محمد خرم یاسین
محفلین
ایک ان سنی آواز۔۔۔!
محمد خرم یاسین
آج سےتیس سال قبل میں ایک بزرگ سے ملا ۔یہ بزرگ" میں" ہی تھا، لیکن میں خود کو پہچان نہ سکا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس وقت اپنی موجودہ عمر سے تیس سال بڑا تھا۔ میری داڑھی کے آدھے بال سفید تھے ، پیشانی پر جھریاں تھیں اور آنکھ کے گرد پھیلتے حلقے ۔ باقی چہرہ میرے ہی جیسا تھا۔ بوڑھے عادل نے مجھے دیکھا اور میں نے اسے، میں اسے پہچان نہ سکالیکن وہ مجھے خوب پہچانتا تھا۔
مجھے دوستوں کے ساتھ باہر جانا تھا ، میں تیزی اور جلدی میں تھا۔ اس نے حیر ت سے گلی کے مکانات پر نظر دوڑاتے ہوئے مجھے گلی کی نکڑ پر روک کر پوچھا کہ کیا یہ وہی محلہ ہے جو اس کے شناختی کارڈ پر پتے میں لکھا ہے ؟
میں نے ہاں میں جواب دیا۔میں نے اس کے نام پر غور نہ کیا۔اس نے پھر پوچھا، کیا یہ گلی اور گھر بھی یہیں ہے؟میں نے تیز لہجے میں طنزاً کہا:" کیا آپ کو پڑھنا نہیں آتا ؟"
اس نے کہا:" ہاں آتا ہے بیٹے !لیکن میں یہ راستہ بھول گیا ہوں۔"
"آپ کو کس سے ملنا ہے ؟"
"مجھے خود سے ملنا ہے" بزرگ نے جوا ب دیا۔
اس دوران میں سیف اللہ سلنسر نکلی بائیک لیے میرے قریب آچکا تھا۔ چلنا ہے یا نہیں ؟
"آیا بس!"میں یہ کہہ کر آگے قدم بڑھانے لگا تھا کہ بزرگ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
"کیامجھے پتہ نہیں بتاؤ گے بیٹے ؟"
میں نے کہا یہ کہتے ہوئے کہ "محلہ تو یہی ہے"، بزرگ کے ہاتھ سے شناختی کارڈ لے لیا۔ یہ شناختی کارڈ کسی دوسری صدی کا لگتا تھا۔ تصویر دیکھ کر میں چونک گیا۔ اس پر میری ہی تصویر تھی، کچھ مختلف لباس کے ساتھ اور مختلف پس منظر کے ساتھ۔میری حیرت کا دور ابھی ختم نہ ہواتھا کہ میں نے پتے پر نظر دوڑائی تو یہ پتہ بھی میرے ہی گھر کا تھا۔ اب مجھے اس بزرگ سے کچھ کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔ یہ عین ممکن تھا کہ میں شناختی کارڈ کہیں دور پھینک کر بھاگ جاتا کہ بزرگ کے چہرے پر نظر دوڑانے پر میری رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔
اے آئی کی کتنی ہی اپبلی کیشنز سے میں اپنے بچپن اور بڑھاپے کی تصاویر بناتا رہا تھا۔ یہ تو میرے بڑھاپے کی تصویر تھی۔۔۔ہو بہو میرے جیسی۔۔۔ میں نے جتنا غور کیا، مجھے خوف محسوس ہوتا رہا۔کیا یہ بزرگ کوئی بہروپیا تھا ؟یا میرے اجداد میں سے کوئی میرا ہم نام ؟میرا ایسا کوئی تایا یا چچا جس کے بارے میں والد صاحب نے کبھی نہ بتایا ہو اور میرا نام اسی کے نام پر رکھا ہو؟ لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ میں شناختی کارڈ ہاتھ میں لیے معلوم نہیں کتنی دیر سوچتا رہا۔۔۔ بزرگ کو کیا جواب دوں؟کیا یہ میرا کوئی بھوت ہے ؟ ہاتھ لگا کر دیکھوں؟ لیکن ابھی تو اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تھااور بھوتوں کے ہاتھ کا بوجھ تو شاید کندھے پر محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ ۔۔۔کتنے ۔۔۔کتنے ہی سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے رہے۔
