استفہامیہ کے حصار میں ہی تھی۔ شاہ عبداللہ نے اپنے آپ کو غالبا آخری بار قابو کر کے پوچھا۔ "سید احمد، تم عیسائی ہو؟"
"جی نہیں"
"یہودی ہو؟"
"جی نہیں۔"
"ہندو ہو؟"
"جی نہیں۔"
کمیونسٹ ہو؟"
"جی نہیں۔"
"سوشلسٹ ہو؟"
"جی نہیں۔"
"پھر کیا ہو؟"
"جی میں مسلمان ہوں۔"
"شاباش ، مسلمان کو اپنے ابنیاء علیہ السلام کے نام یاد ہوتے ہیں۔"
وہ کسی پہلو سے سید احمد کو سمجھ نہیں پا رہے تھے جس نے انہیں تکریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا درس دیا تھا وہ آج نامِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بےزار ہو رہا تھا وہ لڑکا جو رجسٹر اپنے ہم جماعتوں سے لے کر ان کی یہ تصحیح کیا کرتا تھا کہ جہاں بھی MOHD لکھا ہوتا اسے کاٹ کر MOHAMMAD لکھ دیا کرتا تھا آج وہ اپنے قلم سے ہزاروں بار لکھے ہوئے نام کو زبان سے ادا کرنے سے منکر ہو رہا تھا۔ جو کلمہ طیبہ پر ڈسٹر پھیرنے سے گریز کرتا تھا آج اس نے اس پر سیاہی کا نخپتہ سیاہ کالم چسپاں کر دیا تھا۔
وہ سید احمد کو گھور رہے تھے۔ انہوں نے زچ ہو کر چیخ کر کہا۔ "سید احمد، یہ کیا فراڈ ہے؟ تم بولو گے یا نہیں۔"
اس چیلنج کو سن کر بھی سید احمد نے گویائی کی طرف ہجرت نہیں کی۔
یہاں طبل جنگ مچ گیا اور تیمور لنگ کی افواج قائرہ نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ حملہ شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ دہلی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ سید احمد کا رنگ سرخ ہو گیا، ناک سے خون بھی بہہ نکلا، بال الجھ گئے، قمیض شکنوں کا پلندہ ہو گئی شاہ عبداللہ کے ہاتھ تھک گئے، بید چیر گیا اور بیکار ہو گیا اس کا انگ انگ درد سے بھر گیا تھا آنکھیں اشکبار تھیں سسکیوں کی آواز کافی بلند تھی۔ اب بھی اس کے چہرے پر جواب دینے کی کوئی کیفیت نمودار نہیں ہوئی تھی۔ وہاں تو ایک سرمدی احساس جگمگا رہا تھا اور سید احمد جیسے کہہ رہا تھا مجھے بے شک مار ڈالو دفن کر دو، مگر میرا منہ۔۔۔۔ شاہ عبداللہ نے تھک ہار کر جماعت کا جائزہ لیا تو بظاہر تو وہ پہاڑ تھی مگر بہ باطن اس کے اندر آتش گیر لاوا بھڑک رہا تھا۔ شاید ان کے لئے سید احمد کی شدید پٹائی ناقابل برداشت تھی وہ ایک بار پھر سے ان کا ہیرو بن گیا تھا وہ اس کے لئے سر کشی پر آمادہ ہوتی چلی جا رہی تھی۔
اتنے میں آدھی چھٹی کا گھنٹہ بج گیا۔ لڑکے بےتابانہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حصار میں لے لیا۔ شاہ عبداللہ نے گرج کر کہا۔ "میں اگلے پیریڈ میں آؤں گا اور اس کا دماغ درست اور زبان چالو کر کے دم لوں گا۔"
"اب آپ دفعان ہو جائیے۔" کسی ایک لڑکے نے چیخ کر کہا۔
شاہ عبداللہ کا خون کھول رہا تھا وہ کمرے سے نکلے اور بجائے سٹاف روم میں جانے کے کینٹین میں چلے گئے اور کڑک قسم کی چائے لانے کو کہا۔ اب جو خیالات ان کے ذہن کی غلام گردشوں میں گشت کر رہے تھے وہ حقارت اور غضب اور احساس عزت کی شکست و ریخت نے مہیا کیے تھے، انہیں یقین ہو رہا تھا یہ لڑکا کوئی نوعمر عبداللہ بن سبا ہے، حسن بن صباح ہے کمسن شیخ الجبال ہے، یہ اور اس کا باپ دونوں سازشی قرامطی ہیں، انہیں اجاڑنے کے لئے چنگیز خاں بننا ہی پڑے گا۔ معلوم نہیں یہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں اور آئندہ کیا کر گزریں ۔ اب لازم ہے کہ دیہات سے دربار تک ان کا تعاقب کیا جائے پھر گھنٹہ بجا شاہ عبداللہ پھر سے نئے جوش و خروش کے ساتھ اسی کلاس پر چڑھ دوڑے۔ عبداللہ پہلے آئے بعد میں جماعت کے دوسرے استاد آئے تو ان کو عبداللہ نے اپنی جماعت میں جانے کی ہدایت کر دی۔
شاہ عبداللہ نے پہلے جماعت کا جائزہ لیا۔
