ایک اور غزل اصلاح کی غرض سے... شکستہ دل بہت اہل سفر تھے..

ارے بھیا ۔۔۔ ! جب اقبال بانو نے فیض کی غزل اچھی طرح سے گائی تو پھر وہ غزل اقبال بانو کی ہوگئی، فیض کی کہاں رہی۔ :D

پھر آپ کا تو اوریجنل کلام ہے۔ رہی لفظی مماثلت تو اس سے کہاں مفر ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ کچھ وارداتیں تو سب شاعروں پر ایک سی ہی گزرتی ہیں۔ سو ایسے میں اتنا تو چلتا ہے۔ :)
میں نے تو دانستہ آپ کے کلام پر اور اسی بحر پر لکھی ہے میاں۔۔۔
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا؟؟
اب یہ تو نہیں ہوتا ناں کہ بحر بھی ایک ہی سی وارد ہو؟؟
 
میں نے تو دانستہ آپ کے کلام پر اور اسی بحر پر لکھی ہے میاں۔۔۔
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا؟؟
اب یہ تو نہیں ہوتا ناں کہ بحر بھی ایک ہی سی وارد ہو؟؟

وارد مجھے پسند نہیں ویسے۔ اس لئے میں یو فون استعمال کرتا ہوں۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، ابھی فوری تو سوال مقطع کا ہے۔ اس پر غور کریں، حجاز کی ح کہاں جا رہی ہے؟
 
معذرت۔ ’حجاز ہم‘ میں ہم کی ہ کا سوال ہے، ’حجازم‘ تقطیع ہو رہا ہے
آپ کی اصلاح سر آنکھوں پر لیکن میں نے غور کیا تو فراز کا یہ شعر بھی اس دائرے سے خارج نہ نکلا:
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
 

الف عین

لائبریرین
آپ کی اصلاح سر آنکھوں پر لیکن میں نے غور کیا تو فراز کا یہ شعر بھی اس دائرے سے خارج نہ نکلا:
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
میاں غور کرو، فراز کے شعر میں الف کا وصل ہو رہا ہے، ہ کا اسقاط نہیں۔ الف تو جائز ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مہدی نقوی حجاز بمقابلہ احمدفراز
نہ جانے اس نے کیا دیکھا وہاں پر​
حجازؔ ہم بھی تو سر تا پا ہنر تھے​
بمقابلہ
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
(احمد فراز "الف" کے وصل کی وجہ سے جیت گئے جبکہ حجازم "ہ" کے وصل کی وجہ سے یہ مقابلہ "ہ وصل" سے ہار گئے۔)
 

الف عین

لائبریرین
شکستہ دل بہت اہل سفر تھے
کہ اپنوں ہی کے دل سے دربدر تھے
//دل سے در بدر ہونا کیا محاورہ ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔

بہانہ چاہئے اک زندگی کو
اسی خاطر ہم اہل دل جگر تھے
//ہم جگر تھے؟ یا ہم اہل دل اور ہم اہلِ جگر تھے؟ اس کا جینے سے تعلق؟ سمجھ میں نہیں آیا شعر۔

فضائے عشق میں اڑتے رہے ہیں
اگرچہ ہم شکستہ بال و پر تھے
// ۔ خوب ۔مزید بہتر ہو سکتا ہے پہلا مصرع۔

دل ناداں کو سمجھاتے کہاں تک
ہم اپنے حال سے بھی بے خبر تھے
//درست

میں جنگ عشق میں کیا گل کھلاتا؟
کہ خود زخمی مرے تیغ و سپر تھے
//درست۔ پہلا مصرع مزید بہت ہو سکتا ہے۔

نجانے دوستی کیسی تھی اپنی÷نہ جانے دوریاں کیے تھیں ہم میں
بہت نزدیک پر دیوار و سر تھے
//دیوار و سر؟ یا ٹائپو ہے، دیوار و در ممکن ہے۔ لیکن ’نزدیک پر‘ اچھا نہیں لگ رہا۔

مگر دیوار و در نزدیک تر تھے
کیسا رہے گا؟ اس لحاظ سے دوسرا متبادل مصرع فٹ بیٹھتا ہے۔ کچھ تبدیلی کے ساتھ
نہ جانے دوریاں کیوں آ گئی تھیں
مگر دیوار و در نزدیک تر تھے
نہ جانے اس نے کیا دیکھا وہاں پر
حجازؔ ہم بھی تو سر تا پا ہنر تھے
//نہ جانے غیر میں کیا پایا اس نے
ادھر ہم بھی تو سر تا پا ہنر تھے۔
مزید یہ تخلص میں نے یہاں سے نکال دیا ہے۔ میرا پر خلوص مشورہ۔ یہ بے معنی تخلص بدل دو۔ ورنہ فرانس اور جرمنی بھی تخلص ممکن ہے!!!
 
صحیح کہا استاد جی نے۔ مہدی یا تو اپنا نام تخلص کرو۔ حجاز استعمال کرتے ہوئے شاعری میں فارسیت کا غلبہ بھی یہی کہتا ہے کے حجاز چھوڑو۔ بلکہ تہران یا کوفہ بوزن غالب کرلو۔ :grin:
 

سید ذیشان

محفلین
صحیح کہا استاد جی نے۔ مہدی یا تو اپنا نام تخلص کرو۔ حجاز استعمال کرتے ہوئے شاعری میں فارسیت کا غلبہ بھی یہی کہتا ہے کے حجاز چھوڑو۔ بلکہ تہران یا کوفہ بوزن غالب کرلو۔ :grin:
کوفہ تخلص کرنے سے عربیت غالب آ جائے گی کیونکہ کوفہ تو عراق میں ہے۔ :p
 
Top