سیف اللہ کی بائیک کی گھوں گھوں نے مجھے ہوش کی دنیا میں لوٹایا اور میں نے اسے جانے کا اشارہ کیا ۔ وہ سمجھ گیا کہ میں بس آہی رہا ہوں گا۔کیوں کہ آج میں میٹرک میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے کی خوشی میں ، میں سب کو پارٹی دے رہا تھا۔اس معاملے میں ، میں بڑا شاہ خرچ تھا۔ والد صاحب کے حوصلے کو بھی داد دوں گا کہ وہ اپنی چھوٹی سی تنخواہ میں سے میرے سارے لاڈ پیار پورے کر رہے تھے۔ نہ کرتے تو میں بد تمیزی کرسکتا تھا۔انھیں اپنے احباب کے شاہ خرچ والدین کا طعنہ دے سکتا تھا۔ انھیں کہہ سکتا تھا کہ انھوں نے زندگی میں غلط فیصلے لیے ہیں، وہ اسی لیے زندگی میں پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ کہ وہ شاید اس قابل ہی نہ تھے کہ شادی کرتے اور بچے پیدا کرتے۔۔۔ یہ گھر ، شاید بے گھری سے بھی بدتر تھا، یہ زندگی کا انداز، فقیروں کی زندگی سے کم تر تھا اور یہ میرا کھوتی سکول، جس میں ، میں پڑھ رہا تھا،اس سے بہتر تھا کہ کسی چائے کے پھٹےیا پھر نان دلیم کی ریڑھی پر کام کرکے اپنا پیٹ پا ل لوں۔میں ان میں سے کوئی نہ کوئی بات کہہ بھی دیتا تھا۔ میرے لیے میرا وجود سب سے قیمتی تھااور ابا جی سے پیسے نکلوانے کا اس سے اچھا حربہ اور کوئی تھا ہی نہیں۔
میں نے بچپن ہی میں یہ سیکھ لیا تھا کہ والدہ کے لڑنے جھگڑنے کے باوجود وہ گھر کا خرچ والدہ کونہ دیتے تھے لیکن والدہ یا کسی بچے کی طبیعت خراب ہوتی تو اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے،خوب خاطر مدارت ہوتی۔ میں یا تو پیٹ در د ایسا کوئی آسان بہانہ کرلیتا تھا جو پکڑا نہ جائے یا پھر جان بوجھ کر دوست احباب کے والدین اور ان کے اپنے خرچوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی نہ کسی بہانے رونے دھونے لگتا۔ ایک دو دن میں یا زیادہ سے زیادہ دو تین ہفتوں میں وہ چیز مجھے کسی نہ کسی طرح لا کر دے دی جاتی۔۔۔تو میرے لیے زندگی آسان ہوگئی تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس پس منظر میں کس کس کی زندگی مشکل ہوئی ہوگی۔ مجھے خود سے غرض تھی اور تھی تو تھی!
"یہ تو میرے گھر کا پتہ ہے اور آپ کو کس سے ملنا ہے؟" میں نے قدرے سختی سے پوچھا۔
"مجھے عادل سے ملنا ہےاور اس کے گھر تک جانا ہے۔"
"میں ہی عادل ہوں۔ کیا کہنا ہے ؟"
"کیا گھر بیٹھ کر کچھ دیر بات ہوسکتی ہے؟میں بس گھر کودیکھنا چاہتا ہوں۔وہاں پھر سے اپنی موجودگی محسوس کرنا چاہتا ہوں۔سبھی مکینوں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ ان کی معصومیت اور بچپن ۔۔۔"
"جی نہیں، آپ گھر نہیں دیکھ سکتے ، آپ ہیں کون ؟؟؟"
میں نے کچھ غصے اور ناراضی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا ۔
" میں عادل ہوں۔ میں نے بتایا بیٹے!"
"میں نہیں مانتا۔۔۔اچھا ہوں گے ۔ عادل تو میں ہوں۔۔۔اچھا آپ بھی ہوں گے۔لیکن میرے گھر سے آپ کو کیا کام ہے ؟"
"میں تمھارے والد کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔بس ایک بار ، مجھے اپنے گھر تک لے جاؤ گے ؟"
"میرے والد آپ کے کیا لگتے ہیں؟"
"وہ میرے بھی والد ہیں "
"کیا؟؟؟؟؟ یہ کیا بکوا س ہے۔میں آپ کی عزت کر رہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جو چاہیں کہتے چلے جائیں۔" مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ مجھے اپنے غصے پر قابو نہیں رہاتھا۔
"اور آپ نے اپنی عمر دیکھی ہے؟"
میری بلند آواز سے محلے کے ارد گرد جاتے چند لوگ میرے قریب آنے لگے تھے۔ ایک بزرگ نے مجھے گھور کر دیکھا بھی۔ میں نے بھی گھو رکر دیکھا تو انھوں نے نظریں جھکالیں اور اپنی راہ چل دیے۔ ان کو تو ویسے بھی مجھ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ان کے گھر جب بھی گیند گئی، منتیں کیں، انھوں نے کبھی واپس نہ کی۔ انھیں لگتا تھا کہ گیند کے ذریعے ہم ان کی جوان بیگم کو دیکھنا یا چھیڑنا چاہتے تھے۔ حالانکہ وہ ہمیں بچوں کی طرح سمجھتی تھی اور ہم اسے بزرگ کی طرح۔ یہ بات الگ ہے کہ ہم میں سے چند "حرامی" بچوں کے دیکھنے کا زاویہ بالکل قابلِ اعتراض تھا۔