لڑکوں کے موڈ پر ایک خوشگوار فرحت اور سرخوشی چھائی ہوئی تھی ان کی آنکھوں میں بغاورت کا شرارہ بجھ چکا تھا تاہم انہیں یہ احساس ہو رہا تھا جیسے یہ جماعت من حیثیت المجموع اپنی فتح اور ان کی شکست کا اعلان کر رہی ہے ہر لڑکا سید احمد کی وکالت کے لیے بےکل ہو رہا تھا اور سید احمد، وہ چپ چاپ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا سرخ اور سپید چہرہ دھلا ہوا تھا۔ بالوں پر پانی کے قطرے کہیں کہیں جھلک رہے تھے۔ ناک میں ایک طرف روئی کا پھایا دیا ہوا تھا۔ خون بہنا تو بند ہو گیا تھا۔ سید احمد کے مطمئن چہرے پر سوائے اطمینان اور سکون کے کسی اور احساس کا سراغ لگانا مشکل ہو رہا تھا۔
اس تبدیل شدہ فضا نے عبداللہ کے شکوک کی قوت کو دوچند کر کے انہیں ایک کشمکش سے دوچار کر دیا تھا جو ایک طرف حلم اور نرمی کا تقاضا کر رہی تھی دوسری طرف وہ ابھی سختی اور مار پیٹ کے آوازے پر کان لگائے ہوئے تھے۔ دو چار منٹ میں آدھی چھٹی کی کیفیت رخصت ہو گئی۔ جماعت مطمئن اور خاموش ہو رہی۔ اس وقت کشمکش سے دوچار شاہ عبداللہ نے کہا۔
"سید احمد، کھڑے ہو جاؤ۔"
سید احمد ایسے کھڑا ہو گیا جیسے وہ اس حکم نامے اور عتاب نامے کا ادراک کر چکا تھا اور کھڑا ہونے کے لئے بے چین ہو رہا تھا۔ جیسے اسے اپنی معصومیت کی وکالت کرنی ہے۔
"بتاؤ تم کس قوم کے فرد ہو؟"
"جی، مسلمان قوم سے۔"
"تمہارے والد مسلمان ہیں یا قرامطی؟"
"جی، وہ مسلمان ہیں۔"
"اور قرامطی کون ہے؟"
"جی، مجھے معلوم نہیں قرامطی کیا ہوتا ہے۔"
"یہ تمہیں ابھی پتا چل جائے گا۔ تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آتا ہے؟"
"جی، آتا ہے۔"
"اچھا بتاؤ، نبی آخر الزماں کا اسمِ مبارک کیا ہے؟"
"جی، آپ کا اسم مبارک ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔"
اس کے بعد شاہ عبداللہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آ سکا انہوں نے پھر کہا۔ "نبی آخر الزماں کا اسم مبارک کیا ہے؟"
"جناب، ان کا اسم مبارک ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔"
سید احمد نے درود شریف پڑھتے ہوئے کہا اور پھر سے درود شریف پڑھنے لگا۔
شاہ عبداللہ ممہں حیرت بن گئے انہوں نے جو پورس کے ہاتھی جمع کیے تھے، انہوں نے حریف کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ کے بعد ہی میدان چھوڑ دیا اور پلٹ کر اپنی فوج کو رگید ڈالا شاہ عبداللہ کا چہرہ سیاہ ہو کر بھیانک سا ہو گیا۔ وہ گنگ ہو گئے۔ کجاوہ قسطنطنیہ کو ناقابل تسخیر سمجھے بیٹھے تھے اور کجا قسطنطنیہ مفتوح ہو کر استنبول ہو رہا تھا۔
شاہ عبداللہ اس وقت مفتوح تھے، مفلوج تھے، خاموش تھے، متحیر تھے۔
انہوں نے ایک بار پھر سید احمد کو دیکھا ور پوچھا۔
"سید احمد یہ نام تمہیں پہلے بھی یاد تھا یا بھول گیا تھا؟"
"جی، بہت اچھی طرح یاد تھا۔"
"پھر پہلے تمہیں کیا سانپ سونگھ گیا تھا؟"
"جی، میں اس وقت باوضو نہیں تھا۔"
"کیا مطلب، سید احمد؟"
شاہ عبداللہ نے ایک دم پھٹ کر پوچھا۔
"جی، میں اس وقت بے وضو تھا۔"
"یہ کیا بات ہوئی؟"
"جی، یہ میرے والد کا حکم ہے کہ بیٹا مرتے مر جانا پر کبھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام بے وضو مت لینا۔ الحمدللہ کہ میں نے ایسا ہی کیا۔"
اتنا کہہ کر سید احمد خاموش ہو گیا۔
اور شاہ عبداللہ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

محمداحمد

لائبریرین
اوشو بھائی ۔۔۔۔!

بہت اچھی ٹائپنگ کی ہے چند معمولی ٹائپو ہیں وہ میں نے ٹھیک کر دی ہیں ۔ کچھ اغلاط اصل متن میں بھی لگ رہی ہیں جن کو کچھ تو میں نے اپنی صوابدید کے حساب سے ٹھیک کردی ہیں باقی ویسے ہی رہنے دی ہیں۔
 

اوشو

لائبریرین
اوشو بھائی ۔۔۔۔!

بہت اچھی ٹائپنگ کی ہے چند معمولی ٹائپو ہیں وہ میں نے ٹھیک کر دی ہیں ۔ کچھ اغلاط اصل متن میں بھی لگ رہی ہیں جن کو کچھ تو میں نے اپنی صوابدید کے حساب سے ٹھیک کردی ہیں باقی ویسے ہی رہنے دی ہیں۔
جی مجھے بھی کچھ غلطیاں محسوس ہوئی تھیں جو میں نے اپنے حساب سے درست کر دی تھیں۔ بلکہ کر تا جا رہا ہوں۔ :)
 
Top