32 برس سے زیادہ عرصہ تک عرب جمہوریہ یمن کی صدارت پر متمکن رہنے والے علی عبداللہ صالح ملک میں جاری افراتفری کے دوران اپنا ملک چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے ہیں۔ ان کے اچانک ملک سے چلے جانے کے بعد متحارب گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لئیے رسہ کشی شروع ہو سکتی ہے اور ملک مزید انارکی پھیل سکتی ہے۔ یمن میں قبائلی نظام بہت طاقتور ہے اور 1942 میں ایک زرعی قصبے بیت الاحمر میں پیدا ہونے والے علی عبداللہ صالح نے خود بھی اپنے فوجی کیرئیر کا آغاز ایک پرائیویٹ قبائلی آرمی میں شمولیت سے کیا تھا اور پھر سرکاری فوج میں شامل ہو کر بریگیڈئیر جنرل کے عہدے پر پہنچے۔ 1978 میں شمالی یمن کے صدر بنے اور یمن کے دوبارہ اتحاد کے بعد 1990 میں صدارتی کونسل کے چئیرمین بنے۔
اگرچہ یمن کے دونوں حصوں کو یکجا کرنے کی کامیاب کوشش ان کے سیاسی کیرئیر کی بھی اہم کامیابی ہے لیکن یمن میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور امریکہ کی طرف ان کے حد درجہ جھکاؤ کی وجہ سے یمنی عوام میں ان کی مقبولیت کم ہوتی گئی اور ماضی قریب میں ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لئیے خون ریز مظاہرے شروع ہوئے جو شدید ہوتے گئے اور حالات قابو سے باہر ہو گئے جس کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح سعودی عرب فرار ہو گئے۔ یمن سے ان کے فرار کے بعد جہاں جشن کا سماں ہے وہیں ان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان جھڑپیں بھی شروع ہو گئی ہیں اور اب تک طرفین کے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
اگرچہ یمن کے دونوں حصوں کو یکجا کرنے کی کامیاب کوشش ان کے سیاسی کیرئیر کی بھی اہم کامیابی ہے لیکن یمن میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور امریکہ کی طرف ان کے حد درجہ جھکاؤ کی وجہ سے یمنی عوام میں ان کی مقبولیت کم ہوتی گئی اور ماضی قریب میں ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لئیے خون ریز مظاہرے شروع ہوئے جو شدید ہوتے گئے اور حالات قابو سے باہر ہو گئے جس کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح سعودی عرب فرار ہو گئے۔ یمن سے ان کے فرار کے بعد جہاں جشن کا سماں ہے وہیں ان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان جھڑپیں بھی شروع ہو گئی ہیں اور اب تک طرفین کے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