"میں ثابت کرسکتا ہوں کہ وہ میرے بھی والد ہیں۔ میں بس ایک جھلک دیکھنا چاہتا ہوں۔بس ایک جھلک۔"بزرگ کی آنکھ میں نمی تیرنے لگی۔
"کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ؟"
ان کی آنکھ میں نمی دیکھ کر مجھے بڑی طمانیت کا احساس ہوا تھا۔ یہ میرے لیے عموماً جیت کا لمحہ ہوتا تھا۔اب میں مذاق کے موڈ میں تھا۔
بزرگ نے نم آلود آنکھوں سے میرے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے شناختی کارڈ آگے کردیا۔ آنسو ان کی گال پہ بہنے لگے تھے۔
"یہ میں دیکھ چکا ہوں۔ آپ نجانے کون ہیں اور میرے نام کا شناختی کارڈ کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ میں اپنے گھر نہیں لے جاسکتا۔ جس کو بھی معلوم ہوا کہ میرے والد کی عمر کا ان کا ایک بیٹا بھی ہے، سب مجھی پر ہنسیں گے۔ویسے آپ کو محض والد محترم ہی سے کام ہے ؟کیا کام ہے؟"
"بس انھیں ایک بار دیکھنا چاہتا ہوں، چھونا چاہتا ہوں، ان کی موجودگی محسو س کرنا چاہتا ہوں، پاؤں کو آنکھوں سے لگا کر رونا چاہتا ہوں۔معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ " بات کرتے ہوئے ان کی آواز رندھ گئی تھی اور ایسا محسوس ہوا تھا کوسوں دور سے آرہی ہو۔بلکہ شاید کسی مردے کی آواز ہو جو زندگی چاہتا ہو۔ میرے والد سے یہ کون ہے جو ملاقات کے لیے اتنا بے تاب ہے؟ میرے ذہن میں ایک اور سوال نے جنم لیا۔ میں جلد باز تو بلا کا تھا۔ فوراً پوچھ لیا۔
"کونسا دل کا بوجھ اور کونسی معافی ؟اور اگر آپ ان کے بیٹے ہیں تو والد ہی سے کیوں؟ کیا والدہ سے نہیں مانگیں گے معافی ؟"
"بس اپنی ساری کمی کوتاہیوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔ ان غلطیوں کی جن کی وجہ سے وہ ہارٹ اٹیک سے گزرے اور ان کی بھی جن کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار رہے۔جن کی وجہ سے وہ۔۔۔اور والدہ سے بھی مانگوں گا ، ان سے ملوں گا بھی لیکن ابھی اس کے لیے وقت موجود ہے۔"
بزرگ کے آدھےادھورے جملوں نے مجھے سخت شش و پنج میں مبتلا کر دیا تھا۔ میرے دل میں شک کا بیج تو پہلے ہی موجود تھا کہ وہ کوئی بہروپیا قسم کا انسان ہے اور شاید گھر میں گھس کر لوٹنا چاہتا ہے یا پھرخود کو ان کی اولاد بتا کر کوئی نیا تماشا کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ کیا والد کے تماشے کے لیے میں خود کم تھا۔ہاں یہ ضرور تھا کہ جس رات میں نے والدین کے جھگڑے میں والدہ کا ساتھ دیا تھا اور ان کے مقابل کھڑا ہوگیا تھا،وہ دل کی تکلیف سے گزرے تھے۔ہسپتال بھی گئے تھے لیکن ہارٹ اٹیک ؟نہیں مجھے درست معلوم نہیں کہ وہ واقعتاً ہوا بھی تھا یا نہیں ۔ ہوا ہوتا تو یقینا ً مجھے معلوم ہوتا۔
"اچھا یہ واقعتاً آپ کا شناختی کارڈ ہے اور اس پر لکھا پتہ ، آپ ہی کا ہے تو آپ خود گھر کیوں نہیں چلے جاتے اور کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے گھر کا پتہ بھول جائے؟"
"ان سوالوں کے جواب کے لیے وقت کم ہے۔۔۔ لیکن میں یہاں بیس سال بعد آیا ہوں۔میں پتہ بھول چکا ہوں۔ یہاں بہت کچھ نیا ہے ۔ یہاں چچا مانے کی دکان ہوا کرتی تھی۔ یہ نکڑ والا گھر احمد کے والد کا تھا۔ ساتھ والا خالد کا تھا۔ اب یہاں ان میں سے کوئی گھر نظر نہیں آرہا۔شاید ان سب نے نیا بنالیا ہے۔ باہر مارکیٹ نئی بن چکی ہے۔کئی سڑکیں یہاں نئی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میرا گھر اب پہلے والا ہی ہوگا یا نیا ہے۔ میں کس کس کے گھر پر دستک دے کر اپنے والد کو ڈھونڈوں گا؟"
