زہے وہ نفس جو محروم تمنا ٹھہرے
دل میں بےگور سی خواہش کی صلیبیں ٹانگے
ہر وہ خواہش کہ جو بےنام و نسب دل میں بسیخود پہ ہی نوحہ کناں چپ کی گواہی مانگے
ہم پہ برسی ہے اس بے نام کرم کی بارش
جس کی ہر بوند سے جلتا ہے خواہش کا بدن
جس کی ہر آنچ سے قربت کی حلاوت بھڑکی
جس کی حدت سے سلگتا رہا عادت کا چلن