کبھی کبھی کچھ ملاقاتیں ساری زندگی یاد رہنے والی بن جاتی ایسی ہی ایک ملاقات میری واصف عزیز حمیری سے بھی تھی جو کل کے واقع کے بعد ساری ذندگی یاد آتی رہیگی،،
کچھ عرصہ قبل جب میں اپنے ایک دوست سے ملنے کراچی میں پرنٹنگ کی ایک بڑی مارکیٹ پاکستان چوک پر اسکی دکان پر گیا تو وہاں ایک نوجوان پہلے سے موجود تھا میرے دوست نے میرا تعارف واصف عزیز سے جمیعت کے رہنما کے طور پر کرایا وہ وہاں اسلامی جمیعت طالبات کی ڈائری ڈیزائن کرانے آئے تھے ( ان کی بہن غالباً اس کی رکن ہیں ) وہ اپنے تجویز کردہ ڈیزائن کو بنوانے پر مصر تھے میرا دوست اپنے تخلیق کردہ ڈیزائن کو بہتر پاتا تھا اس بحث کے دوران کئی بار محفل کشت زعفران ہوئی اور میں نے پایا کہ وہ ایک نہایت سادہ باذوق اور شریف آدمی ہیں ہمارے ہاں اسٹوڈنٹ لیڈر معروف بدتمیز ہوتے ہیں لیکن اس شخص کی زبان کبھی عوامی نہیں ہوئی۔
اس ایک ملاقات میں ان سے بہت متاثر ہوا مگر آج جب میں اس کی تصویر کو کفن میں لپٹا دیکھتا ہوں تو اس وقت سے بھی زیادہ متاثر ہوتا ہوں۔
سوچتا ہوں کہ ان قاتلوں کے سینوں میں دل ہے کی نہیں، کیا وہ کسی طور انسان کہلانے کہ قابل ہیں، اور ان کو ووٹ دینے والوں کو کیا نام دوں،کیا ایم کیو ایم کی پیدائیش سے لیکر اب تک اس کے مظالم سہنے والے جمعیت کے کارکن ہمیشہ پر امن رہیں گے ؟؟؟ یا کبھی ان کا پیمانہ بھی لبریز ہوگا۔
ان قاتلوں کو سوچنا چاہیے کہ ظلم سہنے والے بھی ان جیسے انسان ہوتے ہیں، اگر وہ بھی ان کی سطح تک اتر آئیں تو کیا ہوگا کیونکہ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
سرخی جو افق پر چھانے لگی
مقتل سے صدا پھر آنے لگی
پھر ظلم کے شعلے بھڑک اٹھے
دھرتی کی ذرے سلگ اٹھے
ایسے میں جبر کے نیزے نے
ممتا کا کلیجہ کاٹ دیا
ان حق کے ٹھیکیداروں نے
پھر جہل کا دریا پاٹ دیا
یہ جہل ہوا کیوں اے لوگوں
وہ قتل ہوا کیوں اے لوگوں
سچائی سے چاہت جرم ہے کیا؟
حق گوئی کی دعوت جرم ہے کیا؟
گر جرم کہو گے تم اسکو
تو واصف عزیز مجرم تھا