"عجیب بات ہے ۔ یعنی آپ بیس سال گھر سے دور رہ کر واپس آئے ہیں ؟ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟یہ نا ممکن ہے۔ یہ کہانی کسی اورکو جا کر سنائیے گا۔"
میری بات کے دوران ہی بزرگ کے چہرے سے آنسو بہنے لگے تھے۔انھوں نے مجھے کچھ نہ کہا، میری آنکھوں میں غور سے دیکھا اور کہا :
"عادل ! ۔۔۔ کیا تمھارے پاؤں پر چوٹ کا نشان باقی ہے جو گھٹنے کے قریب لگی تھی اور دائیں بازو کے اندرونی حصے پر وہ گہرا کٹ جس پر پانچ ٹانکے لگے تھے ؟"
یہ دونوں نشانات میرے جسم پر موجود تھےلیکن میں نے چونک کر شلوار کو گھٹنے تک اٹھایا اور ڈر کے بازو کو کھینچ کر دیکھا، دونوں نشانات موجود تھے۔ اب مجھے غصہ آنے لگا تھا۔
"یہ سب آپ کو میرے والد نے بتایا ہوگا یا کسی اور نے تاکہ میں آپ کی باتوں میں آجاؤں اور آپ پھر میرے گھر تک چلے جائیں ؟میں جا رہا ہوں یہاں سے۔۔۔"میں تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ بزرگ نے میرا راستہ روک کے مجھے دائیں پاؤں کی شلوار کو گھٹنے تک اٹھا دیا۔ یہ تو میرا ہی زخم تھا، میں بھونچکایا۔پھر انھوں نے بازوپر سے قمیض کو پیچھے کھینچا ، وہاں بھی میرا ہی زخم موجود تھا۔میں پھر سے شدید حیرت میں مبتلا ہوگیا۔۔۔
"آخر کون ہیں آپ؟؟؟ چاہتے کیا ہیں؟اور میرا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں؟"میں نے جھنجلاتے ہوئے جان چھڑانے کے لیے پوچھا۔میں عجیب مخمصے میں پھنسا تھا۔گہرا تجسس اور بزرگ کی باتوں پر ادھوری بے یقینی نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ ہر چیز ،نام سے زخموں کے نشان تک میرا ہی تھا۔میرے دوست میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے ہرصورت پارٹی میں جانا تھا۔ چھوٹے سے ہوٹل میں میں نے انتظام کیاتھا۔کل پہلی بار والدہ نے میرا ساتھ نہیں دیا تھا اور والد سے پیسے مانگنے سے منع کیا تھا۔ ان کے بقول والد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور اس مطالبے کےلیے انھیں زیادہ کام کرنا پڑا تھا اور کچھ رقم ادھار بھی لینی پڑی تھی۔ خدا کسی دشمن کو بھی ایسی غریبی نہ دکھائے جیسی ہمارے گھر میں تھی۔ آٹھ دس ہزار کے لیے بھی اضافی کام اور ادھار کی نوبت آجاتی تھی۔ اب اگر میں پارٹی میں نہ پہنچتا تو میرا مذاق بننا تھا اور میرے لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ کوئی مجھے کم تر یا کم حیثیت کا مالک سمجھے۔بزرگ کے جوابات سادہ لیکن دماغ کو چکرا دینے والے تھے"میں عادل ہوں، میں عادل ہوں میں عادل ہوں"۔بھاڑ میں جائے یہ عادل اور اس کی معافیاں۔ میں نے دل پکا کرکے چلنے کا ارادہ کیا۔ بزرگ نے آخری مرتبہ مجھے مخاطب کیا:
"عادل ! مجھے ساتھ نہیں لے جاؤ گے ؟وقت کم ہے؟کیا گھر کا پتہ تک نہیں بتاؤ گے؟"بزرگ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
"میری آخری بات سنتے جاؤ عادل۔۔۔!" بزرگ کے چہرے پہ آنسوؤں کی مالا اور آواز میں شدید جھنجلاہٹ تھی۔
میں کوئی جواب دیے بنا تیزی سے وہاں سے روانہ ہوگیااور دوستوں کی پارٹی میں اس بزرگ کی باتوں کو، جس نے مجھے کافی دیر پریشان رکھا تھا، بھول گیا۔
واپسی پر مجھے سیف اللہ ہی نے گھر چھوڑا، ہماری گلی میں گھر کے سامنے نہ جانے کیوں ٹینٹ لگے تھے اور خواتین کے بین کی آوازیں آرہی تھیں۔ گلی میں داخل ہوتے ہی محلے کے کچھ بزرگوں نے مجھے گلے لگالیا، دائیں جانب دیکھا تو کچھ زاروقطار روتے بھائی کو گلے سے لگا ئے کھڑے تھے۔
والدہ کی آواز خاصی بلند تھی۔"ہائے میں لٹ گئی۔۔۔میں اکیلی رہ گئی!"
محمد خرم یاسین
آج سےتیس سال قبل میں ایک بزرگ سے ملا ۔یہ بزرگ" میں" ہی تھا، لیکن میں خود کو پہچان نہ سکا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس وقت اپنی موجودہ عمر سے تیس سال بڑا تھا۔ میری داڑھی کے آدھے بال سفید تھے ، پیشانی پر جھریاں تھیں اور آنکھ کے گرد پھیلتے حلقے ۔ باقی چہرہ میرے ہی جیسا تھا۔ بوڑھے عادل نے مجھے دیکھا اور میں نے اسے، میں اسے پہچان نہ سکالیکن وہ مجھے خوب پہچانتا تھا۔
مجھے دوستوں کے ساتھ باہر جانا تھا ، میں تیزی اور جلدی میں تھا۔ اس نے حیر ت سے گلی کے مکانات پر نظر دوڑاتے ہوئے مجھے گلی کی نکڑ پر روک کر پوچھا کہ کیا یہ وہی محلہ ہے جو اس کے شناختی کارڈ پر پتے میں لکھا ہے ؟
میں نے ہاں میں جواب دیا۔میں نے اس کے نام پر غور نہ کیا۔اس نے پھر پوچھا، کیا یہ گلی اور گھر بھی یہیں ہے؟میں نے تیز لہجے میں طنزاً کہا:" کیا آپ کو پڑھنا نہیں آتا ؟"
اس نے کہا:" ہاں آتا ہے بیٹے !لیکن میں یہ راستہ بھول گیا ہوں۔"
"آپ کو کس سے ملنا ہے ؟"
"مجھے خود سے ملنا ہے" بزرگ نے جوا ب دیا۔
اس دوران میں سیف اللہ سلنسر نکلی بائیک لیے میرے قریب آچکا تھا۔ چلنا ہے یا نہیں ؟
"آیا بس!"میں یہ کہہ کر آگے قدم بڑھانے لگا تھا کہ بزرگ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
"کیامجھے پتہ نہیں بتاؤ گے بیٹے ؟"
میں نے کہا یہ کہتے ہوئے کہ "محلہ تو یہی ہے"، بزرگ کے ہاتھ سے شناختی کارڈ لے لیا۔ یہ شناختی کارڈ کسی دوسری صدی کا لگتا تھا۔ تصویر دیکھ کر میں چونک گیا۔ اس پر میری ہی تصویر تھی، کچھ مختلف لباس کے ساتھ اور مختلف پس منظر کے ساتھ۔میری حیرت کا دور ابھی ختم نہ ہواتھا کہ میں نے پتے پر نظر دوڑائی تو یہ پتہ بھی میرے ہی گھر کا تھا۔ اب مجھے اس بزرگ سے کچھ کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔ یہ عین ممکن تھا کہ میں شناختی کارڈ کہیں دور پھینک کر بھاگ جاتا کہ بزرگ کے چہرے پر نظر دوڑانے پر میری رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔
اے آئی کی کتنی ہی اپبلی کیشنز سے میں اپنے بچپن اور بڑھاپے کی تصاویر بناتا رہا تھا۔ یہ تو میرے بڑھاپے کی تصویر تھی۔۔۔ہو بہو میرے جیسی۔۔۔ میں نے جتنا غور کیا، مجھے خوف محسوس ہوتا رہا۔کیا یہ بزرگ کوئی بہروپیا تھا ؟یا میرے اجداد میں سے کوئی میرا ہم نام ؟میرا ایسا کوئی تایا یا چچا جس کے بارے میں والد صاحب نے کبھی نہ بتایا ہو اور میرا نام اسی کے نام پر رکھا ہو؟ لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ میں شناختی کارڈ ہاتھ میں لیے معلوم نہیں کتنی دیر سوچتا رہا۔۔۔ بزرگ کو کیا جواب دوں؟کیا یہ میرا کوئی بھوت ہے ؟ ہاتھ لگا کر دیکھوں؟ لیکن ابھی تو اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تھااور بھوتوں کے ہاتھ کا بوجھ تو شاید کندھے پر محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ ۔۔۔کتنے ۔۔۔کتنے ہی سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے رہے۔
سیف اللہ کی بائیک کی گھوں گھوں نے مجھے ہوش کی دنیا میں لوٹایا اور میں نے اسے جانے کا اشارہ کیا ۔ وہ سمجھ گیا کہ میں بس آہی رہا ہوں گا۔کیوں کہ آج میں میٹرک میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے کی خوشی میں ، میں سب کو پارٹی دے رہا تھا۔اس معاملے میں ، میں بڑا شاہ خرچ تھا۔ والد صاحب کے حوصلے کو بھی داد دوں گا کہ وہ اپنی چھوٹی سی تنخواہ میں سے میرے سارے لاڈ پیار پورے کر رہے تھے۔ نہ کرتے تو میں بد تمیزی کرسکتا تھا۔انھیں اپنے احباب کے شاہ خرچ والدین کا طعنہ دے سکتا تھا۔ انھیں کہہ سکتا تھا کہ انھوں نے زندگی میں غلط فیصلے لیے ہیں، وہ اسی لیے زندگی میں پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ کہ وہ شاید اس قابل ہی نہ تھے کہ شادی کرتے اور بچے پیدا کرتے۔۔۔ یہ گھر ، شاید بے گھری سے بھی بدتر تھا، یہ زندگی کا انداز، فقیروں کی زندگی سے کم تر تھا اور یہ میرا کھوتی سکول، جس میں ، میں پڑھ رہا تھا،اس سے بہتر تھا کہ کسی چائے کے پھٹےیا پھر نان دلیم کی ریڑھی پر کام کرکے اپنا پیٹ پا ل لوں۔میں ان میں سے کوئی نہ کوئی بات کہہ بھی دیتا تھا۔ میرے لیے میرا وجود سب سے قیمتی تھااور ابا جی سے پیسے نکلوانے کا اس سے اچھا حربہ اور کوئی تھا ہی نہیں۔
میں نے بچپن ہی میں یہ سیکھ لیا تھا کہ والدہ کے لڑنے جھگڑنے کے باوجود وہ گھر کا خرچ والدہ کونہ دیتے تھے لیکن والدہ یا کسی بچے کی طبیعت خراب ہوتی تو اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے،خوب خاطر مدارت ہوتی۔ میں یا تو پیٹ در د ایسا کوئی آسان بہانہ کرلیتا تھا جو پکڑا نہ جائے یا پھر جان بوجھ کر دوست احباب کے والدین اور ان کے اپنے خرچوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی نہ کسی بہانے رونے دھونے لگتا۔ ایک دو دن میں یا زیادہ سے زیادہ دو تین ہفتوں میں وہ چیز مجھے کسی نہ کسی طرح لا کر دے دی جاتی۔۔۔تو میرے لیے زندگی آسان ہوگئی تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس پس منظر میں کس کس کی زندگی مشکل ہوئی ہوگی۔ مجھے خود سے غرض تھی اور تھی تو تھی!
"یہ تو میرے گھر کا پتہ ہے اور آپ کو کس سے ملنا ہے؟" میں نے قدرے سختی سے پوچھا۔
"مجھے عادل سے ملنا ہےاور اس کے گھر تک جانا ہے۔"
"میں ہی عادل ہوں۔ کیا کہنا ہے ؟"
"کیا گھر بیٹھ کر کچھ دیر بات ہوسکتی ہے؟میں بس گھر کودیکھنا چاہتا ہوں۔وہاں پھر سے اپنی موجودگی محسوس کرنا چاہتا ہوں۔سبھی مکینوں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ ان کی معصومیت اور بچپن ۔۔۔"
"جی نہیں، آپ گھر نہیں دیکھ سکتے ، آپ ہیں کون ؟؟؟"
میں نے کچھ غصے اور ناراضی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا ۔
" میں عادل ہوں۔ میں نے بتایا بیٹے!"
"میں نہیں مانتا۔۔۔اچھا ہوں گے ۔ عادل تو میں ہوں۔۔۔اچھا آپ بھی ہوں گے۔لیکن میرے گھر سے آپ کو کیا کام ہے ؟"
"میں تمھارے والد کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔بس ایک بار ، مجھے اپنے گھر تک لے جاؤ گے ؟"
"میرے والد آپ کے کیا لگتے ہیں؟"
"وہ میرے بھی والد ہیں "
"کیا؟؟؟؟؟ یہ کیا بکوا س ہے۔میں آپ کی عزت کر رہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جو چاہیں کہتے چلے جائیں۔" مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ مجھے اپنے غصے پر قابو نہیں رہاتھا۔
"اور آپ نے اپنی عمر دیکھی ہے؟"
میری بلند آواز سے محلے کے ارد گرد جاتے چند لوگ میرے قریب آنے لگے تھے۔ ایک بزرگ نے مجھے گھور کر دیکھا بھی۔ میں نے بھی گھو رکر دیکھا تو انھوں نے نظریں جھکالیں اور اپنی راہ چل دیے۔ ان کو تو ویسے بھی مجھ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ان کے گھر جب بھی گیند گئی، منتیں کیں، انھوں نے کبھی واپس نہ کی۔ انھیں لگتا تھا کہ گیند کے ذریعے ہم ان کی جوان بیگم کو دیکھنا یا چھیڑنا چاہتے تھے۔ حالانکہ وہ ہمیں بچوں کی طرح سمجھتی تھی اور ہم اسے بزرگ کی طرح۔ یہ بات الگ ہے کہ ہم میں سے چند "حرامی" بچوں کے دیکھنے کا زاویہ بالکل قابلِ اعتراض تھا۔
"میں ثابت کرسکتا ہوں کہ وہ میرے بھی والد ہیں۔ میں بس ایک جھلک دیکھنا چاہتا ہوں۔بس ایک جھلک۔"بزرگ کی آنکھ میں نمی تیرنے لگی۔
"کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ؟"
ان کی آنکھ میں نمی دیکھ کر مجھے بڑی طمانیت کا احساس ہوا تھا۔ یہ میرے لیے عموماً جیت کا لمحہ ہوتا تھا۔اب میں مذاق کے موڈ میں تھا۔
بزرگ نے نم آلود آنکھوں سے میرے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے شناختی کارڈ آگے کردیا۔ آنسو ان کی گال پہ بہنے لگے تھے۔
"یہ میں دیکھ چکا ہوں۔ آپ نجانے کون ہیں اور میرے نام کا شناختی کارڈ کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ میں اپنے گھر نہیں لے جاسکتا۔ جس کو بھی معلوم ہوا کہ میرے والد کی عمر کا ان کا ایک بیٹا بھی ہے، سب مجھی پر ہنسیں گے۔ویسے آپ کو محض والد محترم ہی سے کام ہے ؟کیا کام ہے؟"
"بس انھیں ایک بار دیکھنا چاہتا ہوں، چھونا چاہتا ہوں، ان کی موجودگی محسو س کرنا چاہتا ہوں، پاؤں کو آنکھوں سے لگا کر رونا چاہتا ہوں۔معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ " بات کرتے ہوئے ان کی آواز رندھ گئی تھی اور ایسا محسوس ہوا تھا کوسوں دور سے آرہی ہو۔بلکہ شاید کسی مردے کی آواز ہو جو زندگی چاہتا ہو۔ میرے والد سے یہ کون ہے جو ملاقات کے لیے اتنا بے تاب ہے؟ میرے ذہن میں ایک اور سوال نے جنم لیا۔ میں جلد باز تو بلا کا تھا۔ فوراً پوچھ لیا۔
"کونسا دل کا بوجھ اور کونسی معافی ؟اور اگر آپ ان کے بیٹے ہیں تو والد ہی سے کیوں؟ کیا والدہ سے نہیں مانگیں گے معافی ؟"
"بس اپنی ساری کمی کوتاہیوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔ ان غلطیوں کی جن کی وجہ سے وہ ہارٹ اٹیک سے گزرے اور ان کی بھی جن کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار رہے۔جن کی وجہ سے وہ۔۔۔اور والدہ سے بھی مانگوں گا ، ان سے ملوں گا بھی لیکن ابھی اس کے لیے وقت موجود ہے۔"
بزرگ کے آدھےادھورے جملوں نے مجھے سخت شش و پنج میں مبتلا کر دیا تھا۔ میرے دل میں شک کا بیج تو پہلے ہی موجود تھا کہ وہ کوئی بہروپیا قسم کا انسان ہے اور شاید گھر میں گھس کر لوٹنا چاہتا ہے یا پھرخود کو ان کی اولاد بتا کر کوئی نیا تماشا کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ کیا والد کے تماشے کے لیے میں خود کم تھا۔ہاں یہ ضرور تھا کہ جس رات میں نے والدین کے جھگڑے میں والدہ کا ساتھ دیا تھا اور ان کے مقابل کھڑا ہوگیا تھا،وہ دل کی تکلیف سے گزرے تھے۔ہسپتال بھی گئے تھے لیکن ہارٹ اٹیک ؟نہیں مجھے درست معلوم نہیں کہ وہ واقعتاً ہوا بھی تھا یا نہیں ۔ ہوا ہوتا تو یقینا ً مجھے معلوم ہوتا۔
"اچھا یہ واقعتاً آپ کا شناختی کارڈ ہے اور اس پر لکھا پتہ ، آپ ہی کا ہے تو آپ خود گھر کیوں نہیں چلے جاتے اور کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے گھر کا پتہ بھول جائے؟"
"ان سوالوں کے جواب کے لیے وقت کم ہے۔۔۔ لیکن میں یہاں بیس سال بعد آیا ہوں۔میں پتہ بھول چکا ہوں۔ یہاں بہت کچھ نیا ہے ۔ یہاں چچا مانے کی دکان ہوا کرتی تھی۔ یہ نکڑ والا گھر احمد کے والد کا تھا۔ ساتھ والا خالد کا تھا۔ اب یہاں ان میں سے کوئی گھر نظر نہیں آرہا۔شاید ان سب نے نیا بنالیا ہے۔ باہر مارکیٹ نئی بن چکی ہے۔کئی سڑکیں یہاں نئی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میرا گھر اب پہلے والا ہی ہوگا یا نیا ہے۔ میں کس کس کے گھر پر دستک دے کر اپنے والد کو ڈھونڈوں گا؟"
"عجیب بات ہے ۔ یعنی آپ بیس سال گھر سے دور رہ کر واپس آئے ہیں ؟ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟یہ نا ممکن ہے۔ یہ کہانی کسی اورکو جا کر سنائیے گا۔"
میری بات کے دوران ہی بزرگ کے چہرے سے آنسو بہنے لگے تھے۔انھوں نے مجھے کچھ نہ کہا، میری آنکھوں میں غور سے دیکھا اور کہا :
"عادل ! ۔۔۔ کیا تمھارے پاؤں پر چوٹ کا نشان باقی ہے جو گھٹنے کے قریب لگی تھی اور دائیں بازو کے اندرونی حصے پر وہ گہرا کٹ جس پر پانچ ٹانکے لگے تھے ؟"
یہ دونوں نشانات میرے جسم پر موجود تھےلیکن میں نے چونک کر شلوار کو گھٹنے تک اٹھایا اور ڈر کے بازو کو کھینچ کر دیکھا، دونوں نشانات موجود تھے۔ اب مجھے غصہ آنے لگا تھا۔
"یہ سب آپ کو میرے والد نے بتایا ہوگا یا کسی اور نے تاکہ میں آپ کی باتوں میں آجاؤں اور آپ پھر میرے گھر تک چلے جائیں ؟میں جا رہا ہوں یہاں سے۔۔۔"میں تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ بزرگ نے میرا راستہ روک کے مجھے دائیں پاؤں کی شلوار کو گھٹنے تک اٹھا دیا۔ یہ تو میرا ہی زخم تھا، میں بھونچکایا۔پھر انھوں نے بازوپر سے قمیض کو پیچھے کھینچا ، وہاں بھی میرا ہی زخم موجود تھا۔میں پھر سے شدید حیرت میں مبتلا ہوگیا۔۔۔
"آخر کون ہیں آپ؟؟؟ چاہتے کیا ہیں؟اور میرا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں؟"میں نے جھنجلاتے ہوئے جان چھڑانے کے لیے پوچھا۔میں عجیب مخمصے میں پھنسا تھا۔گہرا تجسس اور بزرگ کی باتوں پر ادھوری بے یقینی نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ ہر چیز ،نام سے زخموں کے نشان تک میرا ہی تھا۔میرے دوست میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے ہرصورت پارٹی میں جانا تھا۔ چھوٹے سے ہوٹل میں میں نے انتظام کیاتھا۔کل پہلی بار والدہ نے میرا ساتھ نہیں دیا تھا اور والد سے پیسے مانگنے سے منع کیا تھا۔ ان کے بقول والد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور اس مطالبے کےلیے انھیں زیادہ کام کرنا پڑا تھا اور کچھ رقم ادھار بھی لینی پڑی تھی۔ خدا کسی دشمن کو بھی ایسی غریبی نہ دکھائے جیسی ہمارے گھر میں تھی۔ آٹھ دس ہزار کے لیے بھی اضافی کام اور ادھار کی نوبت آجاتی تھی۔ اب اگر میں پارٹی میں نہ پہنچتا تو میرا مذاق بننا تھا اور میرے لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ کوئی مجھے کم تر یا کم حیثیت کا مالک سمجھے۔بزرگ کے جوابات سادہ لیکن دماغ کو چکرا دینے والے تھے"میں عادل ہوں، میں عادل ہوں میں عادل ہوں"۔بھاڑ میں جائے یہ عادل اور اس کی معافیاں۔ میں نے دل پکا کرکے چلنے کا ارادہ کیا۔ بزرگ نے آخری مرتبہ مجھے مخاطب کیا:
"عادل ! مجھے ساتھ نہیں لے جاؤ گے ؟وقت کم ہے؟کیا گھر کا پتہ تک نہیں بتاؤ گے؟"بزرگ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
"میری آخری بات سنتے جاؤ عادل۔۔۔!" بزرگ کے چہرے پہ آنسوؤں کی مالا اور آواز میں شدید جھنجلاہٹ تھی۔
میں کوئی جواب دیے بنا تیزی سے وہاں سے روانہ ہوگیااور دوستوں کی پارٹی میں اس بزرگ کی باتوں کو، جس نے مجھے کافی دیر پریشان رکھا تھا، بھول گیا۔
واپسی پر مجھے سیف اللہ ہی نے گھر چھوڑا، ہماری گلی میں گھر کے سامنے نہ جانے کیوں ٹینٹ لگے تھے اور خواتین کے بین کی آوازیں آرہی تھیں۔ گلی میں داخل ہوتے ہی محلے کے کچھ بزرگوں نے مجھے گلے لگالیا، دائیں جانب دیکھا تو کچھ زاروقطار روتے بھائی کو گلے سے لگا ئے کھڑے تھے۔
والدہ کی آواز خاصی بلند تھی۔"ہائے میں لٹ گئی۔۔۔میں اکیلی رہ گئی!"